السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ابن عربی کے اچھا ہونے کی نسبت علماء مختلف ہیں۔ فیصلہ کن بات کیا ہے ؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب مسائل میں علماء کا اختلاف ہوجاتا ہے۔ ایسے ہی کسی کی نسبت فتوی لگانے میں بھی اختلافِ رائے ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان کی حالت ہمیشہ ایک نہیں رہتی ، ایک وقت انسان سے لغزش ہو جاتی ہے تو دوسرے وقت رجوع کرلیتا ہے ، کسی کو رجوع کا پتہ لگتا ہے ، کسی کونہیں لگتا ، جس کولگ گیا۔ اس نے اس پر نیک گمان کیا اور دوسرا بدستور بدگمان رہا ، کبھی غلطی پر اطلاع نہیں ہوتی تو انسان اسی طرح غلطی پر گزر جاتا ہے۔ جن کو حالات کا پورا علم نہیں ہوتا وہ تو صرف غلطی دیکھ کر بدگمان ہوجاتے ہیں ، اور جو پورے واقف ہوتے ہیں وہ جانتے ہیں۔ کہ یہ دیدہ دانستہ اس غلطی پر نہیں تھا ، بلکہ اس کا باعث بے خبری تھی اور کبھی ایک بات ایک کی نظر میں گمراہی ہوتی ہے دوسرے کی نظر میں گمراہی نہیں ہوتی ، اس لیے بھی فتوی میں اختلاف ہوجاتا ہے۔ غرض اس قسم کے وجوہات پیدا ہو کر اختلاف رائے کا باعث بن جاتے ہیں۔ اور بعض دفعہ ہٹ دھرمی کے طور بھی کسی کو اچھا برا کہا جاتا ہے۔ مگر خیر امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم یا علامہ شوکانی وغیرہ تو ایسے شخص نہ تھے۔ کہ ان کے فتوی اس قسم کے ہوں۔ ان کے فتوؤں کے وجوہات تو وہی پہلے ہیں۔
اب ہمیں اس موقعہ پر کیا کرنا چاہیے۔ جو بات ان کی غلط ہے اس کوغلط کہنا چاہیے اور ان کی ذات کی نسبت اس آیت پرعمل کرنا چاہیے:
’’تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ‘‘
’’یہ امت ہے جو گزرچکی، جو انہوں نے کیا ان کے لئے ہے اور جو تم نے کیا تمہارے لئے، تم ان کےاعمال کے بارے میں سوال نہ کئے جاؤ گے‘‘(سورۃ البقرۃ:141)
قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائلجلد 01 |
|