اکثراہل حدیث تارک الصلوۃ کوکافراورخارج عن الاسلام کہتے ہیں۔اورآیات واحادیث میں سےدلائل بیان کرتے ہیں مگرمندرجہ ذیل احادیث کا ان لوگوں کے پاس کیا جواب ہے جو بےنمازکوکافرکہتے ہیں۔اس لئے کہ یہ احادیث عدم خارج ازاسلام پرصراحتہ دلالت کرتی ہیں اورہویہ احادیث ہیں :پہلی حدیث :
یعنی ابن محیریزسےروایت ہےکہ ایک شخص بنی کنانہ سے جس کومخدجی کہا جاتا ہےاس نے ایک شخص سے سنا جس کی کنیت ابومحمد ہےوہ کہتا ہے کہ وتر واجب ہے۔مخدجی نےکہا کہ میں عبادۃ بن صامت کے پاس گیا۔اس کوخبر دی عبادہ نے کہا وہ چھوٹا ہے۔میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اللہ تعالی نے بندوں پرپانچ نمازیں لکھی ہیں۔اگروترواجب ہو(توچھ ہو جائیں گی) پس جس نے ان کوادا کیا ۔اور ان کے حق کو ہلکا سمجھ کر ان سے کچھ ضائع نہ کیا تواللہ تعالی پرعہد ہےکہ اس کوجنت میں داخل کرے اورجس نے ان کواس طرح سےادا نہ کیا اس کی بابت اللہ تعا لی کےپاس کوئی عہد نہیں۔اگرچاہے اس کوعذاب دے اگرچاہے جنت میں داخل کردے۔(یہ حدیث موطا امام مالک ،ابوداؤد،نسائی ،دارمی میں ہے)
دوسری حدیث:
یعنی عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔اللہ تعالی کے ہاں تین دفترہیں ایک دفترکی خدا کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ ایک دفترسے خدا کچھ نہیں چھوڑےگا۔ اور ایک دفترخدا معاف نہیں کریگاجس کومعاف نہیں کریگا وہ شرک کا دفترہے ارشاد ہے جوشرک کرے خدا نے اس پرجنت حرام کردی ہے۔جس دفترکی خدا پرواہ نہیں کرتا وہ ان گناہوں کا دفترہےجوخدااوربندوں کے درمیان ہیں۔جیسے کسی نے روزہ چھوڑ دیا یا کوئی نمازچھوڑدی۔اگرخدا چاہے تومعاف کردےگا۔اورجس دفترسے خدا کچھ نہیں چھوڑے گا وہ حق العباد کا دفترہے۔بندوں نے جو ایک دوسرے پرظلم کیا ہےا س کا بدلہ دلایا جائے گا کسی صورت اس کی معافی نہیں ہوسکتی ۔(یہ حدیث مسند احمد میں ہے)
ابن کثیرجلد 3 ص113 میں مندرجہ ذیل حدیث ہے جومذکو رہ حدیث کی تائید کرتی ہے اوروہ یہ ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ظلم کی تین قسمیں ہیں۔ایک ظلم خدا معاف نہیں کرے گا۔ اور ایک ظلم (اگرخداچاہےتو) معاف کردےگا۔اورایک ظلم سے خدا کچھ نہیں چھوڑے گا۔جوظلم خدا معاف نہیں کریگا و ہ شرک ہے۔ خدا فرماتا ہے شرک بہت بڑا ظلم ہے جو(ظلم خدا چاہے تو)معاف کردے گا وہ بندوں کےاپنی جانوں پرظلم ہیں جوان کے اور ان کے رب کےدرمیان ہیں۔اور جو ظلم خدا نہیں چھوڑے گا وہ بندوں کےآپس میں ظلم ہیں (وہ نہیں چھوڑے گا) یہاں تک کہ ایک دوسرے سےبدلہ دلائے گا۔
خط کشیدہ عبارت سےحقوق اللہ بھی مراد ہیں کہ جن کا تعلق براہ راست خدا تعالی اور بندوں سےہے اورحقوق اللہ سےجوحق قابل مغفرت نہیں ہے اس کوجدا بیان کردیا ہے۔ پس اس حدیث میں اوراس سےپہلی حدیث میں کچھ فرق نہیں مگریہی بندگان اورخدا کےدرمیان جو حقوق ہیں وہ قابل معافی ہیں ان کو تمثیل سےسمجھاہے اور اس میں اشارت سےکام لیا ہے۔ مآل دونوں کاایک ہی ہے ۔پس یہ دونوں احادیث صریح ہیں کہ ترک الصلوۃ بھی دیگرکبائر کی طرح ایک کبیرہ گناہ ہےاورکبائرکےلئے اہل سنت کایہ عقیدہ ہےکہ وہ اللہ تعالی کی مشیت پرموقوف ہےاللہ تعالی اگرچاہے تو ابتداء ہی میں بخش کرجنت میں داخل کردے جیسا کہ بکثرت آیات واحادیث سےاہل سنت اس عقیدہ کوثابت کرتےہیں ۔منجملہ ان کےحدیث عبادہ رضی اللہ عنہ ہے جومشکوۃ کتاب الایمان اوربخاری کتاب الایمان میں ہے۔اس طرح یہ حدیث عبادہ رضی اللہ عنہ اور حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ تارک الصلوۃکےلئے بھی ایسا ہی ثابت کرتی ہیں ۔
الغرض جولوگ تارک الصلوۃ کےکفر کےقائل ہیں۔ان ہردواحادیث کاصحیح کیا جواب دیتے ہیں۔؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ نےتین حدیثیں پیش کی ہیں۔اخیرکی دو ایک ہی مضمون کی ہیں۔اورپہلی الگ ہے۔اس حدیث میں لفظ يات بهن محل استدال ہے۔اس میں دواحتمال ہیں۔اول یہ کہ نفس نماز ادا نہ کرے دوم یہ کہ کامل علی وجہ المطلوب شرعاً ادا نہ کرے۔جب دواحتمال پیدا ہوئے توایک کی تعین ضروری ہےورنہ استدلال باطل ہے۔
ہم اس حدیث میں احتمال ثانی کومعین کرتےہیں کہ مراداس سےیہ ہےکہ کامل علی وجہ المطلوب شرعاً ادا نہ کرےاورنوافل سے اس کا تدارک بھی نہ ہوسکے تب وہ مشیت ایزدی میں ہے۔ ہم اپنی توجیہ کےلئے انہی عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی دوسری حدیث پیش کرتے ہیں کیونکہ قاعدہ ہے۔«الاحاديث يفسر بعضهابعضا»
یعنی عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نےفرض کی ہیں جوشخص اچھا وضوکرے اوران کووقت پرپڑھے اوررکوع وسجود پورا کرےاورخشوع بھی پورا کرے اس کےلئے اللہ تعالی کےنزدیک عہد ہےکہ اس کوبخشےگا اورجس نےایسانہ کیا اس کے لئے اللہ تعالی کےنزدیک عہد نہیں ہواہ بخشے خواہ عذاب کرے ۔
یہ حدیث عبادہ کی پہلی تفسیر ہے کہ کامل نمازادا نہ کرے تومشیت الٰہی میں ہے۔اگراحتمال اول لیا جائے توعبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے جس میں «فقد خرج عن الملة» وارد ہے۔ خلاف ہوگا اوراس کےان حدیثوں کےبھی خلاف ہوگا جن میں بےنمازکے کافر ہونےکی تصریح ہے اورتاویل کی گنجائش نہیں۔ہاں اس حدیث کی تفسیر کےلئے ایک اورحدیث بھی ملالیجئےتاکہ مطلب بالکل صاف ہوجائے ۔
ابن ماجہ صفحہ102 «باب ماجاء فی فرض الصّلوة الخمس والمحافظة عليها» میں ان ہی عبادہ رضی اللہ عنہ سےیوں مروی ہے۔
یعنی عبادہ رضی اللہ عنہ کہتےہیں میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےسنا۔آپ نےفرمایا خدا نےپانچ نمازیں فرض کی ہیں جس نے ان کوادا کیا اورسستی سےان میں کچھ کمی نہ کی تواللہ پراس کےلئے عہد ہے کہ اس کوجنت میں داخل کرے ۔اورجس نے ان کوادا کیا اورسستی سےان میں نقص ڈال دیا تواس کے لئے اللہ پرکوئی عہد نہیں خواہ اس کوعذاب دے خواہ بخشے ابن ماجہ کے اسی صفحہ میں ایک حدیث قدسی وارد ہے۔ جس کےالفاظ یہ ہیں۔
یعنی اللہ تعالی نےفرمایا جوان نمازوں کے وقت پرمحافظت کرے اس کےلئے بخشش کاعہد ہے جووقت پرمحافظت نہ کرے اس کےلئے بخشش کا عہد نہیں ۔
ترغيت ترهيب ص17 باب الصلوۃ فی اول وقتها میں کعب بن عجرہ سےروایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔
یعنی خدا تعالی نے فرماتا ہےجونماز وقت پرادا کرے اوراس کی محافظت کرے اورسستی سے اس کوضائع نہ کرے اس کے لئے میرے ذمے عہد ہے کہ میں اس کوجنت میں داخل کردوں۔اورجووقت پرنہ پڑھے نہ اس پرمحافظت کرے اورسستی سے اس کوضائع کرے اس کے لئے میرے ذمےکوئی عہد نہیں۔خواہ میں اس کوعذاب دو ں خواہ بخش دوں ۔
ترغیب ترہیب کےاسی مقام پرایک اورحدیث قدسی ہے جس کےراوی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں اس کےالفاظ یہ ہیں :
یعنی مجھے اپنی عزت او رجلال کی قسم ،کوئی نمازکووقت پرنہیں پڑھے گا مگراس کومیں جنت میں داخل کروں گا۔اورجوبےوقت پڑھے اس کوخواہ رحم کروں یاعذاب دوں۔روایت کیا اس کوطبرانی کبیرمیں اس کے اسناد حسن ہیں ۔
الغرض اس حدیث عبادہ رضی اللہ عنہ سےمطلقا ً نمازچھوڑنےپرمشیت مغفرت ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس شخص کےلئے ہے جونماز کو وقت پراچھی طرح ادا نہ کرے۔ اوراس میں قصور کرے۔اگربالفرض دوسری احادیث عبادہ رضی اللہ عنہ کی اس پہلی حدیث کی تفسیر نہ کرتیں توبھی عبادہ رضی اللہ عنہ کی پہلی حدیث دواحتمال بےنمازکومسلمان ثابت کرنے کے لئے مانع تھے۔کیوں ؟« اذا جاء الاحتمال بطل الاستدل »اورجب ثانی احتمال دوسری احادیث سے متعین ہوگیا تواب بطریق اولیٰ استدلال صحیح نہ ہوگا۔
پہلی حدیث میں لفظ يات بهن ہےاوردوسری تیسری حدیث میں لفظ ترک ہے اور ظاہرہے کہ حاصل مطلب ان دونوں لفظو ں کا ایک ہی ہے کیونکہ لم يات بهن کا مطلب بھی نہ پڑھنا ہے اورترک کے معنی بھی نہ پڑھنا ہے۔پس جیسے لم يات بهن میں دواحتمال تھے۔ایک مطلقا ً نہ پڑھنا۔ایک پوری وقت پرمحافظت کےساتھ نہ پڑھنا۔اسی طرح ترک میں بھی یہی دو احتمال ہیں ایک مطلقاً چھوڑ دینا ایک پوری محافظت چھوڑ دینا۔اوراوپرابھی ذکرہوا ہےکہ دو احتمال کی صور ت میں بےنماز کے مسلمان ثابت کرنے پراستدلال صحیح نہیں۔کیوں ؟اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال ۔
اسکے علاوہ جیسے عبادہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں دوسری احادیث سے ثانی احتمال متعین تھا ان دوحدیثوں میں بھی ثانی احتمال معین ہے۔ابن ماجہ میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندے اورشرک کےدرمیان نمازچھوڑدینےکا فرق ہےجب نماز چھوڑدے گا تومشرک ہوجائے گا۔
اور بریدہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے۔
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔آپ نےفرمایا۔مشرکین اورہمارے درمیان جو کچھ عہد ہے وہ نماز ہے جونمازترک کردے وہ کافرہے۔
اس قسم کی بعض اوراحادیث بھی ہیں۔ان سےمطلع صاف ہوگیا کیونکہ ترک نماز شرک یاکفر ہواتویہ اس دفترسےہوا جوخدا معاف نہیں کرےگا۔
آپ کی پیش کردہ احادیث کا جواب توہوچکا ہم اپنی طرف سے ایک حدیث پیش کرتے ہیں اوراس کا جوا ب دیتے ہیں ۔مستدرک حاکم میں ہے۔
یعنی حذیفہ رضی اللہ عنہ نےکہا اسلام مٹ جائے گا جیسے پرانا کپڑا مٹ جاتا ہے یہاں تک کہ اسلام کی حالت یہ ہوگی کہ نہ لوگ نمازجانیں گے نہ روزہ نہ قربانی۔ہاں اتنا ہوگا کہ پرانے مردوعورت کہیں گے کہ ہم نے لوگوں کولاالهٰ الاالله پڑھتے پایا ۔حذیفہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد صلہ بن زمر نےکہا اےحذیفہ!جب وہ نمازروزہ اورقربانی نہیں جانیں گے تولاالٰه الاالله ان کوکیافائدہ دے گا ؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نےکہا اے صلہ! لاالٰه الاالله کےساتھ آگ سے نجات پائیں گے۔
یہ حدیث مستدرک حاکم میں دوجگہ ہے۔ایک صفحہ محوّلہ پراور ایک جگہ چند صفحات اس سے پہلے ،امام ذہبی ؒ نےتلخیص مستدرک حاکم میں اس پر کوئی کلام نہیں کی توگویا حاکم کےصحیح کہنے کو برقراررکھا جس سےمعلوم ہوا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔اس حدیث سےثابت ہوتا ہےکہ نماز ،روزہ وغیرہ کےبغیر صرف لااله الاالله سےنجات ہوسکتی ہےاورجب صرف لااله الاالله سےنجات سکتی ہےتومسلمان ہونےکےلئے صرف لاالٰه الاالله کافی ہوا کیونکہ کافرکےلئے نجات نہیں ۔
اس حدیث کا جواب یہ ہےکہ نماز ہجرت سےڈیڑھ سال پہلے فرض ہوئی۔اس سے پہلے لاالٰه الاالله کافی تھا۔اسی طرح جب ایسا وقت آجائے کہ علم بالکل اٹھ جائے اوراحکام اسلام کا پتہ ہی نہ رہے۔صرف پرانے لوگوں اورعمر رسیدہ کولاالٰہ الااللہ کی بابت اتنا معلوم ہوکسی زمانے میں لوگ یہ کلمہ پڑھتےتھےتوایسی حالت میں بےشک لاالٰہ الااللہ کافی ہوگا ۔اورایسی حالت میں یہی سمجھا جائےگا کہ نماز ان پرفرض نہیں ہوئی۔کیونکہ فرضیت حکم کے علم کےبعد ہوتی ہے۔پس یہ ایسا ہوگیاجیسےفرض ہونےسےپہلےلاالٰہ لااللہ کافی تھا۔اور اس کی تائید حدیث کےآخری ٹکڑےسےبھی ہوتی ہے۔حذیفہ کہتےہیں کہ لاالہ الااللہ کےساتھ آگ سے نجات پائیں گے۔اورمشکوۃ باب الرکوع میں روایت ہےایک شخص کوحذیفہ رضی اللہ عنہ نےدیکھا کہ رکوع وسجود پورا نہیں کرتا توفرمایا۔
یعنی اگرتواس حالت پرمرجاتا توغیرفطرت پرمرتا جس پرخدا نےمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کوپیدا کیا ۔
جب رکوع وسجود پورا نہ کرنےوالاحذیفہ کے نزدیک غیرفطرت پرمرتا ہے توجوبالکل نمازنہ پڑھےوہ ناجی کس طرح ہوگا ۔اس سےمعلوم ہواکہ صرف لاالٰہ الااللہ کوکافی سمجھنا اسی بنا پر ہےکہ بوجہ علم نہ ہونےکےوہ ایسے ہوگئے۔جیسے نمازان پرفرض ہی نہ تھی جیسےہجرت سے پہلےفرض نہ تھی
وباللہ التوفیق