سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(706) ’’مصافحہ‘‘ ایک ہاتھ سے یا دو ہاتھوں سے کرنا چاہیے؟

  • 25821
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 721

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 محترم مفتی صاحب! عرض ہے کہ میں نے ایک صاحب( جو مسلکاً حنفی ہے) کو ایک ہاتھ سے مصافحے کی حدیث دکھائی تو انھوں نے کہا آپ اہل حدیث حضرات اس حدیث میں ایک ہاتھ( یَدٌ) کس بنا پر مراد لیتے ہو ، حالانکہ حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان بچے رہیں۔‘‘ اس حدیث کی عربی میں بھی ’’ یَدٌ‘‘ استعمال ہوا ہے ، تو اگر کوئی انسان دوسرے انسان کو مارے تو دوسرا ہاتھ استعمال نہیں کرے گا کیا؟ اسی طرح جب مصافحہ میں ایک ہاتھ یعنی  یَدٌ آیا ہے تو دوسرا ہاتھ مصافحہ میں استعمال کرے گا۔

اس مسئلہ کو تفصیل سے تحریر کریں تاکہ میرے علم میں بھی اضافہ ہو۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ ( مرزا عمر علی،شہداد پور)  (۸۔ اگست ۲۰۰۳ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ قیاس مع الفارق ہے کیونکہ یہاں بحث صرف لفظ’’ یَدٌ‘‘ سے نہیں بلکہ یہ لفظ’’مصافحہ‘‘ کے تابع ہے۔ اہل لغت کے نزدیک ’’مصافحہ‘‘ ہتھیلی کے ہتھیلی کے ساتھ الصاق(مل جانے) کا نام ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’هِیَ مُفَاعَلَةٌ مِنَ الصَّفْحَةِ وَالْمُرَادُ بِهَا الْإِفْضَاء ُ بِصَفْحَةِ الْیَدِ إِلَی صَفْحَةِ الْیَدِ ‘ (فتح الباری:۵۴/۱۱)

’’مصافحہ بروزن مفاعلہ صفحۃ سے ماخوذ ہے۔ مراد اس سے یہ ہے کہ ایک آدمی کے ہاتھ کی ہتھیلی کا دوسرے کے ہاتھ کی ہتھیلی کو لگ جانا۔‘‘

 علامہ طحاوی رحمہ اللہ  نے اور علامہ قاری نے ’’مرقاۃ‘‘ میں اور دیگر کئی ایک علمائے حنفیہ نے مصافحہ کی اسی طرح تعریف کی ہے۔ ’’تمہید ابن عبدالبر‘‘ میں ہے کہ عبد اللہ بن بسر نے کہا:

’صَافَحْتُ بِهَا رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ سَلَّمَ۔‘ (رِجَالُهُ کُلُّهُمْ ثِقَاتٌ وَ اِسْنَادُهٗ مُتَّصِلٌ)

’لوگو! تم میرے اس ہاتھ کو دیکھتے ہو، اس کے ساتھ میں نے رسول اللہﷺ سے مصافحہ کیا تھا۔‘‘ (اس حدیث کے سب راوی ثقہ ہیں اور سند متصل ہے)

’’مسند احمد‘‘ کے الفاظ یوں ہیں:

’تَرَوْنَ کَفِّی هَذِهِ، فَأَشْهَدُ أَنِّی وَضَعْتُهَا عَلَی کَفِّ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ‘ (مسند احمد،رقم: ۱۷۹۰۶۰)

’’عبداللہ بن بسر نے کہا تم میری اس ہتھیلی کو دیکھتے ہو، پس میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے اس کو محمدﷺکی ہتھیلی پر رکھا ہے۔‘‘ ( اس کی سند صحیح ہے۔)

واضح ہو کہ لفظ ’یَدِیْ هٰذِهٖ وَ کَفِّیْ هٰذِهٖ ‘ میں معترض کے دعوے کی واضح تردید ہے کیونکہ ھٰذِہٖ اسم اشارہ واحد کے لیے ہے، لفظ یَدِیْ اور کَفِّیْ میں بھی ایک ہاتھ اور ایک ہتھیلی کا تعین ہے،دونوں مراد نہیں۔ جب کہ سوال میں مشارٌ الیہ حدیث میں عموم مقصود ہے ، یَدٌ  حقیقی ہویا معنوی ۔ یعنی مسلمان کو تکلیف دینا ہی منع ہے، ہاتھ سے ہو ، زبان سے ہو ، ٹانگ سے ہو یا کسی دوسری معنوی صورت میں۔ جیسے ناحق کسی کے حق پر قابض ہو جانا بھی تکلیف دہ امر ہے ، لیکن یہ قبضہ حقیقی ہاتھ سے نہیں۔ (عمدۃ القاری:۱/۲۰)

یہاں یَدٌ  کا مفہوم واحد اور تثنیہ کی حدود سے بالاتر ہے، عمومی جملہ صورتوں پر اس کا اطلاق ہو گا۔ واحد اور تثنیہ کا تعین اکثر و پیشتر تصریح سے اور بعض اوقات قرائن سے ہوتا ہے۔

مصافحہ میں دوسرے ہاتھ کا استعمال مصافحہ کی اصل تعریف سے خارج ہے اور’’صحیح بخاری‘‘ میں ابن مسعود کی حدیث:

’وَکَفِّی بَیْنَ کَفَّیْهِ‘(صحیح البخاری،بَابُ الأَخْذِ بِالیَدَیْنِ،رقم:۶۲۶۵)سے مقصود مصافحہ نہیں بلکہ مزید اہتمام تعلیم کی خاطر دونوں ہاتھوں کو پکڑنا ہے۔

مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی نے اپنے بعض فتوؤں میں اس امر کی تصریح کی ہے جس کی تفصیل ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ (۵۲۲/۷) میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: مستحب یہ ہے کہ مصافحہ دائیں ہاتھ سے ہو، یہی افضل ہے۔ (التحفة :۵۱۹/۷)

تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: (کتاب المقالة الحسنی فی سنیۃ المصافحۃ بالید الیمنی للعلامۃ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ تعالیٰ)

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب اللباس:صفحہ:503

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ