سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(676) اہلحدیث کے مذہب پر ایک سوال

  • 7312
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2767

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اہلحدیث کے مذہب پر ایک سوال


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اہلحدیث کے مذہب پر ایک سوال

مکرم بندہ جناب مو لا نا ابو الوفا ثنا اللہ صاحب دام اقبالہ تسلیم

بعد سنت اسلام کے وا ضح ہو دیگر گزارش خدمت یہ کہ چند سوالا ت کے جواب اپنے اخبار حدیث کے کسی گو شہ میں درج فرما دیں امید کہ تا خیر نا کر یں گے سوال یہ ہے کہ آپ نے مدراس کا نفرس میں سنا ہو گا کہ مو لا نا مو لو ی فقیر اللہ صاحب نے وعظ میں کہا تھا کہ چہار اما م یعنی مذہب بر حق ہیں اور آپ نے بھی جس کا جواب دیا ہمارے یہاں اس بات کی با بت کہ مذہب اہلحدیث کا نیا اور با لکل غلط ہے اور کا نفرس میں ہی ایک مدراسی نے سوال کیا کہ چہارمذ ہب حق ہیں تو آپ نے کیوں پا نچواں مذہب اختیار کیا اور آپ ہم کو اس کا جواب ضرور اخبار سے معلوم کرادیں اور جواب تفصیل دار معلوم کرا دیں اگر آپ تسلی بخش جواب دیں تو مذہب اہلحدیث میں بہت سی جماعت احناف شامل ہو نے والی ہے اگر جواب تسلی بخش نہ آوے تو اہلحدیث مذہب سے بری ہو جایئں گے اور کوئی چہار مذہب میں سے کسی ایک کی تقلید کرنے سے کیا برائی ہے اگر برائی نہ ہو تو آپ اس سے کیوں بری ہیں اور جواب جلد۔ /الرقم کے ایم کمپنی خریدار اہلحدیث کڈپہ)

اڈیٹر

میں مو لوی جنا ب فقیراللہ صاحب کی تقریر نہیں سنی تھی اصل بات اس پر مو قوف ہے کہ مو لوی صاحب موصوف کے اصلی الفاظ سامنے ہوں لہذا مولوی صاحب موصوف خد یا ان کی تقریر سننے والے کوئی صاحب مولوی صحب کے اصلی الفاظ نقل کر کے بھجیں تو جواب صحیح مل سکتا ہے۔ میں نے جو جواب دیا تھا وہ قیاسی تھا اسی جواب کی اب تشریح کیے دیتا ہوں اس میں شک نہیں کے ائمہ کا مذہب ان کے وجود کے بعد جاری ہوا ہے ان سے پہلے مسلما نوں میں جو طریق جاری تھا وہ کیا تھا اور اس طریق کو نئے سر سے جاری کرنا بھی ضروری ہے یا نہیں یہ ایک سوال ہے جس کا جواب فیصلہ کن ہے میں اس جگہ ایک نقشہ دیتا ہوں تاکہمضمون اچھی طرح سے سمجھ میں آسکے وہ نقشہ یہ ہے۔

جو سلف صالحین سے چلی تھی اور درمیان میں اسی میں سے چار شاخیں ہویئں جن کا ہم نقشہ نے دیا ہے ان چاروں کا تعلق چونکہ اسی اصل سے ہے اور ان کا طریق عمل بھی وہی تھا جو اصل کا تھا یعنی قرآن وحدیث کا اتباع اس لئے ان کی نسبت حقا نیت کا قرار کیا ہو گا۔ لیکن چونکہ اس مذاہب میں ان تعینات اربعہ نے بھی جزئیت کی طرح دخل پا لیا ہے جس کی تشریح یوں ہے کہ حنفی اپنے مسائل کو اس لئے صحیح جاننے لگے کہ وہ امام ابو حنفیہ صاحب کے اقوال ہیں چنا نچہ اصول فقہ کی مستند کتاب توضیح میں لکھا ہے کہ مقلد کی تحقیق ہی یہ ہے کہ وہ یوں لکھے

هذا عندي صحيح لانه ادي اليه راي ابي حنيفه ر حمة الله عليه

یعنی یہ مسئلہ اس لئے صحیح ہے کہ امام ابو حنفیہ کی یہ رائے ہے اسی طرح دیگر ائمہ کے مقلدین کا بھی کم و بیش برتائو چونکہ دلیل کی جگہ محض خدا اور رسول کا نام ہو نا چاہئے ان کی بجائے کسی امتی کا نام لینا منشائے خدا وندی کے خلاف ہے قرآن مجید میں ارشاد ہے

أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّـهُ ۚ

یعنی محل دلیل میں سوائے کلام خدا و رسول کے کسی قول پیش نہیں ہو سکتااس لئے اس روش کی جو توضیح کے حوالہ سے ثابت ہوتا ہے اصلاح ضروری تھی تاکہ امت اس طریقے سے آجائے جس پر سلف صالحین تھےچنانچہ اہلحدیث کی یہی کو شش ہے کہ ان نسبتوں کو دین میں داخل نہ کیا جائے بلکہ داخل فی الدین صرف وہی ایک نسبت محمد یہ علی صا جہا الصلوۃ والتحیتہ جس کے حق میں فرمان واجب الا ذن ہے (وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ)یہ ہے ضروری مذہب اہلحدیث جو بالکل صاف اور روشن ہے ،۔ 14/ جون 18ء؁)

تشریح

از جناب مولوی ابرا ہیم صاحب سیالکوٹی

اس امت مر حو مہ میں بہت س فرقے پیدا ہوگئے ہر ایک اپنے آپ کو آنحضرت ﷺ کا اصلی ورث اور آپ کے طریق پر سمجھتا ہے اور دوسروں کی طریق سنت سے دور اور راہ حق سے گمراہ جا نتا ہے اورکہتا ہےکہ انہوں نے دین حق میں اختلاف ڈالا امت مر حومہ میں تفرقہ کی بنیاد رکھی دین کوٹکڑے ٹکڑ ےکر دیا فتنہ و فساد برپا کیا غرض ہر ایک دوسرے کو کا فر وضال بد عتی دلا مذہب قرار دیتاہے اور بموجب ارشاد ہے۔ (كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ)(پ18۔ مومنون)-اپنی قرار داد پر نازاں ہے

وكل بدعي وصلالليلي    دليلي لا تقر لهم بذاكا

 ایسے اختلاف کے ہو تے ہر ایک کا دعوی درست نہیں ہو سکتا کیو نکہ – الحق لا يتعدد عند الاختلاف مسلمہ مقولہ ہے لہذا ضروری ہے کہ فرق قدیم و جدیدہ کی شنا خت کا کوئی ایسا اصولو معیار مقرر کیا جائے جس پر سب فرقے رکھے جا سکیں کھرے اور کھوٹے میں تمیز ہو سکے اور معلوم ہو جائے کہ اصولی طور پر حقیقت میں اختلاف و فتنہ کا الزام کس پر عائد ہو سکتا ہے اس تحریر میں میرا مقصود یہی ہے

2۔ اس تحریر میں کسی فرقہ کی قدامت و جدت سے یہ مراد ہو گی کہ موجود فرقہ ہائے اسلام میں سے کونسا فرقہ ہے جو اپنے عقائدو اصول اور دستو ر العمل اور صورت عمل کے لحاظ سے آنحضرتﷺ کے وقت کا ہے اور کون سا ہے جو آپ کے بعد نکلا۔

3۔ حقیقت میں فرقہ اسی گرو کا نام ہے جو آنحضرتﷺ کے بعد آپ کے طریق سے جدا ہو کر کسی اور صورت میں قائم ہو اور جو آنحضرتﷺ کے عہد سعادت مہدکی اصلی حالت پر قائم ہو اسے فرقہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس نے جدائی نہیں کی لیکن اس کی دیگر قسموں کےمقابلہ میں ہونے کے سبب ہم اسے بھی فرقہ شمار کریں گے

4۔ چونکہ قرآن مجید آخری آسمانی کتاب ہے اور آنحضرتﷺ اسلام کے آخری نبی ہیں اور آپ سے پہلے آسمانی کتا بیں اور ابنیاء گزر چکے ہیں اور ان کے معتقدوں میں بھی اختلاف واقع ہو چکا ہے اس لئے ضروری ہے کہ اول ان اسباب پر نظر کی جائے جن سے اہل کتاب یہود و نصاری میں اختلاف پڑا اور دیکھا جا ئے کہ کس با ت کی خلاف ورزی پر خدا تعالی نے ان پر اختلاف کرنے کا الزام قائم کیا تاکہ ہم بھی اپنے اختلاف میں اس امر کو ملحوظ رکھ کر اس الزام سے محفو ظ رہ سکیں

ان اريد الا الاصلاح ما استطعت وما توفيقي الا بالله عليه توكلت واليه انيب

5۔ دین ابتدا میں ایک صرف2۔ وحی کی پیروی ہوتی تھی اور اسی کا حکم تھا 3۔ امتداد زمانہ سے جوں جوں عصر نبوت سے دور ہوئے بعد کی نسلوں میں ذہول دنسیان غالب ہو تا گیا 4/جہالت پھلیتی گئی 5/کتاب الہی متروک ہو گئی 6/ آثار نبوت محفوظ نہ رہے 7/ اقوال الرجال راے و قیاس اور بے تحقیق سنی سنائی باتوں کی پیروی کی گئی 8/اس پر طره یہ کہ نفسا نی خواہشوں اور آپس کی عدادتوں کے لئے بھی مذاہب ہی کو آڑ بنایا گیا 9/ جس کی وجہ سے تحریف اور اخترع بدعات کا شیوع ہوا اور دین الہی میں ایک فتنہ عظیم برپا ہوا10/ جس کے مٹانے کے لئےآر سردار دو عالمﷺ معبوث کئے گئے۔

اصولی طور پر اس بیان سے کسی کو بھی اختلاف نہیں ہوسکتا۔ لیکن مذید توضیح کے لئے ہم ان امور عشرہ کے ثبوت میں آیات ذیل نقل کرتے ہیں۔

پہلی آیت۔ ( وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا ۚ)(یونس۔ پ11)اور شروع میں لوگ دین کے ایک ہی طریقے پر تھے اختلاف تو ان میں پیچھے پیدا ہوا اس آیت میں صاف مصرح ہے

کہ ابتدا میں سب لوگ ایک ہی دین پر تھے ان میں اختلا ف پیچھے پڑا چنا نچہ تفیسر جامع البیا ن میں اس زمانہ اتفاق کی با بت کر کس زمانہ میں سب لوگ ایک ہی دین پر تھے لکھا ہے۔ بين آدم ونوح عشرة قرون كلهم علي الاسلام

دوسری آیت۔ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّـهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۖ فَهَدَى اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ۗ وَاللَّـهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

-شروع میں لو گ ایک ہی دین پر تھے پھر اختلاف کرنے لگے اللہ تعالی نے پیغمبر بھیجے جو خوش خبری دیتے اور ڈراتے ان کے ساتھ سچی کتا بیں بھی نا زل کیں تا کہ جن با توں میں لوگوں نے اختلاف کیا ان میں ان کا فیصلہ کرے اور جن کو کتا ب ملی تھی وہی آپس میں ایک دوسرے کی عدادت سے روشن لا ئل آئے پیچھے اختلاف کرنے لگے تو وہ راہ حق جس میں لوگ اختلاف کر رہے تھے خدا نے اپنی عنا یت سے مسلمانوں کو دکھا دی اور اللہ تعالی جس کو چاہے راہ راست کی ہدایت کر دے۔ اس آیت میں (كان الناس امة واحدة ) کے بعد فاختلفوا محزوف ہے کیو نکہ انبیاء کی بعثت اختلاف کے وقت ہو تی ہے جیسا کہ سورہ یو نس کی گزشتہ آیت میں اس کو ذکر بھی کر دیا ہے –لما اختلفوا فيه-سے مراد الحق ہے جس میں لو گوں نے اختلاف کیا اور من چومن الحق میں ہے وہبیا نیہ ہے چنا نچہ تفسیر جلا لین میں ہر دو کی بابت یہی لکھا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ حقیقت میں اختلاف وہی کر تا ہے اور جدا فرقہ وہی بناتا ہے جو حق سے جدا ہو جا ئے نیز یہ کہ اختلا فی صورت میں وہ جا نب اختیار کی جائے جو نبی برحق کا فر مو دہ ہو پس جو شخص یا فرقہ اصل دین پر جس کو خدا تعالی اس آیت میں لفظ الحق سے تعبیر کر تا ہے قائم ہو گو بظاہر وہ بھی دوسروں سے مختلف ہو تا ہے لیکن خدا کے نز دیک اس پر اختلاف کا الزام نہیں آسکتا کیوں کے اسنے اس حق کے خلاف نہیں کیا جو پغیبر برحق کے ذریعہ ثابت ہوا۔

تیسری آیت۔ (وَمَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ ۙ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ)(نحل۔ پ 14)

’’اوراے پیغمبرﷺ ہم نے تم پر یہ کتاب صرف اسی واسطے اتری ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے وہ باتیں خوب ظاہر کردو جن میں یہ اختلاف کرتے ہیں اور نیز مو منوں کی ہدایت کے لئے اور ان پر رحمت کے لئے نا زل کی۔‘‘ اس آیت سے صاف واضح ہے کہ آنحضرتﷺ گزشتہ امتوں کے اختلاف مٹانے کے لئے معبوث کئے گئے ہیں پس جو اختلاف آپ کی امت میں پڑے بالخصوص جب وہ اسی جنس کا ہو جو گز شتہ امتوں میں تھا تو ضرور بر ضرور اس میں آپ کے بیا ن ہدایت نشان کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ اور یہی مراد ہے اس آیت کر یمہ سے

(فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ)(نساء۔ پ7)

’’یعنی اگر تم میں کسی امر اختلاف پڑ جائے تو اس امر کو خدا تعا لی اور اس کے رسول پاک کی طرف لاؤ گر تہیں خدا تعا لی اور روز قیا مت پر ایمان ہے‘‘اسی طرح حضرت نوح ابراہیم موسی اورعیسی علیہ اسلام انبیاء سا بقین اور آنحضرت ﷺکو ایک ہی دین عطا کرنے کا ذکر کر کے فر مایا –( وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۚ)(شوریٰ۔ پ25)’’ان امتوں نے آپس میں بغاوت و عدادت کی وجہ سے علم آلہی آچکنے کے بعد دین میں تفرقہ ڈالا‘‘ اس کے بعدآنحضرت ﷺکو ان کے اختلاف سے بچے رہنے اور وحی الہی پر قائم رہنے اور لو گوں کو اعتدال کی طرف دعوت دینے کا حکم دیا۔ ( فَلِذَٰلِكَ فَادْعُ ۖ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ ۖ وَقُلْ آمَنتُ بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ مِن كِتَابٍ ۖ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ ۖ)(شوری پ 25)''

’’اے پیغمبرﷺ تم لوگوں کو اسی اصل دین کی طرف بلاتے رہو اور خود بھی جیسا کہ تم کو حکم ہوا ہے۔‘‘ قائم رہو اور ان اہل کتاب کی خواہشوں پر نہ چلو اور ان سے صاف کہہ دو کہ کتا ب کی قسم سے جو کچھ خدا نے اتارا ہے میرا تو سب پر ایمان ہے اور مجھے حکم ملا ہے کہ تہمہارے درمیان انصاف کروں بیان مذکورہ بالا میں یہ امور مذکور ہوئے دین آآلہی ابتدا میں ایک تھا اس کے بعد لوگوں نے اس میں بوجہ آپس کی عدادت کے اختلاف کیا تو خدا تعالی اس اختلاف کو مٹانے کے لئے انبیاء بھیجتا رہا حتی کہ اسلام کے آخری دور میں سب اختلاف مٹانے کے لئے پغبیر آخر الزمانرسول اللہﷺکو معبوث فرمایا اور آپ پر آخری کتاب قرآن مجید نازل کی پس صاف روشن ہو گیا کہ اب ان سب اختلاف کو چھوڑ کر جو نئے ہوں یا پچھلی جنس کے ہوں صرف قرآن مجید اور آنحضرت ﷺکے بیان کی اتباع واجب ہے اور یہی مراد ہے اس آیت کریمہ ہے (اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَا)(اعراف۔ پ8) ’’یعنی جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اتارا گیا اس کی پیروی کرو اور اس کے سوائے دیگر حمائیتوں کی پیروی نہ کرو۔‘‘ مضمون بالا کی تائید میں دیگر آیات بھی ہیں جو حسب ذیل ہیں۔ چوتھی آیت۔

(إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّـهِ الْإِسْلَامُ ۗ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّـهِ فَإِنَّ اللَّـهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ)(آل عمران۔ پ 3)

’’دین حق تو خدا کے نزدیک یہی اسلام ہے اور بس اور اہل کتاب نے جو مخالفت کی سو آپس کی ضد کے سبب حق معلوم کرنے کے بعد کی اور جو کوئی خدا کی آیات سے منکر ہو تو خدا اس کا جلد حسا ب لے گا‘‘ اس آیت میں صاف فر ما دیا کہ خدا کے نز دیک صرف ایک ہی دین اسلام کا اعتبا ہے اور یہ کہ ہل کتاب سابقہ نے اختالاف کیا تو آسمانی کتاب مل چکنے کے بعد کیا اور یہ کہ ان اختلاف کی ایک وجہ ان کی باہمی عادت تھی اور یہ کہ جو کوئی آیات خدا وندی کو چھوڑے گا خدا اس سے جلد سمجھے گا اس سے ظاہر ہے کہ اہل کتاب پر جو الزام قائم کیا گیا ہے وہ کتاب آسمانی کی مخا لفت کرنے کا ہے پا نچویں آیت وَإِنَّ هَـٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ (مومنون۔ پ18)

’’تمہارا دین ایک ہی دین ہے اور میں ہی تم سب کا رب ہوں پس تم سب مجھ سے ہی ڈرو‘‘ پھر لو گوں نے پھوٹ کر اپنا اپنا دین جدا جدا بنا لیا اب جو کسی فرقہ کے پاس ہے وہ اسی پر خوش ہے اس آیت میں صاف مذکور ہے کہ اللہ تعالی نے ایک ہی دین کا حکم دیا تھا لوگوں نے ٹکڑے ٹکڑے کر کے مختلف فرقوں میں تقسیم کر ڈالا اور ہر گروہ اپنے ہی عند یہ ہر خوش رہنے لگایعنی اپنے تیا کردہ عقیدے اور طریق عمل کے اختیار کرنے اور اس پر عمل کرنے کی وجہ یہی سمجھنے لگےکہ یہ ہمارا ہے اور دوسرے سے انکار کی یہی وجہ بتائی کہ یہ دوسرے کا مذہب ہے طریق اعتدال جو ہر ایک کے لئے مساوی ہے ابتاع دلیل اور موافقت وحی ربانی اس کیپروا نہ رہی اس امر کو دوسری آیت میں مصرح ذ کر فر مایا ہے چنا نچہ فرمایا

(وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَهُمْ ۗ)(سورہ بقرہ۔ پ 1)

’’اور جب ان سے کہا جا تا ہے کہ جو کچھ بھی خدا نے نا زل کیا ہے سب پر ایمان لائو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اسی پر ایمان رکھتے ہیں جو ہم پر اتری غرض یہ کہ اس کے علاوہ دوسری کتاب کو نہیں مانتے حالا نکہ وہ بھی حق ہے۔‘‘

امور عشرہ میں سے با قی امور کا ذکر ان آیات میں ہے

(أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّـهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ)(حدید۔ پ 27)

’’کیا مسلمانوں کے لئے ابھی تک اس کا وقت نہیں آیا کہ ذکر خدا اور تلاوت قرآن کے لئے جو خدائے برحق کی طرف سے نا زل ہوا ہے ان کے دل گداز ہو جائیں اور ان لوگوں کی طرح پڑھ پتھر نہ ہو جا ئیں جن کو ان سے پہلئ کتاب دی گئی تو ان پر ایک مدت دراز گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئےاور اب اکثر ان میں سے نا فرمان ہیں۔‘‘ اس آیات میں صاف بیان ہے کہ عصر نبوت کے بعد طوالت زمانہ کے سبب دلوں میں سختی آتی گئی حتی کے فسق تک نوبت پہنچی یعنی اعتقاد وعمل ہر دو میں خرابی واقع ہے گی امتدادزمانہ کے آخرسے طبائع میں انقلاب اور خیالات میں تغیر اور ہمتوں میں پستی ہو جا تی ہے جس سے دلوں میں ذکر آلہی میں حلادت اور ایمان میں قوت کم ہو جاتی ہے اور جوش و غیرت اسلامی فرد ہو کر دل سخت ہو جاتے ہیں ہاں اگر اثار نبوت محفوظرہیں تو عصر نبوت کا اثر با قی رہتا ہے اور اس قدر دل سخت نہیں ہوتے قرآن مجید نے یہود و نصاری کی نسبت یہی قصور ذکر کیاہے چنا نچہ یہود کی نسبت

ولقد اخذ الله ميثاق بني اسرائيل -ذکر کر کے فرمایا(فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً ۖ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ ۙ وَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا بِهِ ۚ) ''(مائدہ۔ پ6)

’’پس انہی لو گوں کے اپنے عہد تو ڑنے کی وجہ سے ہم نے ان کو پھٹکار دیا اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا کہ کتاب آلہی کے کلمات کو ان کی اصلی جگہ سے پھیرتے ہیں اور ان کو جو نصحیت کی گئی تھی اس کا بہت سا حصہ بھلا بیٹھے‘‘ اس کے بعد بھی نصاری سے عہد لینے کا ذکر کر کے ان میں بھی اس امر کی کمی بیا ن کی

(وَمِنَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ أَخَذْنَا مِيثَاقَهُمْ فَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا بِهِ)(مائدہ۔ پ6)

’’اور جو لو گ اپنے آپ کو نصاری کہتے ہیں ہم نے ان سے بھی عہد لیا تو انہوں نے اس میں سے جو ان کو نصحیت کی گئی تھی بہت سا حصہ بھلا دیا‘‘ ان دونوں آیتوں میں دو گروہ یہود نصاری ہر ایک ہی الزام قائم کیاہے کہ انہوں نے کتا ب الٰہی کو جس کی حفا ظت اور تعمیل کی ان کو تا کید کی گئی تھی ترک کر دیا جس کی وجہ سے ان پر لعنت بر سا ئی گئی اور ان کے دل سخت کر دیئے گئے جس کی انتہا یہاں تک پہنچی کہ انہوں نے کلمات الٰہیہ میں تحریف کی اور تورات و انجیل کا بہت سا حصہ جس سے ان کو تذکیر کی گئی تھی بھلا دیا اور لعنت کے سبب اس کا علم ان کے سینوں سے کھینچ لیا گیاکیونکہ جب گنا ہوں کے سبب دل سخت ہو جا تا ہے اور سختی کے سبب خدا تعالی کی طرف سے تو فیق مسا عفت نہیں کر تی تو علم کا لعدم ہو جا تا ہے اور سینے میں اس کی روشنی با قی نہیں رہتی۔

جب یہ حا لت ہو جا تی ہے تو انسان تو ہمات و منکرات و بدعات کے گرد اب میں ایساگھر جا تا ہے کہ پھر نجات مشکل ہو جاتی ہے –اللهم احفظنا وثبتنا علي آثار ونبيك۔ یہود نصا ری کے مذکو رہ بالا اقرار دحالات بیان کرنے سے پیشتر خدا تعالی نےاس امت مر حو مہ کو بھی ان کا اقرار یا د کرایا ہے

(وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ وَمِيثَاقَهُ الَّذِي وَاثَقَكُم بِهِ إِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا)(مائدہ پ 6)

’’اور یا د کرو اس انعام کو جو خدا نے تم پر کیا اور اس کے عہد و بیان کوبھی جس کا تم سے پختہ اقرار لیا جب تم نے کہا کہ ہم نے سنا اور ما نا۔‘‘

اما م فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی نسبت آیت(لَقَدْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ)(مائدہ پ۔ 6) کے ذیل میں ان کے باہمی ار تباط کے متعلق فرمایا ہے۔

انه خاطب المومنين فيما تقدم فقال (وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ وَمِيثَاقَهُ الَّذِي وَاثَقَكُم بِهِ إِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا)ثم زكر الان انه اخذ الميثاق من بني اسرايئل لكنهم نقضوا وتركوا الوفاء به فلا تكونوا ايها المومنون مثل اولئك اليهود في هذ الخلق الذميم لئلا تصيروا مثلهم فيما نزل بهم من اللعن والذلة والمسكنة (ب٦ مائده جلد سوم ص ٣٩٢)

خدا تعا لی نے اس سے قبل مو منوں سے خطا ب کیا اور فر ما یا کہ خدا کی نعمت جو تم پر کی اور اقرار تم سے پختہ کر ایا یا د کر و جو تم نے کہا ہم نے سنا اور ما نا پھر اس کے بعد اب ذ کر کیا کہ یہی اقرار بنی اسرا ئیل سے بھی لیا تھا لیکن انہوں نے اسے توڑ ڈالا اور اسے پورا کرنا ترک کر دیا تم اے مو منو اس بری عدت میں ان یہود کی طرح نہ ہو جا نا تا کہ تم پر بھی ان جیسی لعنت اور ذلت اور مسکنت نازل نہ ہو امام رازی نے ان دونوں بیانوں کے ار تباط میں جو نکتہ بیان کیا ہے قرآن مجید میں دوسرے مقا مات پر با لتصریح بھی مذکور ہے کہ اہل کتاب کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اس کو کئی مذہبوں میں تقسیم کر دیا۔ چنا نچہ آیت(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا)میں قرآن کو بالا تفاق مضبوط پکڑے رکھنے اور تفرقہ سے بچے رہنے کی تا کید کے بعد فر مایا۔

(وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَأُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ)(آل عمران۔ پ4)

’’اور ان جیسے نہ بنو جنہوں نے کھلے نشان آچکنے کے بعد تفرقہ ڈالا اور اختلاف کیا اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔‘‘

2۔ ایک اور مقام پر ان کی برائی نہایت شدت سے بیان کی اور ان کی مثل بننے سے منع فر مایا۔ ( وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿٣١﴾ مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ)(روم۔ پ21)''

’’اور شرک کرنے والوں میں سے نہ ہو جا نا جنہوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا۔‘‘

 اور وہ ٹولے ٹولے ہو گئے جو جس فرقے کے پاس ہے وہ اسی میں مگن ہے اسی طرح دوسرے مو قع پر تفر قہ و اختلاف کے الزام کی نسبت فر ما یا کے اس کا بو جھ صرف ان لو گوں پر ہے جنہوں نے ایسا کیا لیکن جو راہ راست پر قا ئم رہے ان پر اس اختلاف کا الزام کچھ بھی نہیں (إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّـهِ)(انعام پ 8)''

’’اےپیغمبرﷺ جن لو گوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور وہ کئی فرقے ہو گئے تم کو ان سے کو ئی سرو کا ر نہیں ان کا معا ملہ خدا کے سپرد ہے‘‘ امام رازینے اس آیت کے ذیل میں حضرت مجا ہد سے نقل کیاہے

 قال مجاهد ان الذين فرقو ادينهم من هذه الامة هم اهل البدع والشبهات واعلم انالمراد من الاية الحث علي ان تكون كلمة المسلمين واحدة وان لا يتفرقوا في الدين ولا يبتدعوا البدع (تفسير كبير ج٤ ص ٧٩ ب ٨ سوره انعام)

جن لو گوں نے اس میں تفرقہ ڈالا وہ اہل بد عت د ملحد ین ہیں اور جان کے اس آیت سے مراد مسلمانوں کو اس امر کی ترغیب دینی ہے کہ ان سب کی با ت ایک ہی ہو اور یہ کہوہ دین میں تفرقہ ڈالیں اور بد عتیں جاری نہ کریں ایک اور آیت میں دین کی تقسیم کرنے وا لوں پر عذاب نا زل کرنے کا ذکر کر کے اس سے ڈرایا –

( كَمَا أَنزَلْنَا عَلَى الْمُقْتَسِمِينَ الَّذِينَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِينَ حجر۔ پ 14)

’’جس طرح ہم نے ان لو گوں پر نا زل کیا جنہوں نے کتاب آلہی کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے آپس میں تقسیم کر لیا‘‘ اس آیت میں جو فرمایا کہ بعض لو گوں نے کتا ب آلہی کو تقسیم کر ڈالا اس کی کئی صورتیں ہیں ایک یہ کہ بعض احکا م کو ما نا چنا نچہ یہو دی کو فرمایا (أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ)(البقرہ۔ پ 1)

''کیا تم کتا ب کے کچھ مسائل مانتے ہو اور بعض کا انکار کر تے ہو دوسری یہ کہ بعض ان احکام الٰہیہ کو تسلیم کیا جو اپنے طریقہ اور فرقہ کے موا فق ہوں اور جو موافق نہ ہوں ان کو اس عذر سے ٹال دیا کہ دوسرے لو گوں کا مذہب ہے ہمیں اس سے سرو کا ر نہیں ہے چنا نچہ انہی یہود کے حق میں فرمایا

(وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَهُمْ )(بقرہ۔ پ1)

’’اور جب ان سے کہا جا تا ہے کہ خدا کی نا زل کر دہ وحی پر ایمان لائو تو کہتے ہیں ہم تو صرف اسی کتاب کو ما نتے ہیں جو ہم پر اتری اور اس کے علاوہ جو وحی ہے اسے نہیں مانتے حا لا نکہ وہ حق ہے جو کچھ ان کے پاس ہے‘‘ اس کی مصدق ہےاس آیت سے صافظا ہر ہے کہ یہود وما انزل اللہ کی پیروی میں اپنے اور دوسرے میں تمیز کرتے تھے حالا نکہ یہ بالکل نا درست ہے کیو نکہ جب اصولا یہ امر مسلم ہے کہ اتباع انزل اللہ کی کرنی ہے تو وہ حکم الٰہی چا ہے زید کے ہاں سے ملےچاہے بکر کے ہاں سے ملے بہر حال واجب الا تباع ہے اس میں فرقہ بندی کا دخل نہیں میں نہایت ادب سے اپنے نا ظرین کی خد مت میں گزارش کرتا ہوں کہ یہی حال امت مر حو مہ میں بھی ہو گیا ہے فرقہ بندی نے قرآن وحدیث کی بھی تقسیم کر ڈالی اصول و قواعد اجتہاد میں تو تھی ہی نصوص بھی بٹ گئے اصولا ہر کو ئی یہی کہتا ہے کہ قرآن وحدیث اصول دین ہے لیکن جب کوئی حدیث مثلا حنفیوں کے تیا ر کر دہ مسلک کے خلاف ہے اور امام شا فعی نے اس سے تمسک کیا ہے تو اسے اس عذر سے ٹا ل دیا جا تا ہے کہ اس حدیث سے اما م شا فعی نے تمسک کیا ہے ہمارے امام ابو حنفیہ نے اسے نہیں لیا اس کی مثا لیں حنفی فقہ اور اصول فقہ کی کتا بوں میں بکثرت ہیں کہ کسی امر پر امام شا فعی کے مذہب کی تا ئید میں صحیح حدیث ہے اور اس کے مقا بلہ میں امام ابو حنفیہ ہی کے قول۔ کو قول کر لیا ہے اور حدیث کو بغیر اس پر جرح کر نے کے با لکل بے کا ر چھو ڑ دیا ہے حا لا نکہ حضرت محمد ﷺکی صحیح حدیث سب کے لئے بر ا بر ہے اس میں میرے تیرے کی تمیز جا ئز نہیں دین کی حدت اسی سے قائم رہتی ہے اور فر قہ بندی اسی سے مٹتی ہے کہ ہر کو ئی اعتقاد عملا قرآن وحدیث کا پیرو ہو جا ئے اور ان کے مقا بلہ میں رائے اور قیاس کو چھوڑ دے خواہ کسی کا ہو کیو نکہ آنحضرت ﷺکے امتی ہو نے میں سب امام برا بر ہیں جیسے امام شا فعی پر آپ کی اتباع ویسی امام ابو حنیفہ پر لا زم اسی طرح قرآن شریف کے سا تھ سلو ک کیا گیا ہے کہ اگر کسی آیت کی وجہ تفسیر میں امام ابو حنیفہ اور امام شا فعی میں اختلا ف ہے تو حنفی اس میں یہ کہتے ہیں کہ ہما رے اما م نے اس آیت کی تفسیر اس طرح پر نہیں کی ہم ا مام شا فعی کے مقلد نہیں ہیں خواہ اما م شا فعی کی تفسیر موا فق مراد آلہی اور مطا بق حدیث رسول اللہ ﷺ ہی ہو بے شک یہ بہت بھا ری فتنہ ہے اور دین میں غضب کا فتور ہے کہ کسی امتی کی رائے سے آنحضرت ﷺکی حدیث کو رد کر دیا جا ئے حضرت شاہ ولی اللہ صاحب اس کے متعلق فر ما تے

فان بلغنا حديث من الرسول المعصوم الذي فرض الله علينا طاعته بسند صانع يد ل علي خلاف مذهبه وتركنا حديثه واتبعنا ذلك التخمين فمن اضلم منا وما عذر نا يوم يقوم النااس لرب العالمين (عقد الجيد مترجم ص ٤٩)

ہم کو ئی حدیث صحٰیح سند کے ساتھ رسول اللہ ﷺ سے پہنچے جس کی طا عت خدا نے ہم پر فر ض کی ہے جو کسی مقلد کے اختیار کر دہ مذہب کے خلاف ہو اور ہم اس حدیث کو ترک کر دیں اور اس ظنی قیا س کی پیروی کر یں تو ہم سے زیا دہ ظا لم کون ہوگا اور جس دن وہ سب لو گ اللہ رب العا لمین کے سا منے کھڑے ہوں گے ہمارا کیا عذر ہو گا اسی طرح دوسری آیت میں اہل کتا ب کی اس بری روش کی نسبت

(اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ)(توبہ۔ پ 10)

’’ان اہل کتا ب نے اپنے علماء و مشا ئخ خدا کے سوائے رب بنا لیا ہے‘‘ جا مع ترندی میں اس آیت کی تفسیر حضرت عدی بن حا تم 1 مروی ہے کہ میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حا ضر ہوا تو میری گردن میں سونے کی صلیب تھی تو آپ نے فر ما یا اے عدی یہ بت اتا ر پھینک اور میں نے آپ کو سورہ برات کی یہ آیت ہڑھتے سنا

اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ یعنی انہوں نے خدا کے سوا اپنے علماء مشا ئخ کو رب بنا لیا آپ نے فر ما یا یہ لو گ ان کی عبا دت نہیں کر تے تھے لیکن جب ان کے لئے کو ئی چیز حلا ل کہتے تو حلا ل مان لیتے اور اگر کہتے کہ یہ حرام ہے تو حرام جا ن لیتے۔ ((ترندی جلد دوم۔ صفحہ 136)

اس بیا ن سے وا ضح ہو گیا کہ نصوص وحی کے مقا بلہ میں امتوں کے اقول قبول کر نا اور نصوص

شر عیہ میں اپنے اور دوسرے کی تمیز کرنا یہود کی روش ہے جسے خدا تعالی نے نا پسند جا نا پس اس امت مر حو مہ کو بھی یہ روش ترک کر نی چا ہیئے اہل کتا ب میں یہ آتش اختلا ف و عدا دت جس کا بیا ن ہم کر رہے ہیں یہاں تک بھڑ کی کہ ایک دوسرے کو بے دین و کا فر اور لا مذہب کہنے لگے چنا نچہ فرما یا

(وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَىٰ عَلَىٰ شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَىٰ لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ۚ )(بقرہ پ1)

’’یہو د نصاری کو بے دین کہتے ہیں اور نصاری یہود کو بے دین کہتے ہیں حا لا نکہ وہ دونوں کتا ب آلہی پڑھتے ہیں اسی طرح وہ لو گ کہتے ہیں جن کو خدا کی طرف سے علم نہیں دیا گیا یعنی مشر کین ‘‘اس آیت کے ذیل میں امام رازی نے کہا ہے

واعلم ان هذه الواقعة بينها قدوقعت في امة محمد صلي الله عليه وسلم فان كل طائفة تكفر الاخري مع اتفاقهم علي تلاوة القرآن (جلد اول ص ٤٧٢)

کہ یہی وا قعہ بعینہ اس امت مر حو مہ میں پیش آیا ہے کہ ہر فر قہ دوسرے کو کا فر کہتا ہے باوجود یکہ وہ تلا وت قرآن پر سب منفق ہیں دوسرے مقا م پر اہل کتا ب کی اس نا گفتہ بہ حالت کے علا وہ ان کے کتا ب آلہی کو چھوڑ دینے اس کے احکام کو دنیوی طمع سے چھہا نے اور اس سے دنیا کمانے از خود مسائل بنا کر لو گوں کو ٹھگنے کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے

(وَإِذْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ)

(آل عمران۔ پ4)

’’اور جب خدا نے اہل کتا ب سے قول و قرار لیا کہ اس کتا ب کو لو گوں کے سا منے صاف صاف بیا ن کردینا اور اس کی کسی بات کو چھہا نا مت پس انہوں نے اسے ا پنی پس پشت ڈال دیا اور اس کے عوض تھوڑے سے دام حا صل کیےسو بہت برا ہے وہ جو حا صل کرتے ہیں‘‘ امام رازی اور دیگر کئی ایک مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں کہا ہے اعلم ان ظاھر هذه الاية وان كان مختصا باليهود والنصاريٰ فانه لا يبعد ايضا دخول المسلمين فيه لا نهم اهل القرآن وهوا شرف الكتب (تفسير كبير ج ٣ ص ١١٨)

1۔ اصول فقہ میں بھی اس کی تصریح ہے اگر کو ئی فیقہ ہو کر اس کا خلا ف کرتا ہے تو قصور اس کا ہےایڈیٹر)

 جا ن تو کہ اس آیت کا ظا ہر گو اہل کتا ب یہو د نصاری سے مخصو ص ہے لیکن اس میں مسلما نوں کا بھی دا خل ہو نا بعید نہیں کیو نکہ وہ بھی اہل قرآن ہیں اور وہ سب کتا بوں سے بڑھ کر شرافت والی کتا ب ہے جب سے اہل کتا ب یہود نصاریمیں بری روش پڑی تب سے بر ابر جا ری رہی حتی کہ آنحضرت ﷺکے زما ن ہدایت نشان میں بھی ان کی یہی خصلت تھی چنا نچہ فرما یا

 (وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِّنْ عِندِ اللَّـهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللَّـهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَىٰ مُلْكِ سُلَيْمَانَ ۖ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَـٰكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ)(البقرۃ۔ پ1)

’’اور جب ان کے پا س خدا کی طرف سے رسول اللہ ﷺ آیا جو اس کتا ب کا مصد ق ہے جو ان کے پا س ہے تو ان اہل کتا ب میں سے ایک فریق نے اللہ کی کتا ب تو رات کو اس طرح پیٹھ پیچھے پھنک دیا کہ گو یا وہ جا نتے ہی نہیں اور ان ڈھکو سلوں کے ہی پیچھے لگ گئے جن کو سلیمان علیہ اسلام کے عہد سلطنت میں شیا طین پڑھا کرتے تھے یہ کفر سلیمان علیہ اسلام سے نہیں ہوا بلکہ شیا طین نے کفر کیا یہود کی جو حا لت اس آیت میں مذکو ر ہے وہ اسامت مر حو مہ کے بھی بہت سے لو گوں میں پا ئی جا تی ہے کتا ب اللہ کو پس پشت ڈال دیا ہے اور بہت سے شیطانی عملوں کو دستور العمل بنا رکھا ہے خلا ف شرح تعویذات گنڈے حاضرات لقوش اور عملیات کو رواج دے رکھا ہے جو ایسا کرے ولی اللہ سمجھا جا تا ہے اور جو اس سے منع کرے اسے خشک ملا بے خبر وغیر عارف سمجھ کر ملا مت کی جا تی ہے گو یا ان کے نز دیک خدا رسی کے وسا ئل یہی باطل علوم اور خلا ف شر ح دستو ر العمل ہے۔ ‘‘

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس امر میں خا ص کتا ب لکھی ہے جس کا نام ہے الفرقان بين اولياء الرحمٰن و اولياء الشيطان

یہود نے اس کے علا وہ محض زبا نی سنی سنا ئی ہے سند با توں مو ضو ع روایتوں اور جعلی حکا یتوں اور غیر معصوم علماء کے فتا دون کو بھی دین سمجھ رکھا ہے اور غضب یہ کہ من گھڑت مسا ئل اور قیا سی ڈھکوسلوں کو خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں اور لو گوں کو ٹھگتے ہیں چنا نچہ فر ما یا

 (وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّا أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ ﴿٧٨﴾ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَـٰذَا مِنْ عِندِ اللَّـهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ)(البقرہ پ1)

’’اور بعض ان میں ان پڑھ ہیں جو سوائے سنی سنائی وہمی با توں کے کتا ب آلہی کو ہر گز نہیں جا نتے اور وہ فقط خیالی تکے چلایا کرتے ہیں پس افسوس ہے ان لو گوں پر جو کتا ب تو اپنے ہا تھ سے لکھیں اور پھر کہیں کہ یہ تو خدا کے پا س سے ہے تا کہ اس کے ذریعہ تھوڑے سے دا م یعنی دنیوی فا ئدے حا صل کریں پس افسوس ہے ان پر اس سے کہ وہ کما تے ہیں‘‘ یعنی اول تو وہ افتراہے پھر ٹھگ با زی کہ اس سے دنیا کمائی اس آیت میں دو طرح کے لو گوں کا بیا ن ہے ایک وہ جا مسائل بنا تے تھے اور دوسرےوہ جو ان کو تسلیم کر لیتے تھے پہلا گروہ تو علما ء کا ہے اور دوسرا ان کے مقلدوں اور مریدوں کا اسی طرح امت مر حو مہ میں بہت ایسے ہیں جو قرآن و حدیث کچھ نہیں جا نتے صرف سنی سنا ئی بے سند با توں مو ضوع روا یتوں کی پیر وی کر تے ہیں اور بہت ایسے ہیں جو قیا سی فتوں اور من گھڑت مسائل کو شر یعت محمدی کہہ کر لو گوں کے مال ٹھگتے ہیں یہود کے اس گرو ہ کی نسبت دوسری آیت میں فرمایا

(فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَرِثُوا الْكِتَابَ يَأْخُذُونَ عَرَضَ هَـٰذَا الْأَدْنَىٰ وَيَقُولُونَ سَيُغْفَرُ لَنَا وَإِن يَأْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهُ يَأْخُذُوهُ ۚ أَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِم مِّيثَاقُ الْكِتَابِ أَن لَّا يَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ إِلَّا الْحَقَّ وَدَرَسُوا مَا فِيهِ)(اعراف۔ پ۔ 9)

’’پھر ان کے بعد ان کے جا نشین ایسے نا خلف ہوئے کہ وہ کتاب آلہی کے وارث تو بنے لیکن اس سے اس دنیائے دوں کو کمانے لگے اور اس پر بھی کہتے ہیں کہ یہ امر ہم کو ضرور معا ف ہو جا ئے گا اور اگر اسی طرح کی کو ئی دنیوی چیز اب ان کے سا منے آجا ئے تو اسے بھی لے کر رہیں کیا ان لو گوں سے کتا ب آلہی کا عہد نہیں لیا گیا کہ حق با ت کے سوائے دوسری با ت خدا کی طرف منسوب نہ کر یں گے اور جو کچھ اس کتا ب میں ہے وہ انہوں نے پڑھ لیا ہے پھر بھی با ز نہیں آتے۔‘‘

ان آیتوں سے صاف ثا بت ہے کہ اہل کتا ب کے علما ء نے جو قرون اولی کے بعد وار ث کتا ب ہوئے کتاب آلہی کو وجہ معا ش بنا لیا تھا جھوٹے مسئلے بنا کر اور خدا تعالی کے ذمہ لگا کر دنیا کما نے لگے تھے اور اس پر طرہ یہ پھر نجا ت و بخشش کے سب سے پہلے امیدو ار اسی طرح اس امت مرحومہ میں بھی ایسے علماء بہت ہیں جو کتا ب آلہی کو وجہ معاش بناتے ہیں۔ اور لو گوں کو یہ سنا تے ہیں کہ امت مر حو مہ کو خدا بخش دے گا آنحضرت ﷺسفارش کر کے سب کو چھڑا لیں گے اور یہ وہم لو گوں کی طبعیتوں میں ایسا را سخ ہو گیا ہے کہ اب اس کا نکلنا اور عمل اور اعتقادمیں موا فقت قرآن حدیث کا سمجھ میں آنا ایک عظیم امرہے یہود نصاری میں ان قیا سی فتا دوں کے علاوہ بڑی آفت تو یہ بر پا ہو ئی جس نے دین کو جڑھ سے کھو کھلا کر دیا اور لو گوں کو اتواع و اقسام کے تو ہمات میں مبتلا کر دیا کہ ایک طا ئفہ ر ہبا نیت کے لبا س میں خدا رسی کا طلب ہوا

دنیا کو ترک کر کے تجرد و گو شہ نشینی اختیار کی اور فقیر و درویش بن گئے بعض نے تو اسے حکم خدا جان کر عین دین سمجھا اور بعض نے جب دیکھا کہ لو گ فقرا کے بہت معتقد ہو تے ہیں اور ان کے ساتھ ان کی عقیدت بہ نسبت ظا ہر ی علما ء کے زیادہ را سخ ہو تی ہے اور ما ل و جان سے ان کے ہا تھ پر بیعت کر تے ہیں تو انہوں نے اسی بھیس میں دنیا کما ئی شروع کر دی۔

خا نقاہوں پر چلے کھنچ کر اور لباس دوضعاور گفتار و رفتار میں تکلف کر کے رہبا ن دورویش و صوفی بن بیٹھے چنا نچہ ان لو گوں کی با بت جنہوں نے رہبا نیت یعنی طریق درویشی کو دین سمجھ کر اختیا ر کیا تھا فر ما یا

(وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّـهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا )(حدید پ27)

’’اور دنیا کو چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے خود ایجاد کیا تھامگر انہوں نے اسی خدا ہی کی خوشنودی حا صل کرنے کے لئے ایجا د کیا تھا لیکن جیسا حق تھا ویسا بنا نہ سکے‘‘ اس آیت میں لفظ رهبانيه علي شريطة التفسير منصوب ہے۔ اور ما کتنبا علیھم جملہ مستانفہ ہے۔ اور الا بتغاء رضوان اللہ میں استثناء منقطع ہے متصل نہیں اور جنہوں نے استثناء متصل سمجھا ہے بیضادی نے ان پر اعتراض کیا ہے کہ یہ قول الٰہی ابتدعوھا کے خلاف ہے یعنی رہبانیت کے ایجاد کو خدا وند تعالی نے فقرا نصاری کی طرف منسوب کیا ہے نہ کہ اپنی طرف پس اس استثناء کو متصل کہنادرست نہیں چنا نچہ تفسیرجا مع البیا ن میں اس کی تفسیر یوں لکھی ہے اور یہی درست ہے اس کے خلاف ہر گز درست نہیں۔

ورهبانييه ابتدعوها منصوبة علي شريطة التفسير اي ابتدعوا رهبانية يعني جاء وابالريا ضة الشاقة والا نقطاع عن الناس من عنده انفسهم ما كتنبا ها علهيم ما مرنا هم بها الا ابتغاء رضوان الله لكنهم ابتدعوها ابتغاء رضوان الله تعاليٰ فمارعوها حق رعايتها ذم بوجهين الا بتداع في دين الله تعاليٰ وعدم القيام بما التزموا ممازعوا انه قربه(ب٢٧ جامع)

لفظ رہبانیت علی شر یط التفسیر منصوب ہے یعنی انہوں نے رہبا نیت کو ایجاد کیا یعنی انہوں نے مشکل ریا ضتوں کا کرنااور لو گوں سے الگ تھلگ رہنا ازخود مقرر کر لیا تھا ہم نے ان کو اس کا امر نہیں کیا تھا لیکن انہوں نے اسے خود اپنی طرف سے خدا کو را ضی کرنے کے لئے بنا لیا مگر اس کی رعایت جیسی کو چا ہیے تھی نہ کی اس میں اس کی دو طرح سے مذمت ہے اول تو خدا کے دین میں بد عت جا ری کرنی پھر اس پر قائم نہ رہنا جیسے خدا کے قرب کا سبب جان کر اپنے اوپر لازم کر دانا تھا تفسیر کشف میں بھی اس کی تر کیب اور تفسیر اسی طرح لکھی ہے اس آیت سے صاف معلوم ہوگیا کہ بدعت وہ شئے ہے جس کا خدا تعالی نے کسی نبی بر حق کے ذریعے حکم نہ کیا اور کو ئی شخص اس کو از خود یا کسی غیر نبی کے قول سے دین بنا بیٹھے حدیث شریف میں بھی اسی طرح واردہے چنا نچہ مشکوۃ باب الا عتصام با لکتا ب وا لسنت ہمیں صحیح بخاری وصحیح مسلم سے بروایت حضرت عا ئشہ نقل کیا ہے کہ آنحضرتﷺنے فرما یا

من احدث في امرنا هذا ما ليس منه فهو رد (ص ١٩)

’’جس شخص نے ہمارے اس امر دین میں ایسی بات نکا لی جو اس سے نہیں ہے تو اس کی وہ با ت مردود ہے‘‘ حاشیہ پر ملا علی قادری کی شرح سے نقل کیاہے

فهو رد اي الذي احدثه مردود عليه والمعني ان من احدث في الاسلام امرا لم يكن له من الكتاب والسنة سند ظاهر او خفي ملفوظ او مستنبط فهومردود عليه اقول في وصف هذا الامر ا غير مرضي (مرقاة)

’’کہ جس نے کو ئی بدعت نکالی وہ بدعت اسی کے منہ پر ما ری جا ئے گی یعنی جس نے اسلام میں محض رائےسے ایسی با ت نکا لی جس کی کتا ب و سنت میں نہ کوئی ظاہری سند ہے اور نہ محفی ملفوظ اور نہ مستنبط تو وہ اسی پر رد کی جا ئے گی‘‘ ملا علی قا دری فر ما تے ہیں میں کہتا ہوں۔ اس امر دین کو ھذ کے لفظ سے تعبیر کرنے میں اس بات کی طرف ہے کہ اسلام تو مکملو مشتہرہو چکا ہے اب جو کو ئی اس میں زیا دتی کرے گا نا پسندیدہ امر کا مر تکب ہو گااس بیان سے معلوم ہو گیاکہ کسی کو بھی کو ئی حق نہیں کہ امت پر امر دین میں کسی ایسے امر کا بو جھ ڈالے جس کا بو جھ اللہ تعالی نے اپنے رسول اللہ ﷺ کی زبا نینہیں ڈالا پس نصای میں یہ رہبا نیت از خود جا ر ی ہو ئی تھی جس خدا نے پسند نہیں کیا اس آیت میں رہبا نیت کو نگا ہ نہ رکھنے کا جو ذکرہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جو سختیاں اور ریا ضتیں انہوں نے اپنے اوپر لا زم کر لی تھیں وہان کو نبھا نہ سکے اس میں نہایت با ریک اشارہ ہے کہ اگر وہ مشقتیں جمہور الناس کےلئے قا بل بردا شت ہو تیں تو اللہ تعالی ان کو خود دین بنا تا لیکن اللہ تعالی نے اسی لئے ان کو دین میں دا خل نہیں کیا کہ وہ عوام کے حق میں نا قا بل برداشت تھیں اسی معنی میں آنحضرتﷺنے فرمایا ہے

لن يشاء والدين احد الاغلبه (بخاري)

’’جو کوئی دین کو قا بو کر نا چا ہے گا دین ہی اس پر قا بو پا ئے گا‘‘ دوسرا گروہ درویشی رہبا نیت کے بھیسں میں دنیا کما تا تھا اس کی اور نان کے علما ء ظا ہر ہر دو کی با بت فر ما یا

(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ )(توبہ۔ 10)

’’مسلمانو! اہل کتا ب کے اکثر علماء و مشا ئخ لو گوں کے ما ل نا حق کھا تے ہیں اور لو گوں کو راہ خدا تو حید سے رو کتے ہیں‘‘ اسی طرح دوسری آت میں ان کے علماء واعظین کی نسبت فرمایا (وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقًا يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُم بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّـهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِندِ اللَّـهِ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ)(آل عمران۔ پ 3)

’’اور ان میں سے ایک گروہ ایسا بھی ہے جو کتا ب و آلہی پڑہتے وقت اپنی زبا نوں کو مر ڈرتے ہیں تا کہ تم سمجھو کہ وہ جو پڑہتے ہیں کتاب آلہی کا جزوہے حالانکہ وہ کتاب آلہی کا جش نہیں ہے اور کہتے ہیں کہ ہم جو پڑ ہتے ہیں وہ اللہ کے ہاں سے اترا ہے حا لانکہ وہ اللہ کے ہاں سے نہیں اترا اور جا ن بو جھ کر اللہ تعالی پر جھوٹ بو لتے ہیں‘‘ خاکسار کہتا ہے کہ امت مر حو مہ بھی کئی لو گوں نے ایسے طریق درویشی اختیار کر ر کھے ہیں جن کی خدا ذوالجلال نے اپنے رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ اجا ز ت نہیں دی اور وہ ان میں خدا رسی کا گمان رکھتے ہیں اور جو کوئی اس طریق پر عمل نہ کرے اسے درویش صوفی نہیں جا نتے صرف ظاہر میں خشک ملا جا نتے ہیں اور نیز بہت سے متصوف ہیں جو درویشی کے رنگ میں خلق خدا کو ٹھگتے ہیں اور ما ل کما تے ہیں اور بہت سے مو لوی اور واعظ ایسے ہیں جو صرف قصہ کہانی اور مو ضوع روایتیں ذکر کر کے عوام النا س کو پر چا لیتے ہیں اور ان سے دنیا حاصل کرتے ہیں۔ (حفظنا اللہ منھم آمین۔ 18 تا 25 رمضان 1221ہجری)

نمبر اول میں مذکور ہو چکا ہے کہ جن اسباب سے اہل کتا ب یہود نصاری میں اختلاف چھوٹا وہ اسبا ب اس امت مر حو مہ میں بھی مدت سے مو جو د ہو چکے ہیں۔

اور جو نتیجہ اختلاف اہل کتا ب کے حق میں نکلا تھا مسلما ن بھی مد توں سے اس کا خمیازہ اٹھا رہے ہیں اور جو الزام کتا ب الٰہی کو پس پشت ڈالنے اور اس کے سوا دیگر جعلی کتا بوں کی پیروی کرنے کا اہل کتا ب پر عا ئد ہوا تھا مسلمان بھی مدتوں سے اس الزا م کو اپنے سر لے چکے ہیں اب اس کے متعلق میں چند احا یث ذکر کر نا چا ہتا ہوں جن میں آنحضرت ﷺنے اس افسوسناک حلت کی خبر دی ہے۔

 عن زياد بن لبيد قال زكر النبي صلي الله عليه وسلم شيئا فقال ذالك عند اوان ذهاب العلم قلت يارسول الله صلي الله عليه وسلم وكيف يذهب العلم ونحن نقرا القرآن ونقرئوه ابناء ويقرءه ابنا ء نا ابناءهم الي يوم القيامة فقال ثكلتك امك يا زياد ان كنت لاراك من انقه رجل بالمدينة اوليس هذا اليهود ولانصاريٰ يقرئون التوراة والا انجيل ثم لا يعلمون بشي مما فيهما (رواه احمد ابن ماجه وردي الترمذي عنه نحوه وكذا الدارمي عن ابي امامة)

مشکواۃ امام احمد وغیرہ سے بروایت زیاد بن لبید صحا بی نقل کیا ہے کہ ’’ایک دفعہ آنحضرت ﷺنے سلسلی ذکر فر ما یا کہ یہ با ت علم گم ہو جا نے کی وقت ہو گی اس پر زیا د بن لبید نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺعلم دین کس طرح گم ہو جا ئے گا حا لا نکہ ہم خود قرآن پڑہتے ہیں اور اپنے بیٹوں کو پڑ ھا تے ہیں اور وہ اپنے بیٹوں کو پڑھا یئں گے اسی طرح یہ سلسلہ قیا مت تک جا ری رہے گا آپ نے فرما یا اے زیا داتیری ماں تجھ کو روئے میں تجھے مدینہ میں بہت سمجھ دار شخص خیا ل کر تا تھا کیا یہ بات نہیں ہے کہ یہ یہود نصاری تو رات و انجیل پڑہتے ہیں پھر جو کچھ ان میں لکھا ہے اس پر عمل نہیں کر تے‘‘ نیز مشکو رۃ میں بروایت امام تر ندی وغیر ہ ہے

عن عبد الله بن عمر قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لياتين علي امتي كما اتي علي بني اسرائيل حزو النعل بالنعل حتي ان كان منهم من اتي امه علانية لكان في امتي من يصنع ذلك وان بني اسرائيل تفرقت علي ثنتين وسبعين ملة ورتفترق امتي علي ثلث وسبعين ملة كلهم في النار الاملة واحدة قالوا من هي يا رسول الله قال ما انا عليه واصحابي (رواه ترمذي)

 ’’حضرت عبداللہ بن عمر و بن العا ص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتﷺنے فر مایا میری امت پر بھی وہ کیفیت آئے گی جو نبی اسرایئل پر آئی ٹھیک اسی طرح جیسے ایک پا ؤں جوتی کا دوسرے پاؤ کے مطا بق ہو تا ہے حتی کہ اگر فرضا ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے علا نیہ زنا کیا ہے تو میری امت میں بھی کو ئی ہو گا جو ایسا کرے گا اور بنی اسرا یئل تو پھوٹ کر بہتر فرقےہو گئے تھے میری امت تہتر فرقے ہو جائے گی وہ سب سوا ئے ایک کے دوزح میں جا یئں گے لو گوں نے دریا فت کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ وہ ایک فر قہ کو نسا ہے آپ نے فرما یا جس طریق پر میں ہوں اور میرے اصحاب ہیں جو اس پر ہو گا‘‘ یہ حدیث جس میں مسلما نوں کے کثیر فرقے ہو نے کی خبر ہے امام تر ندی کے علا وہ امام ابو دئو د امام احمد اور امام ابن ماجہ نے بھی روایت کی ہے گو بعض محدثین نے اس پر من حیث الروایت کچھ کلا م کیا ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ اسلام میں اختلا ف و تقسیم و تفریق امت کی پیش گو ئی آنحضرت ﷺسے دیگر احا د یث صحیحین سے بھی ثا بت ہے اگر چہ ان فرقوں کی تعدادکا ذکر نہیں ہے پس ہم نے اس روایت کو محض اسی خیا ل سے اپنے مضمون کی تا ئید میں ذکر کیا ہے

قد جعل الله لكل شئ قدرا

چنا نچہ اختلاف و تفر یق صحیح مسلم کی حدیث سے صاف ظا ہر ہے کہ آنحضرتﷺنے فر ما یا

عن جابر بن عبد الله قال سمعت النبي صلي الله عليه وسلم يقول لاتزال طائفه من امتي يقاتلون علي الحق ظاهرين الي يوم القيمة (جل اول ص ٨٧)وفي لفظه عن ثوبان لا يضرهم من خز لهم حتي ياتي وعد الله وهم كذلك (فتح الباري باره ٢٩٥ ص ٦٧١)

’’میری امت میں سے ایک گرو ہمیشہ رہے گا جو حق پر ہو کر مقا بلہ کر تا رہے گا اور قیا مت تک غا لب رہے گا‘‘ اور صحیح کی دوسری روایت میں ہے کہ جو کوئی اس گروہ کا ساتھ چھوڑ دے گا وہ ان کو ضرر نہیں پہنچا سکے گا حتی کہ خدا کا وعدہ قیامت آجائے گی اور وہ اسی حا لت منصورہ پر ہوں گےاس حدیث کو امام بخا ری نے بھی اپنی صحیح کتا ب الاعتصام میں روایت کی ہے صحیح مسلم کی دوسری روایت میں

لا يضر هم من خذ لهم

سے صاف معلو م ہو تا ہے کہ اس فرقہ حقہ منصورہ کے مقا بلہ میں اور فر قے بھی ہوں گے بس مشکو ۃ کی حدیث میں اسی امر کی تو ضیح ہے با قی رہا مشکو ۃ کی حدیث کا دوسرا ٹکڑہ کہ میری عا م امت کی حا لت بنی اسرایئل کی سی ہو جا ئے گی سو یہ بھی صحیح بخاری کی حدیث میں مصرح ہے کہ

عن ابي هريرة عن النبي صلي الله عليه وسلم قال لا تقوم الساعة حتي ناخذ امتي باخذ القرون قبلها شبر بشبر وزراعا بذراع فقيل يا رسول الله كفارس والروم قال ومن الناس الا اولئك (کتاب الاعتصام 674۔ پ29 طبع جدید دھلی ص 1088)

’’آنحضرتﷺنے فر ما یا قیامت قا ئم نہ ہو گی حتی کہ میری امت اپنے سے پہلے زمانوں کی چا ل اختیار نہ کر لے با لشت ببا لشت اور دست بدعت صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺفار سیوں اور رومیوں کی طرح آپ نے فر ما یا ان کے سوا ئےاور کون یعنی ان کی طرح ہو جا یئں گے‘‘ پس مشکوۃ والی حد یث کا مضمو ن صحیح ہےاوروہ صحیحین –کی حدیث کی تا ئید میں بیا ن ہو سکتی ہے

قد جعل الله لكل شئ قدرا

ہاں مشکو ۃ کی حدیث میں فر قہ نا جیہ کی نسبت جو فر ما یا ہے کہ اس سے وہ فر قہ مراد ہے جو میری سنت اور میرے صحابہ کی روش پر قا ئم ہو گا اسی کی نسبت صحیحین کی حدیث—لاتزال طائفة من امتي

-وارد ہے اور وہ وہی ہے جو سنت صحیح پر قائم ہے اور جس کے عقاید و اعمال اصول و فروغ کی بنا محض وحی ربا نی پر ہے اور رائے و قیاس کی کدوکا وش سے سا لم ہے فتح البا ری میں حا فظ حجرنے اور عمدۃ القاری میں علامہ عینی حنفی نے امام تر ندی سے بروایت امام بخاری نقل کیا کہ امام علی بن مدنیی کہتے تھے کہ مراد اس طائفہ سے اہلحدیث ہیں نیز حا فظ ابن حجرنے امام احمد سے بسید صحیح بروایت حاکم نقل کیا ہے سکہ آپ فر ماتے تھے کہ اگر یہ فرقہ اہلحدیث نہیں تو میں نہیں جا نتا پھر کو نساہے یعنی ضروریہی لو گ مراد ہیں اور ان کے سوا اور کوئی نہیں مشکوۃ کی حدیث مذکو رہ با لا میں بعض محدثین نے ازروئے ورایت یہ اشکال بیان کیا ہے کہ آنحضرتﷺنے اپنی بہت سی امت کے داخل جنت ہونے کیابشارت سنائی ہے اور اس روایت کی ردسے بہت تھوڑی امت کے داخل ہو نے کا پتہ لگتا ہے اور ان میں مطا بقت مشکل ہے گو کتب شروح حدیث میں اشکال کے بہت سے جوابا ت درج ہیں لیکن لگتے ہا تھ ہم بھی ایک جوا ب ذکر کر دیتے ہیں کہ اصل دین تو وہی ہے جو آنحضرتﷺ سے پہنچے اور صحابہ اس کے پہنچنے کا وا سطہ ہیں

پس جو فرقہ اپنے جس امر مخصوص میں طریق نبوی سے جو ہم کو بواسطہ صحابہ کرام معلوم ہو چکا ہے متفرق وجدا ہوا ہے وہ اس میں سراسر غلطی و خطا پر ہے اور وہ غلطی و خطا علی حسب مراتب مو جب سزا ہے پس اس سے تمام اشکال وتردوات رفع ہو جا تے ہیں اور تین حد یث میں کو ئی قدح نہیں رہتی بلکہ جو وجہ ہم نے بیان کی خود تین حدیث ماانا وعليه واصحابي سے ما خو ذ ہے اوراس وقت یہی امر ہمارا نصب العین ہےخير الهدي هدي محمد وشر الامور محدثاتها

ہو تے ہوئے مصطفے کی گفتار۔     مت دیکھ کسی قول و کر دار

اس تہمید کے بعد کسی فرقہ کی قدامت وجدت کا سوال بخوبی حل ہو جا ئے گا اول تو حدیث مشکوۃ کی ردسے ہر فر قہ اپنے مخصوص مسا ئیل کو جن کے سبب وہ دوسروں سے ممتاز و الگ گنا جا تا ہے کتا ب و سنت کے نصوص پر پر کھے اور اپنے مخصؤص طرز طریقے اور رائے د قیا س سے کا م نہ لے بلکہ نصوص شر عیہ کو امام بنا کر ان کی پیروی کرے اور ان میں سے اپنے یا کسی دیگر فرقے کی موا فقت یا مخا لفت کا لحا ظ نہ کرے پھر خدا کے فضل سے اس کو روز روشن کی طرح حق و با طل میں تمیز ہو جا ئے گی اور وا ضح ہو جا ئے گا کہ

اهل الحديث هم اهل النبي وان      لم يصحبوا نفسه انفاسه صحبوا

یعنی اہل حدیث ہی آنحضرت ﷺ کے اہل ہیں اگرچہ انہوں نے آپ کی ذات با برکا ت کی صحبت نہیں پا ئی لیکن ان کو آپ کے انفاس طیبہ یعنی احادیث مطہرہ کی صحبت تو حا صل ہے یعنی شب دروز احا دیث نبویہ ان کے دروز با ن اور دستور العمل ہیں اس اجمالی اور مختصر طریق کے بعد ہم ایک د یگر تفصیلی طریق فیصلہ بھی لکھتے ہیں جو دلا ئل عقیلہ و نقیلہ ہر دوسے ممزوج ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی فرقہ کی جدت و قدامت معلوم کرنے کے لئے تین امروں پر نظر کر نی ضروری ہےاول اس فرقہ کے منسوب الیہ کو دیکھیں کہ ان کا وجود کب ہوا یعنی اس امر کی تحقیقا ت کریں کہ یہ فرقہ جس کی طرف منسوب ہے وہ کب وجود پذیر ہوا عام اس سے کہ وہ منسوب الیہ کوئی خا ص شخص ہو یا کچھ اور کیو نکہ ضرورہے کہ ہر منسوب اپنے منسو ب الیہ سےبعد مو جو د ہو یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ کو ئی نسبت منسو ب الیہ کےوجود سے پیشتر قائم ہو جا ئے کیو نکہ نسبت ایک وصف ہےاور منسو ب الیہ مو صوف ہے اور کسی وصف کا قیام بغیر مو صو ف کے نہیں ہو سکتا۔

منسوب الیہ خواہ کو ئی خا ص شخص ہو کو ئی مقام خواہ فن خواہ قوم مثلا نبی آدم حضرت آدم علیہ اسلا م کی طرف منسوب ہو کر آدمی کہلاتے ہیں تو ان کا وجود حضرت آدم علیہ اسلام سے پیشتر نہیں ہو سکتا اسی طرح حنفی در صورت امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب ہو نے کے آپ کے وجود با وجود سے پیشتر بلکہ آپ کے در جہ اجتہاد وامامت پر پہنچنے یا آپ کے ساتھ نسبت امامت و مقلدیت قائم کرنے سے پیشتر حنفی نہیں کہلا سکتے اور نہ اس معنی میں امام صاحب محدوح سے پیشتر حنیفت کا وجود متصور ہو سکتا ہے اور نہ تھا اسی طرح اہلحیث جو سب نسبتوں سے قطع کر کے آنحضرتﷺ کی حدیث پاک کی طرف ہیں ان کی قدامت و جد ت کے لئے حدیث نبوی کی طرف نظر کی جا ئے گی کہ اس کی ابتدا کب سے ہے جس کی بنا پر وہ فخر یہ کہتے ہیں

کسی کا ہو رہے کو ئی نبی کے ہو رہیں گے ہم۔

اس میں تو کسی کا کلا م نہیں کہ علم حد یث آنحضرتﷺ کے اقوال وافعال و تقاریر کا مجموعہ ہے اور وہ آنحضرت ﷺ کے زما ن بر کت نشان ہی میں ہو سکتے ہیں لہذا وہ اگر اہل حدیث بھی آنحضرت ﷺکے عہد سعا دت مہدسے ہے اور اس میں بھی کسی کالام نہیں کہ آنحضرتﷺ کی مو جو دگی میں صرف کتاب اللہ اور آپ کے بیا ن کی پیروی تھی نہ تو کسی کی رائے اور قیا س پر عمل تھا اور نہ کسی کے قیا سی اصول پر شر عیات کی بنا رکھی جا تی تھی اور منصب رسا لت کی نظر سے خود معلوم ہو سکتا ہے کہ آنحضرتﷺ کی مو جودگی میں آپ کے سوائے کو ئی قابل اتباع ہو ہی نہیں سکتااب قرآن مجید تو وہی ہے اور سب فرقوں میں یکساں مسلم ہے لیکن آنحضرتﷺکی ذات با برکت کی بجائے آپ کا وہی بیان جو آپ نے صحا بہ کو سکھایا تھا کتب حد یث مندرج ہے اور ہمارا دستور العمل ہے یہی وجہ ہے کہ ہم اہلحدیث با لتخصیص حدیث نبوی کو اپنا منسوب الیہ قرار دیتے ہیں کیونکہ اسی کے متعلق بعد کےزمانوں میں کئی قسم کے کلام کئے گئے جسے ہم ان شا اللہ علم اصول کے وضع کئے جا نے اس کی غرض و غا ئت اور اس کی حا لت مو جو دہ اور اس کے اثر کے بیا ن میں ذکر کريں گے وان اريد الا الاصلاح ما استطعت وما توفيقي الا بالله-اہل حدیث کے سوائے جس قدر فرقے ہیں چو نکہ ان کے منسوب الیہ امام آنحضرت ﷺسے پیچھے ہوئے پس وہ فرقے بھی جدید ہیں اور حقیقت میں اپنے لو گوں نے فرقہ بندی کی اور ایک امت کو کئی فرقوں میں تقسیم کر دیا -( فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ زُبُرًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ)

تنبیہ۔

چو نکہ علم حدیث کی تدوین پیچھے ہو ئی یعنی آنحضرت ﷺ کے اقوال و افعال کے دفتر کتابی صورت میں بعد میں ضبط کئے گئے اس لئے بعض لوگ یہ شبہ کر تے ہیں کہ اہلحدیث۔ بھی آنحضرت ﷺکے بعد ہوئے اور نیز یہ کہ حدیث نبوی کی پیروی بھی بعد میں کی جا نے لگی یہ لو گ نکتہ رسی سے کو سوں دور ہیں اور یہ با ت ان کے زیغ کی علا مت اور حدیث پا ک سے بد ظنی کی نشا نی ہے کیو نکہ کسی علم کا کتا بی شکل میں مدون ہو نا امر دیگر ہے اور اس کا رائج د مستعمل ہونا امر د یگر پس اگرچہ علم حدیث کتا بی صورت میں آنحضرت ﷺکے بعد آیا کیو نکہ آنحضرت ﷺکی موجودگی میں اس کی کتا بت کی ضرورت نہیں تھی لیکن اس کا استعما ل اور اس پر عمل در آمداوراس کا واجب الا تباع ہو نا زما نہ نبوت اور عصر صحا بہمیں برابر تھا جس سے کسی کو انکار نہیں مثلا نماز وغیرہ عبادات و معا ملا ت کے احکام جو کتب حدیث میں مروی ہیں عصر نبوت و عہد صحابہ میں برا بر مستعمل تھےاور اسی عمل در آمد کو رواتہ مع اسناد مد ون کیا تو کتا ب نئی ہو ئی نہ کہ وہ علم و عمل پس یہ شبہ بالکل وا ہی ہے

امر دوم۔

جس پر کسی فرقے کی قدا مت و جد ت کے متعلق نظر ضروری ہے یہ ہے کہ اس فرقہ کے اصول کو دیکھا جائے کہ آیا یہ اصول صاحب شرع کے اپنے مقرر کر دہ ہیں یا اس کے بعد کسی دیگر نے ان سب کو ان میں سے بعض کو وضع کیا ہے اس امر پر نظر کرنے کا فا ئدہ یہ ہو گا کہ جس فرقہ کے اصول صاحب شرع محمد رسول اللہ ﷺ کے مقرر کر دہ ہوں گے اس کو آپ سے خاص نسبت اور حقیقی تعلق ہو گا اور جس فرقہ کے تمام یا بعض اصول مخزع ہوں گے وہ فرقہ ازروئے ایک خاص فرقہ ہونے کے اصل بانی شر یعت پیغمبر بر حق کی طرف حقیقتہ منسوب نہیں ہو سکے گا بلکہ اس کی نسبت اس کی طرف صحیح ہو گی جس نے اس کے اصول مخترعہ وضع کئے چنا نچہ جمیہ اس نام سے اس لئے پکارا گیا کہ ان کے مسا ئل مخصو صہ ان کے امام جہیم بن صفوان کے اختراع کردہ یہ فرقہ آنحضڑت ﷺسے قر یبا سوا سو سال بعد نکلا اور صفات باری عزاسمہ اور مسئلہ قدرو جبر کی مخصو ص کفیت ان کے ہاں مسلم ہے وہ نہ تو زمانہ نبوت میں تعلیم کی گئی تھی اور نہ عصر صحابہ میں کو ئی اس کا قا ئل تھا پس چو نکہ اہلحد یث کا اصل اصول یہ ہے۔

اصل دین آمد کلام اللہ معظم داشتن            پس حدیث مصطفے بر جان مسلم داشتن

اور اصول اپنی ذاتی شہادت سے بغیر کسی خارجی دلیل کی احنیاج کے ظاہر کر رہا ہے کہ میں اپنے نبی محمد ﷺ کے زما نہ سے ہوں اس لئے اہلحدیث کی ابتدا بھی جو اس اصول کے پا بند ہیں آنحضرت ﷺ سے ہے اسی بنا پر وہ ہاں صرف وہی علی رئوس الاشہاد کہتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا کو ئی عقیدہ اور کو ئی طرق عمل اور کو ئی طریق عبادت ایسا نہیں جو آنحضرتﷺ کا فرما یا ہوا سکھایا ہوا عصر صحابہ میں اس پر عمل نہ ہو تا اور سب مراتب کے بعد ہی کہ ہمارا ظا ہر و با طن بالکل قرآن و حدیث کے مطا بق و موا فق ہے اور اس میں سر ہو کسی نوع کا مخالف نہیں ہمارے کسی عقیدے اور کسی عمل میں کو ئی ایسی کجی نہیں جو قرآن شریف کی کسی نص یا حدیث نبوی کے کسی بیا ن یا ہر دو کے استبناط صحیح سے ذرہ بھر بھی مخالف ہو ہمارے جمیع مسلمات اعتقاد یہ وعملیہ اصولیہ و فردعیہ ہمارے نزدیک اس صورت میں تسلیم کئے جاتے ہیں جس صورت میں صحابہ میں تسلیم کئے جا تے تھے اور آنحضرت ﷺنے تعلیم کئے گئے تھے یا کم از کم درصورت نص مو جود نہ ہو نے کے قرآن حدیث سے صحیح طور پر مستنبط ہیں محض قیاس ورائے نہیں ہیں

الحمد لله الذي هدانا لهذا وما كنا لنهتدي لو لا ان هدانا الله لقد جاءت رسل ربنا بالحق

اس امر میں شا ید ہمارے مقا بلے میں ہمارے علا قائی بھا ئی حنفی بھی شراکت کا دعوی کریں گے اس لئے ہم نے اپنی عبا رت مذکو ر میں مخالفت نصوص کا نہ ہو نا با لخصوص ذکر کیا ہے جو ہم ان کے بہت سے اصول اجتہاد و جزئیات فقہیہ میں اس وقت ظا ہر کر یں گے جب بحو لہ وقو تہ علم اصول کی بحث پر آئیں گے۔

تیسرا امر

جس پر کسی فرقہ کی جدت و قدامت معلوم کر نے کے لئے نظر ضروری ہے یہ ہے کہ تا ریخی طور پر اس فرقہ کے اصول پر نظر کی جائے کہ ان پر عملدر آمد کب شروع ہو ا آیا با نی شرح کے وقت میں اور اس کے بعد صدراول میں ان اصول متنازعہ پر عملدر آمد تھا یا نہیں۔ یہ اس لئے ہے کہ ہو سکتا ہے کہ کو ئی فرقہ قرآن و حدیث میں کھینچ تا ن کر کے اور اپنے خود سا ختہ مقد مات واصول قیاس واجتہاد قائم کر کے اپنے اصول کو پرانا قرار دے لے لیکن دیکھنا یہی ہے کہ جس صورت میں اصول و مسا ئل ہمارے سا منے پیش کیے جا تے ہیں آیا اس صورت نے اس سے قبل عہد نبوت و عصر صحابہ میں بھی عملی شکل اختیار کی تھی کیو نکہ اسلام عملی مذہب ہے اور اس کا علم بھی عمل سے متعلق ہے محض ذہنی امر نہیں ہے اور آنحضرتﷺ اسلام کے آخری دور کے آ خری نبی ہیں اور صحابی آپ سے علم و عمل حاصل کر نے وا لے اگر تا ر یخی طور پر ثابت ہو جا ئے کہ یہی پیش افتادہ صورت زما ن بر کت نشا ن میں مسلم تھی تو اس فرقے کے قد یم ہو نے میں اور اپنے صاحب شرح نبی کے وقت سے ہو نے میں کو یہ کلا م نہیں ورنہ اس کا مخترعہ ہو نا یقینی ہے اس اصول کی روسے بھی اہل حدیث اپنے اسی پرانے اصول۔

اصل دین آمد کلام اللہ معظم دا شتن             پس حدیث مصطفے بر جا ن مسلم دا شتن

کو دہرا تے ہیں اور نیز سب کو۔

 اہل حد یثیم و غا را نہ نشنا سیم     با قو ل نبی چون و چرا رانشناسیم۔

سنا کر کہہ سکتے ہیں کہ زما ن سعادتاقتران میں اسی پر عمل تھا عہد صحابہ میں یہی دستور العمل تھا عصر تا بعین میں اسی کا رواج تھا اس کے سوائے کو ئی دیگر امر واجب الا تباع نہیں سمجھا جا تا تھا (اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ )میں اسی روش کی تا کید ہے اور(وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا)کا حکم اسی پر مبنی ہے پس اہل حدیث کے کے قدیم آنحضرت ﷺ کے وقت سے ہو نے میں کو ئی شبہ نہ رہا۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 711

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ