ایک شخص نے درج ذیل الفاظ کے ساتھ تکبیر کہی۔
«الله اکبر۔الله اکبر۔ اشهدان لاالٰه الاّ الله۔اشهدان محمّدرسول الله۔حی علی الصلوة حی علی الفلاح۔قد قامت الصلوۃ ۔قدقامت الصلوۃ۔الله اکبر ۔الله اکبر ۔لاالٰه الاالله»یہ تکبیر سن کر لوگوں نےشورمچادیا کہ یہ تکبیر ناقص اورغلط ہے۔دوہری تکبیر کہنی چاہیئے ۔ آپ اس مسئلہ کوحل فرما کرہفت روزہ تنظیم اہلحدیث میں شائع فرما دیں تاکہ حقیقت واضح ہو جائے۔؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ کےساتھی نے جواقامت (تکبیر) کہی وہ بخاری شریف میں ہے۔چنانچہ کتاب الصلوۃ باب الاذان فصل اول میں ہے۔
یعنی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نےآگ اور ناقوس کاذکرکیا۔پس انہوں نے کہا کہ یہ یہودونصاریٰ کاکام ہےپس بلال کو حکم دیا گیا کہ اذان دوہری کہیں اوراقامت (تکبیر)اکہری کہیں۔اسمعیل (راوی)کہتے ہیں کہ میں نےاس حدیث کا ذکرایوب کے پاس کیا تواس نےکہا «الاالاقامة یعنی قدقامت الصلوة» کالفظ دومرتبہ ہے۔
اس حدیث کامطلب یہ ہےکہ اذان کاحکم آنے سےپہلے صحابہ کرام نےآگ اورناقوس (وہ لکڑی جوبجائی جاتی ہے) کاذکرکیاہےکہ کسی اونچی جگہ آگ جلا کریا ناقوس بجاکرلوگوں کواطلاع دی جائے کہ وہ نماز کےلئے آجائیں۔پھر انہوں نےیہودونصاریٰ کاذکرکیاکہ آگ یہود جلاتے ہیں۔ اور ناقوس نصاری ٰ بجاتے ہیں ان کی مشابہت ہمارے لئے جائز نہیں۔اس کےبعداذان کاحکم آگیا تو بلال کوحکم دیاگیا کہ اذان دوہری اوراقامت اکہری کہیں مگراقامت میں قد قامت الصلوۃ کالفظ دومرتبہ ہے۔اس کےسوا باقی تکبیر اکہری ہونے کامطلب یہ ہے کہ اذان کی بنسبت اکہری ہے۔ اس لئے اقامت کےشروع میں اللہ اکبر کالفظ چارمرتبہ کی بجائے دومرتبہ ہے۔اورآخر میں اللہ اکبر اللہ اکبر اذان کے موافق ہے۔یہ اکہرا یعنی ایک مرتبہ نہیں ہوگا۔
دوسری حدیث مشکوٰۃ کےاسی باب فصل ثانی میں حدیث ہے۔
یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اذان دومرتبہ اورتکبیر ایک مرتبہ تھی« قدقامت الصلوۃ» کالفظ دو مرتبہ ۔اس کوابوداؤد،نسائی ،دارمی نےروایت کیاہے۔
یہ دونوں حدیثیں جوپانچ کتابوں (بخاری ،مسلم ،ابوداؤد،نسائی،دارمی)کےحوالہ سے ذکر ہوئیں۔اکہری تکبیر کی دلیل ہیں۔ان کےعلاوہ دیگر کتب میں بھی روایات ہیں اوردوہری تکبیر کی حدیث بخاری ومسلم میں نہیں۔ابوداؤد وغیرہ میں ہے ۔جو مشکوۃ کےاسی باب میں ہے۔اس کےالفاظ یہ ہیں:
حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کواذان کےانیس کلمے سکھائے۔اور اقامت کےسترہ کلمے سکھائے۔
اوراذان کے انیس کلموں کی تشریح ابومحذورہ کی ہی روایت سےمسلم شریف میں یوں موجود ہے۔
ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خودبنفس نفیس مجھے اذان سکھائی ۔پس فرمایا«الله اکبر۔الله اکبر۔الله اکبر۔الله اکبر۔»(چارمرتبہ)«اشهد ان لاالهٰ الاالله» (دومرتبہ)«اشهدان محمّدرسول الله »(دومرتبہ)دوبارہ پھر لوٹ کرتشھد کے کلمات کہیے دودومرتبہ ۔«حی علی الصلوۃ»دومرتبہ ۔«حی علی الفلاح »دومرتبہ۔«الله اکبر ۔الله اکبر» دومرتبہ «لااله الاالله»۔ایک مرتبہ۔ اس کومسلم نے روایت کیاہے۔
اس حدیث سےمعلوم ہواکہ اذان کےانیس کلمے ترجیع کےساتھ پورے ہوتے ہیں۔یعنی کلمہ شہادت اوررسالت لوٹ کرپھر دودفعہ کہا جائے اور آواز پہلی دفعہ آہستہ ہواوردوسری دفعہ بلندہو۔
دوسری حدیث میں اس کی زیادہ وضاحت ہے۔اس کےالفاظ یہ ہیں:
ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سےرویت ہے کہ میں نےعرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اذان کا طریقہ سیکھائیے ابومحذورہ رضی اللہ عنہ فرماتےہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری پیشانی پرہاتھ پھیرا اور فرمایا «الله اکبر ۔الله اکبر ۔الله اکبر ۔الله اکبر»(چاردفعہ)بلند آواز سےکہو۔پھر «اشهدان لاالهٰ الاالله» ۔(دومرتبہ)«اشهدان محمدرسول الله »(دومرتبہ)ان دونوں کلموں کےساتھ آواز کوپست کرو۔پھر شہادت کےساتھ اپنی آواز کوبلند کرو۔اورکہو «اشهد ان لااله الاالله»(دومرتبہ)«اشهدان محمدرسول الله» (دومرتبہ) «حی علی الصلوۃ» (دو مرتبہ ) «حی علی الفلاح» (دومرتبہ )۔اوراگر صبح کی نماز ہوتو اس میں کہو ۔«الصلوۃ خيرمن النوم»(دو مرتبہ)۔«الله اکبر» (دو مرتبہ)«لاالهٰ الاالله» ۔ایک مرتبہ اسکوابوداؤدنےروایت کیا۔
اس حدیث سےاذان کےانیس کلمات کی وضاحت ہوگئی ۔اورکہنے کاطریقہ بھی بتلادیا ۔ حنفیہ کی حالت کیسی عجیب ہے ۔وہ ابی محذورہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے اقامت کےسترہ کلمات تومانتے ہیں ۔لیکن انیس کلمات اذان کے نہیں مانتے اوراکہری تکبیر کاانکار کرتے ہیں ۔ حالانکہ یہ بخاری مسلم میں ہے ۔اوردوہری تکبیربخاری مسلم میں نہیں ۔دوسری کتابوں میں ہے ۔ساری اُمت اس پر متفق ہے کہ بخاری مسلم کی احادیث مقدم ہیں لیکن کس قدر تعجب ہے کہ بخاری مسلم حدیث کاانکار اورغیر بخاری مسلم کااقرار کیاجارہاہے ۔اس سے بڑھ کرملا حظہ فرمائیے کہ حنفیہ ابی محذورہ رضی اللہ عنہ کےحدیث کاایک حصہ یعنی اقامت (تکبیر) کے سترہ کلمات مانتے ہیں اوراسی حدیث میں اذان کے انیس کلمات ہیں ان کاانکار کرتے ہیں۔ اسی طرح حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی حدیث کاایک حصہ (اذان ) مانتے ہیں لیکن اسی حدیث کے دوسرے حصے یعنی اکہری تکبیر کونہیں مانتے ۔یہ لوگ ایسا بہت کرتے ہیں ۔ہم نے ایک مستقل کتاب آمین رفع الیدین لکھی ہے ۔اس میں یہ مسئلہ بڑی وضاحت سے لکھا ہے کہ تقلید کےدائرہ میں قرآن وحدیث پرعمل نہیں ہوسکتا ۔ہم نے اس کی بہت سی مثالیں پیش کی ہیں ۔کیونکہ جب امام کاقول خلاف حدیث آجاتا ہے تووہاں تقلید رہے گی یا قرآن وحدیث۔
نوٹ:جن لوگوں نےاکہری اقامت پراعتراض کیا ہے ۔ان کوزیادہ تسکین کے لئے شاہ جیلانی کی کتاب غنیۃ الطالبین سے اکہری اقامت کاثبوت پیش خدمت ہے ۔
شاہ جیلانی ؒ کی اصل عبارت حسب ذیل ہے :
«ثم يقيم فيقول الله اکبر ۔الله اکبر ۔اشهدان لاالهٰ الاالله ۔اشهد ان محمدرسول الله ۔حی علی الصلوة ۔حی علی الفلاح الله اکبر ۔الله اکبر ۔لااله ٰ الاالله»پھر اقامت کہے پس کہےآخرتک۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ 6 مطبوعہ صدیقی)
شیخ جیلانی نے تکبیر اکہری لکھی ہے ۔اگر یہ تکبیر غلط اورناقص ہے اوراس سے نماز ناقص ہوتی ہے،توحضرت شاہ جیلانی ؒ اوران کی نماز کےمتعلق کیاحکم ہوگا؟
جولوگ حضرت شاہ جیلانی ؒ سے محبت وعقیدت کی حد سےزیادہ دعوےٰ کرتے ہیں کیا وہ اس پر غور کریں گے؟اللہ تعالی ٰ ہدایت نصیب فرمائے ۔آمین
وباللہ التوفیق