سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(5) امام ، اہل بیت اور اصحاب پر صلاۃ و سلام کہنا

  • 26098
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1728

سوال

 السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بلامیعت ومنجمعیت آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے امام یا اہل بیت یا اصحاب پر صلوۃ وسلام کہنا جائز ہے یا نہیں۔بینواتوجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح ہوکہ صلوۃ بلاتبیعت آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے کسی پر جائز نہیں ہے۔ملا علی قاری شرح فقہ اکبر میں  فرماتے ہیں:

(عن أبي حنيفة رحمه الله: (لا يصلى على غير الأنبياء والملائكة ومن صلى على غيرهم الا على وجه التبعية فهو غال من الشيعة التي نسميها الروافض)

اور صاحب نیل الاوطار فرماتے ہیں:

(بأن أصل الصلاة الدعاء إلا أنه يختلف بحسب المدعو له فصلاة النبي صلى الله عليه وسلم على أمته دعاء لهم بالمغفرة وصلاة أمته دعاء له بزيادة القربة والزلفى ولذلك كانت لا تليق بغيره, )

 (سید محمد نذیرحسین)

ہوالموفق:۔

حافظ ابن حجرل فتح الباری صفحہ 205۔جزو19 میں لکھتے ہیں:

"واستدل بهذا الحديث على جواز الصلاة على غير النبي صلى الله عليه وسلم من أجل قوله فيه : " وعلى آل محمد " وأجاب من منع بأن الجواز مقيد بما إذا وقع تبعا , والمنع إذا وقع مستقلا , والحجة فيه أنه صار شعارا للنبي صلى الله عليه وسلم فلا يشاركه غيره فيه , فلا يقال قال أبو بكر صلى الله عليه وسلم : وإن كان معناه صحيحا , ويقال : صلى الله على النبي وعلى صديقه أو خليفته ونحو ذلك . وقريب من هذا أنه لا يقال : قال محمد عز وجل وإن كان معناه صحيحا , لأن هذا الثناء صار شعار الله سبحانه لا يشاركه غيره فيه . ولا حجة لمن أجاز ذلك منفردا فيما وقع من قوله تعالى : ( وصل عليهم ) ولا في قوله : " اللهم صل على آل أبي أوفى " ولا في قول امرأة جابر " صل علي وعلى زوجي , فقال : اللهم صل عليهما " فإن ذلك كله وقع من النبي صلى الله عليه وسلم . ولصاحب الحق أن يتفضل من حقه بما شاء , وليس لغيره أن يتصرف إلا بإذنه , ولم يثبت عنه إذن في ذلك . ويقوي المنع بأن الصلاة على غير النبي صلى الله عليه وسلم صار شعارا لأهل الأهواء يصلون على من يعظمونه من أهل البيت وغيرهم . وهل المنع في ذلك حرام أو مكروه أو خلاف الأولى ؟ حكى الأوجه الثلاثة النووي في " الأذكار " وصحح الثاني . وقد روى إسماعيل بن إسحاق في كتاب " أحكام القرآن " له بإسناد حسن عن عمر بن عبد العزيز أنه كتب " أما بعد فإن ناسا من الناس التمسوا عمل الدنيا بعمل الآخرة , وإن ناسا من القصاص أحدثوا في الصلاة على خلفائهم وأمرائهم عدل الصلاة على النبي , فإذا جاءك كتابي هذا فمرهم أن تكون صلاتهم على النبيين , ودعاؤهم للمسلمين , ويدعوا ما سوى ذلك " ثم أخرج عن ابن عباس بإسناد صحيح قال : " لا تصلح الصلاة على أحد إلا على النبي صلى الله عليه وسلم , ولكن للمسلمين والمسلمات الاستغفار"انتہیٰ۔

خلاصہ اس عبارت کایہ ہے کہ حدیث:

(قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ،....) الخ سے اس بات کا استدلال کیا گیا ہے کہ غیر نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود بھیجنا جائز ہے۔اس واسطے کہ اس حدیث میں لفظ وعلی آل محمد واقع ہے اور جو لوگ ناجائز کہتے ہیں انہوں نے یہ جواب دیا ہے کہ غیر نبی پر درود بھیجنا اس صورت کے ساتھ مقید ہے کہ تبعاً واقع ہو اور بلا منجعیت کے مستقل طور پر ممنوع ہے اور دلیل اس کی یہ ہے کہ مستقل طور پر درود بھیجنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے شعار ہوگیا ہے۔پس اس میں کوئی اور شخص آ پ کا مشارک نہیں ہوسکتا پس نہیں کہا جائے گا۔قال ابوبکر صلی اللہ علیہ وسلم  اگرچہ اس کے صحیح ہیں بلکہ یوں کہا جائےگا صلی اللہ علی النبی وعلی صدیقہ اوخلیفۃ اور اسی کے قریب یہ بات ہے کہ یوں نہیں کہا جائے گا قال محمد عزوجل اگرچہ اس کے معنے صحیح ہیں اس واسطے کہ یہ ثنا اللہ تعالیٰ کے لیے شعار ہوگیا ہے پس کوئی اور شخص اس میں اس کا مشارک نہیں ہوسکتا اور جولوگ غیر نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  پر استقلالا ومنفرداً درود بھیجنے کو جائز کہتے ہیں۔اور آیۃ وصل علیھم اور حدیث (اللهم صل على آل أبي أوفى) اور حدیث:

(صحيح عن جابر بن عبد الله أن امرأة قالت : يا رسول الله صل علي وعلى زوجي ( صلى الله عليه وسلم ) فقال : (صلى الله عليك وعلى زوجك ) .

سے استدلال کرتے ہیں سو یہ ٹھیک نہیں کیونکہ یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے واقع ہوا ہے اور صاحب حق کو اختیار ہے کہ اپنے حق میں  سے جس کو چاہے ہے تفضل کرے اور غیر کو بلااذن اس کے حق میں تصرف کرنے کا اختیار نہیں ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس بارے میں اذن ثابت نہیں اورغیر نبی پر درود بھیجنے کی ممانعت کی تائید وتقویت اس سے ہوتی ہے۔ کہ اہل ہواکایہ شعارہوگیاہے وہ اہل بیت وغیرہم میں سے جس کی وہ تعظیم کرتے ہیں اس پردرود بھیجتے ہیں اور اس میں اختلاف ہے کہ یہ ممانعت کس طور کی ہے آیا حرام ہے یا مکروہ یا خلاف بولے۔سو نووی نے کتاب الاذکار میں تینوں صورتوں کی حکایت کی ہے اور دوسری صورت کی تصیح کی ہے اور اسماعیل بن اسحاق نے ا پنی کتاب احکام القرآن میں باسناد حسن روایت کی ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے کہاہے کہ چند لوگ ایسے ہیں جو عمل دنیا کو عمل آخرت کے ساتھ ڈھونڈتے ہیں اور بعض قصاص نے یہ بات نکالی ہے کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پردرود بھیجا جاتا ہے اسی طرح پر اپنے خلفاء وامراء پردرود بھیجنے کو کہتے ہیں پس جب میرا یہ خط پہنچے تو ان کو حکم کرکے انبیاء علیہ السلام  پردرود بھیجیں اور مسلمانوں کے لیے دعا کریں اور اس کے ماسوی کوترک کریں پھر اسماعیل بن اسحاق نے باسناد صحیح ابن عباس سے روایت کی ہے کہ بجز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے کسی اور پردرود بھیجنا لائق نہیں ہاں مسلمین اور مسلمات  کے لیے استغفار کرنا چاہیے۔حافظ ابن حجر نے فتح الباری صفحہ 58 جزو26 میں مسئلہ صلوۃ علی غیر النبی کو کتاب الدعوات باب بل یصلی علی غیر النبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے تحت میں زیادہ بسط وتفصیل سے لکھا ہے اور اس مسئلہ میں علماء کے جو اختلافات ہیں ان کو بہت وضاحت سے بیان کیا ہے اور عیاض کا یہ قول نقل کیا ہے۔"یعنی فیاض کہتے ہیں کہ میرا میلان مالک اور سفیان کے قول  کی طرف ہے اور محققین متقلمین اور فقہاء کا بھی یہی قول ہے اور وہ یہ کہ غیر انبیاء کو رضا اورغفران کے ساتھ یاد کرنا چاہیے اور صلوۃ غیرانبیاء پر امرمعروف سے نہیں تھا تو یہ دولت بنی ہاشم میں محدث ہوا ہے۔"واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔(کتبہ محمد عبدالرحمان المبارکفوری عفا اللہ عنہ)

     ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی نذیریہ

جلد:2،کتاب الاذکار والدعوات والقراءۃ:صفحہ:7

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ