کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ جو لوگ آج کل بعد نماز جمعہ کے چار رکعت احتیاط الظہر پڑھتے ہیں اور اس کے تارک کو ملوم جانتے ہیں۔ اور یہاں تک پابندی اس کی ہوگئی کہ بعض شہروں میں تو مثل جدہ وغیرہ کے جماعتیں اس کی ہونے لگی ہیں، آیا یہ نماز احتیاط کی اس صورت مسئولہ میں جائز ہے یا نہیں، اور اگر ایسی پابندی ایک خاص شخص کے عقیدے میں نہ ہو، مگر اس کو ایسی پابندی کے زمانہ میں دوسروں کے ساتھ مشابہت اس عمل کی جائز ہے یا نہیں اور اگر وہ پڑھے گا، انہی میں داخل ہوگا یا نہیں اور بصورت عدم پابندی و اصرار کالو جوب کے نفس اس نماز احتیاط کا کیا مسئلہ ہے۔ جس نے اس کو نکالا تھا کس بنا پر نکالا تھا اور کس درجہ میں رکھا تھا اور اب کس درجہ میں پہنچا اور تعجب پر تعجب ہے کہ اس نماز احتیاط کو عوام کیا بعض علماء بھی پڑھتے ہیں، واللہ اعلم ان کے پاس کون سی دلیل کتاب و سنت و قیاس و اجتہاد سے ہے، اور بظاہر یہ نماز احتیاط نماز شک پائی جاتی ہے، کہ اگر جمعہ نہ ہوا، تو ظہر ہو جائے گی، آیا قیاس اس کا صوم یوم شک پر ہوسکتا ہے یا نہیں اور من جملہ دوسری بدعات محدثہ فی الدین کے ہے یا نہیں، بالکل جواب اس مسئلہ کا صاف صاف مدلل شرعیہ و مزین بمہر و دستخط خاص آنجناب عنایت فرما دیں۔ بینوا توجروا۔
مذہب حنفیہ میں شرائط جمعہ میں مصر یعنی شہر اور ہونا امام یا اس کے نائب کا لکھتے ہیں، لہٰذا چونکہ امام اور اس کا نائب ہندوستان میں بہ سبب تسلط کفار کے نہیں پایا جاتا، تو بناء مذہب حنفیہ پر جمعہ نہ ہوا، اور چونکہ دیگر ائمہ نے یہ شرط نہیں رکھی، تو ان کے مذہب پر جمعہ ادا ہوتا ہے، مگر چوں کہ دوسری خرابی یہ ہوگئی کہ ایک شہر میں دو تین جگہ جمعہ کا پڑھنا ان کے نزدیک درست نہیں، جس کا جمعہ اوّل واقعہ ہوتا ہے اس کا جمعہ تو ادا ہوا اور جس کا بعد ہوا اس کے ذمہ پر ظہر کی نماز قائم رہی اور یہ حال دریافت نہیں ہوسکتا کہ کس کا جمعہ پہلے ہوا تو ان مذاہب پر بھی محل تعدد جمعہ میں ہر شخص کو تردد ادائے جمعہ اور سقوط ظۃر میں رہتا ہے۔ اس وجہ سے لوگوں نے ایجاد احتیاط ظہر کیا تھا کہ اگر جمعہ ادا نہ ہووے گا، تو ظہر بالیقین ذمہ سے ساقط و ادا ہو جاوے گی اور جو جمعہ ادا ہوگیا تو یہ رکعات نفل ہو جاویں گی۔ یہ اصل اس کی ہے مگر احناب یعنی حنفیوں کا یہ عمل پسند نہیں، اول تو یہ احتیاط وجوب کے درجہ کو پہنچی اور یہ خود بدعت ہے، دوسرے بعضے اولی النزاع یعنی آپس میں جھگڑا اُٹھانے والے ہوگئے اگر درجہ احتیاط و استحباب میں رہتے تو یہ خیر سہل بات تھی، پھر یہ کہ جن علماء سے شرطیت وجود امام و نائب دریافت ہوئی ہے وہی علماء یہ بھی لکھتے ہیں کہ اگر امام و نائب سے تعذر ہو، تو مسلمین اپنا امام جمعہ مقرر کرکے ادا کریں، پس حسب اس روایت سب جگہ امام موجود ہوتا ہے، تو ایسی حالت میں جب مصر میں جمعہ پڑھا گیا ادا ہوگیا اور سقوط ظہر ذمہ سے ساقط ہوچکا، پس احتیاط ظہر لغو ہے اور جن لوگوں کے نزدیک یہ قول علماء کا معتبر نہیں ، تو خود شرطِ جمعہ کی مفقود ہے، چاہے کہ ظہر باجماعت پڑھا کریں، یہ کیا بے موقع بات ہے کہ شرط جمعہ کی موجود نہیں اور فقط تردد کی وجہ سے نوافل کو باجماعت ادا کریں اور فرض وقت کو فراویٰ یعنی تنہا تنہا پڑھیں یہ سخت خرابی ہے، پس احناف کا احتیاطِ ظہر تو بایں وجہ پسند نہیں کرتا ہوں، خصوصاً اس صورت وجوب اور نزاع میں اور دیگر اہل مذاہب پر یہ اعتراض ہے کہ اگر تردد درست نہیں، تو دیدہ و دانستہ اس حرکت لا یعنی (بے فائدہ) کو کیوں اختیار کیا، واجب ہے کہ سب جمع ہو کر ایک جمعہ کو ادا کریں، الغرض یہ امر نہایت لغو اور فضول اور سستی دین کا باعث ہے اور موجب کمال غفلت اور بے پرواہی دین سے ہونے کا۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ الراجی رحمۃ ربہ رشید احمد گنگوہی عفی عنہ
رشید احمد
الجواب صحیح: محمد امیر الدین پٹیالوی، واعظ جامع مسجد دہلی محمد امیر الدین ۱۳۰۱
طلع الحق حق الطلوع وسطع الصدق حق السطوع فما قال ملک العلماء سلطان الاتقیاء ، زین المفسرین، رئیس المحدثین نعمان او اننا مجدد زماننا نائب رسول اللّٰہ الصمد علیہ صلوات من اللّٰہ الاحد مولانا العلم العامل الحافظ الحاج رشید احمد مداللّٰہ ظلال فیوضہ علی رؤس العلمین اللھم امین فھو حق والحق احق بالاتباع واولیٰ لان الحق یعلو ولا یعلی۔ حررہ اوّل تلامذتہ الفقیر محمد حسین عفا اللہ عنہ۔
فقیر محمد حسین ۱۲۵۸
قادر بخش عفی عنہ ۱۳۰۴ھ
مدرس مدرسہ حسین بخش
جواب ہذا صحیح ہے:
حسبنا اللہ بس حفیظ اللہ۔ محمد ساکن درگاہ سلطان نظام الدین اولیاء ضلع دہلی
المجیب مصیب محمد حسین خان خورجوی بقلم خود، اصاب من اجاب محمد حیات اللہ عفا اللہ عنہ،
جواب بہت صحیح اور ٹھیک ہے اور خلاف اس کا ضلالت وبدعت سیئہ ہے، کیوں کہ اس فعل نا مقبول کو کسی نے بھی ائمہ اربعہ سے نہیں کیا ہے۔ کما فی البحر و تاتار خانی وغیرہما من کتب الفقہ اور اصل میں یہ یعنی نماز احتیاط الظہر بدعت ہے ایک بادشاہ عباسی معتزلی کہ عرب و عجم وغیرہ کا بادشاہ تھا اس کی نکالی ہوئی ہے، حنفی مذہب میں ہرگز یہ نماز درست نہیں ہے۔ جواب یہ کرے وہ نہ حنفی ہے نہ مالکی، نہ شافعی، نہ حنبلی بلکہ معتزلی مذہب ہے، اس ظالم نے یہ حکم دیا تھا کہ نماز احتیاط الظہر کل جگہ جاری کی جائے جو اس کو نہ کرے اسے تعزیر لگائی جائے جو مولوی اس وقت میں عبدالدینار والدرہم تھے اس کو قبول کیا اور فتوؤں میں درج کر گئے اور حنفی مذہب بالائے طاق رکھا اس قصہ کو ایک عام جید قصوری پنجابی حنفی المذہب نے خوب تحقیق کے ساتھ لکھا ہے، کذافی تفسیر المحمدی، اور حضرت محمدﷺ صرف دو رکعت یا چار رکعت بعد جمعہ کے پڑھتے تھے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
حررہ العاجز محمد عبدالوہاب پنجاب نزیل دہلی
۱۲۹۹سید محمد عبدالسلام غفرلہ ، ابو محمد عبدالحق ۱۳۰۵ لودیانوی
خادم شریعت رسول الاداب ابو محمد عبدالوہاب ۱۳۰۰
الجواب صحیح محمد طاہر سلہٹی مسکین عبدالغنی ضلع کرنال
ہذا الجواب صحیح : سید محمد اسماعیل ۱۲۸۱ فرید آبادی
سید محمد نذیر حسین
جواب صحیح ہے: محمد فقیر اللہ پنجابی ضلع شاہ پور۔ محمد ناظم ملک بنگالہ ضلع فرید پور ہذا جواب صحیح حررہ ثابت ضلع اعظم گڑھ