تعارف :
حافظ عبدالستار بن مہتاب دین 1952ء کو موضع چک نمبر 129۔ 15، ایل ضلع میاں چنوں میں پیدا ہوئے۔
اسی گاؤں میں تعلیم کا کوئی انتظام نہ تھا اسی لیے والد گرامی نے عبدالستار صاحب کو میاں چنوں کے” ایم سی پرائمری” سکول میں داخل کروادیا پرائمری پاس ہوئی تو والد محترم نے بیٹے کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کے خواہاں تھے پھر ممدوح کو چک نمبر 7۔8 اے آر میں لے گئے جہاں مولانا علی محمد سعیدی رحمہ اللہ نے “جامعہ سعیدیہ” کے نام سے درسگاہ قائم کی تھی پھر وہ اس درسگاہ میں دینی تعلیم حاصل کرنے لگے وہاں قاعدہ “ترتیل القرآن” پڑھا قاعدہ جو حافظ یحیی عزیز میر محمدی رحمہ اللہ کا مرتب کردہ ہے مدرسین میں ان کے اول استاد حافظ عبدالرشید کے اظہر رحمہ اللہ کے بڑے بھائی حافظ عبدالستار تھے قرآن مجید پڑھنے کے بعد درس نظامی کی ابتدائی کتابیں بھی پڑھی پھر اللہ تعالٰی نے ان کے دل میں حصول علم کا اس قدر شوق پیدا کردیا کہ مدرسے میں سالانہ چھٹیاں ہوئیں تو گھر نہیں گئے، وہاں استاد محترم سے قرآن مجید حفظ کرنا شروع کر دیا پھر ڈیڑھ سال میں ہی قرآن مجید کو حفظ کرلیا پھر نماز تراویح میں سنایا،حفظ القرآن کے بعد میں حافظ عبدالستار حماد صاحب خانیوال چلے گئے وہاں “جامعہ سعیدیہ” میں داخلہ لیا وہاں مولانا داؤد مسعود سے مشکاۃ المصابیح اور بعض درسی کتابیں پڑھیں اور حافظ عبدالرشید اظہر رحمہ اللہ اس وقت وہاں زیر تعلیم تھے، عبدالستارصاحب کو انہی دنوں معلوم ہوا کہ میاں چنوں کے قریب چک نمبر 126۔15 ایلی پلی والی میں مدرسہ “دارالہدی” کے نام سے ایک درسگاہ قائم ہوئی وہاں داخلہ لیا وہاں محمد یحیی فروز پوری رحمہ اللہ سے صرفی و نحوی ترکیبات اور تعلیلات کی مہارت حاصل کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس علم میں انہیں مہارت حاصل ہوگئی۔
میاں چنوں میں
عبدالستار صاحب کے والد مہتاب دین میاں چنوں کی جامع مسجد اہل حدیث میں موذن تھے اور وہاں مولانا عبدالقادر حلیم زیروی رحمہ اللہ خطابت کافریضہ سرانجام دیتے تھے والد گرامی کے حکم سے مولانا عبدالقادر حلیم زیروی سے تعلیم حاصل کی جس میں حدیث کی دو کتابیں سن نسائی اور ابن ماجہ کا درس لیا۔
جلال پور میں
جلال پور پیر والامیں شیخ الحدیث حافظ سلطان محمود رحمہ اللہ سے جامع ترمذی اور صحیح البخاری دونوں کتابیں پڑھی اور فارغ التحصیل بھی وہاں سے ہوئے دارالحدیث محمدیہ پیر والا سے سند حاصل کی
جامعہ سلفیہ فیصل آباد اور مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ
1974ء میں مولانا سلطان محمود رحمہ اللہ ایک سال کے لیے شیخ الحدیث کی حیثیت سے جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں تشریف لائے حافظ عبدالستار صاحب بھی ان کے پاس پڑھنے کے لیے آئے جامعہ سلفیہ میں داخلہ لیا وہاں ان کے ویرانہ ساتھی
حافظ عبدالغفار اعوان صاحب اور مولانا داؤد فہیم بھی موجود تھےجامعہ میں سالانہ امتحانات کا وقت آیا تو شیخ محترم نے اول پوزیشن حاصل کی انہی دنوں جامعہ سلفیہ کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ امتحانات میں پہلے، دوسرے، تیسرے اور چوتھے نمبر پر آنے والے چارطلباء کا مدینہ یونیورسٹی میں خود بخود داخلہ ہوجاتا ہے انہی میں شیخ محترم سرفہرست ہیں سن 1976ء میں مدینہ یونورسٹی کےلیے کاغذات تیار ہوئے اور اللہ تعالی کی مہربانی سے حافظ صاحب کا داخلہ مدینہ یونیورسٹی میں ہوگیا اور ایک ان پڑھ خاندان کا فرد دنیا کے بڑے روحانی اور علمی مرکز میں پہنچ گئے، مدینہ یونیورسٹی میں “کلیۃ الشرعیہ “میں داخلہ ہوا تھا اس وقت مدینہ یونیورسٹی کے نائب رئیس شیخ عبدالمحسن عباد صاحب تھے جو سلفی عقیدہ اور طبیعت کے کچھ سخت تھے ایک دن وہ مسجد نبوی میں ان سے ملاقات ہوئی تو وہ فرمانے لگے آپ قرآن مجید کے حافظ ہیں انہوں نے جواب دیا جی تو فرمانے لگے میرے دفتر میں آؤ انہوں نے ان کا داخلہ کلیۃ القرآن میں کردیا انہوں نے اصرار کیا لیکن انہوں نے کہا کلیۃ القرآن میں پڑھو ورنہ ٹکٹ کو لے کر پاکستان چلے جاؤ وہاں محقق العصر ناصر الدین البانی رحمہ اللہ شیخ احمد بن حماد اللہ انصاری کی علمی مجلسوں سے بے حداستفادہ کیا۔
چار سال وہاں قیام کیا 1980 میں مدینہ یونیورسٹی سے سند فراغت حاصل کی۔
تعارف :
نام جاوید اقبال ہے، والد محترم کا نام تاج دین
رہائش سیالکوٹ ددھیال اور ننھیال دونوں سیالکوٹ کے ہیں،والد محترم پوسٹ آفس میں ملازم تھے ،ان کی ٹرانسفر ایک سال کے لیے کراچی ہوئی، تو وہاں پیدا ہوے،پیدائش کے ایک سال کے بعد سیالکوٹ آگئےتھے، اور اب تک سیالکوٹ میں ہی رہائش پذیر تھے.
سکول کی تعلیم اپنے شہر ِسیالکوٹ کے بالکل قریب ایک قصبہ عدالت گڑھ میں ساتویں کلاس تک مکمل کی۔ابھی آٹھویں کلاس آدھی ہی پڑھی تھی کہ کسی وجہ سے سکول چھوڑ کر مدرسہ کا رخ کیا۔ جامعہ محمدیہ جی ٹی روڈ گوجرانوالہ میں باقاعدہ داخلہ لیا،وہاں 8 سالہ درس نظامی کا کورس مکمل کیا،اور اسی جامعہ سے فراغت پائی۔
پڑھائی کے دوران سب اساتذہ سے اچھا تعلق تھا، لیکن شیخ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ، اور شیخ عبدالسلام بھٹوی حفظہ اللہ سے تعلقِ خاطر زیادہ تھا
تخصص میں دو سال مزید شیخ عبدالمنان نور پوری سے مستفید ہوے.
سوال :آپ کے اساتذہ میں کون سے نام آتے ہیں؟
جواب:میرے اساتذہ میں مشہور و معروف نام درج ذیل ہیں:
فضیلۃ الشیخ عبدالحمید ہزاروی رحمہ اللہ، فضیلۃ الشیخ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ، فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بھٹوی حفظہ اللہ ،شیخ الحدیث مولانا رفیق (نائب شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ) صاحب۔ میرے بہت خاص استاد جامعہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ لاہور کے مدیر و مہتم فضیلۃ الشیخ حفیظ الرحمن لکھوی حفظہ اللہ ہیں، جو بہت محنت سے ہمیں گرائمر پڑھاتےتھے ۔جب میں جامعہ محمدیہ میں ساتویں کلاس میں پڑھتا تھا تو رمضان المبارک میں فنِ تخریج و تحقیق سیکھنے کے لیے ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کے پاس گیا تھا ،اس لحاظ سے وہ بھی میرے استاد ہیں۔اسی طرح شیخ الحدیث والتفسیر مولانا عبداللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ سے میں نے ستیانہ بنگلہ میں دو دفعہ دورہ تفسیر کیا تھا۔ تمام اساتذہ مجھ پر بہت شفقت فرماتے تھے۔
شیخ عبدالمنان نور پوری نے مجھے ایک واقعہ سنایا،کہ ان کے پاس سیالکوٹ کی ایک مشہور مسجد کے عالم دین آئےاور کہنے لگے ،کہ آپ کے شاگرد نے اپنی کتاب ’’حقوق الوالدین والاولاد‘‘ میں لکھا ہے،کہ بچے کے کان میں اذان اور اقامت کہنے کے بارے میں کوئی صحیح روایت نہیں ہے، جبکہ آپ کا موقف ہے ،کہ یہ حدیث صحیح ہے جیسا کہ امام ترمذی نے اسے صحیح کہا ہے۔ کیا یہ ایک شاگرد کی طرف سے اپنے استاد کی گستاخی نہیں ہے؟شیخ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ کہنے لگے: میں نے کہا: امام بخاری رحمہ اللہ بھی تو اپنے اساتذہ سے بڑھ گئے تھے،علمی مسئلے میں اختلاف ہوہی سکتا ہے۔یہ نہیں تھا کہ میں علم میں اپنے شیخ سے بڑھ گیا تھا، صرف ان کو مسکت جواب دینا مقصود تھا، جو’’ گستاخِ استاد‘‘ کا فتوی لگانے کے لیے آئے تھے۔شیخ نور پوری رحمہ اللہ بہت بڑے ظرف کے مالک تھے۔،آپ زہد و رع اور علم و فضل کی جامعیت کے اعتبار سے اپنے اقران و معاصرین میں ممتاز تھے،اللہ سبحانہ وتعالی نے آپ کو علم و تقوی کی خوبیوں اور اخلاق و کردار کی رفعتوں سے نوازا تھا۔
شیخ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ کا پڑھانے کا انداز یوں تھا:پڑھتے جاؤ ، چڑھتے جاؤ ، جو بھولتا ہے وہ پوچھتے جاؤ۔آخری کلاس میں ہم 32 لڑکے تھے جن میں ہم چار یا پانچ لڑکوں کو ہی بس سمجھ آتی تھی،اس وقت ہم ان سے بداية المجتهداور تفسیر بیضاوی وغیرہ پڑھتے تھے،جو کہ مشکل ترین مضامین ہیں،75 فیصد عبارت وغیرہ ہم خود حل کرلیتے تھے ، لیکن بعض دفعہ شیخ کا انداز سخت ہوجاتا، آپ عموما فرمایا کرتے تھے: “مولانا کیا کررہے ہیں سمجھ نہیں آرہی؟!” تو میں رو پڑتا ،پھر میں شیخ عبدالسلام بھٹوی حفظہ اللہ سے عرض کرتا کہ آپ شیخ کو سفارش کردیں کہ وہ ہاتھ ذرا نرم رکھیں،پھر شیخ عبدالسلام سفارش کرتے ہوئے کہہ دیتے: شیخ! لڑکا پڑھنے والا ہے، ذرا نرمی کا معاملہ کیا کریں۔
جب میں جامعہ میں آخری کلاس میں پڑھ رہا تھا تو میں شیخ عبدالسلام بھٹوی حفظہ اللہ کے کمرے میں رہتا تھا،مجھ سے بہت پیار و محبت کرتے تھے، مجھے ہر ماہ سو روپیہ دیتے تھے،ان سے میں نے پڑھائی کے دوران ،فرصت کے لمحات میں، پہلے بلوغ المرام حفظ کی، پھر غالبا 4 یا 5 پارے حفظ کیے۔ان سے میرا بہت گہرا تعلق تھا۔
پروفائل ملاحظہ فرمائیںتعارف :
عبد الخالق بن عبد المالک بن اللہ بخش اصل جائے پیدائش حاصل پور ہے لیکن کاغذات میں فیصل آباد لکھی ہوئی ہے
پروفائل ملاحظہ فرمائیںتعارف :
آپکا نام عبد الحلیم بلال ہے اور پیدائش ضلع بہاولنگر کی ایک تحصیل فورٹ عباس کے چک 311 ایچ آر میں ہوئی.
والد صاحب کا نام محمد بلال تھا اور آپ عالم دین تھے جامعہ محمدیہ اوکاڑہ سے فارغ التحصیل تھے.
آپ پیشے کے طور پر ایک زمیندار تھے اور ساتھ گاؤں کی مسجد میں بچوں کو درس وتدریس کرتے تھے.
سوال :شیخ محترم آپ اپنے نانا محترم کے حالات زندگی سے آگاہ فرمائیں؟
جواب: میرے نانا محترم کا نام مولانا محمد عبداللہ ہے ، بہت بڑے عالم تھے، اور دہلی کے فارغ التحصیل تھے، آپ حافظ عبداللہ بہاولپوری کے بہت اچھے دوست تھے، تقریبا ہم عمر تھے، آپس میں بھائیوں کی طرح رہتے تھے۔نانا جی کی کافی زمین تھی حافظ عبداللہ بہاولپوری کو اکثر اوقات پھل و دیگر چیزیں وغیرہ بھیجتے رہتے تھے اس لیے ان کے پاس اکثر آنا جانا رہتا تھا۔
نانا جان نے مدرسہ رحمانیہ دہلی میں ،اپنے استاد کی طرف سے اجازۃ الروایۃ اور سند وغیرہ کو خود ہی لکھا تھا، کیونکہ ان کا خط بہت اچھا تھا اور عربی زبان میں کافی عبور تھا ۔اکثر جب حج پر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جاتے تو وہاں کے شیوخ کیساتھ ملاقاتيں کرتے تھے ،تب مکہ میں مولانا عبدالرحمن افریقی ہوتے تھے، بہت مشہور عالم تھے، ان کے ساتھ نانا جی کے کافی تعلقات تھے،اسی طرح مولانا محمد امین شنقیطی ہوتے تھے، ان سے بھی نانا کی کافی ملاقاتیں رہی ہیں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے میں بہت چھوٹا ہوتا تھا، ابھی میں نے کتابیں وغیرہ پڑھنا شروع نہیں کی تھیں، بلکہ حفظ کرتا تھا، اس وقت نانا جی مجھے علمی نکات بتایا کرتے تھے۔
میرے نانا جی نے ہی میرا نام ’قاری‘ رکھا تھا، ان کو بہت شوق تھا کہ میں اپنے نواسے کو ’حافظ و عالم‘ بناؤں گا۔ہمارے گاؤں سے تقریبا 5 میل کی مسافت پر مڑوٹ ایک چھوٹا سا شہر ہے، اس کے قریب315 گاؤں ہے ،وہاں نانا جی کی رہائش ہوتی تھی ،اس وقت اس گاؤں میں بہت کم اہلحدیث بستے تھے،
بلکہ ہمارے گاؤں میں بھی دو یا تین گھر اہلحدیثوں کے تھے،بریلوی و دیوبندی حضرات کی کثرت تھی،
میرے ناناجی 1994 میں وفات پا گے تھے۔
سوال :شیخ محترم اپنا ابتدائی تعلیم سے تکمیلِ تعلیم کا سفر بیان فرمائیں۔
جواب:میں نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں 311 HR تحصیل فورٹ عباس میں حاصل کی،اس کے بعد قرآن مجید کو حفظ کرنے کے لیے ہارون آباد میں دیوبند مکتبِ فکر کے ایک مشہور مدرسہ میں داخلہ لیا،پھر تجوید کے لیے ایک اورادارے قاسم العلوم (فقیر والی) میں داخلہ لیا ، اور ایک سالہ کورس مکمل کیا،اس وقت ہمارے جماعتی مدارس میں قراءت اور تجوید کا اہتمام نہیں کیا جاتا تھا،بالخصوص ہمارے علاقے میں اہلحدیثوں کا ایسا کوئی ادارہ موجود نہیں تھا۔یہ 1977ء کی بات ہے جب بھٹو کی حکومت تھی ،اس کی حکومت کے خلاف جلوس وغیرہ نکلتے تھے،تب سب مدارس کے طلبہ جلسے جلوسوں میں شریک ہوتے تھے،ہم بھی اپنے اساتذہ کیساتھ جایا کرتے تھے۔
1980ء کے آغاز میں ابتدائی دنیاوی تعلیم اور قرآن مجید کے حفظ کرنے کے بعد دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے میں جامعہ تعلیمات اسلامیہ فیصل آباد چلاگیا،اس ادارے میں دیوبندی اور اہلحدیث ، دونوں طرح کے اساتذہ مل کر پڑھاتے تھے،ابھی ہمارا ایک سال مکمل ہونے میں دو ماہ رہتے تھے کہ دونوں مسالک کے اساتذہ کے درمیان کچھ لڑائی جھگڑا ہوگیا ، لہذا ہم تمام ہم جماعت ایک گروپ کی شکل میں لاہور جامعہ لاہور اسلامیہ ( رحمانیہ) میں آکر داخل ہوگئے۔
ہمارا 30 کے قریبا لڑکوں پر مشتمل ایک گروپ تھا جس میں کچھ فیصل آباد کے لڑکے شامل تھے، انہیں میں عطاء الرحمن ثاقب شہید ،(جو تالیفات میں علامہ احسان الہی ظہیر کے ساتھی تھے)،اور مولانا خالد سیف شہید(جو افغانستان میں روس کے خلاف جہاد کرتے ہوئے شہید ہوگئےتھے) جیسی شخصیات بھی تھیں۔
جامعہ رحمانیہ میں ہم نے پہلے سال کے امتحانات دیے، پھر دوسرے سال کی کلاس میں تعلیم حاصل کرنا شروع کردی۔1980 سے لیکر 1984 تک میں نے جامعہ رحمانیہ میں تعلیم حاصل کی،1404 بمطابق 1984 میں جامعہ رحمانیہ میں کلیۃ میں پڑھ رہا تھا، کہ میرا جامعہ اسلامیہ مدینہ میں داخلہ ہوگیا،جامعہ رحمانیہ سے مولانا شفیق مدنی صاحب حفظہ اللہ، مولانا عبدالقوی لقمان حفظہ اللہ، ہم تین لوگوں کا داخلہ ہوا تھا ۔
اس وقت حکومت پاکستان نے سعودی جامعات کے سٹوڈنٹس کے لیے NOC کو لازمی کردیا تھا، جس کے لیے ہمیں کافی مسائل درپیش ہوئے، اور بہت تاخیر ہوگئی،آخر کار سعودی حکومت نے سفارت خانے کو ایک لیٹر بھیجا کہ ان لڑکوں کے ویزے ویسے ہی لگادیےجائیں۔ اس وقت تقریبا آدھی کلاس گزر چکی تھی مطلب ایک سمسٹر مکمل ہوچکاتھا،جس کی وجہ سے ڈائریکٹ ہمارا داخلہ کلیہ میں ہوا،میں اور شفیق مدنی صاحب کلیہ شریعہ میں داخل ہوئے، جبکہ عبدالقوی لقمان صاحب کلیہ الدعوة گئے۔
جامعہ اسلامیہ میں ہم نے چار سال تعلیم حاصل کی ،ہم تینوں ساتھیوں نے 1988 ءمیں جامعہ اسلامیہ مدینہ سے فراغت حاصل کی۔شفیق مدنی صاحب اور عبدالقوی لقمان صاحب تو پاکستان واپس آگئے،لیکن مجھے عبدالرحمن مدنی صاحب نے حکم دیا تھا کہ آپ ابھی وہاں ہی رکے رہیں، ہم نے سعودیہ کے مشائخ وعلماء سے ملاقاتيں کرنی ہیں۔ یہ دورانیہ تقریبا 6 ماہ پر مشتمل تھا اس دوران جامعہ کے بعض اساتذہ کیساتھ میں علمی کام میں شریک ہوگیا ،ہمارے جامعہ کے ایک استاد کا PHD کا مقالہ عینی کی اسماء الرجال مشہور کتاب پر تھا ان کے ساتھ اس حوالے سے علمی کام کرتا رہا۔
1988 کے آخر میں میں پاکستان آگیا ،یہاں آکر تدریس ، دعوت و تبلیغ سے وابستہ ہوگیا۔
سوال :آپ کے اساتذہ اور شاگردوں میں کون کون سے نام آتے ہیں؟
جواب:اگرچہ میرے اساتذہ کی ایک طویل فہرست ہے ،لیکن میں اختصار کیساتھ صرف معروف اساتذہ کے ناموں کا ذکر کروں گا ،ان میں اکثر اللہ سبحانہ و تعالی کے پاس جاچکے ہیں اللہ سبحانہ و تعالی ان کی بخشش فرماے اور جو زندہ ہے اللہ سبحانہ و تعالی انہیں صحت و عافیت والی زندگی عطا فرماے۔
جامعہ رحمانیہ میں میرے مشکوة کے استاد مولانا فاروق اصغر صارم رحمہ اللہ تھے ،سنن ترمذی کے استاد حافظ نعیم الحق نعیم رحمہ اللہ تھے، میں اور شفیق مدنی صاحب، ان کی کافی خدمت کرتے تھے، اور ان کے بہت زیادہ قریب رہتے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ طلبہ کیساتھ حسن سلوک سےپیش آتے تھے ، خصوصا ان طلبا پر بہت شفقت فرماتے، جو بہت محنت کرکے علم میں رسوخ حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے اور ہر وقت علم کے حریص رہتے تھے۔حافظ نعیم الحق نعیم صاحب ایک ہی وقت میں بہترین مقرر ، شاعر ، قاری ، خطیب اور بہترین استاد تھے۔
شیخ الحدیث حافظ محمد عبداللہ بھٹوی حفظہ اللہ بھی میرے اساتذہ میں سے تھے، جیسا کہ والدِ محترم کے تذکرہ میں یہ بات گزری ہے۔اسی طرح شیخ الحدیث مولانا صادق خلیل (فیصل آباد) رحمہ اللہ بھی ہمارے استاد تھے۔ ہمارے ایک استاد، جن سے میں بہت متاثر تھا، مولانا عبدالرحمن عظیمی رحمہ اللہ ہیں، جو کہ کروڑ پکا کے تھے۔محدث العصر العلامہ ، حافظ ثناء اللہ مدنی رحمہ اللہ بھی میرے بہت اچھے اور مشفق استاد تھے۔مولانا ڈاکٹر حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب جو کہ جامعہ رحمانیہ کے مدیر بھی تھے، وہ بھی ہمیں پڑھاتے رہے ہیں۔
مولانا عبیدالرحمن عبید رحمہ اللہ ،نے ہمیں فتح المجید پڑھائی تھی، گوجرانوالہ کے رہنے والے تھے، روزانہ پڑھانے کے لیے گوجرانوالہ سے لاہور آتے تھے۔مولانا عبدالحی انصاری( فیصل آباد والے) بھی میرے استاد تھے، جو کہ اب شیخ الحدیث مولانا ارشاد الحق اثری صاحب کیساتھ مل کر علمی کام کررہے ہیں۔
مولانا عتیق اللہ عتیق صاحب بھی میرے استاد تھے، اب کافی سالوں سے فالج کے مرض میں مبتلا ہیں، اللہ سبحانہ و تعالی انہیں شفاء کاملہ عاجلہ عطا فرماے۔ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمہ اللہ بھی ہمارے استاد تھے اور ہمارے ساتھ کافی محبت کرتے تھے،ہم نے ان سے شرح ابن عقیل پڑھی تھی۔آپ وفات سے قبل جب آخری بار سعودی عرب تشریف لائےتھے تو میرے پاس ہی ریاض میں تقریبا 10 دن قیام کیا تھا، میں ان کو مختلف مشایخ کے پاس ملاقاتوں کے لیے لیکر جاتا رہا۔
شیخ الحدیث مولانا عبدالسلام کیلانی رحمہ اللہ، ان سے بھی میں نے جامعہ رحمانیہ میں صحیح البخاری پڑھی تھی۔
میں پہلے ذکر کرچکا ہوں کہ ہمارے ایک استاد مولانا عبدالرحمن عظیمی رحمہ اللہ تھے میں ان کی شخصیت سے بہت متاثر تھا، ان کا ایک واقعہ میں یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں۔ جب ہم جامعہ رحمانیہ پڑھتے تھے تو جمعرات کو ہمیں نو یا ساڑھے نوچھٹی ہوجاتی تھی ایک دن مجھے کہنے لگے!!! عبدالحلیم آج میں نے مولانا عطاء اللہ حنیف سے ملاقات کرنے جانا ہے، کیا آپ بھی ساتھ چلو گے؟تب میں جامعہ میں دوسری کلاس میں پڑھتا تھا، میں نے خوشی خوشی اثبات میں جواب دیا۔ہم ان کو ملنے چلے گئے ،مولانا صاحب تیسری یا چوتھی منزل پر چھت میں دھوپ میں بیٹھے ہوئے تھے ،تب سردیوں کا موسم تھا، استاد محترم عظیمی صاحب کی ان سے تقریبا دو گھنٹے مسائل پر گفتگو ہوتی رہی، کچھ دوسرے مسالک پر بھی بات چیت ہوئی،
میں چونکہ اس وقت علم و عمر میں بہت چھوٹا تھا، خاموشی کے ساتھ ان شیوخ کی باتوں کو سنتا رہا،جب مجلس ختم ہوئی، ہم نیچے آئے،تو میرے استاد، جو ان کے شاگرد تھے، مجھے پوچھنے لگے: بتائيں ایک طرف کئی مہینوں کی محنت و مطالعہ ہو، اور دوسری طرف یہ دو گھنٹوں کی ملاقات ،ان میں سے کونسی چیز زیادہ فائدہ مند ہے؟میں نے عرض کیا: یقینا یہ دو گھنٹوں کی ملاقات بہت قیمتی ہے۔
1984ء میں میں مدینہ یونيورسٹی چلے گیا وہاں اگرچہ ہر سال استاد بدلتے تھے لیکن چند معروف و مشہور اساتذہ کے نام درج ذیل ہیں:
شیخ سعود بن عبدالعزیز الخلف جو کہ پاکستان میں بھی کئی بار تشریف لاچکے ہیں۔ شیخ انیس الرحمن جو ہمارے اصول حدیث کے استاد تھے، آپ اصلا انڈونیشا کے ہیں، لیکن سعودی نیشنیلٹی ہولڈر ہیں۔ اپنے فن میں بڑے ماہر تھے ہم ان کی شخصیت سے بہت متاثر تھے۔شیخ محمد بن محمد المختار ہمارے فقہ کے استاد تھے، اس وقت آپ کا شمار سعودیہ کے مشہور و معروف علماء میں ہوتا ہے، ان سے ہمارا کافی تعلق تھا بسا اوقات ہم فارغ وقت میں کلاس کے علاوہ گھنٹہ گھنٹہ مسائل پر گفتگو کرتے، جس کا بہت فائدہ ہوتا تھا۔شیخ عمر المختار بھی ہمارے فقہ کے استاد تھے۔
عربی گرائمر و ادب کے ہمارے تمام اساتذہ مصری تھے، جو کہ سب کے سب اپنے فن میں ماہر تھے، بلکہ اپنے موضوع و فن میں امام سمجھے جاتے تھے،ان میں ہمارے ایک استاد دکتور حمزہ تھے جنہوں نے ہمیں شرح ابن عقیل کے قواعد کی بڑے اچھے طریقے سے تطبیق کروائی تھی، اور سبق ایسے یاد کرواتے تھے جیسے سورت فاتحہ یاد کروائی جاتی ہے۔اس طرح جامعہ اسلامیہ میں ’خارجی نشاط ‘ میں ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی رحمہ اللہ کے ہم شاگرد رہے ہیں، اکثر اوقات عصر یا مغرب کے بعد پروگرام ہوتے تھے جنہیں ’النشاط الخارجی‘ یعنی ’غیر نصابی سرگرمیاں‘ کہا جاتا تھا، جس میں ہم بڑے ذوق وشوق سے شریک ہوتے تھے۔
مولانا عبدالقادر سندھی رحمہ اللہ بھی ہمارے استاد ہیں، ان کے پاس جامعہ اسلامیہ میں پڑھنے کے دوران ہمارا آنا جانا رہتا تھا، ان سے ہم نے بہت استفادہ کیا تھا،پھر ان کی بعض کتابوں کی ہم نے ’تصحیح‘ بھی کی تھی،مسجد نبوی میں ہم نے جن شیوخ سے استفادہ کیا ،ان میں شیخ عبدالمحسن العباد بھی ہیں،جنہیں ہم ’عالم مدینہ‘ کہا کرتے تھے۔ ایک بہت بڑے عالم شیخ عطیہ محمد سالم ہیں، جن کا زیادہ تر میلان مالکی مذہب کی طرف تھا۔شیخ عمر الفلاتہ جن کا تعلق نائجیریا سے تھا، ہم ان کے دروس میں اکثر شریک ہوتے تھے،’فلاتہ‘ نائجیریا میں ایک بہت بڑا خاندان ہے۔انہی شیخ کے بیٹے محمد عمر الفلاتہ یونيورسٹی میں ہمارے طرق التدریس کے استاد تھے۔اسی طرح شیخ ابن باز ، شیخ محمد بن صالح عثیمین اور شیخ البانی جب مدینہ منورہ تشریف لاتے تو ان کے حلقات قائم ہوتے تھے، جن میں ہم شرکت کیا کرتے تھے۔
جامعہ اسلامیہ میں میرے کلاس فیلوز میں مولانا شفیق مدنی صاحب تھے ہمارا آپس میں اتنا پیار تھا کہ اکثر لوگ سمجھتے تھے کہ ہم آپس میں بھائی ہیں۔مولانا عبدالقوی لقمان صاحب جو کیلانی بھی ہمارے ساتھی ہیں،ہم تینوں کا داخلہ بھی اکٹھا ہوا تھا اور پاکستان سے سعودیہ کا سفر بھی تینوں نے اکٹھا کیا تھا۔مولانا عبدالصمد رفیقی رحمہ اللہ یہ لاہور میں تو ہمارے کلاس فیلو تھے لیکن جامعہ اسلامیہ میں ایک سال پیچھے ہوگئے تھے، کیونکہ ان کا ایک سال لیٹ داخلہ ہوا تھا۔مولانا اسحاق زاھد حفظہ اللہ( کویت والے )ہم سے دو سال پیچھے تھے،مدینہ یونيورسٹی میں ہمارے مشہور کلاس فیلوز میں شیخ اصغر علی امام مہدی ہیں، جو اس وقت ہندوستان میں پوری جماعت اہلحدیث کے امیر ہیں،ان کے ساتھ دوستانہ تعلق تھا، اب بھی رابطہ رہتا ہے،مولانا صفی الرحمن ہمارے تعلیمی دورانیہ میں ہی جامعہ اسلامیہ ’مرکز خدمۃالسنہ‘ میں آئے تھے،میں اور مولانا اصغر علی امام مہدی ،انہیں ائیرپورٹ سے اپنی گاڑی میں لاے تھے، الحمدللہ شیخ کے ساتھ بھی ہمارے اچھے تعلقات رہے۔
ہمارے وقت میں جامعہ اسلامیہ میں پڑھنے والے طالبعلموں میں سے حافظ محمد شریف (فیصل آباد) اور حافظ محمد رفیق (ملتان) بھی ہیں، جنہیں بعد میں اللہ تعالی نے علم وفضل اور شہرت سے نوازا۔عبدالغفار ریحان (ناروال ضلع سیالکوٹ) یہ ہم سے بڑا پیار کرتے تھے ، بلکہ چند دن کے ہمارے استاد بھی ہیں،یہ حافظ شریف صاحب کے کلاس فیلو تھے، جامعہ سلفیہ سے ان کا اکٹھے ہی ایک ساتھ داخلہ ہوا تھا ۔مولانا عبدالرشید راشد بھی جامعہ اسلامیہ میں اس وقت تعلیم حاصل کررہے تھے، جو بعد میں جامعہ رحمانیہ میں تدریس کرتے رہے ہیں، عرصہ ہوا وفات پاچکے ہیں، اللہ پاک ان کی بخشش فرماے۔اسی طرح مولانا مفتی عبدالحنان، جو اس وقت جامعہ سلفیہ میں فتوی دیتےہیں، اگرچہ عمر میں ہم سے کافی بڑے تھے، لیکن جامعہ اسلامیہ میں کلیۃالشریعہ میں ہمارے ساتھ ہی پڑھتے تھے،ان کے ساتھ بہت بے تکلفی اور پیار محبت تھا، کبھی کبھار ہم کشتی بھی کیا کرتے تھے۔
اسی طرح ہم سے سینئر ساتھیوں میں جو علم و عمر میں ہم سے بڑے تھے،شمس الدین افغانی رحمہ اللہ ہیں، جن کا ایم فل کا مقالہ ’الماتریدیۃ‘ اور پی ایچ ڈی کا مقالہ ’جہود علماء الحنفیۃ فی ابطال عقائد القبوریۃ‘ بہت مشہور ہوا۔ ہندوستان کے معروف عالم ڈاکٹر عبدالرحمن بن عبدالجبار الفریوائی، جنہوں نے کئی ایک کتابیں تصنیف کی ہیں، وہ بھی تب جامعہ اسلامیہ میں موجود تھے۔ہمارے مشفق ساتھی قاری ابراہیم میرمحمدی اگرچہ ہم سے کافی بڑے تھے، لیکن اس وقت جامعہ اسلامیہ میں ہی تھے ، ان کے ساتھ بھی ایک تعلقِ خاص تھا، بعد میں جامعہ رحمانیہ میں ہم اکٹھے پڑھاتے بھی رہے ہیں۔
عرب ممالک سے ہمارے ساتھیوں میں سے شیخ صالح الدغیثر اچھے عالم اور قاضی ہیں،شیخ سلیمان الرحیلی کلیۃ الشریعہ میں ہمارے کلاس فیلو تھے،سوڈان کے ایک عالم تھے، یاسین محمود یاسین، رحیلی اور یہ دونوں ذہانت و فطانت میں ہم سے بہت فائق تھے، کلیہ میں ہمیشہ دونوں کی پوزیشن آتی تھی، اور آپس میں دو تین نمبرکا ہی فرق ہوتا تھا۔یاسین محمود یاسین میرے بہت اچھے اور مخلص دوست تھے، جامعہ اسلامیہ میں فراغت کے بعد کچھ سال سوڈان میں’ انصار السنہ‘ میں تدریس اور دعوتی کام کرتے رہے پھر ایک حادثے میں فوت ہوگئے، اللہ تعالی مغفرت فرمائے، بہت پکا سلفی تھا۔
1988 کے آخر میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن لوٹا ،اور 1889 کے شروع سے جامعہ رحمانیہ میں باقاعدہ تدریس کا آغاز کردیا،جامعہ میں تحفیظ القرآن کی جملہ کلاسز میرے زیر نگرانی تھی، مکتبہ رحمانیہ ماڈل ٹاؤن 99 جے وہ بھی میری نگرانی میں تھا،ہائی کورٹ کے لیے مولانا عبدالرحمن مدنی کے مضامین بھی میں تیار کرتا تھا،
اسی عرصہ میں مولانا عبدہ الفلاح ،جو حافظ ثناء اللہ مدنی، مولانا عبدالرحمن مدنی اور میرے والد صاحب کے استاد تھے، وہ لاہور آے ، انہوں نے عربی میں صحیح مسلم، کتاب الایمان پر کچھ کام کیا تھا، میں بھی اس علمی کام میں ان کے ساتھ شریک رہا،اور ان کا کھانا ہمارے گھر سے تیار ہوکر آتا تھا۔ الحمدللہ
پاکستان میں میرے درج ذیل شاگرد ہیں:
سید توصیف الرحمن راشدی ، قاری صہیب احمد میرمحمدی ، شاہد عزیز ، مولانا اجمل بھٹی (پیغام ٹی وی )،مولانا شفیع طاہر صاحب ،جو جامعہ رحمانیہ میں مدرس ہیں ۔اس طرح مولانا عبدالرحمن مدنی کے سارے بیٹے ڈاکٹر حافظ حسین مدنی ، ڈاکٹر حافظ حسن مدنی ، ڈاکٹر حافظ انس مدنی ، ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی، میرے شاگرد ہیں۔ مدنی صاحب کے بھائی حافظ عبدالوحید روپڑی کے دونوں بیٹے عبدالعلیم اور عبدالسمیع، بھی میرے شاگرد ہیں، انہوں نے پورا قرآن پاک ترجمے کیساتھ مجھ سے پڑھا ہے۔میرے دو چھوٹے بھائی، قاری شفیق ،قاری عبدالحنان ، بھی میرے شاگرد ہیں۔
عربی ادب و قواعد سے مجھے شروع سے ہی خاص شغف تھا، جس کی بنا پر میں نے اپنے شاگروں پر کافی محنت کی، جس کا وہ اعتراف بھی کرتے ہیں، قواعد ، گرائمر، فصول اکبری اور علم النحو وغیرہ اس طرح یاد کرواتا تھا، جیسے سورت فاتحہ یاد کروائی جاتی ہے۔
جب میں جامعہ رحمانیہ میں پڑھا رہا تھا تو اس وقت درج ذیل اساتذہ جامعہ میں پڑھایا کرتے تھے،جن میں سے بعض ہمارے اساتذہ ہیں:
سعید مجتبی سعیدی صاحب ، شفیق مدنی صاحب ، عبدالقوی لقمان صاحب، مولانا زید احمد صاحب ، مولانا رمضان سلفی صاحب ، مولانا عبدالسلام فتح پوری ، عبدالرشید خلیق صاحب ، اسحاق زاہد صاحب ، محدث العصر ثناء اللہ مدنی صاحب، جو کہ ہمارے مایہ ناز استاد ہیں ۔قاری ابراہیم میرمحمدی ، اُس وقت کلیۃالقرآن میں مدیر تھے اور میں ان کا وکیل ( نائب) تھا۔ مولانا رحمت اللہ رحمہ اللہ ایک دیوبندی استاد تھے، بہت نیک اور اچھے انسان تھے ،مسلکی تعصب سے پاک تھے۔ اسی طرح مولانا ہدایت اللہ رحمہ اللہ بھی ہمارے ساتھ پڑھاتے تھے۔یہ مختصرا عرض کیا، ورنہ اور بھی مدرسین ہیں، جن سے رفاقت رہی۔
پروفائل ملاحظہ فرمائیں