سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(903) قویۃ الایمان نے آنحضرت ﷺ کو بڑا بھائی کہا ہے

  • 5506
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2956

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

صاحب تقویۃ الایمان نے  آنحضرت ﷺ کو بڑا بھائی کہا ہے، حالانکہ تمام انبیاء آپ کی تابعداری کرنے اور امتی ہونے کی خواہش کرتے  رہے اور اگر حضور نے اپنے آپ کو صحابہ یا امت کا بھائی کہا ہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم بھی ان کو اپنا بھائی کہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

معترض کا یہ اعتراض بھی صاحب تقویۃ الایمان کے فائدہ پر جو انہوں نے حدیث اعبدوا ربکم و اکرموا اخاکم کے تحت لکھا ہے، سراسر جہالت اور قرآن مجید و حدیث شریف پر عدم عبور کی بنا پر ہے، اور یہ اعتراض دو طرح پر مردود ہے۔

وجہ اوّل یہ ہے کہ مسلمان آپس میں  خواہ ادنیٰ ہوں یا اعلیٰ ایک اصل ایمان کی طرف منسوب ہونے کی بنا پر بھائی بھائی ہیں یعنی ایمان اور اسلام بمنزلہ باپ کے ہے اور تمام مسلمان دینی بھائی ہیں اور دینی اور اسلامی نسبت سب سے اشرف و اعلیٰ ہے اور کافر بھی اپنی ملت کفریہ کی وجہ سے آپس میں  بھائی ہیں،اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں  فرماتے ہیں کہ ’’مومن سب آپس میں  بھائی بھائی ہیں‘‘ یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ اَخ (بھائی) کی جمع دو طرح سے آتی ہے ایک اخوۃ اور دوسری اخوان، اہل لغت کہتے ہیں کہ اخوۃ حقیقی بھائیوں کی جمع کے لیے آتا ہے اور اخوان دوستی کی وجہ سے بھائی کی جماع پر بولا جاتا ہے اور یہاں جمع اخوۃ ہے یعنی مسلمان سب آپس میں  حقیقی بھائی ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ لفظ مومنون اورمسلمون عام ہیں، جس سے مسلمانوں اور مومنوں کا کوئی فرد بھی باہر نہیں ہے اور آنحضرتﷺ کو اس سے خارج کرنا تخصیص بلا مخصص ہے۔

اگر کوئی  یہ اعتراض کرے کہ ہم بدحال لوگوں کو آنحضرتﷺ سے کیا نسبت ؟ لہٰذا آپ کو عموم نص ’’انما المنون اخوۃ‘‘ سے خارج سمجھا جائے گا۔ اور اس طرح آپ کو ’’بڑا بھائی‘‘ کہنا جائز نہ ہوگا اور اس صورت میں  آپ پر بھائی کا اطلاق کرنا سراسر بے ادبی اور گناہ ہوگا۔ تو  میں  اس کے جواب میں  تفسیر کبیر کا اقتباس پیش کرتا ہوں کہ لکھتے ہیں ’’جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو آدم کے سامنے سجدہ بجالانے کا حکم دیا تو شیطان  نے اس نص کو بالکلیہ رد نہیں کیا، بلکہ اپنے آپ کو اس آیت کے عموم نص سے قیاس کی بنا پر خاص کرلیا اور کہا  خلقتنی من نارو خلقتہ من طین اور تمام علماء کا اس پراتفاق ہے کہ شیطان نے قیاس کو نص پر مقدم کیا اور اس سبب سے ملعون ہوگیا اور یہ عبارت دلالت کرتی ہے کہ قیاس کی بنا پر نص کی تخصیص کرنا حقیقت میں  قیاس کو نص پر مقدم کرنا ہے اور یہ جائز نہیں ہے کہ اب اس آیت کے عموم کو قیاس کی بنا پر  خاص کرنے والے اپنے متعلق سوچیں کہ وہ کون ہیں۔

آنحضرتﷺ نے جب حضرت ابوبکر صدیقؓ سے حضرت عائشہ ؓ کا رشتہ پوچھا تو حضرت ابوبکرؓ نے اخوت اسلامی کی بنا پر عرض کیا یا حضرت میں  تو آپ کا بھائی ہوں، تو آپؐ نے فرمایا، ہاں واقعی تو میرا اسلامی بھائی ہے لیکن اس سے حرمت نکاح ثابت نہیں ہوتی، نکاح کی حرمت نسب یا رضاع سے ثابت ہوتی ہے۔

اور قرآن مجید میں  ہے کہ ’’اگر وہ توبہ کریں اورنماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو دین میں  تمہارے بھائی ہیں ، اب  اس آیت اور اوپر کی حدیث سے آنحضرتﷺ کا بھائی ہونا ثابت ہوا ’’اخوانکم‘‘ میں  ضمیر ’’کم‘‘ کے اوّلین مخاطب تو آنحضرتﷺ ہی ہوں گے کیونکہ وحی اصالۃً آپ  ہی کی طرف آتی تھی اور دوسرے مسلمان بعد میں  مخاطب تصور ہوں گے۔

پس قرآن مجید کی دونوں آیات اور حدیث ، آنحضرتﷺ کو ہمارا بھائی بنا رہی ہیں اور چونکہ آپ کا ایمان ساری دنیا والوں کے ایمان سے بھی ہزار ہا بلکہ کروڑ ہا گنا زیادہ ہے ۔ لہٰذا آپ بڑے بھائی ہوں گے اور باقی تمام امت چھوٹے بھائی۔

اس کے بعد اس حدیث پر بھی غور فرمائیں کہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ قبرستان میں  تشریف لائے، مردگان کے لیے دعا فرمائی اور کہا کاش ہم اپنے بھائیوں کو دیکھ لیتے ، صحابہ نے عرض کیا،یارسول اللہﷺ کیا ہم آپ کے بھائی نہیں آپ نےفرمایا، تم میرےبھائی ہو، میرے بھائی وہ ہیں جوابھی  پیدا نہیں ہوئے بعد میں  آئیں گے۔

علامہ طیبی کہتے ہیں کہ ’’آنحضرتﷺ نے صحابہ کے بھائی ہونے کی نفی نہیں فرمائی بلکہ ان کی ایک اور فضیلت بیان کردی جوبھائی ہونے کے علاوہ ان کو نصیب تھی، شیخ محی الدین ابن عربی فتوحات مکیہ میں  فرماتے ہیں کہ صحابہ کو آنحضرتﷺ کی ذات نصیب ہوئی اور ہمیں  ان کا اسم گرامی ملا، ہم نے جب اس اسم کی رعایت ذات کی طرح کی اور پھر ہمارے دلوں میں  آنحضرتﷺ کے دیدار کی حسرت بھی رہی تو ہمارا اجربہت بڑھا دیا گیا، ہم کو بھائی کا درجہ نصیب ہوا اور ان کو صحابی کا‘‘

تو ان تصریحات کی روشنی میں  صاحب تقویۃ الایمان کی عبارت بالکل صحیح ہے اور معترض متعصب اور نادان ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ صاحب تقویۃ الایمان نے جو یہ لکھا ہے کہ ’’انسان آپس میں  سب بھائی ہیں ، جوبڑا بزرگ ہو، وہ بڑا بھائی ہے، سو ان کی تعظیم انسانوں کی سی چاہیے نہ خدا کی سی ‘‘ الخ، تو یہ جاہل مسلمانوں اور بعض بے وقوف صوفیوں کے قول کی تردید کے لیے لکھا ہے، جوکہ آنحضرتﷺ کو لوازم بشریت سے نکال کر بجائے منصب رسالت و نبوت کے مرتبہ الوہیت پر پہنچا دیتے ہیں اور ناممکن افعال جو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک سے خاص ہیں، ان کی طرف منسوب کرتے ہیں اور اس طرح کفر و شرک میں  مبتلا ہوجاتے ہیں، چنانچہ وہ لوگ تو یہاں تک پہنچ گئے کہ آنحضرتﷺ کو مجسم خدا ماننے لگے اور کہہ دیا کہ آنحضرتﷺ تو اسم اللہ سے پیدا ہوئے اور دوسری تمام مخلوقات دوسرے اسماء سے اور اس میں  اتنا غلو کیا کہ کہنے لگے کہ جب اللہ کا اسم متعین ہواتو اس کا نام محمدؐ ہوگیا اور اگر محمد مطلق ہوجائے تو اللہ بن جائے، نعوذ باللہ من ہذا الخرافات، ہندو مہادیو اور رام چند کو خدا کا اوتار کہتے ہیں، یہ لوگ نبیﷺ کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے ہیں ، ان کی یہ بات عیسائیوں کے فرقہ یعقوبیہ کی طرح ہے، جنہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کہا، ان کا عقیدہ یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام میں  خدا نے حلول کیا تھا یہی وجہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام سے ایسے افعال صادر ہوتے تھے، جوخدا کے ساتھ مختص ہیں۔

شاہ عبدالقادر صاحب دہلوی نے موضح القرآن میں  آیت قد لا اقول لکم عندی خزائن اللہ الایۃ کے تحت لکھا ہے کہ ’’پیغمبر آدمی کے سوا اور کچھ نہیں ہوجاتے کہ ان سے محال باتیں طلب کرے ایک اندھے اور دیکھتے کا فرق ہے‘‘

تفسیرکبیر میں  امام رازی نے اسی آیت کے تحت لکھا ہے ’’آپ ان سے کہہ دیں کہ میرا کام تو صرف انذار اور تبشیر ہے، میں  اللہ تعالیٰ سے زبردستی کوئی چیز نہیں منوا سکتا اور آپ نے تین چیزوں کی نفی فرمائی، میرے پاس اللہ کے خزانے نہیں ہیں، میں  غیب نہیں جانتا اور میں  فرشتہ نہیں ہوں، اس لیے کہ وہ کہتے تھے اگر آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہمیں  دولت مند بنا دیجئے،اگر یہ نہیں کرسکتے تو کم از کم ہمیں  غیبی خبریں ہی بتا دیجئے تاکہ ہم چیزوں کے نرخ معلوم کرکے نفع حاصل کرسکیں، اگر یہ بھی نہیں ہوسکتا تو کم از کم خود ہی ہماری سطح سے بلند ہوکر دکھائیے،کھانے پینے کی محتاجی جیسے ہم کو ہے تم کو نہیں ہونی چاہیے،تو ان کاایک ہی جواب دیا گیا کہ میں  تو صرف ایک انسان ہوں اور خدا کا رسول ہوں۔‘‘

دیکھئے صاحب تفسیر کبیر کی تقریر بھی تو صاحب تقویۃ الایمان  ہی کی طرح ہے اور شاہ عبدالعزیز سورہ جن کی تفسیر میں  لکھتے ہیں ’’جاننا چاہیے کہ ذکراور  عبادت کی مثال ایسی ہے کہ جیسے اپنے معبود کو کسی مقام پر بلایا جائے تو جیسے بادشاہ کو کسی جگہ اجلاس کرنے کی دعوت دی جائے اور اس کے ساتھ ہی  کسی اور کو بھی دعوت دے دی جائے، تو یہ بادشاہ کی انتہائی توہین ہے،ایسا ہی اگر خدا تعالیٰ کو پکاریں اور اس کے ساتھ کسی اورکو بھی  پکاریں تو اس سے خدا تعالیٰ کی توہین ہوتی ہے۔ وانہ لما قام عبداللہ یعنی جب بندہ خدا تعالیٰ کو پکارنے اور اس کی عبادت کرنے لگا تو جنوں اور انسانوں نے سمجھ لیا کہ اب  یہ مقبول الدعوات ہوگیا، حق تعالیٰ نے اس پر تجلی فرمائی ہے تو اس پر تہ بر تہ گرنےلگے ۔کوئی اس سے فرزند کا طلب گار ہوا، کوئی رزق کی فراخی کا، کوئی صحت اور خوش حالی کا، اور اس کےاوقات کو پریشان کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے  فرمایا، آپ ان سے کہہ دیں کہ میں  تو اپنے رب کو پکارتا ہوں کہ وہ میرے ظلمت کدہ دل کو پریشانی اوقات کی ظلمت سے منور کردے اور میں  اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا اور جب میں  خود اس کے ساتھ کسی کو شریک کرنے کے لیے تیار نہیں تو میں  یہ کب گوارا کرسکتا ہوں کہ کوئی مجھ ہی کو خدا کا شریک  بنانے لگے اور اگر  ان دونوں فرقوں کو آپ سے نفع و نقصان کی امیدیں ہوں تو صاف کہہ دیجئے کہ میں  تو اپنے نفع و نقصان کا مالک بھی نہیں ہوں اور اگر خدا کی نافرمانی اور بے ادبی اور گستاخی کرکے آپ کے دامن میں  پناہ لینا چاہیں تو آپ کہہ دیں کہ خود میرے لیے بھی خدا کے سوا کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہے۔

اور معترض نے صاحب تقویۃ الایمان مولانا اسمعٰیل شہید کی جس عبارت پر اعتراض کیا ہے وہ اس حدیث کا فائدہ ہے کہ آنحضرتﷺ مہاجرین و انصار کی ایک جماعت میں  تشریف فرما تھے ، ایک اونٹ نے آکر آپ کو سجدہ کیاتو صحابہ نے عرض کیا ،یارسول اللہﷺ چارپائے جانور اور درخت آپ کو سجدہ کرتے ہیں تو ہمارا زیادہ حق ہے کہ ہم آپ کو سجدہ کریں تو آپ نےفرمایا ، اپنے رب کی عبادت کرو اور اپنے بھائی کی عزت کرو اگر میں  اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنےکی اجازت دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔

جانور اور درخت چونکہ احکام شرعیہ کے مکلف نہیں ہیں، لہٰذا ان کو اس سے روکا نہیں جاسکتا اور جن و انس چونکہ مکلف ہیں اور شریعت میں  حکم ہے کہ خدا کے سوا کسی کو سجدہ نہ کیا جائے ، لہٰذا انسانون کو اس سے منع فرمایا گیا اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ کا درختوں اور جانوروں کے سجدہ پر قیاس کرکے خود سجدہ کرنا حضور کے نزدیک مقبول نہ ہوسکا، کیونکہ  یہ قیاس مع الفارق تھا، لہٰذا آپ نے فرمایا اپنے رب ہی کی عبادت کرو اور میری عزت کرو، بخاری کی حدیث میں  ہے کہ آپ نے فرمایا ، میری تعظیم میں  اس طرح مبالغہ نہ کرنا جس طرح عیسائیوں نے  حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعریف میں  مبالغہ کیا، کہ ان کو عبدیت کے مقام سے نکال کر الوہیت کے مقام پر پہنچا دیا تم یہی کہتے رہنا کہ محمدؐ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، میں  تمہارے ہی جیسا ایک آدمی ہوں، ہاں اللہ تعالیٰ نے مجھے نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا ہے اور اس مرتبہ میں  مجھ کو وہ مقام بخشا ہے جو دوسرے لوگوں کونصیب نہ ہوا، میں  تمام بنی آدم کا سردار ہوں،فخریہ نہیں کہتا بلکہ حقیقت کا اظہار کرتا ہوں۔

غافل مزاج معترض کو سورہ اعراف کی تلاوت بڑے غور سے کرنی چاہیے کہ خداوند تعالیٰ نے انبیاء کو مشرکین کا بھائی قرار دیاہے ، حالانکہ قرآن کی نص کی رو سے مشرک ناپاک ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو  بھیجا‘‘ آلایۃ اور ’’ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا‘‘ اور ’’مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا‘‘ آلایۃ

پس اس صورت میں  اگر مولانا شہیدنے بہت سے جہلاء کے فاسد عقیدہ کی تردید میں  جو کہ آپ کو خداوندی مقام پر پہنچا دیتے ہیں اور مختار کل جانتے ہیں۔ آنحضرتﷺ کو بڑا بھائی لکھ دیا ہے تو شرعی لحاظ سے اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ اعتراض تو تب ہوسکتا کہ وہ یہ لکھتے کہ انبیاء و دیگر اہل تمکین اور بزرگان دین اپنے خصائل مذمونہ میں  چماروں کی طرح ہیں، کلاوحاشا کہ کوئی ادنیٰ آدمی بھی ایسا لکھے، چہ جائے کہ مولانا صاحب مرحوم ایسا لکھتے، چنانچہ میرے اس دعویٰ پر تقویۃ الایمان ہی کی بہت سی عبارتیں گواہ ہیں، بطور مشتے نمونہ از خروارے تین چار عبارتیں ملاحظہ فرمائیں۔

اولاً... اسی مقام پر غور فرمائیں کہ یہاں ’’بڑا ہو یا چھوٹا‘‘ درجات کے تفاوت کی اطلاع دے رہا ہے۔

ثانیاً... ’’قل لااملک لکم ضراد لا رشدا‘‘ کے تحت لکھتے ہیں کہ ’’سب بڑوں کے بڑے پیغمبر خداﷺ رات دن اللہ تعالیٰ سے ڈرتے تھے‘‘

ثالثاً... آیت ’’قل لا املک لنفسی نفعاد ولاضرا‘‘ کے تحت لکھتے ہیں کہ ’’اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء اور اولیاء کو جو اللہ  نے سب لوگوں سے بڑا بنایا ہے، سو ان میں  بڑائی یہی ہے کہ وہ اللہ کی راہ بتاتے ہیں‘‘ الخ

رابعًا ... اعرابی کی حدیث کے ضمن میں  فرماتے ہیں’’سبحان اللہ اشرف المخلوقات محمد رسول اللؐہ     کی تو اس دربار میں  یہ حالت ‘‘ الخ

عجیب معاملہ ہے کہ مولانا شاہ اسماعیل صاحب تو شریعت کی بے ادبی کرنے والوں کو بے ادب فرماتے ہیں اور یہ لوگ مولاناممدوح ہی کو بے ادب  کہنے لگے۔ اب مولانا ممدوح کے اس دو ورقہ رسالہ کا مضمون نقل کیا جاتا ہے جو  انہوں نے سید عبداللہ بغدادی اور دوسرے معترضین کے جواب میں  لکھا تھا،علمائے کرام سے درخواست ہے کہ وہ اس مضمون کو تعصب چھوڑ کر بغور ملاحظہ فرمائیں، پھر ان اعتراضات کی قلعی خود بخود ان پر کھل جائے گی اگر انصاف سے کام نہ لیا جائے تو بہت سے منکرین نے تو قرآن پر بھی اعتراض کردیئے تھے۔ ان کو جواب یہی ملا تھا کہ ’’یضل بہ کثیرا و یہدی بہ کثیرا وما یضل بہ الاالفاسقین‘‘ آلایۃ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

حمد و صلوۃ کے بعد میں  اس ذات شریف کی خدمت اقدس میں  سلام کا ہدیہ پیش کرتا ہوں، جو اسلام کی انتہائی بلندیوں پر فائز ہونے کے علاوہ نسبی لحاظ سے بھی حضرت محبوب سبحانی سید عبدالقادر جیلانی  کی اولاد سے تعلق رکھتی ہے یعنی سید عبداللہ بغدادی عالم ربانی کی خدمت میں  آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میں  نے جب ہندوستان کے مسلمانوں کو دیکھا کہ وہ شرک و بدعات میں  مبتلا ہیں اور واہیات دلائل سے استدلال کرکے قبروں کی پرستش کرتے ہیں، ان سے اپنی حاجتیں مانگتے ہیں ، تو ان کی تردید کے لیے ایک رسالہ تصنیف کیا۔ جس میں  قرآنمجید کی چھبیس آیات سے استدلال کیا اور سہولت کے لیے ہندی زبان میں  ان کا ترجمہ بھی کردیا اور خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس رسالہ کی بدولت ہزار ہا مردوں اور عورتوں کے عقیدے درست ہوگئے لیکن  بعض جاہلوں نے اس پر اعتراضات کرنے شروع کردیئے، مجھے معلوم ہوا کہ میرا وہ رسالہ آنجناب کی خدمت میں  پڑھا گیا ہے ، آپ نے اس کے متعلق فرمایا ہے کہ ’’بات تو صحیح ہے لیکن عدم اختیار اور مخلوقیت کے باب میں  نبیوں اور عوام الناس اور بتوں کو برابر کردیا ہے اگرچہ یہ بات ہمارے عقیدے میں  شامل ہے لیکن یہ ایک طرح کی بے ادبی اور گستاخی ہے۔ اس کے لیے  کوئی دلیل ہونی چاہیے کیونکہ بت ناپاک ہیں، ان کو آنحضرت ﷺ کے برابر کیسےکیا جاسکتا ہے۔

اس کے جواب میں  گذارش ہے کہ میرے رسالہ کی یہ عبارت ان لوگوں کے عقائد کی تردید میں  واقع ہوئی ہے، جو کہتے ہیں کہ بتوں سے مدد مانگنا یا ان کی عبادت کرنامنع ہے، نبیوں اور ولیوں سے مدد مانگنا یا ان کی پوجا کرنا منع نہیں ہے، میں  نے اس کے جواب میں  لکھا ہے کہ حقیقی استعانت عقل کے نزدیک صر ف اسی سے جائز ہوسکتی ہے جس کا  تدبیرعالم میں  پورا اختیار ہو اور یہ تو قرآن کی قطعی نصوص سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کو اختیارنہیں ہے تو  نبیوں کو اس امر خاص یعنی سجدہ کرنے، بارش  برسانے اور اولاد عطا کرنے وغیرہ میں  دوسری مخلوقات اور بتوں سے ترجیح نہیں ہے اور ان کی عنداللہ قربت اور کمالات و فضائل کا ہرگز انکار نہیں ہے، لیکن ان چیزوں کاربوبیت اور الوہیت  میں  کوئی دخل نہیں ہے۔

آنجناب کی ذات سے بڑا تعجب ہوا کہ جب آپ یہ اقرار کرتے ہیں کہ ’’یہ بات صحیح ہے اور عقیدے میں  داخل ہے‘‘ تو پھر آپ اسے سورادبی کیوں فرماتے ہیں،کاش مجھے اس بات  کی سمجھ آجائے کہ جب ایک چیز دلائل سے ثابت ہو، عقیدے میں  شامل ہو، تو پھر وہ بے ادبی کس طرح بن جاتی ہے ، آپ کاکلام اجتماع ضدین کی طرف اشارہ کرتا ہے اور پھر سند تو اس چیز کی طلب کی  جاتی ہے جودلیل سے ثابت نہ ہو۔ اگر ایک چیز اجمالی طور پر قرآن مجید میں  موجود ہو اور اس کی تفصیل کردی جائے تو اس میں  جرم کیاہے اور اس  کی دلیل اور کیادرکار ہے؟ یہ تو آپ کو تسلیم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں  فرمایا ہےکہ ’’آپ کہہ دیں میں  تمہارے ہی جیسا آدمی ہوں، میری طرف وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی ہے‘‘ اور یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ’’مثلکم‘‘ کے مخاطب مشرک لوگ ہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے بشریت میں  رسول اللہ ﷺ کومشرکوں کے ساتھ کیوں تشبیہ دے دی حالانکہ خود خداوند تعالیٰ نے مشرکوں کی نجاست قرآن مجید میں  ’’انما المشرکون نجس‘‘ کہہ کربیان کردی ہے۔

باقی رہا بتوں کا معاملہ تو ان میں  نجاست ذاتی نہیں، ورنہ تمام پتھر ناپاک ہوتے ، حالانکہ ایسا نہیں ہے،ان میں  جو  نجاست آئی ہے وہ مشرکوں کے عمل سے آئی ہے ، تو معلوم ہوا کہ مشرک بتوں سے بھی زیادہ ناپاک ہیں اور پھر بھی خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو مشرکوں سے تشبیہ دی ہے اور اگر آپ یہ کہیں کہ ایسالکھنے کا فائدہ کیا تھا تو اس کا جواب میں  پہلے عرض کرچکا ہوں کہ مشرکین کے فاسد عقائد کی تردید کرنا مقصود ہے۔

میں  جانتا ہوں کہ ایک پنجابی آدمی  آپ کو وسوسے ڈالتا ہے ، اے شیخ آپ اس کے حالات سے واقف نہیں ہیں، وہ ایک مخبوط الحواس اورجاہل آدمی ہے اور حقیقۃً دجال کا نائب ہے، کیونکہ  کبھی وہ کہتا ہے کہ میں  محبوب سبحانی کابندہ ہوں، کبھی کہتا ہے شیخ عبدالقادر جیلانی دنیا کے رازق ہیں، نعوذ باللہ من ہذہ الکلمات الکفریۃ ،ایسی باتیں تو کوئی جاہل بھی نہیں کہہ سکتا ، چہ جائے کہ کوئی عالم کرے، جناب سے درخواست ہے کہ آپ اس کی باتوں پراعتبار نہ کریں وہ ایک سامری آدمی ہے، اللہ اسے ہدایت دے۔

1240ھ میں ، میں  کانپور میں  مقیم تھا کہ جاہلوں نے سید بغدادی کے دل میں  وسوسے ڈالے جب میرا یہ خط آپ کے پاس پہنچا تو وہ معذرت کرنے کے لیے تشریف لائے اور فرمایا کہ آپ کے رسالہ کامضمون بالکل  صحیح ہے، چونکہ  یہ رسالہ ہندی زبان میں  تھا اور میں  ہندی زبان سے ناواقف تھا، اس آدمی نے آپ کے کلام کاغلط ترجمہ کرکےمجھ کو بہکایا اور آپ پربہت سے الزام لگائے، اب آپ ناراض نہ ہونا‘‘ (شاہ اسماعیل شہید کے رسالہ کا مضمون ختم ہوا)

 


قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ