سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(367) مفقود الخبر کے لئے چار سال کی وجہ

  • 6982
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 1200

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اخبا ر اہل حدیث 8 ستمبر 33؁ برصفحہ 9 میں مفقود الخبر کی بیوی کی عدت چار سال واسطے نکاح ثانی کے ہے۔ اس کی وجہ مضمون نویس نے یہ لکھی۔ کہ بحوالہ ایک حدیث دارقطنی اکثر مدت حمل چار سال ہے۔ چونکہ یہ خلاف واقع ہے۔ اور خلاف قرآن ہے کیا یہ حدیث صحیح ہے مدت انتظاری چار سال فتویٰ کس حدیث کی بناء پر ہے۔ ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس قسم کی دلیلں امتناعی ہوتی ہیں۔ تحقیقی نہیں ہوتیں۔ امتناعی دلیل اس کو کہتے ہیں۔ جس سے ماننے والا تسلی پاسکے چاہے معترض کو اعتراض کی گنجائش ہو۔  (اخبار اہلحدیث امرتسر ص 13 ۔ 31 اگست 1934ء)  

شرفیہ

یہ معترض کا اعتراض لغو ہے۔ فیصلہ فاروقیہ نہ قرآن کے خلاف ہے۔ اور نہ حدیث کے ورنہ کوئی بیان کرے۔ کہ ہو کون سی آیت یا حدیث ہے۔ جسکے یہ خلاف ہے۔ کوئی بھی نہیں اور یہ توجیہ مذکور بھی لوگوں کا اپنا خیال ہے۔ جس کا اعتبار نہیں۔ اور دارقطنی کی روایت یہ ہے۔

قوله اي في الهدايه قالت عائشه رضي الله تعاليٰ عنها الولد لايبقي في البطن اكثر من سنتين ولو بطل معزل دارقطني من طريق جميلة بنت حد عنها ما تزيد المراه في الحمل علي سنتين قد رما يتحول ظل عمود المعزل واخرج من طريق الوليد بن مسلم قال سالت مالكا عن هذا لحديث فقال من يقول هذا هذه جارتنا امراه محمد بن عجلان تحمل كل بطن اربع سنين قال البهقي ويوئد ه قول عمر رضي الله عنه تتربص امراه المفقود اربعة اعوام انتهي كذا في دراية تخريج هدايه ص ٧٢٣٤

امام مالك رحمۃ اللہ علیہ نےاثر مذکور کوغلط بتا یا اپنا تجربہ بھی اثر کے  خلا ف بتا یا اور میں نے خو د دہلی کے سادات کے ایک خاندان سےتحقیق کی تھی کہ چا ر کیا سا ت سال تک بچے کا پیٹ میں رہنا تجربہ سے ثا بت ہو چکا ہے بلکہ اس سے زائید بھی فیصلہ فارو قیہ علاوہ کسی دلیل مستنبط عن الکتا ب والسنتہ کے سما ع پر بھی ممکن ہے گو مصر ح نہیں پھر عا مہ صحا بہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کا اس پر عمل بھی ہے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورمغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روا یت صیح نہیں

 قال رسول الله صلي الله عليه وسلم اني لا ادري ما بقالي فيكم فاقتدوا بالذين من بعدي ابو بكر رضي الله عنه وعمر رضي الله عنه رواه ترمذي  (مشكواة ج٢ ص ٥٦-)  

وعن ابن عمر رضي الله عنه قال رسول الله صلي الله عليه وسلم ايضا ان الله جعل الحق علي لسان عمر رضي الله عنه وقلبه رواه ترمذي وفي روايه ابو دائود عن ابي زر قال ان الله ويضع الحق علي السان عمر رضي الله عنه عمر رضي الله عنه يقول به وعن علي رضي الله عنه قال كنا نعد ان السكيينه منطق علي لسان عمررضي الله عنه رواه البهيقي في الدلائل النبوة  (مشكواة ج٢ ص٥٥٧ )

وقال رسول الله صلي الله عليه وسلم من بعض منكم بعدي فسيري اختلافا كثيرا ف فعليكم بسنتي سنة الخلفاء راشدين المهدين تمسكوا بها وعضوا عليها بالمنواجذ الحديث رواه ابو دائود وروا الترمذي وابن ماجه  (مشكواة ج١ ص٣-)

 فتو ی یا فیصلہ فارو قیہ ا دلہ مذ کور ہ با لا کی بنا پر ہے اور روایت دار قطنی رحمۃ اللہ علیہ  یعنی اثر صد یقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ثا بت نہیں اور تو جیہ مذ کو رفی السوال جب پائی گی اور کتاب وسنت میں مصرح بھی نہیں تو بتایئے کہ سائل کو کیا جواب دیا جائے یہ کہا جائے کہ جاؤ موج کرو جوچا ہو سو کرو پھر سنت خلفا راشدینرضوان اللہ عنہم اجمعین  دتمسکوا ابہما وغیرہ ادلہ کا کیا فا ئد ہ ہوگا پس فیصلہ مذکو رہ کی ضرورت تھی جو بیان کیا گیا اور صیح تھا۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 341

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ