السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مولانا اسماعیل شہید دہلوی
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
گزشتہ زمانے میں اہل علم کا دستور تھا کہ علم کی حیثیت سے اپنے مخالف کی بھی قدر اور تعریف کرتے تھے۔مگر آجکل جہان اور دستور مٹ گئئے ی دستور بھی مٹ گیا۔مخالف کی تعریف کرنا تو کیا سننا بھی گوارا نہیں۔
گزشتہ جنگ یورپ میں ہمیں خبریں ملتی رہی ہیں۔کہ انگریز افسر ترکوں کی تعریف کرتے تھے۔ کہ ترک بڑے مہذب اور شریف سپاہی ہیں۔ دشمنی اور اختلاف اور چیز ہے۔ عالم اور کمال اور چیز اسی اصول سے ہم مولانا شہید کی زندگی کے بعض حالات ایک معتبر حنفی رسالہ سے نقل کرتے ہیں۔ جن سے ہماری مراد القاسم دیوبند ہے۔یہ مدرسہ دیوبند کا آرگن ہے۔مدرسہ دیوبند عالم دینی کو عموما ًاور اور مذہب حنفی کی خصوصاً جو خدمت کررہا ہے۔وہ کسی سے مخفی نہیں باوجود اس کے مولانا شہید کی زندگی کو کس عزت سے دیکھتا اوردیکھاتا ہے۔وہ سننے کے قابل ہے لکھتا ہے۔اس آخری دور میں بھی مجدد اللہ حضرت سید احمد صاحب بریلوی اورشہید فی سبیل اللہ حضرت مولانا اسماعیل صاھب دہلوی تیرہویں صدی میں قرون مشہود لہا بالخیر کا تماشہ دکھلا گئے۔
حضرت شہید جس وقت تحصیل علم سے فارغ ہوئے۔دہلی کا پر فضا گلزار باوجود مسلمانوں کی سلطنت ہونے کے بدعات اور رسوم شرکیہ کے جھاڑ اور کانٹوں سے ایک خارستان نظر آتا تھا۔جہلا کے من گھڑت اختراعات اور بدعات نے اس کو ایک بدعت گڑھ بنا رکھا تھا۔جس کا زہریلا اثر جہلا ہی تک محدود نہ تھا۔ بلکہ علماء کے گھرانے بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے تھے۔ مبتدعین کی کثرت اور قوت اور علماء ربانی کی قلت و ضعف نے ان لبوں پر سکوت لگا رکھی تھی۔ خود حضرت شہید کے بعض عزیزوں میں یہ بلا پھیلی ہوئی تھی۔
حضرت شہید یہ دیکھ کر ایک روز جمعہ کے بعد جامع مسجد دہلی کے مقبرہ پر کھڑے ہوگئے۔اورآیت کریمہ۔
فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤمِنونَ حَتّىٰ يُحَكِّموكَ فيما شَجَرَ بَينَهُم ثُمَّ لا يَجِدوا فى أَنفُسِهِم حَرَجًا مِمّا قَضَيتَ وَيُسَلِّموا تَسليمًا ﴿٦٥﴾
ترجمہ۔اے محمد ﷺ آپ کے رب کی قسم وہ لوگ مومن مسلمان نہ ہوں گے۔جب تک وہ آپ کو اپنے تمام کاروبارمیں فیصلہ کن حاکم نہ بنالیں۔ پھر وہ آپ کے حکم سے دل تنگ نہ ہوں۔بلکہ اس کو برضا و رغبت تسلیم کرلیں) پڑھ کر وعظ فرمانا شروع کیا۔آج پہلا دن ہے کہ دہلی والوں ک کانوں میں ان کاموں کی برائی اور قباحت ڈالی جاتی ہے۔ جو ان کے نزدیک فرائض واجبات سے زیادہ موکد ہے۔جس کو دیکھتے ہوئے ٰخیال یہ ہوتا ہے کہ حضرت شہید کا یہ وعظ( چکی کی آواز ہے مگر آٹا نظر نہیں آتا)کا مصداق ہوکر رہ گیا تھا۔
مگر نہیں نہیں حق میں ایک مخفی قوت ہوتی ہے جو اپنا اثر دکھاتی ہے۔اور ضرور دکھلاتی ہے۔حضرت شہید نہایت جرائت اور بے پروائی کے ساتھ ان کے ہر خیال کو باطل کرتے ہوئے فرما رہے ہیں۔کہ دین عبادت محض اتباع سنت سید المرسلین ﷺ کا نام ہے۔ من گھڑت بدعات کو اس میں داخل کرنا جہل مرکب ہے۔اور بار بار حافظ شیرازی کا یہ شعر ورد زباں ہے۔
مصلحت دید من آنست کے یاراں ہکہ کار بگزار رند وسر طرہ یارے گیرند
اور وہی حق ہے نا آشنا کان اور قبر پرست ہیں کہ ان کے سانے جھکے جاتے ہیں۔ آخر وعظ سے فراغت ہوئی اور 950 آدمی اس مجلس میں اپنے خیالات سے تائب ہوئے۔ لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس آئے اور دہلی جیسا شہر ہے۔ اور اس کے ہر گھر میں نزاع وجدال کا بازار گرم ہے۔ ہر گھر میں چار آدمی اپنے خیالات پر مصر ہیں۔ تو ایک وہ بھی ہے جس کو ہدایت خداوندی نے اپنی آغوش میں لے لیا ہے۔ اور اس پر حضرت شہید کی موءثر تقریر اپنا رنگ چڑھا چکی ہے۔
تحصیل علم کے بعد یہ پہلا کا م ہے۔ جو حضرت شہید کے ہاتھوں میں ظہو میں آیا ہے۔اب آپ قیاس کن از گلستان من بہار مرا کے موافق ان کی عمر بھر کے کارناموں کا اندازہ کرسکتے ہیں آپ جب باارادہ حج بیت اللہ تشریف لے گئے۔تو بیت اللہ کے اندر مردوں اور عورتوں کو اکحتا داخل ہوتے ہئوے دیکھا۔ آپ کو کہاں تاب تھی کہ اکوئی امر منکر دیکھیں اور خامو ش ہورہیں۔ تلوار کھینچ کر دروازہ بیت اللہ پر کھڑے ہوگئے۔ واللہ جب تک اسماعیل زندہ ہے۔ مرد اور عورت مل کر بیت اللہ میں داخل نہ ہوسکیں گے۔ یہ دیکھ کر لوگوں میں شور ہوا اور شدہ شدہ یہ خبر ملازمان حکومت تک پہنچی۔ حضرت مولانا اسماعیل صاحب سے سبب دریافت کیا گیا۔کہ آپ اتنا تشدد کیوں کرتے ہیں۔ کہ ان مردوں کے تہبند دیکھے جایئں جو عورتوں کے ساتھ مل کر بیت اللہ میں داخل ہوتے ہیں۔ چنانچہ دیکھا گیا کہ ان سب کے تہبند آگے سے بھیگے ہوئے تھے۔اسی وقت سب کو اس کا احساس ہوا۔اور اُسی وقت سے عورتوں اور مردوں کے ساتھ داخل ہونے کی ممانعت ہوگئی۔
اسی طرح اس سفیان ثانی کے ہاتھوں سینکڑوں مردہ سنتیں زندہ ہوئیں۔ اور یہی کام تھا کہ جس کو آپ نے اپنی ندگی کا مقصود اعظم بنایا تھا۔ اور جس کے پورا کرنے میں آپ کو دنیاوی جاہ و مال بلکہ عزت و آبرو سے بھی ہاتھ اٹھانا پڑا ہزاروں آفات اور مصائب کا سامنا ہوا۔ دوستوں اور دشمنوں کے طعنے سنے۔ مگر وہ کوہ وقار تھے۔کہ اپنی جگہ سے ایک انچ ٹلنا نہیں جانتے تھے۔ ان کے مطمع نظر ارشاد خداوندی
وَلَتَسمَعُنَّ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ مِن قَبلِكُم وَمِنَ الَّذينَ أَشرَكوا أَذًى كَثيرًا ۚ وَإِن تَصبِروا وَتَتَّقوا فَإِنَّ ذٰلِكَ مِن عَزمِ الأُمورِ ﴿١٨٦﴾
’’اور تم ضرور سنو گے۔ان لوگوں سے جن کو تم سے پہلے کتاب ملی ہے اور مشرکوں سے بہت ایزا کی باتیں ‘‘
تھا وہ ان کی ایزائوں کو برضا ورغبت سہنے کےلئے تیار تھے۔
بیا اے عشق رسوا ئے جہانم کن کہ یک چندے
ملا متہائے بےدرداں شنیدن آرزو وارم
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے۔کہ آپ جامع مسجد دہلی سے اتر رہے تھے کہ دہلی کے چند شہیدوں نے آپ کو گالیاں دینی اور حرامی کہنا شروع کیا۔اب آپ کا جواب سنئے۔ مسکرا کر نہایت متانت سے فرماتے ہیں کہ بھتیجے میں حرامی کیونکر ہوسکتا ہوں۔ میری والدہ کے نکاح کے گواہ تو اب تک موجود ہیں۔تبلیغ احکام خداوندی اور اشاعت سنت کا خیال ہر وقت دامن گیر تھا۔ایک روز خیال آیا کہ دہلی میں کسبی عورتیں بہت ہیں۔ان کو کوئی وعظ و نصیحت نہیں سناتا۔آخر یہ بھی تو آدمی ہیں۔ ممکن ہے کہ نصیحت کارگر ہوجائے۔اور ایک ساتھ سینکڑوں خدا کے بندے گناہ سے بچ جا یئں۔
آخر رات کو ایک مشہور کسبی کے مکان پر جا کر دروازہ پر پہنچے۔معلوم ہوا کہ شہر کی اور بھی بہت سی کسبیاں اس مکان پ موجود ہیں۔ اور گانے بجانے میں مصروف ہیں۔جاتے ہی گداگروں کی سی صدا دی۔مکان کے اندر سے ایک لڑکی بھیک لے کر آئی۔ تو حضرت شہید نے کہا کہ جا کر مالک مکان سے کہہ دو کہ اس فقیر کی عادت ہے کہ جب تک اپنی صدا نہیں سنا لیتا اُس وقت تک بھیک نہیں لیتا۔ لڑکی نے جا کر کہہ دیا جواب ملا کہ ہمیں صدا سننے کی ضرورت نہیں تم فقیر ہو تمھیں اپنی بھیک سے مطلب ان باتوں سے کیا غرض۔ مگر حضرت شہید کو تو غرض ہی اسی سے تھی۔ فرمایا کہ ہم تو بن صدا سنائے بھیک نہ لیں گے۔آخر چند مرتبہ کی ردوکد کے بعد کسبیوں نے بھی یہ خیال کیا کہ یہ کوئی عجیب فقیر ہے۔اس کی صدا بھی سن لو۔دیکھو کیا کہتا ہے۔یہ بھی ایک تماشہ سہی۔حضرت شہید اندر داخل ہوئے او کھڑے ہو کر
وَالتّينِ وَالزَّيتونِ ﴿١﴾ وَطورِ سينينَ ﴿٢﴾ وَهـٰذَا البَلَدِ الأَمينِ ﴿٣﴾ لَقَد خَلَقنَا الإِنسـٰنَ فى أَحسَنِ تَقويمٍ ﴿٤﴾
’’۔قسم انجیر کی وزیتون کی اور طور سینین کی اور اس شہر امن والے کی ہم نے بنایا آدمی خوب سے خوب اندازہ‘‘
پڑھ کر وعظ شروع کردیا۔حضرت شہید کا وعظ ہے۔اور فاحشہ عورتوں کی مجلس یہ عجیب وغریب منظر کچھ دیکھنے ہی سے تعلق رکھتا ہے۔فواحش کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔طبلچیوں نے اپنے اپنے طبلوں اور سارنگیوں کو بغلوں سے نکال کر پھینک دیا ہے۔کوئی مصروف آہ زار ہے تو کسی کا گریہ و بکا دم لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ کسی کو کسی کی خبر نہیں گویا یہ لوگ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں۔
نہ معلوم ہوا کہ حضرت شہید نے ان سرد دلوں میں وہ کونسی برقی حرارت چھوڑ دی جس کی تاثیر سے معاصی کے وہ تمام نجس مادے پگھل پگھل کر آنکھوں سے بہنے لگے۔
آج اس بزم میں ہم آگ لگا کر اٹھے یاں تکلک روئے کہ ان کو بھی رلا کر اٹھے
وعظ کا ختم ہونا تھا کہ اور ساری مجلس کا حضرت شہید کے قدمون پر گر پڑنا ان کی ہدایت کا وقت آگیا تھا۔اُسی ایک مجلس میں سب نے حضرت شہید کے ہاتھ پر تو بہ کی اور سب کے سب خدائے تعالیٰ کے مقبول بندے ہوگئے۔ صاحب خانہ جو ان سب میں حسن جمال اور مال وریاست کے اعتبار سے بڑی تھی۔اور اکثر روسا و نواب اُس سے مبتلا تھے۔ اس سحر بیان وعظ سے اتنی متاثر ہوئی کہ اپنا سارا مال و متاع لرتا کر شب و روز عبادت میں مشغول ہوگئی۔ اور جب حضرت شہید نے سکھوں سے جنگ کی تو یہ بھی آپ کے لشکر میں تھی۔ اور وہی ہاتھ جس نے عمر بھر چکی کا ہتھہ نہ دیکھا تھا۔آج ان میں گھوڑوں کا دانہ ڈالتے ڈالتے مہندی کی بجائے آبلے پڑے ہوئے ہیں۔
وَاللَّهُ يَهدى مَن يَشاءُ إِلىٰ صِرٰطٍ مُستَقيمٍ ﴿٢١٣﴾
مولانا اسماعیل صاحب وعظ سے فارغ ہوکر باہر آئے۔ آپ کے ایک عزیز آپ کو فواحش کے گھر کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ کر آہستہ آہستہ پیچھے ہولئے تھے اور چھپ کر دروازے میں یہ سارا ماجرا دیکھ رہے تھے جب اس کے گھر سے نکل کر چند قدم آگے بڑھے تو وہ عزیز سامنے آئے تو عرض کیا کہ حضرت کچھ آپ کو اپنی عزت کا خیال کرنا چاہیے مولانا نے فرمایا۔
''واللہ میری عزت تو اس وقت ہوگی کہ میرا منہ کالا کر کے مجھے گدھے پر سوار کیا جائے۔اور دہلی کے چاندنی چوک میں پھرا یا جائے مگر میری زبان کسی خلاف حق کلمے کے ساتھ ملوث نہ ہو میری زبان پ وہی قال اللہ ۔قال الرسولﷺ جاری ہو۔(القاسم بابت شوال وزی العقیدہ 37ھ)
امرتسر کے حنفی علماء (مولوی رسل بابا مرحوم اور ان کے خاندان کے دیگر افراد بھی ) مولانا اسماعیل کی بہت عزت کیا کرتے تھے۔ چنانچہ مولوی غلام مصطفیٰ نے بھی اپنے زمانے میں مولانا کو شہید دہلوی لکھا ہے۔ جو سب اعلیٰ صفات کا جامع ہے۔ آہ۔ باوجود ایسے شہید سے عداوت اور رنج رکھنے والے ڈرتے نہیں کہ وہ اس حدیث کے نیچے نہ آجاویں۔جس میں فرمایا!من عادي لي وليا فقد اذنته بالحرب جو کوئی میرے (خدا کے ) ولی سے عداوت رکھتا ہے میرا اس سے اعلان جنگ ہے۔(23زی الحج 37ھ)
اور پھر چند قدم آگے بڑھو۔ مقام عزیمت دعوت کی کیسی کامل اور آشکارا مثال وسامنے آتی ہے۔ ساری مثالوں سے آنکھیں بند کرلو صرف یہی ایک مثال زیر بحث حقیقت کے فہم و کشف کےلئے کافی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ کا مقام ہر رنگ میں کس درجہ جامع و کامل ہے بایں ہمہ یہاں جو کچھ ہوا تجدید و تدوین علوم ومعارف اور تعلیم وتربیت اصحاب استعداد تک محدود رہا۔ اس سے آگےنہ بڑھ سکا۔مثلافعل ونفاذ اور ظہوروشیوع کا پورا کام تو کسی دوسرے ہی مرد میدان کا منتظرتھا۔ اور معلوم ہے کہ توفیق الہٰی نے یہ معاملہ صرف حضرت علامہ شہید کے لئے مخصوص کردیا تھا۔خودشاہ صاحب کا بھی اس میں حصہ نہ تھا۔
می خواست راستخیز ز عالم براورد آں باغباں کے تر بیت ایں نہال کروُ
اگر خود شاہ صاحب بھی اس وقت ہوتے تو انہیں کےجھنڈے کےنیچے نظر آتے۔الیٰ آخرہ۔(تزکرہ مولانا ابو الکلام آذاد ص 245 تا 246)
قدرت قانون ہے کہ انسان جس چیز سے محبت رکھتا ہے۔اس کو ہر طرف وہی نظر آتا ہے۔ایک عربی شاعر اس کا نقشہ یوں دیکھاتا ہے۔
اريد لا نسي ذكرها فكانما تمثل لي ليلي بكل سبيل
یعنی میں لیلیٰ کا زکر بھولنا چاہتا ہوں مگر وہ ہر راستے میں میرے سانے آجتی ہے یہ معنی ہیں اس مصرع کے جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے ۔
ارباب تقلید جدھر نظر ڈالتے ہیںاسی قانون قدرت کے ما تحت ان کو تقلید ہی تقلید نظر آتی ہے۔سب سے پہلے ان کی نظر امام المحدثین امامبخاری پر پڑتی ہے۔ ان کو بھی یہ لوگ امام شافعی کا مقلد بنا لیتے ہیں۔ حالانکہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں بعض مسائل میں رد بھی کیا ہے۔ اور امام موصوف کا نام بھی سارے لفظوں میں (قال ابن ادریس) لکھا ہے۔ باجود اس کے ان کو امام شافعی کا مقلد کہا جاتا ہے۔یا للعجب!
گزشتہ ایام میں شاہ ولی اللہ کا زکر خیر رسالہ''الفرقان''بریلی میں درج ہوا تھا۔اس میں بھی اس قانونی قدرت کا جلوہ نظر آیا تھا۔ مضمون نگاروں نے عموما شاہ صاھب ممدوح کو حنفی مقلد بنایا تھا۔ جس کے متعلق انہی دنوں ''اہل حدیث''میں مفصل بحث ہوئی تھی۔ جو ملکی فضا صاف ہونے پر رسالہ کی شکل میں بھی شائع ہوگی۔ ان شاء اللہ آج اسی کا تتمہ ہمارے سامنے ہے۔جس کی تفصیل یہ ہے کہ رسالہ ''الفتی'' دیوبند میں ایک فتویٰ شائع ہوا ہے۔ جو مع سوال درج زیل ہے۔سوال کا خلاصہ یہ ہے کہ مولانا مقلد تھے۔ یا غیر مقلد؟ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ حنفی مقلد تھے۔سوال و جواب کے اصل الفاظ ملاحظہ ہوں۔
''مولانا محمد اسماعیل صاحب شہید کو غیر مقلد کہتے ہیں کہ وہ غیر مقلد تھے۔حقیقت طلب امر یہ ہے کہ حقیقت میں وہ غیر مقلد تھے یا حنفی تھے۔جیسا کہ بعض علماء دبو بند کہتے ہیں اگر حنفی مذہب تھے تو اس کے ثبوت میں ان کی کوئی تصنیف اردو یا بدرجہ مجبوری فارسی کی ہو جس سے ثابت ہو کہ حنفی المذہب تھے آپ پیش کر سکتے ہیں۔ اگر وہ خدانخواستہ غیر مقلد ہیں تو ان کی تصانیف کو دیکھناکیسا ہے۔ اور علماء دیوبند ان کی بہت حمایت کرتے ہیں۔ اگر وہ غیر مقلد ہیں تو ان کی حمایت کرنے سے کیا فائدہ مجھ کو ایک شخص نے تقویۃ الایمان کا حوالہ دیکھایا۔ جس میں ایک فصل ہے بیان در رد تقلید۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بعض دیگر تصانیف مولانا مرحوم موجود ہیں۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اہل حدیث تھے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ یہ دعویٰ ان کا صحیح ہے یا غلط اور ان کی تصانیف علاوہ تقویۃ الایمان کے اور صراط مستقیم اور منصب امامت کے دوسری بھی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اہل حدیث تھے۔''منصب امامت''اور 'صراط مستقیم''سے کیا ثابت ہوتا ہے۔حنفی المذہب ہونا مہربانی کر کے ان چاروں باتوں کا جوابدیا جائے۔کیونکہ ان کے متعلق متضاد حالات مشہور ہورہے ہیں۔
الجواب۔حضرت مولانا اسماعیل صاحب شہید حنفی المذہب عالم ربانی اور بزرگ تھے۔ اور رد بدعات میں بہت زیادہ ساعی تھے۔ ہر دینی کام میں جہاں زرا بھی خلل دیکھتے تھے اس کا رد فرماتے تھے۔ مسئلہ تقلید میں بھی ہندوستان میں افراط وتفریط سے کام لیا گیا ہے۔ جیسا کہ غیر مقلدین نے تقلید میں تفریط کی اور تقلید کو شرک او مقلدین کو مشرک قراردیا۔ ائمہ سلف پر طعن و تشنیع کو شیوہ بنالیا۔ اس طرح بعض مقلدین نے تقلید میں غلو اور افراط سے کام لیا۔کہ آئمہ مجتہدین کو چھوڑ کر ہر پیر وفقیر کی تقلید شروع کردی۔خواہ اس کا قول فعل شریعت کے دائرے میں ہو یا نہ ہو۔
تقویۃ لایمان میں چونکہ تمام رسوم بدعیہ پر ر د لکھا گیا ہے۔ اس لئے اس غلو اور افراط فی التقلید کو بھی منع کیا گیا ہے۔ اس کے متعلق یہ فصل لکھی گئی ہے۔جیسا کہ خود تقویۃ الایمان کی عبارت مندرجہ زیل سے معلوم ہوتا ہے۔
سو سننا چاہیے کہ اکثر لوگ مولویوں او ر درویشوں کے کلام اور کام سن کر سند پکڑتے ہیں۔ (الی قولہ) ان مولیوں اور درویشوں کے قول وفعل کے خلاف کوئی آیت اور حدیث پڑے تو اس کا انکار اور اس کے مطلب میں تکرار کرنے کو موجود ہوجایئں الخ
1۔گویا آئمہ مجتہد ہی کی تقلید پر کاربند رہنا ضروری تھا سبحان اللہ کیا اچھا فیصلہ ہے۔(راز)
اس سے صاف معلوم ہوا کہ حضرت شہید مطلقا تقلید کو منع نہیں فرماتے بلکہ اس غلو اور افراط کو روکتے ہیں کہ ائمہ مجتہدین سے گزر کر ہر کس و ناکس کی تقلید اختیار کر لی جائے۔ چنانچہ اس فصل میں آئمہ مجتہدین کی تقلید کی خود ہدایت فرمائی ہے۔جس کے الفاظ یہ ہیں۔
تو ایسی بات پر یعنی جسج میں کوئی نص صریح قرآن وحدیث اور اجماع میں موجود نہ ہو۔ مجتہد وں کے قیاس صحیح کے موافق عمل کرے پر وہ مجہتد بھی ایسا ہو کہ جس کا اجتہاد امت کے اکثر عالم مسلمانوں کے قبول کیا ہو جیسے امام اعظم اورا مام شافعی اور مالک اور امام احمد " فقط واللہ اعلم(رسالہ المفتی دیوبندبابت ماہ ذی قعدہ ۔زی الحجہ 1360ء ص 37۔38)
مولانا شہید کا جو فتویٰ ''المفتی نے نقل کیا ہے۔ بعینہ یہی حکم معیار الحق میں ملتا ہے۔ اگر متنازعہ تقلید یہی ہے تو اس پر دونوں صاحبوں کا اتفاق ہے۔ ہمارا بھی اسی پر صاد ہے۔ مگر اس کی تفصیل جو مولانا شہید کی اسی کتاب (تقویۃ الایمان) میں ملتی ہے۔ قابل لہاظ ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔
''سب سے بہتر راہ یہ ہے کہ اللہ اور رسولﷺ کے کلام کو اصل رکھیے اور اسی کو سند پکڑیئے اور اپنی عقل کو کچھ دخل نہ دیجئے۔ جو قصہ بزرگوں کا امام یا مولویوں کا اس کے موافق ہو ا س کو قبول کیجئے۔ اور جو موافق نہ ہو اس کی سند نہ پکریئے۔ص3)
یہ ہے مولانا کا مسلک کے آپ قرآن وحدیث کو اصل اور سند قرار دیتے ہیں۔ اولا بالذات انہی پر نظر ڈالنے کا حکم دیتے ہیں۔اسی کے ساتھ ارباب تقلید کا مسلک بھی ملاحظہ کیجئے جو یہ ہے۔اما المقلد فمستند ه قول مجتهده (مسلم الثبوت ایضا توضیح ) یعنی مقلد کی سند اپنے امام کا قول ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وحدیث کو دونوں فریق مانتے ہیں۔لیکن فرق یہ ہے کہ جو فریق حسب ہدایت مولانا شہید پہلی نظر قرآن وحدیث پر ڈالے۔وہ غیر مقلد (اہل حدیث ) ہوگا۔.اور جو پہلی نظر امام کے قول پر ڈالے۔ اور بحسن ظن اسی کو واجب العمل سمجھے۔ وہ حسب تصریح علماء اصول مقلد ہے یہی مسلک علماء دیوبند کا ہے۔اس وقت ہم اس مسلک کی صحت اور سقم پر بحث نہیں کرتے۔ صرف یہ دیکھانا چاہتے ہیں کہ مولانا شہید کا یہ مسلک نہ تھا بلکہ وہی تھا جو ممدوح نے خود بتایا ہے۔
مولانا شہید کے مسلک کی مزید وضاحت آپ کی کتاب تنویرالعینین سے ہوتی ہے۔ جو مسئلہ ر فع الیدین کے اثبات میں ہے جس کا خلاصہ ان دو لفظوں میں ہے جوج مولانا نے اپنے دیباچہ میں لکھے ہیں۔ يثاب فاعله ولا بلام تاركه یعنی عند الرکوع رفع الیدین کرنا ثواب کا کام ہے۔
کیا رفع الیدن کے متعلق علماء حنفیہ کا یہی مسلک ہے۔ اگر یہی ہے تو نعم الوفاق و حبذ الاتفاق مختصر یہ ہے کہ مولانا اسماعیل شہہید کا مسلک وہی تھا جو ان کے دادا مرحؤم شاہ والی اللہ صاحب قدست اسرارہم کا تھا۔ کہ اولا بالذات قرآن وحدیث پر نظر رکھتے تھے۔گویا ان کا یہ قول تھا۔
اے داغ مقلد ہیں اسی طرز کے ہم بھی ہر شعر میں ہو بلبل کا انداز پیدا
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ولی اللہ پارٹی کے کارکن کی حیثیت سے جو امام عبد العزیز کی قیاست میں کام کر رہا تھا۔ فقط حنفی فقہ کو ماننا کلیۃ ضروری تھا۔ مگر خلیفۃ المسلمین بن جانے کے بعد ان کی دعوت میں عمومیت آگئی۔ جس کے ساتھ نجدی اور یمنی طریقوں سے کام کرنے والوں کا زور بڑھ گیا۔ جو فقہ حنفی کی پابندی ضروری نہیں سمجتے تھے۔ اس کا یہ نتیجہ یہ ہوا کہ افغانوں کو جو شد ت سے فقہ آحنفی کے پابند تھے مجاہدین کے ساتھ دشمنی ہوگئی یہ بات وہابیت کی تاریخ میں واضح طور پر موجود ہے۔ کہ وہابی کی اصطلاح کا عمومی اطلاق اہل حدیث پر ہوتا ہے۔ سید احمد شہید کی جماعت میں فی الحقیقت اہل حدیث کا ہی غلبہ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت اسماعیل شہید اعتقاد و عملا اہل حدیث تھے۔ اور آپ کے لشکر کمانڈر ان چیف یا سپہ سالار تھے۔(اخبار زم زم لاہور۔7 مئی 1945 نمبر 21 جلد8)ْ
آجکل بعض اخباروں میں مجاہد فی سبیل اللہ مولانا اسماعیل شہید کی کتاب تقویۃ الایمان پ زکر اذکار ہورہا ہے۔کتاب کی نسبت بحث ایک عالمانہ رنگ میں ہوسکتی تھی مگر افسوس کہ اس بحث کو اٹھانے والوں نے اصل مبحث سے گزر کر مصنف کی ذاتیات پر بھی برے لفظوں میں حملہ کیا۔نا ظرین کو معلوم ہوگا کہ آجکل اس بحث کو اٹھانے والے حضرت فاخر صاحب الہٰ آبادی ہیں جن کا زرکر خیر اہل حدیث مورخہ 5 ستمبر میں ہوچکا ہے۔ان ہی صاحب نے اخبار شوکت بمبئی مورخہ 31 اگست میں مولانا شہید اور مولانا کے ہم صحبت حضرت مولوی عبد الئی مرحوم کو دو کتے کہہ کر دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں۔جس کے جواب میں بجز اس عربی شعر کے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔
واذ اتتك مذمتي من ناقص فهي الشهادة لي باني كامل
مولانا شہید سے جن علماء کو اختلاف رائے بھی ہے۔ وہ بھی ممدوح کی عزت کرتے ہیں۔مولوی میر احمد اللہ صاھب مرھوم امرتسری کو ریاست خیر پور سندھ میں تعلق تھا۔ریاست کے والی میر علی مراد شعیہ تھے۔ مولوی صاحب مرحوم نے تین دفعہ یہ روایت بیان کی کہ نواب میر علی مراد کے زکر پر کہا کرتے تھے۔ کہ ہندوستان میں عالم ہوا ہے۔تو اسماعیل ہوا ہے۔ ان کے بعد تو سب ملانے ہیں۔ مدرسہ دیوبند میں ہدایہ کی کتاب الشہادۃ کا سبق ہورہا تھا۔جس میں یہ زکر آیا۔ لا تقبل الشهادة من يظهر ست السلف الظهور فسقه یعنی جو شخص سلف صالحین کا گالیاں دے۔ اس کی شہادت مقبول نہیں کیونکہ اس کافسق خود اس سے ظاہر ہے۔
حضرت مولانا محمود الحسن صاحب نور اللہ مرقدہ سے میں نے سوال کیا کہ جو لوگ مولانا اسماعیل صاحب کو برا کہتے ہیں۔ان کا کیا حکم ہے۔؟ فرمایا ان کی شہادت مقبول نہیں۔آہ۔آج یہ کیسا زمانہ آیا کہ مقبولان بارگاہ شہیدان راہ کے حق میں ایسے کروہ الفاظ سننے میں آتے ہیں۔الی اللہ المشتلیٰ (26 صفر 1343 ہجری )
آجکل بعض اخباروں (خلافت بمبئی اور زمین در لاہور وغیرہ) میں تقویۃ الایمان کے برخلاف مضامین نکلے ہیں۔نامہ نگاروں کی شکایت تو جو ہے سو ہے۔ایڈیٹر صاحب خلافت کی کن لفظوں میں شکایت کریں۔ جو کتاب مذکورہ کی نسبت لکھتے ہیں۔ چونکہ اس کتاب کو بہت سے مسلمان ناپسند کرتے ہیں۔ اس لئے اس کا زکر اخبار خلافت میں نہ ہوگا۔ ساتھ ہی اس کے دوسرے پرچے میں لکھتے ہیں۔ کہ ہم نے یہ کتاب پڑھی ہی نہیں بتایئے جب ایڈیٹران اخبار بھی اتنے بے پرواہ ہو۔ کہ ایک بابرکت کتاب کی نسبت چند لوگو محض سنے سناتے ناراضگی کرتے ہوں ان کی خاطر سے اتنے زمہ دار اخبار کا ایڈیٹر کے ہم نے پڑھی نہیں۔اس لئے آئندہ اس کتاب کا زکر نہیں ہوگا۔
فاضل ایڈیٹر خلافت اگر تکلیف کر کے کتاب مذکورہ کو دیکھتے یا کم از کم جناب شوکت علی محمد علی صاحبان سے اس کتاب اور اس ک جلیل القدر مصنف کی بابت دریافت کرتے تو کتاب مزکورہ کا نام خلافت کے سرورق پر ہمیشہ لکھا کرتے۔ خیر جو کچھ آپ سے ہوسکا وہ آپ نے کیا۔الی اللہ المشتکی۔
اب ہم مولانا فاخر الہٰ آبادی کے مضمون کی تنقید کرتے ہیں۔جو ان کی طرف سے اخبار شوکت بمبئی 10 اگست میں نکلا ہے۔
مولانا فاخر میرے ذاتی دوست ہیں۔اس لئے میں آپ سے ذاتی محبت رکھتا ہوں۔ مگر ان کی علمی واقفیت محدودہ کی وجہ سے ان کی نسبت اگر رائے ظاہ کروں۔ کہ شر عیات اور عقائد میں ان کی رائے بصوت فتویٰ پیش ہونے کی لالئق نہیں تو کچھ بیجا نہیں۔ ہاں میں نے سنا ہے کہ وہ شاعر ہیں۔قوالی میں اچھا دسترس رکھتے ہیں۔بہت سی مکشوفات ان کی شاگرد ہیں گزشتہ تحریک خلافت میں جہاں او بہت سے لوگ مولانا سنے تھے۔آپ بھی اس زمانے کے سند یافتہ ہیں۔جن سب کی نسبت یہ کہا گیا تھا۔
نہ مذہب سے ہوئے واقف نہ دین کو پہچانا رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہن کر جبہ و شملہ لگے کہلانے مولانا
باوجود اس کے کہ جو میرے ان سے ذاتی طور پر مراسم دوستانہ ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مذہبی عقاید اور مسائل میں میں ان کی رائے کسی علمی اصول پر مبنی نہیں جانا کرتا۔
فاخر صاحب نے''اخبار شوکت'' میں مولانا اسماعیل شہید کی چھوٹی عمر کے حالات لکھے ہیں۔ جو ان کے محض خیالات کا عکس ہیں۔ ا س لئے ہم ان سے تعرض نہیں کرتے۔بلکہ اصل کتاب تقویۃ الایمان کی طرف سے جواب دیتے ہیں۔ فاخر صاحب نے کتاب مزکور پر دو اعتراض کیئے ہیں۔
1۔اس میں لکھا ہے۔ولی اور رسول اللہ ﷺ کے یہاں زرہ ناجیز سے بھی زیادہ ذلیل ہیں۔
2۔دوسرا یہ کہ تقویۃ الایمان محمد بن عبد الوہاب نجدی کی کتاب ''التوحید''کا ترجمہ ہے۔''ہمارے خیال میں دوسرا الزام تو ایسا ہے۔ کہ اس کے قائل کی نسبت یہ کہنا بجا ہے
کہ قدرمے ۔۔۔تو کیا جانے ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں
معلوم ہوتا ہے کہ قائل نے دونوں کتابوں کو مقابلہ میں نہیں دیکھا۔ورنہ وہ یہ نہ کہتا دونوں کا طرز تحریر الگ ۔دونوں کی فہرست الگ۔ہابقول شخصے ''سومیانے ایکو مت''
دونوں اس مضمون پر متفق ہیں۔ جو مولانا حالی مرحوم کے ایک بند میں مذکور ہے۔
کہ ہے ذات واحد عبادت کے لائق زبان اور دل کی شہادت کے لائق
اسی کی ہے سرکار خدمت کے لائق اسی کے ہیں فرماں اطاعت کے لائق
لگاؤ تو اپنی اس سے لگائو
جھکاؤ تو سر اس کے آگے جھکائو
ہم اس الزام کے جواب میں اتنا کہتے ہیں۔ کہ دونوں کتابوں کو سامنے رکھ کر کسی اور دو دان سے فیصلہ کرا لو کہ کون ان میں سے اصل ہے اور کون ترجمہ۔
علاوہ اس کے ہم حیران ہیں کہ کتاب التوحید نجدی میں مصنف کے الفاظ کتنے ہیں۔ جن کا ترجمہ قبیح سمجھا جائے۔ اس میں تو آیات ہیں یا حدیث۔ ان کا ترجمہ اگر کیا جائے تو کیا جرم؟شیخ الاسلا م محمد بن عبد الوہاب نجدی بزبان ھال کہتا ہے۔
ما قصہ سکندر ودارانخواندہ ایم از ما بجز حکایت مہردوفامپرسی
جواب نمبر اول
یہ الزام بالکل غلط ہے کہ مولانا شہہید نے ایسا لکھا ہے۔ کہ انبیاء اولیاء خدا کے نزدیک چوڑے چماروں کے برابر ہیں۔ واللہ اگرایسا کہتے اور لکھتے تو سب ے پہلے (باجود یہ کہ میری عادت کسی کی تکفیر کرنے کی نہیں) میں ان کو کافر بلکہ اکفر کہتا۔مگرافسوس کے ان کے کلام کو نکتہ چینوں نے شرک وبدعت کی محبت میں سمجھا نہیں سچ ہے۔
سرمستاں منطق الطیر است جامی لب بہ بند جز سلیما نے نہ شائد فہم ایں گفتار را
مولانا شہید مرحوم نے توحید اور شرک کی مثال سمجھا نے کو لکھا ہے کہ''خدا کے ساتھ شرک کرنا ایسا ہے جیسے بادشاہ کا تاج چمار کے سر پر رکھنا''
یہ تمثیل گوبادی الرائے میں صحیح معلوم ہوتی ہے۔ مگر واقعہ میں کمزور ہے۔ اس لئے کہ بادشاہ اور چمار گو دونوں میں درجے کا فرق ہے۔ لیکن انسانیت میں دونوں شریک ہیں۔ نسل انسانی میں دونوں متعمد۔ مگر خدا کے ساتھ کسی مخلوق کو کسی قسم کا اتھاد نہیں۔ اس لئے مولانا مرحوم نے اس مثال سے ترقی کر کے فرمایا۔''جاننا چاہیے سب مخلوق چھوٹی بڑی خدا کی شان کےآگے چمار سے بھی ذلیل ہے۔اس مطلب یہ ہے کہ جو نسبت چمار کو بادشاہ سے ماتحتی کی ہے۔سب مخلوق اس کے سامنے اس سے زیادہ ما تحتی ہے کیونکہ اتحاد نوعیت جو چمار کو بادشاہ سے ہے وہ خدا کے ساتھ کسی مخلوق کو نہیں ۔صدق اللہ۔وَلَم يَكُن لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ ﴿٤﴾
صوفیائے کرام کے اقول مولانا شہید کی تایئد میں بکثرت ہیں ہم ان میں سے صرف ایک نقل کرتے ہیں۔ عارف باللہ مولانا جامی مرحؤم خالق و مخلوق کی نسبت کے متعلق فرماتے ہیں۔
اوچو جسان ست و جہاں چوں کا لبد کالبد ازوے پزیر و آلبد
یعنی دنیا ساری ایک بت بے جان کی سی ہے۔اور خدا کا حکم اس کے لئے مثل جان کے ہے۔ پھر بتایئے کہ جان اور بت میں کون اعلیٰ اور کون ادنیٰ ۔صدق اللہ ۔
وَما يَستَوِى الأَحياءُ وَلَا الأَموٰتُ ۚ ..... ﴿٢٢﴾
مولانا جامی کے اس شعر پر ٖغور کریں تو مولانا شہید سے معنی میں بڑھ کر پایئں۔ خیر جو کچھ اس شعر کا مطلب ہے۔ یہی مولانا مرحوم کے کلام کا ہے۔ مختصر یہ کہ شہید مرحوم نے جو لکھا ہے۔ قرآن وحدیث اور اقوال صوفیاء کے بالکل مطابق ہے۔ اس لئے علماء اہل حدیث کے علاوہ محققین علماء حنفیہ بھی کتاب تقویۃ الایمان اور اس کے جلیل القدر مصنف کے حق میں تحسین کی رائے رکھتے ہیں۔ چنانچہ ہندوستان کے حنفیہ کرام کے سرتاج مولانا رشید احمد گنگوہی مرحوم فرماتے ہیں۔
مولوی محمد اسماعیل صاھب عالم متقی ۔بدعت کے اکھاڑنے والے او ر سنت کے جاری کرنے والے اور قرآن وحدیث پر پورا عمل کرنے والے اور خلق اللہ کو ہدایت کرنے والے تھے۔اور تمام عمر اسی حال میں رہے۔آخر کار فی سبیل اللہ جہاد میں کفار کے ہاتھوں سے شہید ہوئے۔پس جس کا ظاہر حال ایسا ہوے وہ ولی اللہ اور شہید ہے۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۔۔۔قرآن۔۔۔۔۔اور کتاب تقویۃ الایمان''نہایت عمدہ کتاب ہے۔ اور رد شرک وبدعات میں لاجواب ہے۔استدلال اُس کے بالکل کتاب اللہ اور احادیث سے ہیں۔اس کا رکھنا اور پڑھنا اور اس کا عمل کرنا عین اسلام ہے۔ اور موجب اجر کا ہے۔اس کے رکھنے کو جو برا کہتا ہے۔ وہ فاسق اور بدعتی ہے۔ اگر اپنے جہل سے کوئی اس کتاب کی خوبی کو نہ سمجھے تو اس کا قصور فہم ہے۔ کتاب اور مولف کتاب کی کیا تقصیر۔ بڑے بڑے عالم اہل حق اس کو پسند کرتے ہیں۔ اور رکھتے ہیں۔اگر کسی گمراہ نے اس کو بُرا کہا۔تو وہ خود ضال و مضل ہے۔(فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔کتبہ رشید احمد گنگوہی (فتاویٰ رشیدیہ ص 133)
اس فتوے کو پڑھیے اور غور سے پڑھیے۔اس کے بعد طوعا یا کرھا ایک دفعہ تقویۃ الایمان کوبھی دیکھ جائے تاکہ آپ کی نسبت جو کچھ رئے رکھیں بصیرت سے رکھیں بے خبری سے نہ رکھیں۔ (5 ستمبر 1924ء)
نہیں معلوم تم کو ماجرا دل کی کیفیت سنائیں گے تمھیں ہم ایک دن یہ داستان پھر بھی
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب