السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہفت روزہ الاعتصام (ص:۷،مطابق۲۸ہجری ،جمادی الثانیہ،۱۴۱۸۔ ۳۱ تا ۶ نومبر۱۹۹۷ء کے شمارہ میں آپ کا فتویٰ نظر سے گزرا جو دل میں کھٹکتا ہے۔ لہٰذا اصلاح نامہ پیش خدمت کر رہا ہوں اگر درست ہو تو تائید فرما کر الاعتصام میں شائع فرمادیں اور اگر میری بات محل نظر ہو اور آپ کانظریہ مختلف ہو مع دلائل دوبارہ الاعتصام میں وضاحت فرمادیں۔ تہجد رہ جائے تو اس کی قضاء کے بارے میں صحیح مسلم کی روایت نقل فرما کر آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بوجہ تکلیف اور نیند کے تہجد نہ پڑھ سکنے کا طرزِ عمل لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو بارہ رکعات ادا فرماتے تھے۔ پھر آگے آپ تحریر کرتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ علیحدہ بصورتِ وِتر قضاء کی ضرورت نہیں۔(انتہیٰ)
راقم کو آپ کی اس بات سے اتفاق نہیں بلکہ مؤدبانہ درخواست ہے کہ تہجد والا آدمی جب بیدار ہو یا اسے یاد آئے یا اس کی تکلیف رفع ہو جائے تو پہلے وہ اسی وقت وِتر کی قضاء دے لے اور جو اس کا نمازِ فجر سے قبل کا وظیفہ نوافل یا تلاوت وغیرہ اذکار ہوں ، ان کی جگہ پر بارہ رکعات ادا کرے تو اس کا اجرو ثواب مطابق حدیث وہی ملے۔ میرے اس موقف کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
’ مَن نَامَ عَن وِترِهٖ اَو نَسِیَهٗ فَلیُصَلِّهٖ اِذَا ذَکَرَهٗ ‘(سنن أبي داؤد،بَابٌ فِی الدُّعَاء ِ بَعْدَ الْوِتْرِ،رقم:۱۴۳۱)
’’جو اپنے وِتر سے سو گیا یا بھول گیا وہ جب بیدار ہو یا جب یاد آئے اسی وقت پڑھ لے۔‘‘
(انتہیٰ) (علامہ شوکانی رحمہ اللہ اس کو صحیح قرار دیتے ہیں۔)
اور نیز امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ اَلحَدِیثُ یَدُلُّ عَلٰی مَشرُوعِیَّةِ قَضَاءِ الوِترِ اِذَا فَاتَ ‘نیل الأوطار:۵۵/۲۔۵۴
’’جب وِتر رہ جائیں تو یہ حدیث ان کی قضاء دینے پر دلالت کرتی ہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وتروں کی قضاء علیحدہ حکم رکھتی ہے۔ علاوہ ازیں اورادو وظائف رہ جائیں توان کی جگہ بارہ رکعات کفایت کرتی ہیں۔ وتروں کی قضاء کے بارے میں پیارے پیغمبر حضرت محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقاعدہ قضاء کا حکم دیا ہے اگر یہ بھی عام نوافل یا وظائف کی حیثیت رکھتے ہوتے تو ان کا علیحدہ حکم ضروری نہ تھا۔ واﷲ اعلم۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
محترم مولانا حافظ محمد عباس صاحب آنجناب کا ملفوف ملا۔ بندہ کو کلمۂ خیر سے یاد کرنے کا شکریہ۔ اپنی نیک دعاؤں میں ہمیشہ یاد رکھیں۔ (جزاکم اﷲ خیراً)
علمائے سلف و خلف کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ قضاء وِتر کا مسئلہ سخت اختلافی مسائل میں سے ایک ہے۔جانبیَن کے دلائل مطولات میں مرقوم ہیں۔ جن کا اس مختصر میں احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ سرِدَست مسئلہ ہذا میں جو موقف آپ نے اختیار کیا ہے۔ اس سے کلی اتفاق کرنا مشکل ہے۔ رات کی نماز فوت ہو نے کی صورت میں صبح کے وقت بارہ رکعت پڑھنے کے باے میں جو توجیہ آپ نے پیش کی ہے۔ یہ محل نظر ہے۔ کیونکہ یہ امر مسلمہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعت یا تیرہ رکعت سے زیادہ نماز نہیں پڑھتے تھے۔ وِتر بھی اس میں شامل ہوتے تھے۔ بایں صورت و تروں کو اس سے مستثنیٰ قرار دینا بلا دلیل ہے اور جہاں تک حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کی روایت کا تعلق ہے، سو بفرضِ صحت اہلِ علم نے اس کی مختلف توجیہات بیان کی ہیں۔
حضرت وکیع راویٔ حدیث کے فہم کے مطابق اس روایت کا تعلق اسی متعلقہ رات سے ہے جس میں یہ عوارض لاحق ہوئے۔ یعنی آدمی کو چاہیے کہ وِتر کا وقت ختم ہونے سے قبل ہی وتروں سے فارغ ہو جائے۔ اس تشریح سے امام شوکانی رحمہ اللہ کے استدلال کی بھی کمزوری ظاہر ہوتی ہے اور دوسری روایت سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے:
’ مَن اَدرَكَ الصُّبحَ وَ لَم یُوتِر، فَلَا وِترَ لَهٗ ‘ (اخرجہ الحاکم(۱/۳۰۲) و عنہ البیہقی و قال صحیح علی شرط مسلم و وافقہ الذھبی) (المستدرک علی الصحیحین للحاکم،کِتَابُ الْوِتْرِ،رقم:۱۱۲۵،السنن الکبرٰی للبیہقی،بَابُ وَقْتِ الْوِتْرِ،رقم:۴۱۹۲)
اگرچہ امام بیہقی نے روایت ہذا کو معلول قرار دینے کی سعی کی ہے۔ لیکن علامہ البانی رحمہ اللہ نے ان سے موافقت نہیں کی۔ فرماتے ہیں:
’ وَلَا وَجهَ لِهٰذَا الاِعلَالِ بَعدَ صِحَّةِ الاِسنَادِ وَهُوَ بِمَعنَی الحَدِیثِ الاَوَّلِ بَل هُوَ اَصرَحُ مِنهُ، وَ اَقرَبُ اِلَی التَّوفِیقِ بَینَهٗ، وَ بَینَ حَدِیثِ ابنِ مُطرَفٍ : لِاَنَّهٗ صَرِیحٌ اَدرَكَ الصُّبحَ ، وَ لَم یُوتِرُ، فَهٰذَا لَا وِترَ لَهٗ ، وَ اَمَّا الَّذِی نَسِیَ اَو نَامَ حَتّٰی الصُّبحِ فَاِنَّهٗ یُصَلِّی (کَمَا تَقَدَّمَ) ‘(إرواء الغلیل:۱۵۴/۲)
اور (ص:۱۵۳) پر فرماتے ہیں:
’ قُلتُ وَ لَا تَعَارُضَ بَینَهٗ، وَ بَینَ الحَدِیثِ الَّذِی قَبلَهٗ خِلَافًا لِمَا اَشَارَ اِلَیهِ مُحَمَّدُ ابنُ یَحیٰی ذَالِكَ ، لِاَنَّهٗ خَاصٌ بِمَن نَامَ ، اَو نَسِیَ فَهٰذَا یُصَلِّی بَعدَ الفَجرِ اَی وَقتٍ یَذکُرُهٗ الذَّاکِرُ ، فَیَنتَهِی وَقتُ وِترِهٖ بِطَلُوعِ الفَجرِ۔ وَهٰذَا بَیِّنٌ ظَاهِرٌ۔‘
علامہ البانی کی تشریح سے معلوم ہوتا ہے کہ جو جان بوجھ کر وِتر چھوڑ دے اس کے لیے قضاء نہیں اور جو بھول جائے یا صبح تک سویا رہے ، وہ وِتر پڑھے اور صاحب ’’المرعاۃ‘‘ تطبیقی صورت میں صرف جوازِ قضاء کے قائل ہیں، ضروری کے نہیں۔ جس طرح کہ عطاء اور اوزاعی وغیرہ کا مسلک ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ وَاختَلَفَ السَّلَفُ فِی مَشرُوعِیَةِ قَضَائِهٖ فَنَفَاهُ الاَکثَرُ۔ وَ فِی مُسلِمٍ، وَغَیرِهٖ عَن عَائِشَةَ اَنَّهٗ ﷺ کَانَ اِذَا نَامَ مِنَ اللَّیلِ مِن وَجَعٍ، اَو غَیرِهٖ ، فَلَم یَقُم مِنَ اللَّیلِ صَلَّی مِنَ النَّهَارِ ثِنتَی عَشَرَةَ رَکعَةً، وَ قَالَ مُحَمَّدُ بنُ نَصرٍ: لَم نَجِد عَنِ النَّبِیِّ ﷺ فِی شَیئٍ مِنَ الاَخبَارِ اَنَّهٗ قَضَی الوِترَ ، وَ لَا اَمَرَ بِقَضَائِهٖ ، وَ مَن زَعَمَ اَنَّهٗ ﷺ فِی لَیلَةِ نَومِهِم عَنِ الصُّبحِ فِی الوَادِی قَضَی الوِترَ فَلَم یُصِبه ‘( فتح الباري:۴۸۰/۲)
یعنی سلف کا وتروں کی قضائی کی مشروعیت میں اختلاف ہے۔ اکثر اہلِ علم کے نزدیک قضائی نہیں۔ صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیماری وغیرہ کی وجہ سے رات کو سوئے رہتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن کو بارہ رکعت پڑھ لیا کرتے اور امام محمد بن نصر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ کسی حدیث میں ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم نہیں ہو سکا کہ آپ نے وِتر کی قضائی دی ہو اور نہ وِتر کی قضائی کا حکم ہی دیا ہے اور جو یہ سمجھتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رفقاء سمیت جس رات وادی میں سوئے رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وِتر کی قضائی دی ہے، وہ غلطی پر ہے۔‘‘
پھر وِتر کی قضائی کو ضروری قرار دینا عقل و نقل کے بھی منافی ہے۔ کیونکہ راجح مسلک کے مطابق وِتر واجب نہیں۔ صرف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وجوب کے قائل ہیں۔ لیکن ان کے شاگردوں نے ان کی موافقت نہیں کی۔غور فرمائیے ! جو شئی بذاتِ خود واجب نہیں، اس کی قضائی کیسے واجب ہو سکتی ہے۔ اس میں زیادہ سے زیادہ جواز کا قول ممکن ہے۔ جس طرح کہ صاحب ’’المرعاۃ‘‘ نے احتیاطی پہلو اختیار کیا ہے۔
مسئلہ قضاء وِتر پر مزید تحقیق کے لیے ملاحظہ ہو! فتاویٰ اہلحدیث :۳۰۸/۲ تا۳۱۷۔ لشیخنا محدث روپڑی۔ رحمہ اﷲ تعالی رحمۃ واسعة
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب