سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(234) کیا مردے قبروں سے باہر نکلتے ہیں؟

  • 4423
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-09
  • مشاہدات : 1215

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مردے قبروں سے باہر نکلتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میرے عزیز مستری یٓس صاحب نے جدیدہ خدام الدین مجریہ ۲۵ اکتوبر ۱۹۶۳ء کا صفحہ نمبر۱۱ دکھایا جس میں اللہ کے نیک بندوں کی فراست اور کرامات کے تحت مولانا سید امین الحق صاحب شیخوپوری نے کتاب الروح لحافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ سے حضرت مطرف بن عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ جو تابعی ہیں کہ کرامت یوں بیان کی ہے: مطرف بن عبد اللہ اپنے گھر واپس جا رہے تھے۔ قبرستان سے گزرے آپ نے دیکھا کہ اہل قبور اپنی قبروں سے باہر بیٹھے ہیں اور کہا یہ مطرف جمعہ پڑھ کر واپس جا رہا ہے۔ مستری صاحب نے مجھ سے دریافت کیا، کیا یہ حکایت کتاب الروح میں ہے۔ میں نے کتاب الروح نکالی اور جہاں جہاں گمان اغلب تھا اس کو دیکھا چنانچہ کتاب الروح کے صفحہ نمبر ۶ پر یہ حکایت مل گئی۔ میں فرض سمجھتا ہوں کہ اس کی چھان بین کروں تاکہ مغالطہ رفو ہو، روایت اصل الفاظ مع سند مندرجہ ذیل ہے:

((حدثنا خالد بن خداش حدثنا جعفر بن سلیمان عن ابی التیاج قال کان مطرف یغدو فاذا کان یوم الجمعۃ ادلج قال وسمعت ابا التیاح یقول بلغنا انہ کان ینور لہ فی سوطہ فاقبل لیلۃ حتی اذقا کان عند مقبر القوم وھو علی فرسہ فرأی اھل القبور کل صاحب قبر جالساً علیٰ قبرہ فقالوا ھذا مطرف یاتی الجمعۃ قلت وتعلمون عندکم یوم الجمعۃ قالوا نعم ونعلم یا یقول فیہ الطیر قلت وما یقولون قالوا اسلام سلام))

حقیقت یہ ہے کہ اصل میں یہ روایت ابن ابی الدنیا کی ہے۔ جیسا کہ کتاب الروح کے ص ۵سے معلوم ہوتا ہے، علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے تزکرۃ الحفاظ ص ۲۲۴ جلد نمبر۲ حافظ ابن ابی الدنیا کی شیوخ کی فہرست دی ہے جن میں خالد بن خداش کا ذکر کیا ہے بلکہ ص ۲۲۵ جلد ۲ میں ایک روایت بھی نقل کی ہے جس کی سند میں خالد بن خداش موجود ہے۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے ص ۵ سے لے کر کئی صفحوں پر اسی ابن ابی الدنیا کی کتاب القبور سے روایتیں نقل کی ہیں۔ بعینہٖ یہ روایت حافظ صاحب نے اپنی کتاب زاد المعاد ص ۱۱۶ جلد اول مطبوعہ مصر میں نقل کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت حافظ ابن ابی الدنیا کی کتاب المناجات کی ہے۔ حافظ ابن ابی الدنیا کا ترجمہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تہذیب ص ۱۲،۱۳ جلد ۶ میں کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے شیوخ میں دو کذاب تھے ایک محمد بن اسحق بلخی دوسرا محمد بن الحسین البرجلانی۔ نیز نواب صاحب نے بھی آثار الاوہار سے محمد بن اسحاق بلخی کذاب کا ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو التاج المکلل ص ۹۹ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لسان ص ۶۶ میں و حافظ ابن ذہبی نے المیزان ص ۲۴ جلد۳ پر محمد بن الحسین البرجلانی پر علماء کی تنقید نقل کی ہے۔ کتاب الروح کی روایت میں خالد بن خداش پہلا راوی ہے جس کو علی بن المدینی اور زکریا الساجی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ تہذیب ص ۸۵ جلد ۳ دوسرا راوی جعفر بن سلیمان ہے۔ یہ شیعہ رجال میں سے ہے ملاحظہ ہو لسان ۱۲۵، جلد ۲ والمیزان ص ۱۸۹ جلد ۱ و ص ۱۹۰ و تہذیب ص ۹۵ تا ۹۸ جلد ۲ مطرف بن سلیمان کا واقعہ بیان کرنے والے ابو التیاح ہیں جو بلغنا سے بیان کرتے ہیں روایت میں انقطاح ہے۔ ((الخبر یحتمل الصدق والکذب)) صاحب مضمون کے اسم گرامی سے پہلے رأ س المحققین اُسوۃ الصالحین، کے القاب درج ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے پوری تحقیق سے یہ مقالہ سپرد قلم کیا ہے، لیکن افسوس ہے کہ آپ نے تحقیق کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ حالاں کہ محقق کا کام ہے کہ روایت کی مکمل چھان بین کرے۔یہ روایت کتاب الزہد ص ۲۴۶ پر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔ اگر رأس المحققین کتاب الزہد دیکھ لیتے تو ان کو یہ واقعہ بیان کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔ الزہد کی روایت میں ہے:

((حتّٰی اذا کان عند البور ھو مر علی فرسہ فرأی اھل القبور الحدیث))

’’یعنی مطرف بن عبد اللہ گھوڑے پر سوار جا رہے تھے یہاں تک کہ وہ قبرستان کے نزدیک پہنچے ان کو گھوڑے پر نیند آگئی اور خواب میں اہل قبور کو دیکھا۔‘‘

افسوس ہے کتنا بڑا مغالطہ ہے۔ واقعہ خواب کا ہے اور بیان کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے یقظہ کی حالت میں مردوں کو دیکھا۔

((ان کنت لا تدری فتلک مصیبۃ وان کنت تدری فالمصیبۃ اعظم))

اگر کتاب الزہد آپ کو نہ ملی تھی تو حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی زاد المعاد بھی دیکھ لی ہوتی جس میں صاف لکھا ہے۔ یہ روایت ابن ابی الدنیا کی کتاب المناجات سے لی ہے۔ یہ خوابوں کا قصہ ہے غیر ممکن الوجود کو ممکن الوجود بنا لیتا ہے۔ اگر آپ اس کو یقظہ یا عیاں سے تعبیر کریں تو آپ کو قرآن کی بہت سی نصوص کا انکار کرنا پڑے گا۔

استدراک زاد المعاد میں ابو التیاح کا اسم لاحق بن حمید بیان کیا گیا ہے یہ کتابت کی غلطی ہے ان کا اصل نام یزید بن حمید ہے تہذیب ص ۳۲۰ جلد ۱۱، الزہد میں عبید بن حسان کتابت کی غلطی ہے حالاں کہ اصل نام عبید بن الحساب ہے تہذیب ص ۳۲۹ جلد ۱۱۔ (الاعتصام جلد ۱۵ ش ۱۷)

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 416-420

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ