سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

آج ہمارے پاس موجود قرآن کریم وہی ہے جس پر تمام صحابہ کرام کا اجماع ہوا تھا۔

  • 26709
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-21
  • مشاہدات : 17

سوال

کیا یہ بات صحیح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں کچھ آیات کی تلاوت کی جاتی تھی لیکن انہیں موجودہ قرآن مجید کے نسخوں میں شامل نہیں کیا گیا؟ کیا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہمارے پاس موجود قرآن مجید وہی نہیں ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں تھا؟ کیا ہمارے قرآن مجید سے حذف شدہ لیکن منسوخ آیات کی تشریح ممکن ہے؟ کیونکہ میں نے سنا ہے کہ ایک آیت جس کا نام آیت رجم ہے وہ پہلے قرآن کریم کا حصہ تھی ، پھر وہ حدیث کا حصہ بن گئی، چنانچہ اس کی تلاوت منسوخ کر دی گئی لیکن اس کا حکم باقی رہا۔ تو اگر اس کا حکم اب بھی باقی ہے تو اس کی تلاوت منسوخ کرنے میں کیا حکمت ہے؟ یعنی یہ کیسے ممکن ہے کہ تلاوت منسوخ ہو جائے لیکن اس کا حکم منسوخ نہ ہو؟ اور کیا اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام کا قرآن کریم کے بارے میں اختلاف تھا؟ اگر اختلاف نہیں تھا تو پھر اس کا کیا مطلب ہو گا کہ ہر صحابی کے پاس قرآن پاک کا ایسا نسخہ موجود تھا جو ہمارے نسخے سے الگ تھا؟

جواب کا خلاصہ
قرآن کریم کے بارے میں صحابہ کرام کا اختلاف نہیں ہوا، بلکہ قرآن کریم ہر مرحلے میں کمی بیشی سے محفوظ رہا ہے، ہاں جب صحابہ کرام نے اپنے اپنے ذاتی نسخوں پر تفسیر اور تشریح بھی ساتھ لکھی تو بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ ہر صحابی کا قرآن کریم کا نسخہ الگ تھا۔ اسی طرح جب کچھ صحابہ کرام نے منسوخ التلاوت آیات کو بھی اپنے اپنے مصاحف میں درج رکھا تو بعض لوگوں نے عمداً یا غلطی سے یہ کہنا شروع کیا کہ صحابہ کرام کے مصاحف میں موجود یہ اختلاف حقیقی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسے قریب یا بعید کسی بھی اعتبار سے اختلاف نہیں کہا جا سکتا۔
جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سب سے پہلے تو ہم محترم سائل کے سامنے اس قسم کے سوالات کے بارے میں اپنا تجربہ رکھنا چاہیں گے کہ عام طور پر ایسے سوالات کا سبب بننے والے لوگ وہ ہوتے ہیں جو زمینی حقائق کو خلط ملط کرنے کے ماہر ہوتے ہیں، ان کا مقصد ایسی باتوں کو ہوا دینا ہوتا ہے جس سے یہ لگے کہ قرآن کریم کا تحفظ ہوائی باتیں ہیں، اور آج کسی کو نہیں معلوم کہ ہمارے پاس موجود قرآن کریم کا نسخہ اللہ سبحانہ و تعالی کا کلام ہے یا نہیں! اور یہ بہت ہی خطرناک بات ہے!

اسے سمجھنے کے لیے آپ فرض کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں پڑھی جانے والی کچھ آیات اور سورتیں کسی بھی سبب اور وجہ کی بنا پر مصحف میں درج نہیں ہو سکیں ؛ تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ -اللہ نہ کرے- کہ جو کچھ بھی قرآن مجید کی صورت میں ہمارے پاس پہنچا ہے وہ سب کا سب ہی باطل ہے۔

اسی طرح آپ یہ بھی ذہن نشین رکھیں کہ کوئی بھی بڑی تاریخی چیز جو نقل در نقل ہم تک پہنچے جیسے کہ ہزاروں آیات پر مشتمل قرآن مجید ہے کہ اسے نقل کرنے والے بھی ہزاروں صحابہ کرام ہیں، اور اسے لکھا بھی ہزاروں باریک سفید پتھروں، چمڑوں اور دیگر اسی طرح کی چیزوں پر لکھا گیا تھا۔ اسے نقل کرنے میں معمولی اختلاف اور بھول چوک رونما ہونا لازمی امر ہے، یا بیان کرنے والوں کے درمیان معمولی اختلاف کی وجہ سے تکرار ہو جائے، یا تھوڑا بہت فرق سامنے آ جائے تو یہ سینہ بہ سینہ نقل اور حفظ میں رونما ہو سکتا ہے، یہ ایک لازمی چیز ہے۔

لیکن یہ کہنا کہ قرآن کریم میں تحریف رونما ہوئی تو یہ ہوس پرست لوگوں کی طرف سے ہی ممکن ہے یہ لوگ حقائق کو چھپاتے ہیں اور عام لوگوں کو دھوکا دہی کے ذریعے شکوک و شبہات میں ڈال دیتے ہیں، اور انہیں یہ باور کرواتے ہیں کہ اس طرح کا معمولی اختلاف -نعوذ باللہ-قرآن کریم کے محرف ہونے کی یا قرآن کریم کے غیر محفوظ انداز میں ہم تک پہنچنے کی دلیل ہے!!

وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ قرآن کریم ہم تک اس صورت میں جو آج ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے یہ دنیائے اسلام میں پھیلی ہوئی ہزاروں ثابت شدہ اسانید سے ہم تک پہنچا ہے، بلکہ پوری دنیا کے مکتبات اور لائبریریوں میں موجود با سند مصاحف جن کی سندیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت شدہ ہیں ان کی تعداد ناقابل شمار ہے، اگر کوئی ایسا بڑا علمی ادارہ قائم کیا جائے جو ان اسانید ،مصاحف اور کتب کو جمع کرے، اور قرآن کریم کے متواتر ہونے کے دلائل اکٹھے کرے تو اس کے لیے بھی یہ ناممکن ہو گا۔

اور اگر کوئی کہے کہ اس طرح تو قرآن کریم کے ہم تک محفوظ انداز سے پہنچنے پر منفی اثرات پڑتے ہیں ، اور اس چیز کا خدشہ بڑھ جاتا ہے کہ قرآن کریم میں -نعوذ باللہ- کمی اور اضافہ ہو گیا ہے؛ تو وہ لوگ در حقیقت علم کے منتقل ہونے کے تمام معیاروں کو مسترد کر رہے ہوتے ہیں، بلکہ ایک واقعہ کے بیان میں لفظی اختلاف کی وجہ سے علم کو منتقل کرنے کے تمام ثابت شدہ اور معتمد طریقوں کو معطل کر دیتے ہیں ۔ حالانکہ انہی ذرائع سے سابقہ اقوام کے ورثے اور تاریخ ہم تک پہنچے ہیں ؛ کیونکہ ہم نے اس میں غور و فکر نہیں کیا ہوتا، یا پھر ہم نے اس کو سمجھا نہیں ہوتا نہ ہی اس کی صحیح وجہ جانی ہوتی ہے۔ لہذا قرآن کریم پر کوئی بھی اعتراض چاہے وہ سچا ہو یا جھوٹا ہو ایسا نہیں ہے کہ جس کا یہاں پر جواب یا توجیہ پیش نہ ہو سکے۔ وگرنہ جس قدر اعتراضات قرآن کریم پر کیے جا سکتے ہیں اس سے کہیں زیادہ اور مختلف قسم کے اعتراضات مذکورہ تمام تاریخی ورثوں اور علوم و فنون کے بارے میں اٹھائے جا سکتے ہیں، اگر وہ اعتراضات وہاں پر قبول ہوں گے تو پھر ان اعتراضات کو قرآن کریم کے بارے میں بھی تسلیم کر لیں گے، بلکہ احادیث کے بارے میں بھی ماننے کے لیے تیار ہوں گے۔

دوم:

محترم سائل بھی ہمارے ساتھ تعجب اور ورطہ حیرت میں مبتلا ہوں گے کہ جو شخص اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ قرآن کریم ہر چیز کے خالق و مالک اللہ تعالی کا کلام ہے ، جو کہ ہر چیز کے معاملات سنوارنے والا ہے، وہی اس کائنات کے عجائبات کو پیدا کرنے والا ہے، وہی آسمان و زمین سمیت ان کے درمیان ہر چیز کا بادشاہ ہے، وہی ہر چیز پر قادر ہے، ان سب باتوں کو تسلیم کرنے کے با وجود یہ اچھا نہیں سمجھتا کہ اللہ تعالی قرآن کریم کی کچھ آیات کی تلاوت منسوخ کر دے، یا ان آیات کا حکم منسوخ کر دے، یا پھر کچھ آیات کی تلاوت اور حکم دونوں ہی منسوخ کر دے!!

کیا اللہ تعالی نے ہی ان آیات کو نازل نہیں فرمایا؟ کیا یہ آیات کریمہ اسی کے بول نہیں ہیں؟ کیا وہی ان آیات میں موجود اعلی ترین احکامات کا حکم دینے والا نہیں ہے؟ تو پھر ہمارے قلب و اذہان اس بات کو قبول کرنے کے لیے تیار کیوں نہیں ہوتے کہ اللہ تعالی سبحانہ و تعالی چاہے تو کچھ آیات کے حکم کو قرآن مجید سے منسوخ فرما دے لیکن ان آیات کی تلاوت کی جاتی رہے اور وہ اللہ کے کلام میں شامل رہیں۔ یہ تو ایسے ہی جیسے کہ تورات اور انجیل دونوں ہی اللہ کا کلام ہیں لیکن انہیں قرآن کریم نے منسوخ کر دیا ہے، اور ان دونوں کتابوں میں سے کچھ مقدار باقی رہی جس میں تحریف اور تبدیلی نہیں کی جا سکی اس حصے کا احترام اور مقام بالکل اسی طرح باقی ہے کیونکہ وہ واقعی اللہ تعالی کا کلام ہے!!

تو اس بات کو تسلیم کرنے میں کیا حرج ہے؟!!

قرآن کریم میں واقع ہونے والے نسخ کی ایک مثال ہم دنیا میں بھی دیکھتے ہیں، ویسے تو اللہ تعالی کے لیے اعلی ترین مثالیں بیان کی جا سکتی ہیں ، صرف سمجھانے کے لیے ہم کہتے ہیں کہ: کسی بھی کتاب یا واقعے کا مصنف جب دوسری بار اپنی کتاب پڑھتا ہے تو اس میں رد و بدل لازمی کرتا ہے، کبھی اس کا سیاق بدلتا ہے تو کبھی پورا پیراگراف ہی بدل دیتا ہے، تو انسان یہ حق کسی انسان کے لیے دینے کو تو تیار ہے حالانکہ وہ اللہ تعالی کے مقابلے میں ایک کمزور مخلوق ہے، لیکن کچھ لوگ اس حق کو اللہ تعالی کی ذات میں نقص اور عیب سمجھتے ہیں!!

اگر کوئی شخص یہ کہے کہ: نسخ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کو اپنے سابقہ کسی حکم میں نقص یا خلل محسوس ہوتا ہے تو پھر اسے اپنے نئے حکم میں ختم کر دیتا ہے۔

تو اس کا جواب یہ ہے کہ: یہ اعتراض در حقیقت نسخ کی اصل کیفیت اور صورت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، تلاوت کے منسوخ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ منسوخ آیت کو قرآن کے حصہ ہونے سے نکال دیا گیا ہے جبکہ اس کا حکم باقی ہے، یعنی اس آیت کی تلاوت کر کے عبادت نہیں کی جا سکے گی! یا پھر نسخ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تلاوت اور حکم دونوں کو منسوخ کر دیا گیا ہے، لیکن پھر بھی اسے اللہ کا کلام ہونے کا شرف حاصل ہے۔

اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ تعبدی امر یعنی عبادت در حقیقت غیر معقول المعنی ہی ہوتی ہے، تو پھر کوئی بندہ یہ اعتراض کیسے کر سکتا ہے کہ تلاوت کے منسوخ ہو جانے کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت میں خلل یا کمی عیاں ہو گئی ہے؟!

سوم:

اگر آپ مذکورہ بالا گفتگو سمجھ چکے ہیں تو پھر یہ بھی آپ کے لیے یہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ علمائے اہل سنت آیت رجم کے بارے میں جو کہتے ہیں کہ اس آیت کا حکم باقی ہے جبکہ اس کی تلاوت منسوخ ہے، یہ بھی قرآن کریم میں واقع ہونے والے نسخ کے بارے میں ہے کہ جس کے بارے میں اصول و ضوابط سابقہ ذکر شدہ سوالات کے جوابات میں گزر چکے ہیں، جبکہ خود قرآن کریم میں نسخ کے حوالے سے بنیادی باتیں ذکر ہوئی ہیں، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (106) أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ 
ترجمہ: ہم جو بھی آیت منسوخ کریں اور یا اسے ذہنوں سے بھلا دیں تو ہم اس سے بہتر یا اسی جیسی آیت لے آتے ہیں، کیا آپ جانتے نہیں کہ یقیناً اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔ (106) کیا آپ نہیں جانتے کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ تعالی کے لیے ہی ہے ، اور تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی والی اور مدد گار نہیں ہے۔[البقرۃ: 106 - 107]

چہارم:

لہذا صحابہ کرام کے مابین قرآن کریم سے متعلق کوئی اختلاف نہیں تھا، ہاں کچھ لوگوں نے ایسی چیزوں کو اختلاف سمجھ لیا جو حقیقت میں اختلاف نہیں تھا، اس کی وجہ یہ بنی کہ انہوں نے بعض صحابہ کرام کی جانب سے قرآن مجید کے ذاتی نسخوں پر تفسیر اور شرح لکھی ہوئی دیکھی تو اسے بھی قرآن کریم کا حصہ سمجھ لیا، اسی طرح جب انہوں نے کچھ صحابہ کرام کے ذاتی نسخوں پر منسوخ آیات لکھی ہوئی دیکھیں تو کچھ لوگوں نے عمداً یا غلطی سے یہ سمجھ لیا کہ قرآن مجید کے صحابہ کے نسخوں میں اختلاف حقیقی تھا، حالانکہ وہ دور یا قریب کسی بھی اعتبار سے اختلاف نہیں بنتا، بلکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ وہ در حقیقت قرآن کریم کی تفسیر ہوتی تھی جو بعض صحابہ اپنے ذاتی نسخے پر لکھ لیا کرتے تھے، لیکن بعض لوگوں نے اس کو غلط بیان کرتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ وہ اس صحابی کا قرآن ہوتا تھا۔ یا پھر بعض صحابہ کے ذاتی نسخوں میں منسوخ شدہ آیات یا سورتیں ہوتی تھیں جنہیں انہوں نے مٹایا نہیں ہوتا تھا، تا کہ ان آیات کو یاد رکھ سکے اور ان کے حکم پر عمل کر سکے نیز اس صحابی کو یہ بھی علم ہوتا تھا اور تسلیم کرتا تھا کہ ان آیات کی تلاوت کر کے عبادت نہیں کی جا سکتی۔

واللہ اعلم

تبصرے