سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(27) تارک نماز کا فر ہے یا نہیں

  • 710
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 3769

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا  فرماتے ہیں علماء دین دربارہ اقوال مندرجہ ذیل ۔

قول بکر

جوشخص مسلمان کہلانے والا بے نماز ہو اس کی جنازہ ہر گز نہ پڑھنی چاہیے ۔ترغیب ترہیب میں ہے ۔«لاصلوٰۃ لمن لاطهور له ولادين لمن لاصلوة له  انَّما موضع الصلوٰة من الدين کموضع الرَّاس من الجسد»’’جس کا وضو نہیں اس کی نماز نہیں ۔اور جس کی نماز نہیں اس کا دین نہیں۔نماز دین میں ایسی ہے جیسے جثّہ میں سر ہے۔‘‘ نیز فرمایا « من ترک الصلوٰۃ متعمداً فقد کفر» (مشکوة)

یعنی جس نے دانستہ نماز چھوڑی  پس وہ کافر ہو گیا ۔بنابر یں کافرکی نماز جنازہ کیا ؟جب کہ یہ تو کافر سے بھی گز  کر منافق ہے جو بظاہر کہتا رہتا ہے مگر پڑھتا نہیں۔ قرآن مجید میں ان جیسے منافقوں کے حق میں ہے۔﴿وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰٓ أَحَدٖ مِّنۡهُم مَّاتَ أَبَدٗا وَلَا تَقُمۡ عَلَىٰ قَبۡرِهِ﴾ یعنی ان کا نماز جنازہ مت پڑھو اور دعا کے لئے ان کی قبر پر مت کھڑے ہو۔پس ازروئے قرآن وحدیث بے نماز ہر گز مسلمان نہیں کہ اس کا جنازہ پڑھا جائے جو شخص کبھی نماز پڑھتا ہو اور کبھی چھوڑ دیتا ہو۔اس کا حکم بھی یہی ہے تا وقتیکہ تائب ہوکر پھر ہمیشہ پنجگانہ نماز کا پابندنہ ہو جائے جان بوجھ کر بلاعذر خواہ ایک ہی کوئی نماز چھوڑ دے اس کا بھی جنازہ نہیں پڑھنا چاہیے۔

قول زید

جو شخص کلمہ گو مسلمان ہے اور نماز کا پابند نہیں وہ فاسق فاجر گنہگا ر تو ضرور ہے لیکن اس پر کفر کا فتوی عائد نہیں ہوسکتا۔تاوقتیکہ نماز کے متعلق صریح انکاری نہ ہو اگر تارک الصلوٰۃ منکر الصلوٰۃ کی طرح کا فر خارج از ایمان ہےتو مندرجہ ذیل احادیث کا کیا مطلب ہے۔

«لا يزنی الزَّانی حين يزنی وهو مؤمنٌ ولا يسر ق السارق حين يسرق وهو مؤمنٌ لا يشرب الخمر حين  يشربها وهو مؤمن لا دين لا عهد له  ولا ايمان لمن لا امانة له»

«لا يؤمن احدکم  حتیٰ اکون احب اليه من والده وولده والنَّاس اجمعين» (مشکوۃ)  

ان احادیث سے ظاہر ہے کہ سب سے بڑھ کر حضور سے محبت نہ رکھنے والا زانی ۔چور ۔شرابی ۔بد عہد بددیانت وغیرہ یہ سب بے ایمان نہیں وہ کافر ہے کیا ان کا جنازہ پڑھنا چاہیے یا نہ۔اگر نہیں تو بہت اچھا۔ایسا ہی کیجئے پھر دیکھیئے کتنوں کاپڑھا جائے  گا۔اگر ان کا جنازہ پڑھنا صحیح ہے توپھر تارک الصلوۃ کوبھی ایسے گروہ میں شامل کر کے اس کا جناز ہ پڑھا جائے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کی تعمیل ہوکہ «الصلوٰۃ واجب علیٰ کل مسلم برا کا ن اوفاجرا وان عمل الکبائر»

یعنی نماز جنازہ مسلمان نیک وبد پر پڑھنا واجب ہے۔اگرچہ کبیرہ گناہ کرنے والا ہو۔ کس قدر افسوس ہے کہ مرتکب کبائر پر توحضورعلیہ السلام جنازہ واجب فرمائیں اور ہم ان کو کافر ٹھہرائیں۔آخر اس حدیث کی تعمیل  بجز اس کے اور کیسے ہوگی ؟یہ بھی حدیث میں آیا ہے۔«من قال لاالٰه الاالله دخل الجنة»(مشکوٰۃ) یعنی نئے مسلمان جس نے بصدقٍِدل کلمہ شریف پڑھ لیا ہے خواہ اپنے  گناہوں کی سزا بھگت کر ہی سہی آخر جنَّت میں داخل ہو گا۔  اس کا نہ جناز ہ پڑھا جائے اگر جنازہ نہ پڑھا جائے تو اس کا نکاح بھی نہ پڑھا جائے ۔خیر اس کا منکرین اسلام کی طرح کا  کافر سمجھ لینا انصاف سے بعید ہے۔ حضور نے جو فقد کفر ارشاد فرمایا ہے وہ زجر وتوبیخ پر محمول ہے۔ جیسے کسی کو کہا جائے کہ تو بندر ہے گدھا ہے حالانکہ وہ دراصل ایسا نہیں ہوتا ۔ایسا ہی بزرگانِ دین نے کفر کا لفظ بےنمازکی نسبت ارشاد فرمایا ہے وہ بھی ان معنوں میں ہے نہ کہ عام کفار جیسا ۔اور بےنماز کو منافق بھی کہہ دینا سینہ زوری ہے۔ تا وقتیکہ کوئی صریح  علامت منافقت کی نہ پائی جائے ۔بے نماز اپنی غفلت کا مقر ہوتے ہوئے آخرپریشان ہوتا ہے۔اور  جب کبھی ایمانی امتحان کا موقعہ یا کفر اسلا م کا تصادم وقوع میں آتا ہے تو خدا  و رسول کے لئے اپنے مذہب کےلئے مالی امداد اور جان پر کھیل جانے کو معمولی سمجھتاہے۔ مگر منافق کا معاملہ اس کے خلاف ہے ۔اور آیت شریفہ﴿ ولاتصل الاية ﴾جو ہےوہ ابن ابی منافق کے حق میں ہے اس کو مسلمانوں کے حق میں تصوّر کرنا فضول بات ہے بلکہ بلحاظ عمومیت کے مسلمانوں کے لئے توارشاد ہے ﴿وَصَلِّ عَلَيۡهِمۡۖ إِنَّ صَلَوٰتَكَ سَكَنٞ لَّهُمۡ﴾ کہ ان پر نماز جنازہ دعا خیر پڑھی جائے۔مطلب یہ کہ بے نماز اگرچہ سخت گنہگار ہے تاہم آخر مسلمان ہے بہر حال جنازہ پڑھنا ہی چاہئے۔ کیونکہ «الصلوۃ واجبة علی کل مسلم برا کان او فاجرا  وان عمل الکبائر» حدیث کا یہی تقاضہ ہے۔زید بکر کا قول آپ کے سامنے ہے۔ پس اب جناب فیصلہ فرمائیں کہ زید اور بکر دونوں میں سے حق بجانب کون ہے۔ احادیث میں جنازہ پڑھنے کی تصریح ہے یا نہ پڑھنے کی۔ بعض لوگ ایسے ہیں کہ کوئی نماز پڑھ لیتے ہیں اور کوئی چھوڑ دیتے ہیں۔بعضوں نے سال بھر بلکہ عمر بھر میں ہی دو چار نمازیں پڑھ چھوڑی ہیں۔بے نماز کی تعریف بھی بیان فرمائیں۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

اس میں شبہ نہیں کہ «الاحاديث يفسر بعضها بعضا»یعنی احادیث آپس میں ایک دوسرے کی تفسیر ہوتی ہیں۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی حدیث کو لے لیا جائے کسی کو چھوڑ دیا جائے اس طرح اس بات میں شبہ نہیں کہ الفاظ کا اصل معنی چھوڑ کر دوسرا معنی کرنا جائز نہیں بلکہ ہرلفظ کو اپنے معنی پر رکھا جائے گا جب تک اس کے چھوڑنے پرقوی دلیل نہ ہو۔ اگراصل معنی چھوڑنے پر قوی دلیل ہوتو اصل معنی چھوڑ کر کوئی اور مناسب معنی لیا جائے گا۔ان  دونوں اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بکر کا قول صحیح معلوم ہوتا ہے  حس کی تفصیل یہ ہے کہ بکر نے جو اپنے  دعوے کی دلیل پیش کی ہے۔اصل معنی سے پھیرنے والی کوئی آیت وحدیث وغیرہ نہیں۔اور زید نے جودلائل پیش کئے ہیں ان میں سے بعض  کا تو اصل  معنی وہ نہیں جو زید نے سمجھا ہے ۔اور بعض کے اصل معنی چھوڑنے پر قوی دلیل موجود ہے۔مثلا ً حدیث «لا دين لمن لا عهد له الحديث» کا اصل معنی یہ ہےکہ جس کے لئے کسی قسم کا عہد نہ ہو ۔اس کا کوئی دین نہیں جس میں عہد میثاق بھی  داخل ہے۔ جو آدم علیہ السلام کی پشت سے نکال کر لیا گیا تھا۔اور ظاہر ہے کہ جس نے یہ عہد توڑ دیا وہ واقعی کا فر ہے۔اس طرح جو  کسی قسم کی امانت کی پرواہ کرے جس میں کتاب اللہ  بھی داخل ہے اس کے کافر ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں۔زید نےاس کا اصل معنی چھوڑ کر یہ معنی سمجھا ہے کہ جو ایک آدھ عہد توڑ دے یا ایک آدھ امانت میں خیانت کرے اس کا دین اور کوئی ایمان  نہیں حالانکہ لفظ کا یہ اصل معنی نہیں ۔اگربالفرض یہ معنی ہوتو اس کے چھوڑنے پر قوی دلیل موجود ہے ۔مشکوٰۃ کتاب الصلوٰۃ میں ہے۔

«العهد الذی بيننا وبينهم الصّلوۃ فمن ترکها فقد کفر»

’’یعنی ہمارے اور لوگوں کے درمیان عہد نماز ہے جو نماز کو چھوڑ دے وہ کافر ہے۔‘‘

دوسری حدیث میں ہے ۔

«کان اصحاب رسول الله صلی الله عليه وسلم لا يرون شيئا من الاعمال ترکه کفر غير الصّلوة»

’’صحابہ رضی اللہ عنہم کسی عمل کے چھوڑنے کو کفر نہیں سمجھتے تھے سوانماز کے۔‘‘

ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ مطلق عہد کےتوڑنے سے انسان کا فر نہیں ہوتا بلکہ مراد یہ ہےکہ دین کامل نہیں رہتا۔ اسی حدیث«لا یسرق السارق الحدیث» کے اصل معنی چھوڑنے پر قوی دلیل موجودہے ۔

مشکوٰۃ کتاب الایمان میں ہے۔

«عن ابی ذر رضی اللہ عنہ قال اتيت النبی صلی الله عليه وسلم وعليه ثوب ابيض وهو نائم ثم اتيت وقد استيقظ فقال مامن عبد قال لااله الا الله ثم مات علی ذالک دخل الجنة قلت وان زنی وان سرق قال وان زنی وان سرق الحديث»

یعنی جو ’’لا الٰہ الااللہ‘‘ پڑھے۔او راسی پر اس کا خاتمہ ہوجائے وہ جنت میں داخل ہوگا۔خواہ زنا اور چوری کرے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زنا۔ چوری کرنے سے انسان  کافر نہیں ہوتا۔اس لئے مشکٰوۃ الکبائر میں حدیث «لايسرق السارق حين يسرق وهو مؤمن» کے بعد لکها ہے« قال ابو عبدالله لا يکون هذا مومنا تامّا ولا يکون له نور الايمان»  یعنی امام بخاری فرماتے ہیں کہ چوری وغیرہ سے پورا مومن نہیں رہتا اور «مامن عبد قال لا اله الا الله ثم مات علی ذالک دخل الجنة» کا یہ مطلب نہیں کہ صرف ’’لاالہ الااللہ‘‘ ہی کافی ہے بلکہ محمد رسول اللہ بھی ضروری ہے۔اس طرح نماز بھی ضروری ہے چنانچہ محمد رسول اللہ کی بابت دوسری احادیث آئی ہیں۔اس طرح نماز کی بابت حدیث «العهد الذی بيننا» اور «کان اصحاب رسول الله صلی الله عليه وسلم» جو اوپر گزرچکی ہیں آئی ہیں۔اور ان کے علاوہ اور احادیث بھی آئی ہیں۔

اور حدیث «الصلوٰۃ واجبة علی کل مسلم» میں بے نماز داخل نہیں  کیونکہ اس میں لفظ مسلم موجود ہے۔جس کے نزدیک بے نماز مسلمان ہے اس کے سامنے یہ حدیث پیش ہوسکتی ہے۔اور جس کے نزدیک کافر ہے اس کے سامنے یہ حدیث پیش نہیں ہوسکتی۔اور اگر لفظ کی پراہ نہ کی جائے صرف«وان عمل الکبائر» کو دیکھا جائے تو لازم آئے گا کہ مشرک کا جنازہ بھی درست ہو۔کیونکہ شرک بھی کبائرسے ہے چنانچہ مشکوٰۃ  کتاب الکبائر میں شرک کو کبائر میں شمار کیا ہے۔پس معلوم ہوا کہ «وان عمل الکبائر» عام نہیں نیزاس حدیث میں«الصلوة واجبة علی کل مسلم »سے پہلے عبارت ہے۔«الجهادواجب عليکم مع کل امير برا کان اوفاجرا وان عمل الکبائر والصلوة واجبة عليکم خلف کل مسلم برا کان او فاجرا وان عمل الکبائر» ’’یعنی جہاد تم پر ہر امیر کےساتھ واجب ہےنیک ہو یا بد ،خواہ کبیرہ کرے اور نماز تم پرہرمسلمان کے پیچھے واجب ہے ۔نیک ہویا بد خواہ کبیرہ گناہ کرے۔‘‘

ا س عبارت میں کہا ہے کہ ہرامیر کے ساتھ جہاد واجب ہے خواہ گناہ کبیرہ کرے۔ حالانکہ جو امیر بے نمازہو۔اس کی امامت کو  شریعت نے توڑدیا ہے۔ چنانچہ مشکوٰۃ کتاب الامارت میں حدیث ہے۔

«لاما اقاموا فيکم  الصلوۃ لاما اقاموا فيکم الصلوة»

’’ ان کی امارت نہ توڑو جب تک تم میں نماز قائم رکھیں۔‘‘

پس معلوم ہوا کہ ترک نماز«صلوا وان عمل الکبائر» میں داخل نہیں ۔نیز اس میں کہا ہےکہ ہر مسلمان کے پیچھے نماز واجب ہے۔نیک ہویا بد خواہ کبیرہ گناہ کرے۔ اس میں اس کے نمازپڑھنے کا ہے تومعلوم ہوا کہ «وان  عمل الکبائر» سے مراد ترک نماز کے علاوہ ہے ۔۔۔۔اور بعض لوگ یہ حدیث پیش کرتے ہیں«صلوا علی من قال لااله الاالله» یعنی جو«لااله الاالله» کہے اس کا جنازہ پڑھو حالانکہ یہ حدیث بالکل ضعیف ہے ۔ملاحظہ ہو بلوغ المرام۔ اس کے علاوہ ظاہرہے کہ صرف «لااله الاالله» کافی نہیں بلکہ محمدرسول اللہ بھی ضروری ہے۔ بس اس طرح نما ز بھی ضروری ہے۔ چنانچہ ابوذررضی اللہ عنہ کی حدیث میں ابھی تفصیل گزری ہے۔۔۔۔رہی حدیث«لايؤمن احدکم حتیٰ اکون احب اليه الحديث» سوا اس کی بابت عرض  ہے کہ محبت دو طرح کی ہے ایک طبعی اور ایک غیرطبعی چونکہ غیراختیاری ہے اس لئے اس انسان اس کامکلف نہیں ہوسکتا اور یہ حیوانات میں بھی موجود ہے۔چنانچہ حیوانات اپنے بچوں سے محبت رکھتے ہیں۔یہاں تک کہ ان کی محبت میں اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کرتے۔ ہاں غیرطبعی چونکہ اختیاری ہے۔ انسان اس کا  مکلف ہے اور معنی اختیاری  محبت کے یہ ہیں کہ رسول کے حکم کو سب کےحکم پر مقدم جانے۔جس کا عقیدہ یہ نہ ہو واقعی وہ کافر ہے۔ رہی عملی حالت سو جیسا جیسا عمل ہوگا ویسا حکم ہوگا مثلاً کوئی باوجود اس عقیدے کے شرک کرے تووہ کافر ہوگا اگر نماز نہ پڑھے توبھی کافرہوگا اگرزنا یا چوری کا مرتکب ہوتووہ کافر نہیں ہوگا۔ہاں اس کوفاسق فاجر کہہ سکتے ہیں۔اور اگر رسول سے محبت ہونے کے یہ معنی ہوں کہ رسول کی چھوٹی ہوئی سنت پرعمل کی کوشش کرتے کرتے اس کی طبیت پرایسا اثر ہوگیا کہ گویا رسول کی محبت طبعی محبت کی طرح ہو گئی اور سب محبتوں پر غالب آ گئی۔  تو یہ معنی بھی صحیح  ہیں مگر یہ بات چونکہ مشق اور ریاضت کے بعد حاصل ہوتی ہے اس  لئے نفسِ ایمان اس پر موقوف نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ لازم آتا ہے کہ جس کواتنی مہلت نہ ملے وہ کافر مرے حالانکہ قرآن میں ہے:

﴿وَلَيۡسَتِ ٱلتَّوۡبَةُ لِلَّذِينَ يَعۡمَلُونَ ٱلسَّيِّ‍َٔاتِ حَتَّىٰٓ إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ ٱلۡمَوۡتُ قَالَ إِنِّي تُبۡتُ ٱلۡـَٰٔنَ وَلَا ٱلَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمۡ كُفَّارٌۚ﴾-سورةالنساء18

’’ان کی توبہ نہیں جو برائیاں کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے تو کہہ دے کہ میں نے اب توبہ کی، اور ان کی توبہ بھی قبول نہیں جو کفر پر ہی مر جائیں‘‘

اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ موت سے پہلے توبہ قبول ہے اور انسان مومن ہوسکتا ہےخواہ اس کو اتنی ریاضت اور مشق کی مہلت ملے یا نہ ۔۔۔۔۔۔۔اور حدیث شریف میں توصاف آگیا ہے کہ غرغرہ (گھورڑوبجنے ) تک توبہ قبول ہے ۔پس جب نفس ایمان  اس مشق اور ریاضت کے بغیر حاصل ہوسکتا ہے۔تواس حدیث میں ایمان سے مراد کمال ایمان ہوگا۔اور معنی اس حدیث کےیہ ہوں گے کہ جب تک سب سے زیادہ میری محبت نہ ہو۔انسان کامل ایمان کو نہیں پہنچتا۔ بہر صورت اس  حدیث کو ترکِ نماز کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں۔کیونکہ اس حدیث کا جوکچھ معنی کیا گیا  ہے وہ اس کا اصل معنی ہے دوسری آیتوں ،حدیثوں  کو لحاظ رکھ کر کیا گیا ہے۔اور زید جو«من ترک الصلوۃ متعمدا »کی تاویل کی ہے وہ بالکل بے دلیل ہے۔اور آیت کریمہ﴿وَصَلِّ عَلَيۡهِمۡۖ إِنَّ صَلَوٰتَكَ سَكَنٞ لَّهُمۡۗ﴾ نمازیوں کے حق میں ہے چنانچہ شروع آیت کایہ ہے

﴿خُذۡ مِنۡ أَمۡوَٰلِهِمۡ صَدَقَةٗ تُطَهِّرُهُمۡ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيۡهِمۡۖ إِنَّ صَلَوٰتَكَ سَكَنٞ لَّهُمۡۗ﴾--سورة التوبة103

’’آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کردیں اور ان کے لیے دعا کیجئے، بلاشبہ آپ کی دعا ان کے لیے موجب اطمینان ہے‘‘

یعنی ان کے مالوں سے صدقہ لے تاکہ ان کا ظاہر وباطن پاک کرے اور ان کے لئے دعا کرکیونکہ تیری دعا ان کےلئے اطمینان ہے۔بتلایئے بے نماز بھی صدقہ سے پاک ہوسکتا ہے۔ اور کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بے نماز صدقہ لے کر آتے تھے بلکہ یہ تو پکے نمازیوں کا ذکر ہے جو بچارے اتفاقاً جنگِ تبوک سے رہ گئے تھے۔ زید نے معاذاللہ ان کو بےنماز بنا دیا۔کیونکہ جوان کی بابت آیت تھی وہ بے نمازوں پر لگادی اگرچہ شان نزول پر حکم بند نہیں ہوتا۔مگر یہ تو  نہیں ہونا چاہیے کہ کہیں کی آیت کہیں  پڑھ دی جائے اور ضمیر یں جس طر ف لوٹتی ہیں اس کی سرے ہی سے رعایت ہی نہ رکھی جائے۔ ہاں بکر نے جوآیت پیش کی ہے وہ بے نمازوں پرلگ سکتی ہے کیونکہ بےنماز ایک طرح سے منافق ہے۔ منافق کے معنی درحقیقت کھوٹے کے ہیں۔یعنی جس کا معاملہ اللہ ورسول سے کھرا نہ ہو ۔اور اس سے بڑھ کر کیا کھوٹ ہو گا کہ نماز کی پرواہ نہیں۔ جس کی بابت آپﷺ فرماتے ہیں:

«العهد الذی  بيننا وبينهم الصلوۃ فمن ترکها فقد کفر »

اور فرماتے ہیں:

«من ترک الصلوۃ متعمدا فقد کفر»

  اور فرماتے ہیں:

«بين العبد وبين الکفر ترک الصلوۃ»

 اس قسم کی بہت احادیث ہیں اورصحابہ  رضی اللہ عنہم بھی تارک الصلوۃ کو کا فرسمجھتے تھے۔چنانچہ گزرچکا ہے اور زید کا یہ کہنا کہ نماز مقرہوتا ہوا  آخر پشیمان ہوتا ہے۔ یہ اقرار اور پشیمانی مصیبت اور وبال کے وقت ہوتی ہے یا ہروقت اگر مصیبت اور وبال کے وقت ہوتی ہے تو ایسی پشیمانی اور اقرار تو کفار کو بھی ہوتا ہے جیسے قرآن میں ہے۔﴿دَعَوُاْ ٱللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ﴾ یعنی مصیبت کے وقت خاص اللہ کو پکارتے ہیں۔ اور اگر ہر وقت اقرار اور پشیمانی مراد ہے تو یہی منافقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے نماز کوکا فر کہیں اورصحابہ رضی اللہ عنہ کا فر سمجھیں۔ اور وہ بے پرواہ رہے اور اس کو یہ الفاظ سن کر ذرا سی بھی اس بات کی فکر نہ ہو کہ میں اچھا کلمہ گو ہوں کہ وعید سن کربھی تارک نمازہوں۔خدا نے سچ فرمایا:

﴿قُلۡ بِئْسَمَا يَأۡمُرُكُم بِهِۦٓ إِيمَٰنُكُمۡ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ﴾--سورة البقرة93

یعنی یہود کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اچھا تمہارا ایمان ہے کہ اس ایمان  کی حالت میں تم انبیاء اللہ کو قتل کرتے تھے سویہی ایمان بے نمازوں کا ہے کہ خدا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے سخت ارشادات کو ٹھکراتے ہوئے اپنی غفلت کے مقر اورپشیمان ہیں اور تصادم کفر اسلام اور ایمانی امتحان کے وقوع میں آنے کے وقت جان پرکھیل جانا یہ کفار میں بھی تھا اور ہے۔جب ابرہہ بادشاہ یمن نے بیت اللہ پر چڑھائی کی تھی تو راستہ میں بہت سی قومیں اس کا مقابلہ کرکے جان پر کھیل گئیں۔یہاں تک کہ آخروہ بیت اللہ تک پہنچ گیا اور ابابیلوں سے ہلاک ہو۔چنانچہ سورہ الم ترکیف میں اس کا قصہ مذکور ہے اور اب بھی مرزائی، چکڑالوی، قبروں کے پجاری۔ خدا ورسول کو ایک سمجھنے والے پرلے درجہ کے مشرک یہ سب تصادم کے وقت جان پر کھیل جانے کو معمولی سمجھتے ہیں۔کیا وہ اتنے سے مسلمان ہوگئے توپس کسی پر کفر کا فتویٰ نہ چاہیے۔ بلکہ جب ہندومسلم اتحاد کی لہر چلی تھی تو اس وقت بہت سی اسلام کی با توں پر ہندوانگریز وں کا مقابلہ کرتے رہے۔ پس یہ سب مسلمان ہوئے اور ان کے جنازے ضروری ہوئے یہ باتیں سب فضول ہیں۔ درحقیقت اسلام ایمان کا معیار وہی ہے جواللہ و رسول نے مقررکیا ہے۔ ان باتوں کو اللہ اور رسول نے معیار نہیں بنایا۔پس زید کا ان باتوں کو ذکر کرنا ایسا ہی ہے جیسے عوام کہتے ہیں فلاں بڑا ولی ہے اس سے فلاں کرشمہ صادر ہوا فلاں امر خرق عادت ظاہر ہوا۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرشموں اور خرق عادات کو ولایت کا معیار نہیں بنایا بلکہ فرمایا:

﴿أَلَآ إِنَّ أَوۡلِيَآءَ ٱللَّهِ لَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحْزَنُونَ - ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُونَ﴾--سورة يونس62-63

’’یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وه غمگین ہوتے ہیں۔یہ وه لوگ ہیں جو ایمان ﻻئے اور (برائیوں سے) پرہیز رکھتے ہیں‘‘

یعنی اولیاء اللہ کو خوف نہ ہوگا اور نہ غم کریں گےوہ جوایمان لائے اور پرہیز گاری کرتے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ولی ہونےکامعیار دو باتیں بتلائی ہیں۔ایک ایمان  دوسری پرہیز گاری۔ یعنی ہر چھوٹے بڑے امر میں شریعت کی پا بندی اگر صرف کرشمہ اور خرق عادات معیارِ ولایت ہوتے تو دجال سے بڑھ کرکوئی ولی نہ ہوتا۔ ہاں ایمان اور پرہیزگاری کے بعد اگر کو ئی کرشمہ اور خرق عادات ظاہر ہو تو کرامت ہے جو برحق ہے مگر معیار نہیں۔ اور نہ ہی وہ لازمی امر ہے بلکہ اتفاقیہ کسی سے کسی وقت ظاہر ہوجاتی ہے۔عوام سمجھتے ہیں اس کو اختیارات ہی مل گئے۔حالانکہ دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے اوپرسے مصیبت کو دور کرنے پرقادر نہیں ۔جیسے حسن رضی اللہ عنہ۔حسین رضی اللہ عنہ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایسے بزرگانِ دین پرطرح طرح کی تکلیفیں آیئں۔یہاں تک کہ دشمنوں کے ہاتھوں سے شہید ہوئے اب لوگ ان سےمرادیں مانگتےہیں۔اور ان کے لئے اختیارات ثابت کرتےہیں۔ اس قسم کا دھوکا زید کو لگا ہے کہ معیار کچھ تھا اورسمجھ کچھ لیا۔اللہ تعالیٰ اصل بات سمجھنے اور راہ راست کی توفیق بخشے۔ آمین۔

تنبیہ

بےنمازکےجنازہ نےبےنمازوں کوبہت دلیر کرہے۔ اگرآج اصل فتویٰ جاری ہوجائے تودیکھیےویران مساجد آبادہوتی ہیں یا نہیں؟اور پھرلوگ مسجدوں میں آتےہیں یانہیں؟کاش تنبیہ کے طور ہی اس مسئلہ کوبرت لیاجائے جیسے قطاع الطریق اور باغی کی بابت امام ابوحنیفہؒ کا قول صاحب سبل السلام نے نقل کیاہےکہ ان کا جنازہ نہ پڑھا جائے لیکن ملَّاوں کے طمع نےدین کو خراب کر دیا۔اللہ تعالی ان کوقناعت دے اور دینداربنائے۔آمین ثم آمین۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اہلحدیث

کتاب الصلوۃ،نماز کا بیان، ج2ص29 

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ