سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(05) آیت وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ الایہ کا مطلب

  • 6458
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1451

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آیت کریمہ ﴿وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْ‌تُ مِنَ الْخَيْرِ‌ الا یہ فَلَا يُظْهِرُ‌ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْ‌تَضَىٰ مِن رَّ‌سُولٍ﴾ الایتہ کے قبل نازل ہوءئی یا بعد ؟ دوسرا علم بالشئی

لايستلزمالقدرته عليك ما فى قصته احدفانه  صلی اللہ علیہ وسلم كان عالما بانكسارالسلمين لرويا راها كمافى كتب السير مع انه لمايقدر على روما قدره  الله (ج ۲ ص ۲۱۷ ) ايضا فيتحمل ان يكون قاله على سبيل التواضع والادب تیسرے آیت ﴿وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْ‌تُ مِنَ الْخَيْرِ﴾ ۔ میں لو شرطیہ ہے۔تو  وقوع جزا شرط کو مستلزم ہے یا نہیں ؟ اور یہ  آیت قیاس اقترانی ہوسکتی ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو آپ بصورت قیاس اقترانی اور منطق آپ اس کو بیان فرمائیں!


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلی آیت سورۃ اعراف کی ہے۔اور دوسری سورۃ جن کی دونوں سورتیں مکی ہیں ۔تفسیر اتقان میں لکھا ہے۔اعراف جن سے پہلے اتری۔اور ایک قول کی بنا پر آیت ﴿وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْ‌يَةِ﴾ مدینہ میں اتری ہے۔ اور ایک قول کی بناء پر  وَاسْأَلْهُمْ سے لےکر ﴿ وَإِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ﴾ تک مدینہ میں اتری ہے  ملاحظہ ہو التقان ص ۱۵اور ۳۱ اورتفسیر جامع البیان میں ایک قول ﴿وَاسْأَلْهُمْ﴾ سے ﴿وَأَعْرِ‌ضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ﴾ تک مدنی ہونے کا نقل کیا ہے۔مگر  اس کو قیل کے ساتھ نقل کیا ہے خیر اگر یہ قول صیح ہو تو پھر آیت ﴿وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ﴾ بھی مدنی ہوگی کیونکہ یہ  وَاسْأَلْهُمْ اور وَأَعْرِ‌ضْ کےدرمیان ہے۔ اس صورت میں آیت ﴿فَلَا يُظْهِرُ‌ عَلَىٰ غَيْبِهِ﴾ پہلے ہوگی۔مگر اس پہلے ہونے سے سائل کا اگر یہ مقصود ہے ۔کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو  پہلے غیب نہیں تھا ۔پیچھےہوگیا۔تو اس کا جواب یہ ہے ۔کہ آیت  ﴿فَلَا يُظْهِرُ‌﴾ سے علم غیب کلی ثابت نہیں ہوتا۔ بلکہ صرف اتنا  ثابت  ہوتا ہے کہ اللہ تعلی بذریعہ وحی بعض باتوں کا اظہار نبی پر کرلیتا ہے۔سواس سے کسی کو انکار نہیں۔چنانچہ پہلے سوال میں ذکر ہوچکا ہے۔اس کے علاوہ آیت کریمہ ﴿قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ الْغَيْبَ﴾ سورۃ نمل کی آیت ہے اور نمل سورۃ جن کے بعد اتری ہے۔چنانچہ تفسیر اتقان کے ص۱۵ میں اس کی تصریح ہےپس آیت  ﴿قُل لَّا يَعْلَمُ﴾ آیت ﴿فَلَا يُظْهِرُ﴾ کے بعد نازل ہوئی۔ اور اس کے علاوہ دیگر آیات و واقعات سے بھی ثابت ہوتا ہے۔کہ آپؐ کو علم غیب نہیں  تھا صرف بذریعہ وحی جس بات جس بات کا آپ ؐ کو پتہ لگ گیا۔اس کا علم ہے۔باقی باتوں میں آپؐ دیگر انسانوں  کی طرح بے خبر تھے چنانچہ پہلے سوال کے جواب میں یبان ہوچکا ہے ۔ اور بخاری ص ۹۷۴ جلد ۲ میں حدیث ہے کہ کئی لوگ حوض کوثر پر آئیں گے۔فرشتے ان کو ہٹادیں گے۔ میں کہوں گا ۔یہ تو میرے آدمی ہیں ۔ان کو کیوں ہٹایا جاتا ہے؟میرے جواب میں کہا جائے گا۔انك لا تدرى ما احدثوابعدك یعنی تجھے علم نہیں۔کہ انہوں نے تیرے بعد دین میں کیا کچھ بدعات پیدا کیں۔پھر میں کہوں گا فسحقا لمن غيربعدى یعنی لعنت ہو اس شخص کے لئے جس نے میرے بعد دین کو بدل دیا۔اس حدیث سے ثابت ہوا ۔کہ آپؐ کو وفات کے بعد بھی علم غیب نہیں۔چہ جائیں کہ زندگی میں ہو۔ان آیتوں کےپہلے پیچھے ہونے کا سوال یہاں لا یعنی سا ہے۔جس کا کچھ نتیجہ نہیں۔اس طرح مسئلہ علم بالشئی قدرت کو مستلزم نہیں ۔اس کا تذکرہ ۔بھی بھی بے محل ہے۔بلکہ سائل کو مضر ہے۔ہم تفسیر جمل کی پوری عبارت بقل کے دیتے ہیں۔اس طرح ناظرین پر حقیقت حال واضع ہوجائے گی۔ ان شاء اللہ۔

قولہ۔  ﴿وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ الخ﴾ لقاءل ان يقول لم لا يجوز ان يكون الشخص هالما بالمغيب لكن لا يقدر على رفع السراء والضراء اذاالعلم بالشىء لايستلزم القدرته عليه كما فى قصته احد نانه صلی اللہ علیہ وسلم كان مالمابانكسادالمومنين لرديا راها  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كما فى كتب السيرمع انه لم يقدر على ردما قدره الله واحبيب بان استلزام الشط للجزاءلايلزم ان يكون عقلياولا كليا بل يجوزان يكون فى بعض الاوقات كزراوفى فان قلت قال اخبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من المغيبات وقدجاءت  فى الصحيح بذالك وهو من اعظم معجزاته  صلی اللہ علیہ وسلم فكيف الجمع بينه وبين قوله ولو كنت اعلم الغيب لا استكثرت من الخير قلت يحتمل  ان يكون قاله على سبيل التوامنع والا دب المعنى لا اعلم الغيب الا ان يطلعنى الله ويقدره لى و يحيتمل ان يكون قال ذالك قبل ان يطلعه الله عزوجل على الغيب فلما اطلعه الله احبر ل به كما قال فلا يظهر على غيبه احد الا من ارتضى من رسول اريكون خرج هذاالكلام مخرج الجواب عن سوءبهم  ثم بعد ذالك اظهره الله تعالى على اشيا ء من المغيبات فاخبر عذبا ليمكون ذالك معجزت له ودلالت على صحت نبوته  صلی اللہ علیہ وسلم

(اتقان تفسیر جمل جلد ۲ ص ۲۵۸ )

ترجمہ۔آیت کریمہ  ﴿وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ﴾ پر  کوئی یوں اعتراض کرسکتا ہے۔کہ یہ کیوں جائز نہیں کہ ایک شخص کو غیب کی بات کا علم ہو۔مگر خیر شر کے حاصل یا دفع کرنے کی اس کو قدرت نہ ہو کیونکہ علم قدرت کو نہیں ۔چنانچہ جنگ احد کے واقعہ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شکست کا علم ٍتھا(1) ۔بوجہ خواب کے جو آپؐ نے دیکھی جیسے کتب سیرمیں ہے۔مگر باوجود اس کے تقدیر الہی کو رد نہیں کرسکے۔جواب اس کا یہ ہے کہ جزاء کا شرط کو نروم ضروری نہیں  ۔جی  عقلی ہو یا کلی ہو۔بلکہ جائز ہے کہ لزوم فی بعض الاوقات ہو۔اگر تو کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی غیب کی باتوں کی خبر دی ہے۔اور اس بارہ میں صیح احادیث وارد ہیں ۔اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعظم معجزات سے ہے اور یہ آیت اس کی نفی کررہی ہے۔پس ان دونوں میں موافقت کس طرح ہوگی  ؟ میں کہتا ہوں ۔ ہوسکتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ   کہنا کہ میں غیب جانتا ہوتا  تو بہت بھلائی جمع کرلیتا۔اور مجھے برائی نہ پہنچتی ۔یہ بطور تواضع اور ادب کے ہومطلب یہ ہو کہ میں غیب نہیں جانتا۔مگر یہ کہ خدا مجھے مطلع کردے اور میرے لئے مقدر کردے اور احتما ل ہے کہ  آپ کا یہ کہنا اطلاع علی الغیب کے پہلے ہو۔جب اللہ تعالی نے آپ کو اطلاع دی تو آپؐ نے اس کی خبر کردی۔چنانچہ اللہ تعالی  فرماتا ہے۔ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا الا یتہ یا یہ کلام  وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ ۔ کفار کے سوال کے جواب میں واقع ہوئی ہے۔اس کے بعد اللہ تعالی نے کئی غیب کی اشیاء پر مطلع کردیا۔پس ان کی خبر دی تاکہ یہ آپؐ کا معجزہ بن کر آپؐ کی نبوت کے صیح ہونے پر دلیل ہوجائے۔اس عبارت میں دو اعتراض کئے ہیں۔

ایک یہ کہ علم کو قدرت حاصل نہیں ۔تو شرط و جزاء میں لزوم نہ ہوا۔حالانکہ لزوم ضروری ہے۔ دوسرا اعتراض یہ کیا ہے۔کہ یہ آیت سے غیب کی نفی کرتی ہے حالانکہ آپؐ نے مغیبات سے خبر دی ہے چنانچہ احادیث میں آیا ہے ۔پھر ایک اعتراض کا جواب دیا کہ لزوم فی بعض الاوقات کافی ہے۔لزوم فی بعض الاووقات کی صورت یہ ہے کہ انسان کو خدا نے مکلف بنایا ہے نیکی بدی کی قدرت دی ہے۔کسب معاش کرتا ہے۔اپنی ضرورت کے لئےکوشاں رہتا ہے۔اس قسم کی قدرت سب انسانوں کو حاصل ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حاصل ہے ۔پس قدرت کے ساتھ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیر وشر کا علم ہوتا ۔تو بہت سی خیر آپؐ جمع کرلیتے اور برائی سے بچ جاتے یہی وجہ ہے لا ستكثرت من الخير بہت سی خیر جمع کرلیتا ۔فرمایا لا ستوعبت الخير تمام خیر جمع کرلیتا ۔نہیں فرمایا۔کیونکہ تمام خیر اس وقت جمع ہوسکتی ہے جب ہر شے پر قدرت ہوتی ۔جیسے اللہ تعالی کو ہر شے پر قدرت ہے۔ اور اس وقت لزوم کلی ہوتا ہے۔نہ لزوم فی بعض الاوقات فتائل فیہ(2)فتاوی اہلحدیث روپڑی جلد اول ص ۲۱۳

--------------------------------------------------------------

(1)یہ کہنا بالکل غلط ہے۔ آپ کو خواب میں جنگ احد کی تعییں  نہیں بتلائی گئی نہ کسی روایت میں یہ آیا ہے۔بلکہ یہ خواب حدیبیہ والے خواب کی قسم ہے جس کا ذکر سورۃ فتح کے اخیر رکوع میں ہے۱۲۰

(1)اس سے اس طر اشارہ ہے کہ یہاں لزوم فی بعض الاوقات سے اگر مخصوص زمانہ مراد ہے۔مثلا نزول وحی سے لیکر اس آیت وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ کے اترتے تک یا کم و بیش جس میں انتااستکثار خیر ہو کہ علم غیب نہ ہونے کی حالت میں اتنا نہ ہوسکے تو اس صورت میں اس کو لزوم کلی کا مقابل بنانا ٹھیک نہیں ۔اور اگر مطلق بعض زمانہ مراد ہونے کی صورت میں لزوم جزئی ہوگا۔اور لزوم جزئی کی صورت میں انتفاءلازم سے التففاء لزوم ضروری نہیں مثلا قد يكون اذا كان الشى حيوانامان انسانا میں لزوم  جزئی ہے اس میں انتفا،لازم انسان سے انتفاءملزوم (حیوان)ضرورین نہیں اس لئے اس جگہ لو كان الشى حيوانا كان انسانا کہنا غلط ہےپس اس طرح آیت زیر بحث کو سمجھ لینا چاہیئے۔پس صیح جواب یہ ہے کہ  یہاں لزوم کلی ہے اور صورت اس کی  یہ ہے کہ  جو قدرت عموما ہر انسان کو  حاصل ہے اس قدرت کے ساتھ اگر آپؐ کو خیر شر کا پورا علم ہوتا تو آپؐ بہت سی خیر جمع کرلیتے اور شر سے بچ بچاتے۔اور یہ لزوم کلی ہےنہ فی بعض اولاوقات ۔کیونکہ اس قسم کی قدرت کے ساتھ جب پورا علم بھی ہو تو پھر استکثار خیر اور اختراز شر سےکی رکاوٹ؟ اور اس جواب سے یہ بھی  معلوم ہوا کہ دوسرا اعتراض وارد نہیں ہوتا ۔کیونکہ اس آیت میں پورےعلم کی نفی ہے یعنی تمام اشیاء کا علم نہیں بعض کو توہو آپؐ کا مغیبات سے خبر دینا چانچہ احادیث میں آیا ہے اور آپؐ کا بذریعہ وحی غیب پر مطلع ہونا جیدا کہ آیت کریمہ  فَلَا يُظْهِرُ سےثابت ہوتا ہے یہ اس آیت وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ کے خلاف نہیں پس تفسیر جمل میں جو  بحوالہ تفسیر خازن دوسرے اعتراض کے تین جواب دیئے ہیں۔ان کی بھی ضرورت نہ رہی۔اور آیت وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ اور آیت  فَلَا يُظْهِرُ میں تقد مرتا فر کی بحث بھی اس  محل میں بے کار ہوئی۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 10 ص 16-20

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ