سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(70) اضعف العباد نجم الدین مرشد آبادی بحکم آیت کریمہ

  • 3645
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1207

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

اضعف العباد نجم الدین مرشد آبادی بحکم آیت کریمہ (حق کو باطل سے نہ ملائو۔)مقلدوں سے سخت ایزا  پانے کے بعد نہایت مضطر ہوکر علمائے دین محمدی سے سوال کرتا ہے۔کہ عمل تقلیدی کسی حجت شرعیہ میں سے نہیں


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عمل تقلیدی کسی ایک حجت شرعیہ میں سے نہیں ہے۔یعنی عمل بقول اس شخص کے کرنا کہ جس کا قول بلادلیل شرعی کے حجت نہ ہو اس کو عمل تقلیدی کہتے ہیں او ر تقلید کی تعریف  یہ ہے۔

التقليد العمل بقول الغير من غير حجة متعلق بالعمل والمواد با لحجة حجة من الحجج الاربع كذافي كتب الاصول الحنفية وغيرها كما لا يخفي علي الماهر بالاصول

پس تقلید کی تعریف سے حسب اصطلاح مقلدین کے واضح ہوا کہ عمل تقلیدی دلائل اربعہ یعنی کتاب اللہ و سنت وسنت رسول اللہﷺ و اجماع صحابہرضوان اللہ عنہم اجمعین  و مجتہدین و قیاس صحیح مجتہد مسلم الاجتہاد سے خارج ہے اور یہ عمل تکلیفی شرع اصلا نہیں اور جو عمل بلااولہ اربعہ کے پایاجاوے وہ عمل تکلیفی شرعی نہیں وہ شرعامردود باطل ہے۔پس عمل تقلیدی بھی مردود اور باطل ہواالحمدللہ کہ بے اصل شرعی ہونا تقلید کا بموجب اصطلاح مقلدین کے ثابت ہوا ور یہ مقلدین پرسخت حجت ہے۔امام فخرالدین رازی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں کہ یہ آیت دلالت کرتی ہے۔کے سوائے اولہ اربعہ یعنی کتاب وسنت اجماع قیاس کے جو دلیل ہے وہ مردود ہے اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ہر ایک کے متعلق ایک خاص معین ہدایت کی ہے۔اور کسی مکلف کو جائز نہیں ہے۔کہ ان چار دلیلوں کے سوا کسی اور چیز سے استدلال کرے ۔جب یہ بات ثاب ہوگئی توہم کہتے ہیں۔کےامام ابو حنیفہ کے استحسان اور  امام مالک کی اصطلاھ سے مراد اگر انہیں چاروں امور میں سے کوئی چیز ہے تو یہ صرف الفاظ کا ہیر پھیر ہے۔اور اگر اس کے سوا اور کوئی چیز ہے۔تو یہ بالکل باطل ہے۔اورآیت کے بطلان پر صاف دلالت کر رہی ہے۔۔۔۔قرآن۔۔۔۔۔ کے  تحت تفسیر کبیر ک مضمون ختم ہوا۔اور اسی نظر سےشوکانی نے قول المفید حکم التقلید میں لکھا ہے کہ نصوص آئمہ اربعہ کے منع تقلید میں مصرح ہیں۔امام شوکانی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے  رسالہ القول المفید فی حکم التقلید میں چاروں اماموں کے تقلید کی ممانعت کے بارے میں اقوال نقل کیے ہیں۔ہم اس بحث کو یہاں لمبا کرنا نہیں چاہتے ۔اگر  تقلید کی ممانعت میں اجماع نہیں ہے۔تو بہر حال جمہور کامسلک یہی ہے۔اور اس مسلک پراجماع ہے۔کہ مردوں کی تقلید منع ہے۔اور مجتہد کو عدم دلیل کے ساتھ اپنی رائے پرعمل  کرنے کی اجازت ہے۔اور اس پر اجماع  ہے کہ کسی دوسرے کواس کی رائے پرعمل کرنا  جائز نہیں ہے ہدایۃ السائل کے بیان کے مطابق یہ دونوں اجماع تقلید کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔اور برعکس وخلاف مقلد بجز و تقلید آبائو اسلاف کے فریفتہ اور مغرور ہوکر کتاب او ر سنت سے ستیزہ کنان اسی تقلید بلادلیل پر اڑا ہوا اپنے خیال خام اور ہوس نافرجام پرشادان و نازان ہے۔چناچہ آیت کریمہ۔قرآن۔۔۔۔ایسے ہی مقلد متعصب پرمشعر او ر مخبر ہے وہ زرا ٖغور اور فکر نہیں کرتا کہ  تقلید بلا دلیل درمیان محقاو  مبطل کے امر مشترک فیہ ہے اسلئے کہ ہر فرقہ کہ جس کی تقلید بلا دلیل کرتا ہے اس کو اچھا جانتا ہے۔اور  دوسرا فرقہ فرقہ اولیٰ کے مقابل اس کے برعکس سمجھتا ہے۔پس اگر یہ تقلید بلادلیل فی نفسہ مفضی الی الحق والصواب ہو تو سنیے اورنقیض شے کا حق اور صواب پر ہونا لازم آتا ہے۔اور  اسی کو اجتماع  نقیضین کہتے ہیں کیونکہ ہر شخص اپنے مقلد کو اچھا اور دوسرے کو ناپسند رکھتا ہے اور یہ امر بالبداہت شرعا اورعقلا بلاریب باطل ہے۔اور اسی سبب سے اللہ  تعالیٰ جل شانہ نے جا بجا اپنے کلام پاک میں تقلید بلا دلیل کو رد کیا ہے۔خاص کر سورۃ زخرف میں زیادہ تر تقلید بلا دلیل کی شناخت اور مذمت فرمائی  ہے۔

ترجمہ۔وہ کہتے ہیں کہ اگر خدا  چاہتا تو ہم ان کی عباد ت نہ کرتے ان کو اس کا کوئی علم نہیں وہ محض تک بندی کرتے ہیں۔کیا ہم نے ان کو اس سے پہلے کوئی کتاب دی ہے۔جس سے وہ دلیل لیتے ہیں۔بلکہ وہ کتہے ہیں کہ ہم نے اپنے آباواجداد کو اسی طریقہ  پر پایا سو وہ ان کے کھوجوں کی پیروی کر رہے ہیں۔ایسا ہی ہم نے تجھ  سے پہلے کوئی پیغمبر بھی ایسا نہیں بھیجا جس کو اس کی امت کے دولت مندوں نے یہ نہ کہا ہو کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریقے پر پایا ہے۔سو وہ ان کے نشانات کی پیروی کر رہے ہیں۔کہا اگر چہ میں تمہارے باپ دادا کی راہ سے بہتر راہ تم کو دکھلائوں۔کہنے لگے ہم تمہاری تعلیم ہی کے منکر ہیں۔سو ہم نے ان سے انتقام لیا۔آخر آیت  تک مدعا یہ ہے کہ کیا ان لوگوں نے طریقہ باطل کو قرآن سے پہلے کی نازل شدہ کسی کتاب سے معلوم کیا ہے جس کیوجہ سے وہ اعتماد کئے بیٹھے ہیں۔اور بطریق استفہام انکاری کے ہے۔اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ اس کی کوئی نقلی اور عقلی دلیل نہیں ہے۔تو ضرور ہے کہ یہ طریقہ باطل ہو پھر  فرمایا انہوں  نے کیا ہم نے اپنے باپ دادا کو ا سی طریقہ پر پایا ہے اور مقصود یہ ہے کہ ان لوگوں کے پاس ان صاف دلائل کا کوئی جواب سوائے تقلید آباء کے نہیں ہے۔اور پھر فرمایا کہ یہ جاہلوں کا طریقہ بہت پرانے زمانے سے چلا آرہا ہے۔کہ آپ سے پہلے جتنے بھی رسول آئے۔ان کو ان کی قوم کے دولت مندوں نے یہی باپ دادا کی تقلید  کا جواب سنایا ہے۔

صاف کشاف کہتے ہیں۔کہ اگر  قرآن مجید میں صرف یہی آیات ہوتیں تو بھی تقلید کی تردید کے لئے کافی تھیں۔کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں!۔۔۔۔قرآن۔۔۔۔۔۔کہ ان کفار کے پاس  اپنے دین باطل کے اثبات کے لئے سوائے تقلید آباء کے اور کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس تقلید کو مذمت کے انداز میں بیان فرمایا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ تقلید کا مسلک باطل ہے۔اور عقلی حیثیت سے بھی تقلید میں دونوں امکان میں ہوسکتا ہے۔کہ مقلد حق پر ہو اور ہوسکتا ہے۔کہ باطل پر ہو کیونکہ اقوام دنیا  میں ایک دوسرے کے طریق کے بالکل مخالف تقلید کرنے والے موجود ہیں۔تو اگر تقلید امر حق ہوتا تو لازم آتا کہ شے اور نقیض شے دونوں حق ہوں اور یہ صریحا باطل ہے۔تفسیر کبیر کا خلاصہ ختم ہوا۔

اور دوسری دلیل بطلان تقلید پر یہ ہے کہ قول بوجوب تقلید موجب منع تقلید سے ہوگا اور جو چیز مفضی ہو اس کا ثبوت طرف نفی اس کی کے (یعنی ہر مقلد دوسرے مقلد کی تقلید کو نفی اور ناپسند کرتا ہے )تو و ہ باطل ہے۔اس قول سے بطلان تقلید کا واجب ہوا۔

ترجمہ۔اور جب ابراہیم ؑ نے اپنے باپ اور قوم سے کہا کہ میں تمہارے معبودوں سے بیزار ہوں مگر اس اللہ سے جس نے مجھے پیدا کیا وہ میری رہنمائی کرے گا۔آخر آیات تک پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا   ہے کہ ان باطل تاول کی تایئد میں سوائے تقلید آباء کے اور کوئی دلیل نہیں ہے۔پھر فرمایا تقلید کی ر اہ تو باطل ہے۔اور ددلیل کی طرف رجو ع کرنا ضروری ہے۔یہاں ایک اور انداز سے تقلید کی تردید فرمائی ہے۔اور اس کی تقریر کی دو صورتیں ہیں۔پہلی صورت تو یہ ہے کہ ابراہیم ؑ نے اپنے باپ دادا کی تقلید کوچھوڑ دیا تھا۔اوردلیل کی طرف رجوع کیا تھا۔اوردوسری یہ کہ تقلید کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔یا تو تقلید حرام ہوگی یا جائز اگر حرام مان لیا جائے تو  قصہ ختم ہوا۔اور اگر جائز تسلیم کیا جائے تو پھر بہتر باپ کی تقلید کرنا چاہیے۔اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ ابراہیم ؑ بہترین باپ تھے۔اوران کی  تقلید یہ ہے کہ تقلید کو چھوڑ کر دلیل کی  کی طرف رجو ع کیاجائے۔تو معلوم ہوا کہ وجوب تقلید  تقلید کی ممانعت کرتا ہے۔اور جس چیز کا ثبوت اس کی نفی کی طرف لے  جائے۔تو وہ چیز باطل ہوگی۔لہذا تقلید باطل ہوئی۔تفسیر کبیر کا خلاصہ ختم ہوا۔

سورہ ص میں ہے کہ ان کو ان باتوں کا تعجب ہوا۔کہ انھیں میں سے ایک پیغمبر ان کے پاس آگیا کافروں نے کہا یہ تو جھوٹا جادوگر ہے۔اس نے اتنے خدائوں کا ایک ہی خدا بنا دیا۔یہ بڑی عجیب کی بات ہے سردار اٹھ کرچکے گئے۔اور کہنے لگے۔اُٹھو اور اپنے معبودوں کی عبادت  پر جمے رہو۔اس کی یہ ایک سوچی سمجھی سکیم ہے۔ہم نے  پچھلے دین میں یہ باتیں کبھی نہ سنیں تھیں۔یہ ایک بناوٹی چیز معلوم ہوتی ہے۔ان کے تعجب کی بنیاد دو چیزوں پر ہے۔پہلی یہ کہ وہ لوگ نظر و استدلال کے اہل نہیں تھے۔بلکہ ان کے اوہام محسوسات کے تابع تھے۔جب انھوں نے مشاہد ہ کیا کہ ایک آدمی کثیر تعداد آدمیوں کی حفاظت و نگرانی نہیں کرسکتا ہے تو کہنے لگے کہ ایک خدا  اتنی خلقت کی حفاظت کیسے کرسکتا ہوگا۔ضروری ہے کہ اتنی بڑی دنیا کی حفاظت کے لئے بہت سے خدا ہوں۔ اور دوسری چیز یہ تھی کہ ان کے آباواجداد اپنی کثرت تعداد اور قوت وعقول کے باوجود شرک پر جمے ہوئے تھے تو کہنے لگے اتنی اقوام اپنی کثرت اورقوت عقول کے باوجود باطل پر کیسے رہ سکتی ہیں۔اور یہ ایک آدمی کیسے حق پر ہوسکتا ہے۔میں کہتا ہوں کہ اگر شاہد کے حکم کو غائب پر محمول کیا جائیے۔اور دلیل سے صرف نظر کر لیا جائے۔ تو پہلا شبہ سچا ہوگا۔اور جب ہم اس کو جھوٹا معلوم کرچکے ہیں۔تو معلوم ہوا کہ شاہد کے حکم کو غائب پر محمول کرنا درست نہیں ہے۔ جب یہ قاعدہ ختم ہوا۔تو ذات اورصفات خداوندی میں مشبہ کا قول باطل ٹھرا۔ذات میں تشبیہ کے قائل کہتے ہیں۔فلاں کام چونکہ ہماری نسبت سے برا ہے۔تو ضروری ہے خدا سے  بھی وہ کام برا سمجھا جائے۔ ہماری اس تقریر سے معلوم ہوا  کہ ذات وافعال میں اگرمشبہ کا قول درست تسلیم کر لیا جائے۔تو کفار کی بات درست ہوگی۔اور اس کا باطل ہونا جاب معلوم ہوا۔ کہ مجسمہ اور معتزلہ کا کلام باطل  ہے اور دوسری یہ بات ہے کہ ا گر تقلید صحیح ہوئی تو یہ شبہ بھی درست ہوتا۔اور جب یہ باطل ٹھرا تو لازما تقلید بھی باطل ٹھری۔تفسیر کبیر کا مضمون ختم ہوا۔

پس قول امام رازی سے صاف معلوم ہوا کہ اگر تقلید بلا دلیل صحیح اور حق ہو تو مشبہ فرقہ مجسمہ و کلام معتزلہ کا بھی حق ہو حالانکہ قول و شبہ ان دونوں فرقوں کا باطل ہوا تو تقلید بلادلیل بھی باطل ہوئی۔اور اللہ تعالیٰ سورۃ یونس میں فرماتا ہے۔

ترجمہ۔کہنے لگے کیا تو ہمارے پاس اس لئے آیا ہے کہ ہم کو ہمارے باپ دادا کے دین سے پھیر دے۔اور زمین میں تمہاری سرداری قائم ہوجائے سو ہم تم پر ایمان لانے والے نہں ہیں۔حاصل کلام یہ ہے  کہ انہوں نے دلائل کے مقابلے میں اپنے باپ دادا کی تقلید سے تمسک کیا اور کہنے لگے کہ ہم اپنے باپ دادا کی راہ کو نہیں چھوڑیں گے۔(خلاصہ تفسیر کبیر)

اور سورہ ہود میں فرمایا۔

وقد اشاره وافيه الي التمسك بطريقة التقليد لا نهم استبعد و امنه ان يا مرهم بترك عبادة ما كان يعبد ااوهم يعني الطريقة التي اخذنا ها من ابائنا واسلافنا كيف نتر كها وذلكتمسك بمحض التقليد انتهي ما في التفسير الكبير مختصر البقدرالحاجة

وایضا سورہ صافات میں تحت آیت ۔۔۔قرآن۔۔۔۔کے امام رازی لکھتے ہیں۔

والمقصود من الاية انه تعالي علل استحقاقهم للوقوع في تلكالشدائد كلها بتقليد الا باء فيالدين وترك اتباع الدليل ولو لميو جد في القران اية غيرهذه الاية في ذم التقليد لكفي انتهي ما في التفسير الكبير بقدرالحاجة

اب تحریر بالا سے ماہران شریعت عزا پر مخفی نہ رہے کہ جب مذمت وقباحت تقلید بلا دلیل کی کلام ربانی سے قطعا ثابت ہوئی تو مسلمان دین دار تقویٰ شعار پر ازراہ وجوب محبت اطاعت خالق اکبر اور رسول اطہر کی ماننا کلام ربانی  کا اور بدل و جان تصدیق کرنا اس کا ددر باب زم تقلید بلا دلیل کے فرض اعتقادی و عملی ہوا ،والا ساتھ شقاق و نفاق کے منسوب ہوگا۔

2۔کہنے لگے اے شعیب کیا تیری نمازیں تجھ کو یہی سکھاتی ہیں کہ  ہم اپنے باپ دادا کے معبودوں کو چھوڑیں۔اور اپنے مال میں حسب خواہش تصرف نہ کریں۔اس میں انھوں نے باپ دادا کی تقلید کیطرف اشارہ کیا ہے۔اور تقلید آباء کے ترک پر حضرت شعیب پر خوردہ گیری کر رہے ہیں کہ ہم اس دین کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں اور محض تقلید سے تمسک ہے۔تفسیر کبیر۔3۔آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مصائب میں مبتلا ہونے کی علت دین میں تقلید آباد اور ترک دلیل کو قرار دیا ہے اگر قرآن میں اس آیت کے علاوہ اور وکوئی آیت نہ ہوتی تو بھی تقلید کی برائی کے لئے یہ کافی تھی۔(خلاصہ تفسیر کبیر)

دائرہ  اسلام سے باہر بنا پر اس کے محب مطیع پر اطاعت و تابعداری محبوب مطاع کی واجب ہے چنانچہ اس پر آیت کریمہ ۔۔۔قرآن۔۔۔۔شاہد عدل ہیں اور ۔۔۔قرآن۔۔۔۔فرض ہے اور حاکم مطلق اللہ تعالیٰ ہے اور ہرگاہ حاکم مطلق  نے تقلید بلا دلیل کو باطل اور مذموم فرمایا تو مخلوق محکوم پر فرمانبرداری اسی حاکم مطلق کی فرض ہوگی اور بے حکم حاکم کوئی امر اپنی طرف سے نکالنا اور اس کو نیک سمجنا اور اس پر چلنا تو نہایت قبیح اور فضیح متصور ہوگا۔اورمشاقت اور مخالفت حاکم کی لازم ہوگی کیونکہ باذن اللہ نہیں ہے۔اور قرآن میں فرمایا ہے۔۔۔۔قرآن۔۔۔۔

اي بامر الله لان طاعة الرسول وجبت بامر الله كذافي المعالم وغيره من التبشسير

پس قول بلادلیل پر  تقلید کرنا کسی عالم کی اگرچہ وہ بڑا نامی کامی ہو باطل ہے اور موجب نارضا مندی خدا اور رسول کا ہوگا۔ چنانچہ آیت کریمہ سے اظہر من الشمس ہے اور کو باطن کو نہ سوجھے تو آفتاب عالم تاب کا کیا قصور اسی واسطے سارے اہل اصول لکھتے ہیں۔

الحاكم4 هوالذي صدر الحكم منه ولا حكم الا من الله تعالي كذا في مسلم الثلبوت وهكذا في تحرير ابن الهام

اور حکم خطاب ہے اللہ تعالیٰ کا کہ جو متعلق ہے۔ساتھ فعل مکلف کے چنانچہ مسلم الثبوت کتب اصول میں بہ تفصیل مذکور  ہے اور  دلیل اس پر قرآن شریف ہے۔۔۔قرآن5۔۔۔

وليس لغير الله حكم واجب القبول ولا امر واجب الا لتزام بل الحكم والا مر والتكليف له تعالي شانه انتهي ما في التفسير الكبير مختصرا

 پس آیت کریمہ اور نیز کتب اصول ہر چہار مذہب سے صاف واضح ہوا کہ تقلید بلا دلیل حکم الٰہی سے خارج اور مذموم و قبیح ہے جیسا کہ اوپر آیت اور تفسیر سے  اس کا بیان شافی و کافی ہوچکا تو اب ہر مسلمان طالب حق کو بہت غور فکر چا ہیے کہ مقلدین مقابلین ورطہ دریائےتقلید نا پیدا کنار میں حضرت نوحؑ کے زمانہ سے لغایت حال عرق ہوتے چلے آتے ہیں۔

1۔ایماندار اللہ کی محبت میں بڑے پختہ ہیں۔2۔اللہ کا کہا مانو اور اس کے رسولﷺ کا کہا مانو3۔آپ سے پہلے جتنے بھی رسول آئے ہیں۔وہ اسی لئے بھیجے گئے کہ خدا کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے اسلئے کہ ر سول کی اطاعت خدا کے حکم سے واجب ہے۔حکم وہ ہے جو حکم صادر کرے۔اور حکم صرف اللہ  تعالیٰ کا ہے۔مسلم الثبوت میں ایسا ہی ہے۔5۔حکم صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔اور اللہ سوا کسی کا حکم واجب القبول اور واجب الالتزام نہیں ہے۔حکم امر اور کسی کو کسی کا  مکلف بنانا صرف اللہ کا حق ہے۔(خلاصہ تفسیر کبیر)

پھر بھی مقلدین زمانہ حال کے نصوص قرآنی میں نظر کر کے عبرت نہیں پکڑتے اور خوامخواہ مصداق آیت کریمہ ۔۔۔قرآن۔۔۔۔(ان کے ایسے دل ہیں جن سے سمجھتے  نہیں ہیں) کے ہوتے میں صد حیف کیونکہ تقلید بلا دلیل ایسی  پوچ و لچر و محض بے اصل ہے کہ خدا تعالیٰ نے معرفت توحید وشرک و کفر و معرفت رسالت ﷺ میں بمجرد تقلید انبیاء سابقین کے اکتفا نہ کیا بلکہ اوپر اثبات صانع ورد شرک و ثبوت نبوت رسول مقبول ﷺ کے دلائل قاہرہ گونا گو جا بجا اپنے کلام میں قائم کیے اور مقلدین متعصبین کو کہ جو دلائل شرعیہ ما انزل اللہ پر اصلا نظر نہیں کرتے تھے۔طرح  طرح کے الزامات دیئے۔چنانچہ ماہران قرآن شریف پر ہو یدار آشکارا ہے۔

اعلم انه سبحانه وتعالي لما اقام الدلائل القاهرة علي اثبات الصانع وابطل القول باشريك عقبه مما يدل علي النبوة ولما كانت نبوة محمد صلي الله عليه وسلم مبنية علي كون القران معجزا اقام الدلالة علي كونه معجزا فظهر انه سبحا نه كما لم يكتف في معرفة التوحيد بالتقليد فكذا في معرفة النبوة لم يكتف بال0تقليد انتهي ما في التفسير الكبير مختصرا بقدر الحاجة تحت قوله تعالي          ===  قران===

اور جو سادہ لوح عالم زمانہ کا یہ قول ہے کہ مجھے  تقلید کافی ہے۔اور دلائل مین کچھ غوروخوض کرنے کی ضرورت نہیں۔کیونکہ میں مقلد ہوں اور مقلد کو دلیل سے کیا کام سو اس کا یہ قول اس لئے باطل و مردود ہے۔کہ دین میں ہرمکلف مومن بااللہ والیوم الاخر کی طرف مہما امکن بقدر استعداد نظر کرنا لابدو ضرور ہے۔چنانچہ صاحب  تفسیر کبیر نے سورہ جاثیہ میں تحت آیت کریمہ۔۔۔قرآن۔۔۔۔

اور امام ابو حنیفہ سے منقول ہے کہ انہوں نے اپنے شاگردوں سے فرمایا کہ اگر تم کودلیل ملے یعنی اگر دلیل شرعی کتاب اور سنت سے تم پر ظاہر ہو تو اس پر عمل کرو۔اور میرے قول بلادلیل کو چھوڑ دو۔چنانچہ درمختار اور طحاوی وغیرہ سے واضح ہوتا  ہے۔اب جو کوئی کہے کہ یہ آیات کفار کے حق میں وارد ہیں۔تو وہ بڑا جاہل اور بے وقوف ہے۔کیونکہ اعتبار عموم لفظ کا ہے۔نہ خصوص مھال کا جیسا کہ جا بجا کتب اھادیث و کتب اصول فقہ و استدلالات صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  سے واضح ہوتا ہے۔اور اس بارے میں صاحب تفسیر اتقان نے بہت کچھ لکھا ہے۔

كما لا يخفي علي الماهر بالشريعة الغراء

اور کچھ بطلان کا تفسیر عزیزی سے لکھا جاتا ہے۔

اے مسلمانو! تم قرآن وغیرہ سے تقلید بلاد لیل کی مذمت اور برائی تو سن چکے اب کتاب وسنت پر بدل وجان مستعد اور مستقیم ہو جائو کہ تم کو سرکار عالی جاہ سے جنت نعیم یعنی عیش و آرام ابدی کا مکان عنایت ہوگا۔ان شاء اللہ۔

والبرهان هو ومحمد صلي الله عليه وسلم وانما سماه برهانا لان حرفنه اقامة البرهان علي تحقيق الحق وابطال الباطل والنور المبين هو القران وسماه نور الانه سبب لو قرع نور الايمان في القلب انتهي ما في الكبير مختصرا

تنبیہ

رجوع کرنا طرف قاضی یا مفتی کے یا حکم کرنا قاضی کا اوپر شہادت شاہدان عدل کے یا اتباع اولی الامر کا بدلیل شرعی ہے۔اس کو تقلید اصطلاحی مقلدین نہیں کہتے کیونکہ تقلید اصطلاحی یہ ہے کے گلے میں پٹا ڈال کر بلا دلیل ایک شخص کا ہو رہنا اور اسی طرح عمل اوپر روایت راوی حدیث متصل مرفوع کے بدلیل شرعی ہے۔کیونکہ آپﷺ نے فرمایا! فليبلغ الشاهد الغائب الحديث(جو حاضر ہے وہ غائب کو پہنچا دے۔) اور جو مفتی یا قاضی سے غلطی ہو جائے تو رجوع قرآن و حدیث کے ضرور ہے۔جیسے کہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے!۔۔۔قرآن۔۔۔۔۔۔الیٰ آخر آیۃ ۔۔واللہ اعلم ۔

1۔اے لوگو تمہارے رب کی طرف سے ایک دلیل آئی ہے۔اور تمہاری طرف روشن نور نازل فرمایا ہے۔دلہل سے مراد آپﷺ میں آپ کا نام دلیل اس لئے رکھا گیا۔کہ آپ ﷺ کا شیوہ ہی حق کے ثبوت اور باطل کے ابطال میں دلائل قائم کرنا ہے۔اور قرآن نور مبین ہے اس لئے کہ وہ دل میں نور ایمانی کے داخل ہونے کا سبب ہے (خلاصہ تفسیر کبیر)2۔اگرتمہارا کسی بات میں جھگڑا ہوجائے تو اس کو اللہ اور اس کے ر سول ﷺ کے پاس لے آئو۔

 (سیدمحمد نزیر حسین۔فتاویٰ نزیریہ جلد اول ص181)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 ص 229-242

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ