سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(134) دوبارہ جماعت کرنا مکروہ ہے یا نہیں؟

  • 5641
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1588

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک مصلیٰ پر  دوبارہ جماعت کرنا مکروہ ہے یا نہیں اور جو لوگ کہ مکروہ بتاتے ہیں اورمنع کرتے ہیں ان کی دلیل یہ حدیث ہے: روی[1] عبدالرحمٰن بن ابی بکر عن ابیہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خرج من بیتہ لیصلح بین الانصار فرجع وقد علی  فی المسجد بجماعۃ فدخل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی منزل بعص اھلہ فجمع فصلی بھم جماعۃ۔ وہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر نہ مکروہ ہوتا تکرار جماعت کا تو اسی مسجد میں آنحضرتﷺ نماز پڑھتے نہ پڑھنا حضرت کاخود دلالت کرتا ہے مکرہ ہونے تکرار جماعت پر۔ اب مستفتی استفسار کرتاہے کہ آیا یہ حدیث صحیح ہے یا نہیں اور مخرج اس کا کون ہے اور درصورت صحت حدیث کے  استدلال کراہت تکرار جماعت ایک مصلیٰ پر ٹھیک ہے یا نہیں اورعلمائے حنفیہ  کا اس میں کیا فتویٰ ہے۔ بینوا توجروا



[1]   رسول اللہﷺ انصار میں صلح کرانے کے لیے اپنے گھر سے نکلے واپس آئے تو  مسجد  میں جماعت ہوچکی تھی آپ اپنے کسی حجرہ میں چلے گئے اور انپے گھر والوں کو اکٹھا کرکے ان کی جماعت کرائی۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حقیقت مسئلہ کی یہ ہے کہ اگرجماعت  اہل محلہ نے ہمراہ امام معین کے کرنی ہو تو اسی محلہ کے باقیماندہ کو اسی مسجد محلہ میں بہیئت اولیٰ تکرار جماعت مکروہ ہے یعنی مسجد محلہ میں ساتھ اذان اورتکبیرکے اسی مصلیٰ پر جماعت ثانیہ اسی اہل محلہ کی مکروہ ہے اور اگربغیر اذان کے یا بہ تبدیلی مصلیٰ جماعت ثانیہ  اسی اہل محلہ نے کی تو بلا کراہت درست اور جائز ہے اور اگر غیر اہل محلہ نے اوّل جماعت ساتھ اذان اور اقامت کے کرلی تھی تو اہل محلہ کو ساتھ اذان اوراقامت کے جماعت ثانیہ جائز ہے اور جو مسجد شارع عام میں ہو اس میں تکرار جماعۃ مطلقاخواہ ساتھ اذان کے ہو یابہ تبدیل مصلیٰ ہو یا نہ ہو ہر طرح درست ہے۔

’’محلہ کی مسجد میں اذان اور اقامت سے بار بار جماعت کرانا مکروہ ہے اگر کسی راستہ پرمسجد ہو یا ایسی مسجد ہو کہ اس میں کوئی امام اور مؤذن مقرر نہ ہو تو اس میں تکرار جماعت اذان اور اقامت سے بھی مکروہ نہیں ہے بلکہ افضل ہے اگر محلہ کی مسجد میں پہلے بعیر اذان کے جماعت ہوئی ہو تو دوسری جماعت اذان اور اقامت سے مکروہ نہیں ہے اور محلہ کی مسجد وہ ہے جس کا امام اور مقتدی معلوم اشخاص ہوں۔‘‘

اور اسی طرح  سے بدائع اور ظہیریہ اور عالمگیر یہ اور شرح منیہ وغیرہم میں لکھا ہے کہ تبدل محراب اور مصلیٰ میں ہیئت جماعۃ اولیٰ کی بدل جاتی ہے اور جماعۃ ثانیہ غیر مثلیٰ اولیٰ پر بلا کراہتہ ہوجاتی ہے۔ وفی [1]شرح المنیۃ عن ابی یوسف رحمۃ اللہ علیہ انہ اذا لم تکن الجماعۃ علی الھئیۃ الاولی لاتکرہ والاتکرہ وھو الصحیح و بالعدول عن المحراب تختلف الھئیۃ کذا فی البزاریۃ انتہی وفی التتارخانیہ عن الولواجیۃ و بہ ناخذ انتہی ما فی الشافی اور حدیث مندرجہ سوال کوشارحین کتاب فقہ نے بلا اسناد اور بلامخرج باختلاف الفاظ بیان کیا اور کتب صحاح میں صحیح سند اس کی کا پتہ نہیں لگتا پس قطع نظر اس کے کہ صحت اور عدم صحت حدیث میں بحث کی جائے مطلب اس حدیث کا یہ نہیں ہےکہ جماعت دوسری مسجد واحد میں مکروہ ہے بلکہ اس حدیث سے تاکید جماعت ثابت ہوتی ہے کیونکہ جب حضرت ﷺ مسجد میں تشریف فرما ہوئے تو کوئی دوسرا نمازی نہیں پایا۔ اسی واسطے گھر میں جاکر ساتھ اہل اپنے کے نماز پڑھی اور یہ ظاہر ہےکہ اگرکوئی نمازی دوسرا ہوتا تو ضرور ہے کہ ان کو جماعۃ سےمحروم نہ کرتے  یا مسجد میں جماعۃ کرانے یا بیرون مسجد جیساکہ حدیث ترمذی سے صاف ثابت ہوتا ہے۔

’’ایک آدمی مسجد میں  آیا جماعت ہوچکی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کون ہے جو اس آدمی پر صدقہ کرے تو ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ مل کر نماز پڑھی‘‘ صحابہ اورتابعین میں سے اہل علم حضرات کا یہی مسلک ہے کہ دوبارہ جماعت کرالینا درست ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ امام احمد  اور اسحاق کا بھی یہی مذہب ہے۔‘‘

’’رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا وہ اکیلا نماز پڑھ رہا تھا آپ نے فرمایاکوئی ہے جو اس پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ مل کرنماز پڑھے۔‘‘

پس جبکہ آنحضرتﷺ نے واسطے فضیلت حاصل کرنے جماعت کے اس شخص کو حکم شامل ہونے کا دیا کہ پہلے  نماز پڑھ چکا تھا تو جن اشخاص نے کہ نماز نہ پڑھی ہو ان کوبالاولیٰ جماعت دوسری کرنی  بلاکراہت ایک مسجد میں جائز ہوئی اور یہ امر نہیں ہوسکتا ہے کہ آنحضرتﷺ اصحاب کو جماعت دوسری کا حکم فرما ئیں اور آپ نے کریں پس متحقق ہواکہ حدیث مذکور فی السوال کا مورد یہ ہے کہ اس وقت دوسرا نمازی کوئی نہ تھا اگر ہوتا تو ضرور مسجد ہی میں نماز پڑھتے کیونکہ جماعت کی بہت تاکید احادیث میں آئی ماسوا اس کے چونکہ امر کو ترجیح اورغلبہ ہے فعل غیر ہمیشگی پر۔ اس لیے حدیث ترمذی پر عمل کرنا اولے اور اقدم ہوا اور تیسری وجہ یہ کہ حدیث ترمذی کی نص صریح ہے واسطے جماعت دوسری کے۔ اور حدیث مذکور فی السوال سے دلالۃً نکلتا ہے اور اصول فقہ میں مندرج ہے کہ بحالت تعارض عبارۃ النص و دلالۃ النص کی عبارت کو ترجیح دیتے ہیں دلالۃ النص پر۔ اور چوتھی یہ کہ نہ پڑھنا حضرتﷺ کا اس پر دلالت نہیں کرتا کہ جماعت دوسری مکروہ ہے بلکہ دیگر امورات عارضہ پر بھی دلالت کرتا ہے پس اختیار امر واحد کا بلا دلیل قابل اعتبار نہیں اور صحیح بخاری میں آیا ہے کہ حضرت انس مسجد میں آئے اور جماعت ہوچکی تھی پس اذان کہی اور تکبیر کہی اورجماعت سے نماز پڑھی۔ وجاء[2] انس بن ماک الی مسجد قد صلی فیہ فاذن و اقام وصلی جماعۃ رواہ البخاری پس امر حضرت ﷺ و فعل اصحابہ و تابعین سے متحقق ہوا کہ جماعت دوسری مسجد واحد میں بلا کراہت صحیح و جائز ہے۔ واللہ اعلم بالصواب ۔ حررہ واجابہ خاکسار محمد مسعود نقشبندی دہلوی۔

ہوالموفق:

تکرار جماعت بلا کراہت جائز ہے ایک  مصلیٰ پر ہو خواہ ایک مصلیٰ پر نہ ہو۔جامع ترمذی کی حدیث مذکور اور انسؓ کا اثر مذکور جواز پرصاف دلالت کرتا ہے اور مطلقاً تکرار جماعت کا مکروہ ہونا یا ایک مصلیٰ پرنہ ہو تو مکروہ نہ ہونا سو اس کی کوئی دلیل میری نظر سے نہیں گزری ہے اور اسی طرح مجیب نے جو تشقیق شامی سےنقل کی ہے اس کی بھی  کوئی دلیل میری نظر سے نہیں گزری ہے۔ واللہ اعلم اور عبدالرحمٰن بن ابی بکر کی حدیث جو سائل نے نقل کی ہے وہ بالکل غیر معتبر و ناقابل احتجاج ہے کیونکہ نہ اس کے مخرج کا پتہ ہے اورنہ اس کی سند کا حال معلوم فقہاوے حنفیہ یوں ہی بلاسند و بلاذکر مخرج اس کو ذکر کرتے ہیں اور اگر فرض کرلیا جائے کہ یہ حدیث قابل احتجاج ہے تو اس سےتکرار جماعت کی کراہت ثابت نہیں ہوتی جیسا کہ مجیب نے بیان کیا ہے ۔ واللہ اعلم کتبہ محمد عبدالرحمٰن للمبارکفوری عفا اللہ عنہ                                     (سید محمد نذیر حسین)



[1]   امام ابویوسف کہتے ہیں اگردوسری جماعت پہلی ہئیت پرنہ ہو تو مکروہ نہیں ہے ورنہ مکروہ ہے اور اگر محراب کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ پر جماعت کھڑی ہوجائے تو اس سے ہئیت بدل جاتی ہے۔

[2]   انس بن مالک ایک مسجد میں آئے وہاں جماعت ہوچکی تھی۔ آپ نے اذان اور تکبیر کہہ کر جماعت کرالی۔

 


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ