کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کہتا ہے کہ حدیث ظل الرجل کطولہ کا یہ مطلب کہ مرد کا سایہ بعد دلوک الشمس مشرق کی طرف شمار کرنا چاہیے فی زوال کا قرآن و حدیث میں کہیں ذکر نہیں ہے ، پھر اپنے اس قول کی تشریح بیان کرتا ہے ، تشریح یہ ہے، زید کہتا ہے کہ بعد دلوک الشمس سوائے فی زوال کے ایک مثل مشرق کی جانب یعنی پورب کی طرف ناپنا چاہیے مثلاً ایک لکڑی سیدھی کھڑی کی جائے مثلاً یہ لکڑی ہے، اس کا سایہ دوپہر کے وقت آج کل شمالی کو ہوتا ہے اس سایہ کو کچھ شمار نہ کرنا چاہیے بلکہ اب جو سایہ مابین پورب و شمال کی جانب بڑھتا جائے اس کو اس لکڑی کی جڑ سے لکڑی کے برابر ہونا چاہیے تو ظہر کاوقت ختم ہوکر عصر کاوقت شروع ہوتا ہے یعنی جو سایہ بڑھتا جائے گا اس کے سر سے سیدھی لکڑی جنوب کی طرف کھینچتے رہیں گے جب اس لکڑی کی جڑ سے سرے تک برابر اس کے مقدار کے پورب کی طر ف ہوجائے گا تو ایک مثل ہوگا، یہ مطلب ہے، حدیث ظل الرجل کطولہ کا اور جو سایہ مابین مشرق و شمال کی طرف بڑھتا جائے گا، اس کا شمار نہ ہوگا، فقط عمرو کہتا ہے مطلب حدیث ظل الرجل کطولہ کا یہ ہے کہ جس طرح بغیر قید جہت کے کسی شئے لکڑی وغیرہ کا سایہ پڑے بعد دلوک شمس اس کوبرابر یعنی ایک مثل لینا چاہیے سوائے فی زوال یعنی اصلی سایہ چھوڑ کر وہ وقت عصر کا ہے یہی وقت بیان کیا ہے ، نواب صدیق الحسن خان صاحب نے مسک الختام میں زیر حدیث مذکور (دیگر دو سایہ شخص درازی دے درائے فی زوال اور اسی کتاب کے صفحہ 129 میں ہے، شاہ ولی اللہ در مصفی گفتہ کہ باشد سایہ ہر چیز مانند قامت آن چیز سوائے فی زوال ، اور امام شوکانی نے نیل میں صفحہ 290 بمصیر ظل الشؤ مثلہ غیرالظل الذی یکون عند الزوال دخل وقت العصر،اور قاضی ثناء اللہ صاحب نے مالابدمنہ میں ’’سایہ ہر چیز ہم چند او شود سوائے سایہ اصلی‘‘ اور وقت ظہر بعد دلوک شمس ہوگا کہ وہ اندازہ سارھے بارہ بجے ہے، اس سے پیشتر نماز ظہر درست نہ ہوگی کیونکہ نقشہ تصدیق کردہ شاہ ولی اللہ صاحب میں ماہ حال یعنی شروع پھاگن میں وقت درمیان طلوع آفتاب و زوال جو وہ گھڑی ہے اس وقت سورج سات بجے کے قریب نکلتا ہے تو حساب سے چودھ گھڑی ساڑھے بارہ بجے ہی ہے اوراپنا تجربہ بھی یہی ہے اور وقت عصر نصف پھاگن میں انداسہ پونے چار بجے کے بعد ہوتاہے، جو اس سے پیشتر نماز عصر پڑھے گا اس کی نماز صحیح نہیں ہوگی کیونکہ نصف پھاگن میں سات انگل کی لکڑی کا اصل سایہ پانچ انگل ہے اور ایک مثل کے سات انگل تو اس کامجموعہ بارہ انگل پونے چار بجے کے بعد پورا ہتا ہے اور وقت سے پہلے نماز درست نہیں، اب علمائے ربانی سے استفسار ہے کہ موافق مذہب اہل حدیث کس کا مطلب و پیمائش درست ہے۔بینواتوجروا
زید کا قول صحیح نہیں،عمرو کا قول مطابق حدیث و علمائے مذاہب اربعہ و مشاہدہ کے ہے، ابوداؤد میں عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے: کانت[1] قدر صلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی الصیف ثلاثۃ اقدام الی خمسۃ اقدام وفی الشتاء خمسۃ اقدام الی سبعۃ اقدام، اس حدیث سے صاف ظاہرہے کہ فی زوال کو اعتبار ہے، والا یہ فرق کیوں ہوتا، اس حدیث میں اگرچہ قدرے ضعف ہے، مگر تعامل اہل علم کا اس حدیث کے ضعف کو رفع کرتاہے ،جیسا کہ اصول حدیث میں ہے کہ تعامل اہل علم سے حدیث کا ضعف رفع ہوتا ہے، امام نووی شرح مسلم میں لکھتے ہیں: متی[2] خرج وقت الظہر بمصیر ظل الشئ مثلہ غیر الظل الذی یکون عندا لزوال دخل وقت العصر اور زرقانی علی المؤطا میں ہے : مثل[3] الظہر اذا کان ظلک مثلک ای مثل ظلک بغیر ظل الزوال، شرح مختصر حنابلہ میں ہے۔ وقت العصر المختار من غیر فصل بینہما و یستمر الی مصیر الفئ مثلیہ بعد فی الزوال ای بعد الظل الذی زالت علیہ الشمس۔ امام نووی منہاج میں جو فقہ شافعیہ میں نہایت معتبر کتاب ہے ، لکھتے ہیں: اخرہ[4] رای وقت الظہر مصیر ظل الشئ مثلہ سواء ظل استواء الشمس ۔ ابن ابی زید مالکی اپنے رسالہ میں جو فقہ مالکی میں معتبر کتاب ہے، لکھتے ہیں :اخر[5] وقت الظہر ان یصیرظل کل شئ مثلیہ بعد ظل نصف النہار اور فقہائے حنفیہ کی کتابوں میں تو یہ بات مشہور و معروف ہے ، وقالا[6] اذا صار ظل کل شئ مثلہ سوی فی الزوال وھو روایۃ عن ابی حنیفۃ (فی الزوال) ھو الفئ الذی یکون للاشیاء وقت الزوال اسی طرح شوکانی نیل الاوطار میں اور درر البہیہ میں فرماتے ہیں، واخرہ [7]مصیر ظل الشئ مثلہ سوی فی الزوال اور شاہ ولی اللہ صاحب نے بھی مصفے و حجۃ اللہ البالغہ میں اورنواب صاحب نے اپنی تصانیف میں اس کے ساتھ تصریح کی ہے۔
غرض فی زوال کے سواء ایک مثل یا مثلین تک ظہر کا وقت رہتا ہے اور من بعد عصر کا وقت ہونا مسئلہ متفق علیہا ہے، یہ امربدیہی ہے کہ اس ملک میں پوس مانگھ کےمہینوں میں سارے دن میں کوئیایسا وقت نہیں آتا ہے کہ سایہ ہرشے کااس سے زیادہ نہ ہو تو وقت ظہر کون سا ہوا، تو لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ سوائے فی الزوال کے جب ایک مثل ہوجائے تو وقت عصر داخل ہوتا ہے۔
رہی یہ بات کہ فی الزوال کس طرح نکالنا چاہیے تو علماء نے اس کا یہ طریقہ لکھا ہے کہ زمین ہموار میں ایک لکڑی کو سیدھا کھڑا کرکے دیکھے کہ عین استوار شمس میں سایہ اس لکڑی کا کس قدر ہے لکڑی کے مثل یا کم و بیش جس قدر سایہ ہو اسی قدر سایہ چھوڑ کر اس پر زائد جو ایک مثل ہوجائے،عصر کا وقت داخل ہوتا ہے ، لکڑی کی جڑ سے ایک مثل پورا کرنے سے وقت عصر کا داخل نہیں ہوتا، امام ابوالحسن مالکی شرح رسالہ ابن ابی زید میں لکھتے ہیں: ویعرف[8] الزوال بان یقام عود مستقیم فاذ اتنا ھی الظل فی النقصان واخذ فی الزیادۃ فھو وقت الزوال ولا اعتداد بالظل الذی علیہ الشمس فی القامۃ بل یعنبر ظلہ مفردا عن الزیادۃ اورطحطاوی میں ہے:
’’زوال کا سایہ اس سےمستثنیٰ ہوگا کیونکہ سردی میں یہ سایہ بعض جگہوں میں ایک مثل اور بعض جگہ دو مثل ہوجاتا ہے ، تو اگر ایک مثل یادو مثل کا اعتبار اس سایہ سے کیا جائےتو صاحبین اور امام صاحب دونوں فریق کے نزدیک ظہر کا وجود نہیں پایا جائے گا۔‘‘
اور شامی میں ہے :
’’ایک لکڑی لے کر زوال سے پہلے زمین میں گاڑ دی جائے پھر اس کا سایہ لکڑی کی طرف آتے ہوئے دیکھا جائے جب سایہ بڑھنا شروع ہو، تو پہلے سائے کو محفوظ کرلیا جائے بس یہی زوال کا سایہ ہوگا، اب اس سائے کےعلاوہ جب سایہ اس لکڑی کے برابر یا دگنا ہوجائےتو ظہر کاوقت ختم اورعصر کا وقت شروع ہوگا۔‘‘
اور شرح وقایہ میں ہے:
’’مثلاً جب زوال کا سایہ پیمانے کا ربع ہو تو جب یہ سایہ ایک ربع اور دو مثل ہوگا ، یہی ظہر کا آخری وقت ہوگا ، امام ابوحنیفہ سے ایک روایت یہ ہے اورآپ سے ایک دوسری روایت بھی ہےجو کہ امام ابویوسف ، محمد اور امام شافعی کاقول ہے، یعنی جب زوال کے سایہ کے علاوہ سایہ ایک مثل ہو۔‘‘
اور کفایہ میں ہے:
’’زوال معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک سیدھی لکڑی زمین میں گاڑ دی جائے جب تک سایہ کم ہوتا جائے سمجھا جائے گا کہ سورج بلند ہورہا ہے ، جب سایہ برابر ہوگا تو یہ حالت زوال تصور ہوگی، جب سایہ بڑھنے لگے تو شروع زوال کی علامت ہوگا۔ اس مقام پر ایک خط کھینچ لیجئے اس خط سے لکڑی تک کاسایہ زوال کا سایہ ہوگا اب جب لکڑی کا سایہ خط کے اس سرے سے آگے لکڑی سے دوگنا ہوجائے گا تو امام صاحب کے نزدیک ظہر کاوقت ختم ہوجائے گا۔‘‘
اور شرح مختصر وقایہ میں ہے:
’’پھر جب سایہ پھرنے لگے تو اس کے سرے پرنشان لگا لیا جائے تو اس نشان سے لے کر لکڑی کا سایہ جب دوگنا ہو جائے گا تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک ظہر کا وقت ختم ہوجائے گا۔‘‘
شایدزید یہ دونوں قول متاخرین حنفیہ کے دیکھ کر اس سے اپنا مطلب نکالتا ہے مگر درحقیقت یہ اس کی سمجھ کافرق ہے ، ان دونوں قولوں کا بھی وہی مطلب ہے جوشامی اور صاحب شرح وقایہ نےبیان کیاہے ،مطلب اس علامت اور خط سے بھی یہی ہے کہ فی الزوال کا قدر معلوم کرنا ضروری ہے، اس علامت اور خط کے اندازہ پر سایہ جس طرح ہوجائے، اسی قدر بوقت عصر چھوڑ کر زائد ازاں ایک مثل پورا کرنا ضروری ہے غرضیکہ زید کی تشریح و بیان لی سند میں میری نظر سے نہ کسی محدث کا قول گذرا ہے اور نہ کسی فقیہ کا یہ فقط اس کا عندیہ معلوم ہوتا ہے ۔ واللہ اعلم عبدالجبار بن عبداللہ الغزنوی۔
بیشک فیصلہ مولوی عبدالجبار غزنوی بہت درست ہے اور پیمائش ان کی موافق حدیث جابرؓ جو ذیل میں درج ہے، بہت ٹھیک ہے کہ جس طرح سایہ بعد زوال پڑے، لکڑی کی جڑ سے بقدر سایہ اصلی یعنی فی زوال اور ایک مثل کے ہوجانے سے وقت عصر کا ہوجائے گا ،حدیث یہ ہے: عن [9]بشیر بن سلام قال دخلت انا و ممد بن علی علی جابر بن عبداللہ الانصاری فقلنا اخبرنا عن صلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و ذاک زمن الحجاج بن یوسف قال خرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فصلی الظہر حین ذالت الشمس وکان الفئ قدر الشراک ثم صلی العصر حین کان الفئ قدر الشراک و ظل الرجل الخ۔
یہ حدیث نسائی میں صحیح سند سے مروی ہے اور سندھی محدث نے اس پر یہ حاشیہ لکھا ہے : قدر[10] الشراک بکسر الشین احد سیور النعل التی علی وجہہا و ظاہر الروایۃ ان المراد الفئ الاصلی لا الزائد بعد الزوال ولذلک استثق فی وقت العصر اورمجمع البحار میں لفظ شرا ک کے تحت میں اس حدیث شراک کی شرح یوں ہے۔’’ظہر اس وقت پڑھی ، جب سایہ ایک شراک کے برابر تھا اور یہ جوتی کا ایک تسمہ ہوتا ہے جو سامنے کی طرف ہوتا ہے اور یہاں اس سے تحدید مراد نہیں لیکن سورج کا زوال اس وقت تک ظاہر نہیں ہوتا، جب تک کہ کم از کم سایہ نمودار نہ ہو، مکہ میں اس وقت اتنا ہی اندازہ تھا اور سایہ جگہ اور موسم کی تبدیلی سے بدلتا رہتا ہے۔‘‘
یہ پیمائش موافق حدیث ایک مثل کے ہے، یہی مذہب راجح ہے اورمذہب ثانی جو راجح نہیں لیکن بالکل بے اصل بھی نہیں، جیسا کہ حدیث ابوہریرہؓ کا مضمون ہے: صلی[11] الظہر اذا کان طلک مثلک و العصر اذا کان ظلک مثلیک رواہ فی المؤطا، اسی واسطے مولوی عبدالجبار صاحب نے مذہب ثانی کی پیمائش بھی درج کردی ، ورنہ ان کے نزدیک روایت معمول بہا ایک ہی مثل ہے اور زید کی پیمائش پر جو قول کسی فقیہ یا محدث کا نہ ملا تو بیان کردیا کہ یہ اس کا عندیہ ہے پھر پیمائش زید مخالف ہے حدیث کے بھی ، حدیث کہتی ہے فئ یعنی سایہ پیمائش کیاجائے اور زید کی پیمائٍش میں دھوپ چلتی ہے اور دوسرے مخالف ہے حدیث قیراط کے بھی، جو بخاری د رباب وقت عصر سن ادرک رکعۃ قبل الغروب لایا ہے جس سے عصر کا وقت بہ نسبت ظہر کم معلوم ہوتا ہے نہ برابر نہ زیادہ ، فتح الباری میں اس حدیث کے تحت میں لکھا ہے ، اگر وقت عصر کے ایک مثل پر تفریح کی جائے ،جیسے کہ مذہب جمہور کا ہے ،اجیب[12] یمنع المساواۃ و ذلک معروف عند اھل العلم بھذا الفن وھو ان المدۃ التی بین الظہر والعصر اطول من المدۃ بین العصر والمغرب ، زید کی پیمائش میں برخلاف اس کے زید کا مقولہ در ست نہیں ہے ، ورنہ لازم آئے گا کہ جن ایام میں سایہ اصلی ایک مثل یا ا س سے زائد ہو تو نماز ظہر کا کوئی وقت نہ رہے گا اس لیے کہ بغور ڈھلنے کے ایک مثل سایہ ہوجانے کے سبب اس تقدیر پر عصر کا وقت ہوجائے گا۔ فقہ واللہ تعالیٰ اعلم۔ بندہ رشید احمد گنگوہی عفی عنہ
دونوں مجیب نے جو کچھ لکھا ہے ، بہت صحیح و درست لکھا ہے مگر مجیب ثانی نے جو یہ فرمایا کہ ’’مذہب ثانی (یعنی وقت ظہر کا مثلین تک باقی رہتا ) جو راج نہیں لیکن بالکل بے اصل بھی نہیں، جیسا کہ حدیث ابوہریرہؓ کا مضمون ہے۔ صل [13]الظہر اذا کان طلک مثلک و العصر اذا کان ظلک مثلیک رواہ فی المؤطا، سو یہ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ ابوہریرہؓ کی اس حدیث کے مضمون سے مذہب ثانی کا یا اصل ہونا ثابت نہیں ہوتا اس واسطے کہ اس حدیث میں ظہر و عصر کے اوّل وقت کا بیان نہیں ہے بلکہ آخر وقت کا بیان ہے اور مضمون اس حدیث کا یہ ہے کہ ظہر کا وقت زوال افتاب سے ایک مثل تک ہے اور عصر کا وقت ایک مثل کا یہ ہے کہ ظہر کا وقت زوال آفتاب سے ایک مثل تک ہے اور عصر کا وقت ایک مثل سے مثلین تک ، پس اس حدیث کے مضمون سے مذہب ثانی ک ا بااصل ہونا نہیں ثابت ہوتا ہے بلکہ معاملہ برعکس ہے۔
التعلیق الممجد میں فرماتے ہیں: ’’ کہ اس میں صرف آخری مستحب اوقات کا ذکر کیاہے نہ کہ ابتدائی وقتوں کا گویا آپ نے فرمایا کہ ظہر زوال سے شروع ہوکر ایک مثل تک ہے اور اس وقت سے آگے دو مثل تک عصر کا وقت ہے۔‘‘ (سید محمد نذیر حسین)
[1] نبی ﷺ کی نماز کا اندازہ گرمیوں میں تین اقدام سے پانچ اقدام تک تھا اور سردیوں میں پانچ سے سات اقدام تک تھا۔
[2] جب ظہر کا وقت نکل جائے اور زوال کے سایہ کے علاوہ ہرچیز کا سایہ اس کے مثل ہوجائے تو اب عصر کاوقت شروع ہوگیا۔
[3] ظہر کی نماز اس وقت پڑھ جب کہ زوال کے سایہ کے علاوہ تیراسایہ تیری مثل ہوجائے۔
[4] ظہر کا آخری وقت یہ ہے کہ کسی چیس کا سایہ اس کے برابر ہوجائے اس سایہ کے علاوہ جو وقت زوال ہوتا ہے ۔
[5] ظہر کا وقت یہ ہے کہ ہر چیز کا سایہ زوال کا سایہ نکال کر اس کے برابر ہوجائے۔
[6] وہ کہتے ہیں کہ سایہ زوال کو چھوڑ کر جب کسی چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجائے تو یہی ظہر کاوقت ہے۔ امام ابوحنفیہ سے بھی ایک روایت یہی ہے اور سایہ زوال سے وہ سایہ مراد ہے جونصف النہار کے وقت ہوتا ہے۔
[7] اس کا آخری وقت یہ ہے کہ ہر چیز کا سایہ سوائے دوپہر کے سایہ کے اس کے برابر ہوجائے۔
[8] زوال کے معلوم کرنے کاطریقہ یہ ہے کہ ایک لکڑی سیدھی کھڑی کی جائے جب اس کا سایہ کم ہوتے ہوتے ایسی جگہ پہنچ جائے کہ اس کے بعد بڑھنے لگے تو یہیزوال کا وقت ہے ۔ اب زوال کے وقت جو سایہ ہوتا ہے اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا بلکہ وہ سایہ معتبر ہوگا جو اس کے بعد شرو ع ہوا ہے۔
[9] حضرت بشیر بن سلام فرماتے ہیں کہ میں اور محمد بن علی حضرت جابر بن عبداللہ الانصاری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کی نماز کے متعلق سوال کیا (یہ حجاج بن یوسف کا زمانہ تھا) آپ نے فرمایا : آنحضرتﷺ باہر تشریف لائے۔ ظہر کی نماز اس وقت پڑھی جب کہ سورج ڈھل چکا تھا اور سایہ تسمہ کے برابر تھا پھر آپ نے عصر اس وقت ادافرمائی جب سایہ تسمہ کے سائے کے برابر تھا۔
[10] شراک، شین کی زبر سے جوتی کے اوپر کی جانب ، جوتسمے ہوتے ہیں ان میں سے ہر ایک کو شراک کہتے ہیں، اس روایت سےظاہر ہوتا ہے کہ یہاں اصل سایہ مراد ہے نہ کہ زائد جو کہ زوال کے بعد ہوتا ہے اس لیے عصر کے وقت سے اس کو مستثنیٰ کردیا ہے۔
[11] توظہر اس وقت پڑھ جب تیراسایہ تیرےبرابر ہوجائے اور عصر اس وقت جب کہ سایہ دوگنا ہوجائے(مؤطا)
[12] جواب دیتے ہوئے برابری کی نفی کی گئی ہے اور یہ بات اس فن میں مہارت رکھنے والوں کے نزدیک مشہور ہے کہ جو وقفہ ظہر اور عصر کے درمیان ہے وہ اس مدت سے زیادہ ہے جو عصر اور مغرب کے درمیان ہے۔
[13] ظہر اس وقت پڑھیئے، جب آپ کا سایہ آپ کے مثل ہو، اور عصر جب سایہ دو مثل ہو۔(مؤطا)