آمین بالجہر کسی کتاب فقہ حنفی سے ثابت ہے یا نہیں؟
ثابت ہے امام ابن الہمام نے فتح القدیر میں لکھا ہے ولو کان الی فی ھذا شئ لوقفت بان روایه الخفض یراد بھا عدم القرأ لعنیف و روایة الجھر بمعنی قولھا فی زیر الصوت و ذیلھا اہ (اگرمیری طرف سے اس میں کوئی شے ہوتی یعنی اگر اس کا فیصلہ میرے سپرد کیا جائے تو میں یوں مطابقت دیتا کہ آہستہ کہنے کی روایت سے مراد یہ ہے کہ کڑک سخت نہ ہو اور روایت جہر کی بمعنی آمین بیچ نرم آواز ذیل اس کے) اور امیر ابن الحاج نے حلیہ شریف منیۃ المصلی میں تحریر کیاہے و رجح مشائخنا للمذھب بما لایعری عن شئ لمتا فلا جرم ان قال شیخنا ابن الھمام و لو کان ابی شئ لوقفت بان روایة الخفض یراد بھا عدم القرء العنیف و روایة الجھر بمعنی قولھا فی زیر الصوت و ذیلھا اٰہ
ترجمہ: ترجیح دی ہے ہمارے مشائخ نے اس کو واسطے مذہب کے ساتھ اس چیز کے کہ نہیں خالی ہے کسی شے کے واسطے تامل کرنے والے کے اس کے پس ضرور ہے جو کہا ہمارے مشائخ ابن ہمام نے اگر ہوتی ہماری طرف کوئی شئیالبتہ مطابقت دیتا میں اس طرح پر کہ کہ روایت آہستہ کہنے میں ارادہ کیا جاتا ہے کہ کڑک سخت نہ ہو اور روایت بآواز کہنے کی بمعنی کہنے اس کے ہے بیچ نرم آواز اور ذیل اس کے
اور مولانا عبد العلی بحر العلوم لکھنوی نے ارکان اربعہ میں و لم یرد فیه الامام روی الحاکم عن علقمة بن وائل عن ابیه انه صلی مع رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فاذا بلغ و لا الضالین قال اٰمین و اخفی بھا صوته و ھو ضعیف الخ
ترجمہ: نہیں آیا ہے آمین آہستہ کہنے میں مگر وہ وہ کہ روایت کی حاکم نے علقمہ بیٹے وائل سے وہ روایت کرتے ہیں اپنے باپ سے یہ کہ نماز پڑھی انہوں نے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پس جبکہ پہنچے و لا الضالین پر کہا آپ نے آمین اور پست کیا آمین کہنے میں آواز اپنی کو اور یہ روایت ضعیف ہے۔
لکھ کر یہ تحریر کیا ہے و لکن الامر فیه سھل فان السنة التامین اما الجھر و الاخفاء فندب اہ
ترجمہ: لیکن بات اس میں آسان ہے اس لیے کہ سنت آمین کہنا ہے لیکن بآواز کہنا یا آہستہ پس مستحب ہے۔
اور طحاوی حاشیہ در مختار میں ہے فعلی ھذا سیئه الایتان بھا تحصل و لو مع الجھر (ابو سعود اہ)
ترجمہ: پس سنت اس بنا پر آمین کہنے کی حاصل ہوتی ہے اگرچہ ساتھ آواز کے ہو۔
اور مولانا عبد الحئ نے تعلیق الممجد میں لکھا ہے و انصاف ان الجھر قوی من حیث الدلیل اہ
ترجمہ: انصاف یہ ہے کہ آمین بآواز کہنا قوی ہے، باعتبار دلیل کے
اور سعایہ میں مولانا ممدوح فرماتے ہیں فوجدنا بعد التامل و الامعان القول باجھر بامین ھو الاصح لکونه مطابقاً لما روی عن سید بنی عدنان و روایة و الخفص عنه صلعم ضعیفة لاتوازی روایات الجھر و لو صحت وجب ان تحمل علی عدم القرء العنیف کما اشار الیه ابن الھمام ای ضرورة داعیة الی حمل روایات الجھر علی بعض الاحیان او الجھر للتعلیم مع عدم ورد شئ ذلک فی روایة و القول بانه کان فی ابتداء الا ضعیف لان الحاکم قد صححه من روایت وائلبن حجر و ھو انما اسلم فی اواخر الامر کما ذکرہ ابن حجر فی فتح الباری و اما اثر ابراہیم النخعی و نحوہ فلا تعازی الروایات المرفوعة
ترجمہ : تو بعد تامل اور غور کرنے کے ہم نے پکار کر آمین کہنے کو ہی صحیح پایا کیوں کہ وہ سید بنی عدنان یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے و مروی ہے۔ اس کے مطابق ہے اور پست آواز کی روایت ضعیف ہے۔ پکار کر کہنے کی روایتوں کا لگا نہیں کھا سکتی۔ اور اگر بالفرض صحیح بھی ہو تو خوب کڑک کر نہ کہنے پر محول کرنا واجب ہو گا جیسا کہ ابن ہمام نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ اور کوئی ضرورت نہیں ہے کہ روایات جہر کو بعض اوقات تعلیم پر محمول کیا جائے باوجودیکہ یہ کسی روایت میں نہیں آیا اور یہ کہنا کہ جہر ابتداء امر میں تھا ضعیف ہے اس لیے کہ حاکم نے اس کو وائل بن حجر کی روایت سے صحیح کہا ہے اور وائل صحابی آخر زمانہ آنحضرت میں ایمان لائے ہیں جیسا کہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ذکر کیا ہے اور ابراہیم نخعی اور مثل ان کے سے جو حنفیہ کہنا منقول ہے۔ تو ایسے اثر رسول اللہ کی احادیث کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ظاہر حمل کرتا ہے۔ اوپر دونوں عمل آہستہ و آواز کے کبھی یہ کبھی وہ۱۲
اور مولانا شاہ عبد الحق محدث دہلوی نے لمعات شرح مشکوٰۃ میں لکھا ہے و الظاھر الحمل علی کلا العملین تارة قتارة۔