السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مندرجہ زیل سوال عرض کرتا ہوں۔ اگر جناب قولہ تعالیٰ۔وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ﴿١٠﴾ سورة الضحى... کومد نظررکھ کر جواب باصواب سے مستفید فرمایئں۔ تو اسلامی حمیت سے بعید نہ ہوگا۔
سوال۔ سورہ بنی اسرایئل میں جب محمدر سول اللہﷺ سے پوچھا گیا۔ وَقَالُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنا﴿٩٠﴾سورة الإسراء.. یعنی چند ایک معجزات ہمیں دکھلا۔ مثلا چشموں کا پھوٹ نکلنا یا آسمان جا کر کتاب لانا تو اس جواب میں خدا نے ارشاد فرمایا۔
هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا﴿٩٣﴾سورة الإسراء..
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے!
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جماعت اہل حدیث کی نسبت مخالفوں نے آج تک جس قدر حملات کئے ہیں۔ الحمد للہ ان میں سے بہت سے بے سروپا ہونے کی وجہ سے اوچھے پڑتے رہے۔ ان کی نسبت کبھی یہ کہا گیا کہ لا الہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ نہیں پڑھتے۔ کبھی کہا گیا پڑھتے تو ہیں مگر یوں پڑھتے ہیں کان محمد رسول اللہ کسی صاحب نے کہا پھوپھی سے نکاح جائز کہتے ہیں۔ کسی نے کہا منی کو شکر میں ملا کر کھانے کوجائزکہتے ہیں۔ غرض کسی نے کچھ کسی نے کچھ جتنے منہ اتنی باتیں ان سب کے جوابات تو علماء اہلحدیث نے عموماً اور خاکسار نے خصوصا ً رسالہ''اہلحدیث کامذہب'' وغیرہ میں دیئے ہیں۔ مگر آج جس مہربان کی مہربانی کا ہم ذکر کرتے ہیں۔ وہ مہربان کوئی معمولی آدمی نہیں اس لئے ا س کی مہربانی بھی معمولی سے بہت بڑھ کرہے۔ آپ کا نام نامی واسم گرامی کیا بتلاسکتے ہیں۔ چند شعر ان کے مریدوں کے نقل کردیتے ہیں۔ ممکن ہے۔ انہیں میں آپ کانام آجاوے۔ وہ شعر کوئی معمولی نہیں بلکہ ایسے مقبول بارگاہ ہیں۔ کہ آپ نے وہ شعر سن کر شاعر کو خرقہ خلافت عطا فرمایا ہے۔ اس لئے ناضرین بڑی توجہ سے سنیں۔ شاعر کہتا ہے ہمارے حضرات ممدوح کون ہیں۔؟
ماہر علم لدنی واقف اسرار غیب قطب عالم غوث اعظم وارث پیغمبراں
اس سے بھی ترقی سنئے!
وہ تو مسیح نفس ہے کہ قم اگر کہہ دے رہے نہ گور میں مردے کو عذر بے جانی
کیاکہنے ہیں اور سنئے!
سنُا کرتے ہیں عیسیٰ کی مسیحائی کاشوروغل دل مردہ کو تم زندہ بنادو اے میرے خواجہ
اور سنئے۔ !
عدو جن کے دارین میں روسیاہ ہیں مریدوں کے بخشے گئے سب گناہ ہیں
اتنا کہنے سے بھی پتہ نہ چلے تو اور سنیئے!
اولیاء ہونے کو دنیا میں بہت ہیں اولیاء ان کی سیرت ان کی سیرت ان کی عادت کا کہاں اس کے شک کو دور کرنے کےلئے مخلص مرید کہتا ہے۔ اور حضرت ممدوح سنتے او سنکر انعام دیتے ہیں ناضرین بھی غور سے سنیں۔ اس سے زیادہ وضاحت مشکل ہے۔
نظر سے ہوئے جن کے لاکھوں ولی ہیں وہ قطب زمان شاہ جماعت علی ہیں
انہی بزرگ کی مہربانی کا ذکر آج کرنے کو ہیں۔ آپ نے 23 فروری کو بمقام جموں (ریاست کشمیر) میں ایک تقریر فرمائی جو آپ کے رسالہ''انوار الصوفیاء''ماہ مارچ میں چھپی ہے۔ اس کی پیشانی پر آپ کا نام نامی واسم گرامی یوں مرقوم ہے۔
''تقریر حضرت تاج اصفیاء قدوۃ الاولیاء حضرت حافظ حاجی سید جماعت علی شاہ صاحب محدث علی پوری1(1)۔ مدظلہ۔
خُدا جانے اب کی دفعہ آپ کی تعریف پورے الفاظ میں کیوں نہیں لکھی گئی حالانکہ پیشتر اسی رسالہ ''انوار الصوفیاء'' میں جو تصوف کی تعلیم (نفس کشی) سکھانے کو جاری ہے۔ حضرت شاہ صاحب کی پوری تعریف یوں مرقوم ہوتی رہی ہے۔
’’قدوة الساكين’’عمدة الواصلين تزكرة المتقدمين مفتحز المتاخرين هادي راه دين متين رهنما قبله يقين عالم باعمل في الشريعه سالك مسالك طريقة
محقق حقائق حقيقت عارف معارف معرفت عالي جناب فيض انتساب
مرش ناومولانا حاجي مولي سبط رسول الله حافظ سيد جماعت علي شاه صاحب محدث علي بوري نقشبندي مجددي توري مدظله الله تعالي علي رئوس المسترشدين الي يوم الدين (انوارالصوفياء نمبر٣ جلد ٥)
جن لوگوں کی اس قسم کی تعریف سن کر شک ہو کہ اس تعریف نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت پیران پییر شیخ عبد لقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کےلئے بھی کوئی لفظ نہیں چھوڑا تو ان کے لئے ہم آجکل کی ایک مثال دے سکتے ہیں۔
دہلی کےمشہور طبیب حکیم اجمل خاں صاحب کو سب جانتے ہیں۔ آپ کی شہرت اور صداقت اس سے مستغنی ہے۔ کہ کسی تحریر میں آپ کو اس سے زیادہ لکھاجائے۔ مگر اشتہاری طبیب اور ڈاکٹر صرف سادے نام پر قناعت نہیں کر سکتے۔ پس وانا کےلئے یہی ایک مثال کافی ہے۔ اسی کوکہتے ہیں۔ شیر قالین وگراست شیر نیستاں وگراست۔
حضرت ممدوح نے اپنی تقریر میں اہل حدیث کو وہابی کے نام سےیاد کرکے مندرجہ زیل خیالات کا اظہارکیا ہے۔
''ہندوستان میں اس وقت نو کروڑ مسلمان موجود ہیں۔ جن میں اہل سنت کی تعداد سوا آٹھ کروڑ ہے۔ باقی پچاس لاکھ میں مرزائی وہابی نیچری اور چکڑالوی سب شامل ہیں۔ اگر اجماع امت قدامت اور میجارٹی معیارصداقت ہے۔ تو صاف ظاہر ہے کہ جو لوگ اہلسنت کے عروۃ الوثقیٰ سے ٹوٹ کر علیحدہ ہوگئے ہیں۔ وہ نااتفاقی پیدا کرنے کےمجرم ہیں۔ آج سے بیس سال پہلے ہندوستان میں کوئی مرزائی نہ تھا۔ آج سے ساٹھ سال کوئی وہابی نہ تھا۔ آج سے دس سال پہلے چکڑالوی نہ تھا اہل سنت اپنے مرکز پر تاحال قائم ہیں۔ اور اپنے ایمان کو متاع تجارت نہیں بناتے۔ اور ا س میں روزانہ ترمیم وتنسیخ نہیں کرتے۔ ہمارا وہی ایمان ہے۔ جو ہم کو رسول اللہ ﷺ اور بزرگان کرام رحمۃ اللہ علیہ سے پہنچا ہے۔ وہابی۔ چکڑالوی۔ نیچری۔ مرزائی۔ سب ہم سے نکلے ہیں۔ اور شیرازہ قومی کو پراگندہ کرنے کے موجب ہوئے ہیں۔ (انوار الصوفیاء بابت ماہ مارچ 1914ءص9)
ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس کلام بلاغت نظام کوتاریخی سمجھیں یاالہامی جس کا ایک ایک فقرہ واقعات کے برخلاف ہے۔ ہندوستان میں 9 کروڑ مسلمانوں کی تعداد آج تک کسی کو بھی معلوم نہ ہوئی ہوگی۔ اور کسی کو تو کیا ہوتی۔ خود سرکار کو بھی معلوم نہیں۔ کیونکہ سرکاری کاغذات میں بھی مع برما کے پونے سات کروڑ کے قریب ہیں۔ علیٰ ھذا یہ بیان بھی حضرت شاہ صاحب کا الہامی سمجھنا چاہیے۔ کہ ساڑھے آٹھ کروڑ میں سے صرف پچاس لاکھ باقی کل فرقے ہیں۔ اللہ اکبر!ایک معنی کو تو ہم اس بیان سے خوش ہیں۔ کیونکہ ایڈیٹر اصلاح ہمیشہ کہاکرتا ہے کہ ہم شیعہ ہندوستان میں قریب دو کروڑ کے ہیں۔ نیچری توشاہ صاحب کی اصطلاح میں قریبا ساری تعلیم یافتہ جماعت ہے مرزائی بھی 4لاکھ کے مدعی ہیں۔ باقی رہا کون؟یہ غریب جماعت اہل حدیث سو میرے خیال میں ان کا وجود کلی منطقی کی طرح بالکل ذہنی ہی زہنی ہے خارج میں ان کاکوئی فرد متحقق نہیں۔ بہت خوب ہم بھی اس تقسیم پر راضی ہیں۔ اے کاش جناب شاہ صاحب ہمارے ساتھ ہندوستان کے ملک میں پھریں کہ اہلحدیث کی تعداد ذہنی نہیں بلکہ واقعی ہے۔ اورجہاں تک ہماری واقفیت ہے۔ ایک کروڑ1۔ سے متجاوز ہے۔ باوجود اس کے ہم مانتے ہیں کہ ہماری تعداد حنفی گروہ سے کم 2۔ ہے کیوں کم ہے؟اس کاجواب صاف ہے۔
تعيرنا انا قليل عديدنا فقلت لها ان الكرام قليل
خير یہ تو ایک معمولی واقعہ ہے۔ اصل بات جس کا ہم کو جواب دینا ہے۔ اورناضرین کے زہن نشین کرنا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اسلام میں فرقہ جدید کون ہے۔ اہلحدیث ہیں یا شاہ صاحب کے ہم مذہب اس موضوع پر ہم نے کئی ایک مرتبہ مفصل بحثیں کی ہیں۔ ممکن ہے ناضرین کو یاد ہو۔ آج بھی حسب ضرورت ان کو بالاختصار دہراتے ہیں کچھ شک نہیں کہ کسی فرقے کی ابتداء اس کے امام اور بانی سے پہلے کی نہیں ہوتی۔ بلکہ بعد یا برابر ہوتی ہے۔ حنفی گروہ امام ابوحنیفہرحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ وغیرہ کی طرف منسوب ہے۔ اور اس گروہ کے عقائد اور خیالات وہی ہیں جو ان کے اماموں نے فرمائے۔ حنفی کے معنی ہیں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال پرعمل کرنے والا وغیرہ اور یہ ظاہر ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 80ہجری میں ہوئی۔ بیس پچیس سال تک آپ تحصیل علم میں لگے رہے۔ تو دوسری صدی میں آپ طبقہ علماء میں ظہور پزیرہوئے۔
اگر اس وقت بھی آپ کو یہ عزت حاصل ہوئی ہو کہ آپ کا فتویٰ جاری ہوگیا ہو تو لازمی بات ہے کہ حنفی فرقہ کی ابتداء دوسری صدی سے شروع ہوئی۔ پہلی صدی جو مسلمانوں میں طبقہ اول اور بہترین لوگوں کی تھی۔ اس میں نہ حنفی مذہب کا وجود تھا حنفی گروہ کااس میں مسلمان کس طریق سے عمل کرتے تھے۔ اور مسائل شرعیہ میں کیا کرتے تھے۔؟یہی ایک غورطلب سوال ہے۔ جس کا جواب ہمارے بھایئوں کو بہت سی غلط فہمیوں سے ہمیشہ کےلئے نجات دے سکتاہے۔ اس زمانے میں یہ لو گ یہ کرتے تھے کہ جس شخص کو مسئلہ معلوم نہ ہوتا۔ جس کسی عالم سے اسے ظن ہوتا اس سے قرآ ن وحدیث کا حکم دریافت کرلیتا۔ بس یہی ایک طریقہ تھا یہی اس کا مذہب تھا۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ صاحب مرحوم نے کتاب حجۃ اللہ البالغہ اور کتاب لاانصاف فی بیان الاختلاف وغیرہ میں لکھا ہے۔ کوئی صاحب واقعات کی بناء پر ہم کو بتلادیں فرقہ جدید کون ہے۔ مگر مہربانی کرکے بتلاتے ہوئے جدت اور قدامت کی ابتداء ہم کو پہلے سمجھا دیں۔ کہ ہندوستان میں جدت دیکھنی ہے۔
یا اسلام میں خاص ہندوستان میں فرقوں کی جدت دیکھنی ہے تو دیکھئے مگر ہم تو اسلام میں جدت دیکھیں گے۔ تاکہ جدید فرقہ کو بدعتی اور قدیم کو ہم سنی ہم کہہ سکیں۔ چنانچہ ہم نے تاریخی واقعات سے اپنا مطلب صاف کردیا۔ اُمید ہے شاہ صاحب اور ان کے دوست ہمارے معروض پر نہایت ٹھنڈے دل سے غور کریں گے۔ ان کوفرقہ جدید کی ماہیت سمجھ میں آجاوے۔ تو ایسی جدت سےدستبردار ہوکر قدیم اسلام میں آکر ہمارے ہم نوا ہوکر گایئں گے۔
اصل دین آمد کلام اللہ معظم داشتن پس حدیث مصطفےٰ برجان مسلم داشتن
ہم شاہ صاحب کے شکرگزار ہیں۔ کہ انھوں نے اہلحدیث سے اس مشہور الزام کا دفعہ فرمادیا جو جماعت پر لگایا جاتا ہے۔ یہ کہ فرقہ ایسا بُرا ہے کہ سب بُرے فرقے (نیچری۔ مرزائی۔ چکڑالوی وغیرہ) اسی سے نکلے ہیں۔ گو ہم تو اس الزام کا جواب اپنے رنگ میں دیا کرتے تھے۔ مگر جناب شاہ صاحب نے اسی الزام کو یوں رفع فرمایا کہ
''وہابی چکڑالوی نیچری مرزائی سب ہم (حنفیوں ) میں سے نکلے ہیں بہت خوب
ہوا ہے مدعی کا فیصلہ اچھا میرے حق میں زلیخا نے کیا خود پاک دامن ماہ کنعاں کا
(اہلحدیث امرتسر 17 اپریل 1914ء)
(تشریح از قلم مولانا عبد الشکور صاحب شکراوی)
کتاب اللہ المجید اور احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ عمل کی چیز ہمارے لئے صرف کتاب وسنت ہی ہے۔ اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ قرآن اس لئے کہ وہ کلام الٰہی ہے۔ اورحدیث وسنت اس لئے کہ وہ صاحب القرآن کا قول وفعل ہے۔ انبیاء اور رسل کی اتباع اس لئے وہ معصوم عن الخطا ہیں۔ وہ امت کےلئے نمونہ بن کر آتے ہیں۔ جن کی اتباع کا یہ منشاء ہوتا ہے۔ کہ انسان نبی اور رسول کی زندگی کو اپنے لئے نمونہ بنائے۔ ہم روز مرہ دیکھتے ہیں جب کسی کو کسی سے کوئی چیز بنوانی ہوتی ہے۔ تو بنوانے والا کوئی چیز دے کر یہ کہتا ہے۔ کہ اس نمونہ کی کوئی چیز بنا کر لائو۔ جب وہ شخص اسی نمونہ کے مطابق وہ چیز لے کرآتا ہے تو بنوانے والا اصل اور نقل کامقابلہ کرکے بناے والے کو یہ بتاتاہے۔ کہ بنائی ہوئی چیز مطابق اصل ہے۔ اگر وہ شے مطابق اصل ہوتی تو بنوانے والا بنانے والے کو ضروری دیتا ہے۔ اور انعام بھی یہ ایک حقیقت ہے۔ کہ شریعت انسانی زندگی کا وہ دستور العمل ہے۔ جس پر عمل کرنے سے انسان دونوں جہاں کی فوزوفلاح حاصل کرکے اپنے رب کو راضر کرلیتاہے۔ اور دنیوی واخروی حسنات سے صحیح معنی میں فیض یات ہوتا ہے۔ اس مقام پر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے۔ کہ جس طرح حضور سید الانبیاءﷺ کے متعلق یہ حکم دیا گیا ہے۔
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ﴿٢١﴾ سورة الأحزاب
اسی طرح امم سابقہ کو بھی یہی حکمدیا گیا تھا۔ کہ تمہارے نبی اور رسول تمہارے لئے اچھا نمونہ ہیں۔ اپنی زندگی اور نبی اوررسول کی زندگی میں مطابقت پیدا کرو۔ اسوقت تک اہل کتاب کے پاس جو تاریخی مواد موجود ہے۔ اس سے ثبوت ملتاہے۔ جس کا بہت سا حصہ قرآن مجید میں بھی وارد ہے۔
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ﴿٤﴾ سورة الممتحنة
ہمارے لئے حکم کیا گیا ہے۔ بائیبل عہد عتیق اور عہد جدید سے بھی اس پر روشنی پڑتی ہے۔ اور ثابت ہوتا ہے کہ پہلی امتیں بھی صرف اپنے نبیوں ہی کی پیروی کرتی تھیں۔ انہوں نے کسی امتی کی پیروی کو اُصول شریعت نہیں بنایا۔ احبار ورہبان کے ملفوظات اور فتاووں کو انہوں نے دین نہیں بنایا۔ اور جب انہوں نے بنایا تو گمراہ ہوگئے۔ اور قرآن کریم صراحتا ً بتاتا ہے۔ کے ان دو چیزوں کے سوا جو چیز اصول شریعت قرار دی جائے گی۔ وہ صراحتہ شرک فی الرسالت بدعت اور گمراہی ہوگی۔ کسی غیر نبی کی شخصیت کتنی ہی عظیم المرتبت ہو وہ انسانی زندگی کا دستور العمل نہیں ٹھرائی جاسکتی۔ چونکہ امم سابقہ میں یہ بدعت بڑے زورسے پھیلی تھی۔ اور کلام الٰہی کو اور اسوہ نبی ﷺ کوچھوڑ کر احبار ورہبان کو اپنی زندگی کے لئے نمونہ بنانے لگے تھے۔ اسی واسطے قرآن مجید نے اس مسئلہ پر بڑی وضاحت سے روشنی ڈالی ہے۔ اور انسانیت کے اس سب سے بڑے خطرے سے خبردار کردیا ہے۔ اگر ہم قرآن مجید سےایسی آیات کو جمع کر کے ان کی تشریحات کردیں۔ تو یہ ہمارا مقالہ مقالہ نہیں رہے گا۔ بلکہ ضخیم کتاب بن جائے گی۔ اس لئے ہم یہاں یہ بتاناچاہتے ہیں کہ ہندوستان میں عمل بالحدیث کس طرح آیا۔ اور کس طرح سے اس کی مخالفتیں کی گئیں۔ اور کون کون بزرگان دین اس ملک میں اس کے داعی بنے اور ان پر کیا بیتی۔
----------------------------------------------
1۔ علی پور ضلع سیالکوٹ (پنجاب) میں ایک گائوں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب