سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(129) احکام میت کے

  • 4319
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1826

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

۱:… آپ نے نماز جنازہ کے بعد دعا کو بدعت کہا ہے اور کنز العمال کی ایک روایت سے اس کا جواز ثابت ہوتا ہے دیکھئے ابراہم ہجیری سے روایت ہے کہ میں نے عبد اللہ بن ابی اوفی کو دیکھا وہ اصحاب شجرہ میں سے تھے اور ان کی صاحبزادی کا انتقال ہو گیا تھا۔ (الی قولہ) پھر حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰ نے صاحب زادی کے جنازہ پر چار تکبیریں کہیں پھر اتنی دیر کھڑے دعا کرتے رہے جس قدر دو تکبیروں میں وقفہ ہوتا ہے اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جنازوں پر ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰ نے چار تکبیروں کے بعدا تنی دیر دعا مانگی جتنی ایک تکبیر سے دوسری تکبیر تک تاخیر ہوتی ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں۔

 ((ثم قام بعد ذلک قدر ما یکون بین تکبیرتین یدعو))

اور پھر یہ بھی فرمایا کہ نبی ﷺ بھی ایسا کیا کرتے تھے۔

سوال نمبر۲:… آپ نے فقہاء کے اقوال سے یہ ثابت کیا کہ نماز جنازہ کے بعد دعا مانگنا بدعت ہے اور نماز جنازہ میں زیادتی کے مترادف ہے۔ لیکن آپ نے بعض فقہاء کا قول نقل نہیں کیا کہ ((لَا بَأسَ بِہٖ (بحر الرائق)) کے جس حوالہ کا آپ نے ذکر کیا ہے اس کے آخر میں یہ لکھا ہے ((وعن الفضل لَا بَأس بہٖ)) یعنی محمد بن فضل سے مروی ہے کہ نماز جنازہ کے بعد دعا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

سوال نمبر۳:… صحیح بخاری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بیان میں مروی ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات ہو گئی اور ان کو غسل کے لیے لٹایا گیا تولوگوں نے ان کی نعش مبارک کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ ان کی مدح و توصیف کی ان کے لیے دعا رحمت کی۔ اس سے ثابت ہوا کہ نماز جنازہ سے پہلے بھی میت کے لیے اجتماع کے ساتھ دعا کرنا ناجائز ہے بلکہ صحابہ کرام سے ثابت ہے۔

سوال نمبر ۴:… بزرگان دین اور مشہور اولیاء اللہ کے مزارات پر پھولوں کے ہار اور پھولوں کی چادرٰں چڑھائی جاتی ہیں، اور آج کل ملک کے بڑے بڑے رہنمائوں کی قبروں پر بھی پھولوں کی چادریں چڑھائی جاتی ہیں۔ شرعاً اس کی کیا حیثیت ہے؟

سوال نمبر ۵:… جنازہ کے بعد ایک رسم ادا کی جاتی ہے جسے اسقاط کہتے ہیں۔ میت کے وارث ایک قرآن شریف اور اس کے ساتھ کچھ نقدی باندھتے ہیں۔ اور ایک دائرہ بنا لیتے ہیں۔ امام مسجد اس دائرہ میں ہوتا ہے۔ وہ قرآن مجید اور نقدی ہاتھ میں لیتا ہے اور اس مضمون کے الفاظ کہتا ہے کہ اللہ کے جتنے فرائض۔ واجبات۔ کفارات وغیرہ میت کے ذمہ ہیں اور ابھی تک ادا نہیں کیے گئے۔ اور آج میت ان کے ادا کرنے کے عاجز ہے۔ یہ قرآن مجید اور نقدی بطور حیلہ اسقاط کے ادا کیے جاتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ اس میت کو بخش دے۔ ان الفاظ کے بعد امام کسی دوسرے کی ملک کر دیتا ہے تین دفعہ اس کو پھیرا جاتا ہے۔ اس کے بعد نصف امام کو اور نصف غرباء میں وہ نقدی تقسیم کر دی جاتی ہے۔ اس مروجہ حیلہ کا کیا حکم ہے؟

اس عاجر کے فتویٰ پر جو شبہات کیے گیے ہیں۔ پہلی ان کے متعلق توضیحات عرض کروں گا۔ ((وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہ))


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جواب نمبر ۱:… کنزل العمال کی جس روایت کا ذکر سوال میں کیا گیا ہے۔ یہ روایت مسند امام احمد اور سنن کبریٰ، بیہقی میں بھی ہے اس حدیث کے سمجھنے میں سائل کو کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔ یہ دعا نماز جنازہ کے سلام کے بعد نہیں تھی۔ بلکہ چوتھی تکبیر کے بعد سلام سے پہلے تھی۔ پورا واقعہ اس طرح ہے۔

((کَبَّرَ اَرْبَعًا فَمَکَثَ سَاعَۃَ حَتّٰی ظَنَنَّا اَنَّہٗ سَیُکَبِّرُ خَمْسًا ثُمَّ سَلَّمَ عَنْ یَمِیْنِہٖ وَعَنْ شِمَالِہٖ فَلَمَّا انْصَرَفَ قُلْنَا (مَا ھٰذَا) فَقَالَ اِنِّیْ لَا اَزِیْدُ کُمْ عَلٰی مَا رأیْتُ رسول اللّٰہ ﷺ اذکار)) (امام نووی نمبر ۷۲)

’’یعنی چار تکبیریں کہہ کر اس قدر ٹھہرے کہ ہم نے خیال کیا کہ پانچ تکبیریں کہیں گے، پھر دائیں بائیں جانب سلام پھیرا۔ جب فارغ ہوئے تو ہم نے عرض کیا کہ یہ آپ نے کیا کیا تو فرمایا کہ جو کچھ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کرتے دیکھا ہے۔ اس سے زیادہ نہیں کروں گا۔‘‘

اس سے واضح ہو گیا کہ یہ دعا نماز جنازہ کے بعد نہیں تھی بلکہ نماز جنازہ کے اندر چوتھی تکبیر کے بعد اور سلام سے پہلے تھی۔ یہ مسلمات میں سے ہے کہ سلام سے پہلے نماز ختم نہیں ہوتی۔ اس لیے جو مسئلہ میں نے عرض کیا تھا کہ نماز جنازہ کے بعد دعا مانگنا ثابت نہیں، بحال رہاج شبہ جو ظاہر کیا گیا ہے وہ غلط فہمی پر مبنی ہے۔

جواب نمبر ۲:… یہ صحیح ہے کہ بعض فقہاء نے دعا بعد از نماز جنازہ کے لیے کہا ہے ((لا بائیں بہ)) مگر اس اصل اصول کو پیش نظر رکھئے جو تمام فقہاء اور محدثین نے بیان کیا ہے کہ کوئی عمل جسے ہم دین اور عبادت سمجھ کر اور دوسرے لفظوں میں موجب ثواب سمجھ کر کریں اور اس کا ثبوت نہ نبی ﷺ سے ہو۔ نہ صحابہ کرام سے وہ ناجائز ہے اور اس میں شیطان کا دخل ہے۔ چونکہ یہ عمل نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں اس لیے اسے بدعت سمجھ کر پرہیز کرنا ضروری ہے۔ ایک محمد بن فضل کے اس لفظ ((لا بائیں بہ)) کو آپ نے لیا اور فقہاء کرام نے بالعموم اسے بدعت کہا، اور زیادت فی الدین کہا اسے آپ نظر انداز کر رہے ہیں۔ تعجب ہے ۔ اس کے علاوہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ((لا بائیں بہ)) کا لفظ فقہاء کے نزدیک خلاف مستحب کے مترادف سمجھا جاتا ہے، دیکھئے فتاویٰ شامی جلد اول کتاب الجنائز بیان تعزیت کے ذیل میں لکھا ہے۔ ((لَا بَأس بہٖ۔ ھٰھُنَا علی الحقیقۃ لانہ خلاف الاولیٰ)) یعنی تعزیت کرنے والوں کے لیے میت کے وارثوں کا بیٹھا ایسا ہے کہ ((لاَ بأس بہٖ)) فرماتے ہیں کہ لفظ ((لا بأس بہٖ)) کا استعمال اس جگہ اپنے حقیقی معنوں میں ہے۔ یعنی خلاف اولیٰ ہے جب یہ عمل خلاف اولیٰ ہو تو اس کا معنی یہ ہوا کہ نماز جنائز کے بعد دعا نہ مانگنا افضل ہے اور دعا مانگنے میں اجر نہیں۔ کیونکہ اسی فتویٰ شامی جلد اول بیان احکام مسجد کے ذیل میں لکھا ہے۔

((وَلَا بَأس بِہٖ بِنقشہ خلا محراب فی ھذا التعبیر کما قال شمس الائمۃ اشارۃ الی انہ لا یؤجر وبکفیہ ان ینجوارٔ سابرأس اھ۔ قال فی النھایۃ لان لفظ لا بأس بہ دلیل علی ان المستحب غیرہ نمبر ۴۸۶))

’’یعنی محراب کے سوا مسجد میں نقش و نگار کرنے میں گناہ نہیں۔‘‘

علامہ شامی فرماتے ہیں کہ ((لا بأس)) کے لفظ کے ساتھ تعبیر کرنے میں جیسا کہ شمس الائمہ نے کیا ہے۔ اس طرف اشارہ کہ اس میں ثبوت نہیں۔ اگر نقش و نگار مسجد میں کرانے والا برابر برابر رہے اور ناجت مل جائے تو یہ اس کے لیے کافی ہے اور صاحب نہایہ نے لکھا ہے کہ لفظ ((لا بأس)) اگر حقیقی معنی پر محمول کیا ہو تو دعا نماز جنازہ کے بعد کرنے میں کوئی ثواب نہیں۔ یہ تو اس صورت میں ہے کہ لفظ ((لا بأس)) کو حقیقی معنوں پر محمول کریں اگر مجازی معنوں پر محمول کریں تو یہ معنی ہو گا کہ میت کے لیے بعد نماز جناہ دعا ((فحد ذاتہ)) تو جائز ہے مگر جب اس کا التزام کیا جائے اور اہتمام کے ساتھ ایک خاص ہیت اجتماعی سے دعا کیی جائے اور اس پر امراد ہو اورتارک مستحق علامت سمجھا جائے تو یہ عمل ناجائز ہو گا۔

جواب نمبر ۳:… صحیح بخاری کی جس روایت کا ذکر آپ نے کیا ہے۔ اس میں اس بات کا قطعاً ذکر نہیں کہ لوگ دعا کرنے کے لیے اہتمام سے جمع ہوتے تھے۔ شارحین بخاری نے اس کی تصریح کی ہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو غسل کے لیے لٹایا گیا تھا۔ اس وقت جو حضرات موجود تھے ظاہر ہے وہی لوگ ہوں گے جو غسل کی ضروریات کو انجام دینے والے تھے۔ اور غسل کو انجام دہی کے لیے حاضر ہوئے تھے۔ ایسے وقت میں ہر شخص کے دل میں ایک خاص کیفیت اور رقت طاری ہوتی ہے۔ اور بے ساختہ اس کی زبان پر میت کے لیے دعا مغفرت آ جاتی ہے۔ اس دعا کے لیے کوئی خاص اہتمام نہیں ہوتا۔

بہرحال اس واقعہ میں یا اس حدیث میں اس امر کا کوئی ثبوت نہیں کہ لوگ خاص اہتمام کے ساتھ دعاء کے لیے جمع ہوئے تھے۔ یہ واضح رہے کہ میت کے لیے نفس دعا تنہا تنہا ہر وقت جائز ہے۔ زیر بحث مسئلہ یہ ہے کہ نماز جنازہ کے علاوہ اہتمام و اجتماع کے ساتھ میت کے لیے دعا کرنا ثابت نہیں۔ اور اسے علماء نے بدعت قرار دیا ہے ۔ شریعت نے میت کے لیے اہتمام و اجتماع کے ساتھ دعا کے لیے صرف نماز جنازہ کی تعلیم دی ہے اس پر اضافہ کرنا دین میں اضافہ کرنا ہے۔

اس کی ایک مثال کب فقہ حنفیہ سے ہی دیتا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیے۔

صاحب بحر الرائق نے مجتبیٰ سے نقل کیا ہے کہ اہل میت کا مسجد میں اس غرض سے بیٹھنا کہ لوگ تعزیت کے لیے آئیں مکروہ ہے۔ یہ مضمون تقریباً فتح القدیر، عالمگیری، شامی اور شرح منیہ سب میں ہے۔ علامہ شامی نے فرمایا کہ گھر میں بیٹھنا بھی خلاف اولیٰ ہے۔

مگر صاحب بحر الرائق نے تعزیت کے لیے بیٹھنے کے جواز پر اس حدیث سے استدلال کیا:

((اَنَّہٗ ﷺ جَلَسَ لَمَّا قُتِلَ جَعْفَرٌ وَزَیْدُبْنُ حَارِثَۃِ وَالنَّاس یَأْتُوْنَہٰ وَیَعَزُّوْنَہٗ))

’’یعنی نبی ﷺ بیٹھے جب کہ جعفر رضی اللہ عنہ اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے قتل کی خبر آئی۔ لوگ آتے تھے اور تعزیت کرتے تھے۔‘‘

علامہ شامی اس استدلال کو جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔

((یجاب عَنْہُ بِاَنَّ جَلُوْسَہٗ ﷺ لَمْ یَکُنْ مَقْصُود اللِتَّعْزِیَۃِ)) (رد المختار صفحہ ۶۶۴ ج اول)

کہ نبی ﷺ کا بیٹھنا بغرض تعزیت نہ تھا۔ یعنی اتفاقاً تھا۔ اور آپ کو بیٹھے دیکھ کر لوگ حاضر خدمت ہو کر تعزیت کرتے تھے۔

اس مثال سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ نبی ﷺ کے اتفاقیہ بیٹھنے اور لوگوں کی تعزیت کرنے سے یہ سمجھ کر استدلال کر لیا کہ تعزیت کے لیے بیٹھے تھے۔ اسی طرح ہمارے اس زیر بحث مسئلہ میں بخاری کی روایت میں بغرض غسل جمع ہوئے اور دعا کرنے کا ذکر دیکھ کر یہ سمجھ لیا کہ نماز جنازہ کے علاوہ دوسرے اوقات میں بھی دعا کے لیے اجتماع کیا گیا۔ پس علامہ شامی نے جو جواب اس استدلال کا دیا ہے، وہی جواب آپ اپنے سوال کا سمجھ لیں۔

جواب نمبر ۴:… بزرگان دین اور مشہور اولیاء اللہ کے مزارات پر پھولوں کے ہار یا پھولوں کی چادریں چڑھانے کے سوال کا جواب یہ ہے۔

(الف): اگر یہ اس بزرگ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے ہے تو قطعاً حرام ہے۔ یعنی اس خیال سے پھول چڑھائے جائیں کہ بزرگ ہم سے خوش ہو۔ اور ان کی خوشی سے ہمارے حاجت برآری ہو تو فقہاء اور محدثین سب کے نزدیک بالاجماع باطل اور حرام ہے۔

درمختار وغیرہ کتب فقہ حنفیہ میں یہ صراحت کر دی گئی ہے کہ:

((اِنَّ النَّذْرِ الَّذِیْ یَقَعُ لِلْاَمْوَاتِ وَمَا تُؤخَذُ مِنَ الدَّرَاھِمِ وَالشَّمْعِ وَالزَّیْتِ وَنَحْوھَا اِلٰی ضَرَائِحِ الْاَوْلِیائِ الْکِرَامَ تَقَرُّبًا اِلَیْھِمْ فَھُوَ بِالْاَجْمَاعَ بَاطِلٌ وَحَرَامٌ))

’’یعنی وہ نذر جو مردوں کے لیے کی جاتی ہے اور اسی طرح وہ نقدی روپے پیسے یا شمع یا تیل وغیرہ اشیاء جو قبور اولیاء کرام کے لیے ان کے تقرب کے لیے حاصل کی جاتی ہیں یہ سب اجماع امت سے باطل اور حرام ہیں۔‘‘

(ب):   اگر تقرب کی نیت سے نہیں بلکہ صرف زینت کے لیے ہے جس کا احتمال بہت کم ہے تو یہ بھی جائز نہیں، کیونکہ قبر محل زینت نہیں، بلکہ احادیث نبویہ کے مطابق قبر کی زیارت اس مقصد سے ہونی چاہیے کہ دنیا سے بے رغبتی ہو اور آخرت کی یاد تازہہو۔ آپ نے فرمایا:

((زَوْرُوْا الْقُبُوْرَ فَاِنَّھَا تُزَھِّدُنِی الدُّنْیَا وَتُذَکِّرُ الْاٰخِرَۃَ))

’’قبروں کی زیارت کی اجازت دی جاتی ہے اس سے دنیا سے بے رغبتی حاصل ہوتی ہے اور آخرت کی یاد تازہ ہوتی ہے۔‘‘

پس جو کام کہ خلاف زہد اور خلاف تذکر آخرت ہو وہ نبی اکرم ﷺ کے بتائے ہوئے۔ مقصد زیارت کے خلاف ہو گا۔ اس لیے قبر کو پھولوں کے ہار یا پھولوں کی چادر سے سجانا خلاف مقصد شارع ہو گا۔

ایک حدیث سے استدلال:

بعض حضرات اس رسم کے لیے مشکوٰۃ کی ایک حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ذکر کر دیا جائے۔

((مَرَّ النَّبِیّ صَلّٰی اللّٰہُ بِقَبْرِیْنِ اِنَّھُمَا لَیُعَذَّبَانِ وَمَا یُعَذِّبَانِ فِیْ کَبِیْرٍ، وَاَمَّا اَحَدُھُمَا فَکَانَ لَا یَسْتَثِرُ مِنَ الْبَوْلِ وَفِیْ رَوَایَۃُ مُسْلِمٍ لَا یَسْتَنْزِہُ مِنَ الْبَوْلٗ وَاَمَّا الْاٰخِرُ فَکَانَ یَمْشِیْ بِالنَّمِیْمَۃِ ثُمَّ اَخَذَ جَرِیْدَۃٌ رَطْبَۃً فَشَقَّہَا بِنِصْفِیْنِ ثُمَّ غَرَزَ فِْی کُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَۃٍ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ لِمَ صَنَعْتَ ھٰذا فَقَالَ لَعَلَّہٗ اَنْ یُخَفَّفَ عَنْھُمَا مَا لَمْ یَبِیبًا))

’’یعنی نبی ﷺ دو قبروں کے پاس سے گذرے، تو آپ نے فرمایا کہ ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے، اور کسی بڑے کام میں نہیں، (یعنی کسی بڑے مشکل کام کی وجہ سے نہیں جس سے بچنا آسان نہ تھا) ہاں! ایک نوجوان ان میں سے یہ کام کرتا تھا کہ پیشاب کے وقت پردہ نہیں کرتا تھا، اور مسلم کی روایت کے مطابق پیشاب کی چھینٹوں سے پرہیز نہیں کرتا تھا۔ اور دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ نے ایک تازہ ٹہنی لی۔ اوراس کے دو ٹکڑے کر دئیے۔ پھر ہر قبر میں ایک ایک ٹکڑا ٹہنی کا گاڑ دیا۔ صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نے فرمایا: اُمید ہے کہ جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہیں ہوتی ان قبر والوں سے عذاب کی تحفیف ہو جائے۔‘‘

یشخ عبد الحق محدث دہلوی اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں ۔تمسک میکند جماعہ بایں حدیث دراندا اختن سبزہ و گل و ریحان برقبور و خطابی کہ از ائمہ اہل علم وقددہ شرح حدیث است۔ این قول را رد کردہ است داندا ختن سبزہ وکل رابر قبور متمسک بایں حدیث انکار نمودہ گفتہ کہ ایں سخن اصلی ندارود در صد اول بنودو بعضے گفتہ اد بنا برآں تحدید و فوقیت بدانست کہ آ نحضرت ﷺ شفاعت خواست در تحفیف عذاب، پس قبول کردہ شد از دے تا مدت خشک شدن آن شاخ و کلمہ لعل ناظر است دریں معنی درکرمانی کہ در جریدہ ہیچ خاصیتے نیست در رفع عذاب عنہ بودآں مگر بہ برکت دست مبارک سیدنا نبینا ﷺ۔

یعنی بعض لوگ اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے قبروں پر سبزہ اور پھول ڈالنے کو جائز بتاتے ہیں۔ مشہور محدث خطابی جو کہ ائمہ اہل علم میں سے ہیں۔ اور شارحین حدیث میں ممتاز درجہ رکھتا ہے۔اس نے اس قول کو مسترد کر دیا ہے اور اس حدیث سے قبروں پر پھول ڈالنے کے استدلال پر انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بات بالکل بے اصل ہے، صحابہ کرام اور تابعین کے زمانہ میں رسم کا کوئی وجود نہ تھا۔ بعض شارحین حدیث نے توجیہ کی ہے۔ کہ آپ نے تخفیف عذاب کی جو مدت مقرر کر دی ہے۔ (جب تک ٹہنیاں خشک نہ ہو جاتیں) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ان کے حق میں تحفیف عذاب کے لیے شفاعت کی۔ یہ تحفیف عذاب کی شفاعت منظور کر لی گئی مگر ایک محدود وقت کے لیے یعنی جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں۔ اور آپ کا ’’لعل‘‘(اُمید ہے) کے ساتھ فرمانا قرینہ ہے اس معنی کے لیے اور کرمانی شارح صحیح بخاری نے کہا ہے کہ ٹہنی میں کوئی خاصیت اس قسم کی نہیں کہ اس سے عذاب قبر دور ہو جائے۔ یہ تو صرف سیدنا و نبینا محمد ﷺ کے دست مبارک کی برکت تھی۔‘‘

اور مشہور سیاسی رہنمائوں کی قبروں پر پھولوں کی چادر کا چڑھایا جانا بھی ایک رسم ہے جس کے لیے شرعاً کوئی وجہ جواز نہیں۔ اور بوجوہ مذکورہ بالا یہ ناجائز ہے۔

جواب نمبر ۵:… رسم اسقاط یا حیلہ ٔ اسقاط، یہ صحیح ہے کہ بعض فقہاء نے ایسے شخص کے لیے تجویز کیا تھا جس سے کچھ نمازیں یا روزے وغیرہ عبادات کسی بیماری یا کسی ایسے ہی حادثہ کی وجہ سے فوت ہو گئے اور قضا کرنے کا موقعہ نہیں ملا۔ فقہاء نے اس کے لیے فریہ کی صورت تجویز کی اور اس کے لیے کئی قیود اور شرائط بیان کیے ہیں مثلاً جو رقم کسی کو صدقہ کے طور پر دی جائے اس کو اس رقم کا حقیقی طور پر مالک بنا دیا جائے اور اس کو پورا اختیار اس میں حاصل ہو کہ جو چاہیے کرے۔ اور جس طرح چاہے صرف کرے ایسا نہ ہو کہ ایک ہاتھ سے دوسرے کے ہاتھ میں دینے کا محض ایک کھیل کیا جائے۔ جیسا کہ آج کل عموماً یہ حیلہ کیا جاتا ہے کہ نہ دینے والے کا یہ قصد ہوتا ہے کہ جس کو دے دیا ہے، وہ صحیح معنی میں اس کا مالک و مختار ہے اور نہ لینے والے کو یہ تصور ہوتا ہے کہ جو رقم میرے ہاتھ میں دی گئی ہے۔ میں اس کا مالک و مختار ہوں۔

چند لوگ جمع ہوتے ہیں اور ایک رقم کو باہم ہیرا پھیری کا ایک تماشا کر کے اُٹھ جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے میت کے قضا شدہ روزے کا فدیہ دے دیا۔ اور اب وہ تمام ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو گیا۔ حالانکہ اس لغو حرکت سے نہ تو میت کو کوئی ثواب پہنچا۔ نہ اس کے فرائض کا کفارہ ادا ہوا کرنے والے مفت میں گناہ گار ہوئے۔ اس عاجز کی تحقیق کے مطابق اگر فقہاء کے بیان کردہ شرائط و قیود کے مطابق بھی یہ کفارہ سیٔات ادا کیا جائے پھر بھی اس طرح کے حیلہ کا ہر میت کے لیے التزام کرنا اور تجہیز و تکفین جیسے واجبات شرعیہ ہیں اسی درجہ میں اس کو اعتقاداً ضروری سمجھنا یا عملاً ضروری کے درجہ میں التزام کرنا احداث فی الدین ہے۔ جس کو اصطلاح شرع میں بدعت کہتے ہیں اور جو اپنی معنوی حیثیت سے شریعت میں ترمیم و اضافہ ہے ((نَعُوْذُ بِاللّٰہِ)) اس حیلہ کے اختیار کرنے سے عوام الناس اور جہلاء میں یہ جرأت بڑھ سکتی ہے کہ تمام عمر بھی نہ نما زپڑھیں اور نہ روزہ رکھیں۔ نہ حج کریں۔ نہ زکوٰۃ ادا کریں اور سمجھ لیں کہ مرنے کے بعد چند پیسوں کے خرچ سے یہ سارے مفاد حاصل ہو جائیں گے۔ جو سارے دین کی بنیاد مندہم کر دینے کے مترادف ہے۔ اس لیے اس رسم کی کسی حالت میں اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو دین کے صحیح راستہ پر چلنے اور سنت رسول اللہ ﷺ کے اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔

(اخبار الاعتصام جلد نمبر ۱۱ ش نمبر ۲۴) (العبد المذنب الراجی رحمۃ ربہ الودود محمد داؤد غزنوی)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 238-248

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ