حضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندگی سے تا وفات شریف نماز میں ہاتھ سینے پر باندھتے اور رفع یدین کرتے اور آمین بالجہر فرماتے رہے یا نہیں؟
سینے پر ہاتھ باندھنے اور رفع یدین کرنے کیروایات بخاری اور مسلم اور ان کی شروح میں بکثرت ہیں ان دونوں فعلوں کو ناجائز کہنا صحیح نہیں، علمائے حنفیہ مثلاً مولانا عبد الحئ لکھنوی مرحوم بکثرت اور مولانا رشید احمد گنگوہی مرحوم بھی ان کے قائل تھے۔
شرفیہ
دوام کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفس نماز پڑھنے پر دوام کیا ہے اور یقینا کیا ہے تو پھر ان امور مذکورہ بالا پر جو احادیث متفقہ سے ثابت ہے دوام ان کا بھی ثابت ہے۔ ورنہ تفریق بذمجہ مدعی ہے فعلیہ البیان بالبرہان ورنہ خرط القتاد اور سینہ پر ہاتھ باندھنے کی حدیث بحوالہ صحیح ابن خزیمہ بلوغ المرام میں بھی ہے۔
تشریح
از قلم حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مبارکپوری
علمائے اہلحدیث نماز میں سینہ پر ہاتھ رکھنے کے ثوبت میں ین حدیثیں پیش کرتے ہیں۔ پہلی حدیث ان کے نزدیک صحیح مرفوع متصل غیر معلل اور غیر شاذ ہے جو صحیح ابن خزیمہ میں بلفظ فوضع یدہ الیمنیٰ علی یدہ الیسریٰ علٰی صدرہ مروی ہے۔
حافظ ابن حجر درایہ اور بلوغ المرام وغیرہ میں اور حافظ زیلعی نصب الرایہ جلد اول ص ۱۶۴ میں اور دوسرے مصنفین اپنی کتابوں میں اس حدیث کو ابن خزیمہ کی روایت بتاتے ہیں لیکن اس کی سند نہیں نقل کرتے حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ (حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ) کے نزدیک بظاہر صحیح ابن خزیمہ کی یہ حدیث حسب ذیل سند سے مروی ہے عن عفان عن ھمام عن محمد بن حجارة عن عبد الجبار بن وائل عن علقمه بن وائل و مولیٰ لھم عن ابیه انتہٰی اور اسی سند سے مسلم شریف میں یہ متن بغیر زیادت علی الصدر کے بایں الفاظ مروی ہے ثم وضع یدہ الیمنی علی الیسری جلد اول ص ۱۷۳ مولوی انور شاہ کشمیری نے فیض الباری جلد نمبر ۲ ص ۲۶۶ میں، نیموی نے آثار السنن ص ۶۴ میں مولوی خلیل احمد نے بذل المجہود جلد نمبر ۲ ص ۲۵ میں گمولوی ذکریا نے الاوجز میں علی الصدر کی زیادتی کو معطل شاذ وغیرہ کو محفوظ اور حدیث کو مضطرب المتن بتایا ہے وجہ معطل ہونے کی مولوی انور شاہ مرحوم کے لفظوں میں یہ ہے۔ لانه لم یعمل به احد من السلف و لا ذھب الیه احد من الائمة انتہٰی اور زیادت مذکور کے غیر محفوظ اور شاذ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ابن خزیمہ کے علاوہ اس حدیث کو احمد نسائی‘ ابو دائود‘ ابن ماجہ وغیرہ نے مختلف طریق سے روایت کیا ہے لیکن کسی طریق میں یہ زیادتی نہیں ہے۔ مولوی انور شاہ کشمیر لکھتے ہیں و الحاصل ان روایة وائل رواھا غیر واحد و لم یروھا احد علی لفظ ابن خزیمة و انما زادھا راوی بعد مرور الزمان فھو ساقط قطعاً فلا یحمد علیھا مع فقدان العمل به انتھٰیاور مضطرب المتن ہونے کی وجہ نووی کے لفظوں میں یہ ہے۔ اخرج ابن خزیمة فی ہذا الحدیث علی صدرہ و البزار عند صدره و اخرج ابن شیبة تحت السرة انتہٰی۔ زیادت مذکور کے شذوذ و حدیث مذکور کے اضطراب کا جواب تحفہ الاحوذی جلد ص ۲۱۶ اور ابکار المتن ص ۱۰۱ تا ۱۰۳میں بسط و تفصیل کے ساتھ مذکور ہے اور معلل ہونے کی وجہ کا جواب دینے کی ضرورت نہی جبکہ امام شافعی سے ایک روایت علی لاصدر کی آتی ہے ہے جیسا کہ حاوی میں مصرح ہے اور اگر بالفرض کوئی اس کا قائل نہ بھی ہو تہ اس کے معلل اور غیر محفوظ اور ساقط الاعتبار ہونے پر دلالت نہیں کرتا لانه یحمل علی انه لم یبلغ الحدیث المذکور احدا من الائمة الاربعة و غیرھم ھم المشھورون و اما ان کون الحدیث متروک العمل به فی قرن الصحابة او التابعین علامة نسخه او ضعفه کما یدل علیه کلام المنار کما صرح به فی التلویح فھو مما لا یلتفت الیه وقد رد علیه الشوکانی فی اشراد الفحول و العلامة جمال الدین القاسمی فی قواعد التحدیث۔
دوسری حدیث
حدیث مسند احمد میں بسند ذیل مروی ہے جو عند الحنفیہ بھی حسن ہے قال الامام احمد فی مسندہٖ حدثنا یحی بن سعید عن سفیان ثنا سماک بن قبیصۃ بن ھلب عن ابیہ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الخ نیموی نے اس حدیث کو بھی علیٰ صدرہ کو غیر محفوظ بتایا ہے جس کا جواب حضرت شیخ نے تحفۃ الاحوذی اور ابکار المنن میں بالتفصیل مرقوم فرمایا ہے۔ تیسری حدیث مراسیل ابی دائود میں مروی ہے۔