کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ موضع رنگھاٹ میں تقریباً پچاس برس سے ایک جامع مسجد قائم ہے۔ اب مسجد تنگ ہونے کی وجہ سے کچھ جگہ بڑھائی گئی اور مسجد بھی بن گئی ہے اب بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسجد کی بڑھائی ہوئی جگہ جو ہے اس کے اندر بہت دنوں قریب تیس (۳۰) برس سے یوسف ملا کی قبر ہے اور عدد کثیر لوگ کہتے ہیں، کہ یوسف ملا مذکور کی قبر مسجد سے باہر ہے حتی کہ یوسف ملا کا بھائی یعنی یمانی ملا بھی کہتا ہے، کہ میرے بھائی کی قبر مسجد سے باہر ہے۔
اب علمائے کرام کی خدمت میں دریافت کرنا یہ ہے کہ اقوال مذکورہ مختلفہ فیہا کی بنا پر جامع مسجد مذکور کو پختہ تعمیر شدہ ازروئے شرع نماز پڑھی درست ہو گی یا نہیں؟ واضح رہے کہ قبر کی کوئی نشانی باقی نہیں ہے۔ بینوا توجروا
_____________________________________________________________________
صورت مسئولہ سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تعداد منکرین قبر کی ہے۔ اور بعض کا خیال ہے کہ وہاں قبر تھی، کثرت کے مقابلے میں قلت کا خیال نہ کیا جائے گا، علاوہ ازیں مان بھی لیا جائے کہ کسی زمانے میں وہاں قبر تھی، درازگی زمانہ کے باعث اس کے نشانات باقی نہ رہے اور نہ تعمیر مسجد کے زمانے میں کسی کو خیال رہا، ایسی صورت میں اگر میت کی تعظیم اور تکریم مقصود نہ ہو اور عدم معلومات کی بنا پر مسجد بنائی گئی ہو تو حرج نہیں ہے اور اس میں نماز درست ہے، کیوں کہ بخاری شریف میں ہے: باب بناء المسجد علیٰ القبر (تحت باب حسب ذیل حدیث مذکور ہے)
«أولئك إذا مات فیھم الرجل الصالح بنوا علی قبرہ مسجد اثم صوروا فیه تلك الصور» الحدیث
یہاں مراد قصداً اور تعظیماً کی ممانعت ہے۔ کیوں کہ ترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی کی عبار ت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد حرام بیت اللہ کے ارد گرد ستر (۷۰) یا پچاس (۵۰) انبیاء علیہم السلام کی قبور پائی جاتی ہیں، اور سیدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قبر مسجد حرام کے حطیم میں واقع ہے، پھر بھی نماز پڑھی جاتی ہے تحفۃ الاحوذی کے ص ۲۶۵ ج۱ میں حسب ذیل عبارت ہے:
وأمّا من اتخذ مسجدا فی جوار صالح أو صلی فی مقبرة قاصداً به الاستظہار بروحه أو رسول اثر من آثار عبادته إلیه التوجه نحوہ والتعظیم له فلا حرج فیه إلا یری أن مرقد إسماعیل علیه السلام فی الحجر فی المسجد الحرام والصارة فیه أفضل
عبارت مذکورہ سے صاف عیاں ہے کہ اگر قبر کی تکریم اور تعظیم مقصود نہ ہو تو نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح اگر قبر کی تعظیم اور تکریم یا تحقیر مقصود نہ ہو تو پائخانہ پیشاب کے علاوہ نشت و برخاست بھی قبر پر جائز ہوسکتی ہے۔ چنانچہ بخاری شریف میں ہے:
قال خارجة بن زید رأیتنی ونحن شبان فی زمان عثمان رضی اللہ عنه وان أشد ناوثبة الذی یثب قبر عثمان بن مظعون حتی یجاوزہ وقال عثمان بن حکیم أخذ. بیدی خارجة فاجلسني علی قبر واخبرنی عن عمه یزید بن ثابت قال إنما کرہ ذلك لمن أحدث علیه وقال نافع کان ابن عمر یجلس علی القبور
’’خارج بن زید کا بیان ہے کہ میں نے دیکھا کہ ہم لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جوان تھے اور ہم سب عثمان بن مظلوم کی قبر پر کودا کروا کرتے تھے، حتی کہ اوس سے بھی تجاوز کر جاتے تھے اور عثمان بن حکیم نے کہا کہ خارجہ نے میر اہاتھ پکڑ کر مجھے قبر پر بٹھایا اور اپنے چچا یزید بن ثابت سے خبر دی کہ یہ قبر پر بیٹھنے کو جو ناپسند کرتے تھے، اس شخص کے لیے جو اس پر حدث کرے، اور نافع کا بیان ہے، کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ قبر پر بیٹھا کرتے تھے۔‘‘
اسی طرح موطا امام مالک میں ہے۔
کان علی یتوسد القبر ویضطجع علیھا
’’یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ قبروں پر ٹیک لگایا کرتے تھے، اور لیٹتے بھی تھے۔‘‘
خلاصہ یہ کہ بستی مذکور کے نمازی لوگوں کے پشی نظر نہ تعظیم میت اور نہ تحقیر میت ہے، لہٰذا اس مسجد میں نماز جائز ہو گی۔ واللہ أعلم بالصواب وعلمه أتم
(المجیب ابو نعیم محمد عبد الحکیم المدرس والناظم مدرسہ عربیہ مظہر العلوم پٹنہ)
ھو الموفق:… صورت مسئولہ میں نفس سوال کا جواب جو فاظل مجیب نے تحریر فرمایا ہے صحیح ہے، یعنی جامع مسجد مذکور فی السوال میں نماز پڑھنی ازروئے شرع جائز او ر اور درست ہے، لیکن قبر سے متعلق دو دیگر باتیں جن کے متعلق فاضل مجیب نے اپنے خیال کا اظہار فرمایا ہے، ان کے جواز کے متعلق مجھے کلام ہے۔
بلاشبہ تمام علماء کا تفاق ہے کہ پیشاب اور پائخانہ کے لیے قبر پر بیٹھنا حرام اور ممنوع ہے اور اگر یہ نہ ہو تو قبر پر بیٹھنا، ٹیک لگانا وغیرہ مختلف فیہ ہے، حنابلہ اور ظاہریہ اس کو بھی ناجائز اور ممنوع کہتے ہیں اور یہی مذہب حق اور راجح ہے، اس لیے کہ صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ اور ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ وغیرہ سے جو احادیث مروی ہیں، ان سے بلا قید و شرط قبر پر بیٹھنا وغیرہ ناجائز او رممنوع ثابت ہوتا ہے۔
عن أبی ھریرة قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: «لان یقعد أحدکم علی جمرة فتحرق ثیابه فتخلص إلى جلدہ خیر له من أن یجلس علی قبر (رواہ مسلم ص ۳۱۲، جد ۱)
’’یعنی نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو پختہ بنانے اور اس پر بیٹھنے اور مکان بنانے سے منع فرمایا ہے۔‘‘
عن أبی ھریرة قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: لأن یقعد أحدکم علی جمرة فتحرق ثیابه فتخلص الى جلدہ خیر له من أن یجلس علی قبر (رواہ مسلم ص ۳۱۲، جلد ۱)
’’یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا آگ کے انگارہ پر بیٹھنا کہ اس جگہ کا کپڑا جلا کر چمڑہ بھی جلا دے بہتر ہے، قبر پر بیٹھنے سے۔‘‘
عن أبی مرثد الغنوی قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: «لا تجلسوا علی القبور ولا تصلوا إلیھا» (رواہ مسلم ص ۳۱۲، جلد ۱)
’’یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قبروں پر نہ بیٹھو اور نہ ان کو سامنے کر کے نماز پڑھو‘‘
اسی طرح مسند احمد میں عمر بن حزم انصاری کی حدیث میں بھی قبر پر بیٹھنے کی ممانعت صراحتہً موجود ہے، اور عمارہ بن حزم کی حدیث:
رأنی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم وانا متك علی قبر فقال: «لا تؤلوا صاحب القبر»
سے بھی قبر پر ٹیک لگانا، بیٹھنا، روندنا ممنوع ثابت ہوتا ہے۔
قال الحافظ اسنادہ صحیح وھود ال علیٰ أن المراد بالجلوس القعودة علی حقیقة
’’ یعنی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس حدیث ابو ہریرہ کی اسناد صحیح ہیں اور حدیث میں لفظ جلوس سے حقیقی معنی میں بیٹھنا مراد ہے۔‘‘
علی هذا القیاس مسند ابو یعلیٰ میں ابو سعید کی حدیث سے جو رجال ثقات سے مروی ہے بہ فھی ان یبنی علی القبور او یقعد علیھا او یصلی علیھا اور طبرانی کبیر میں واثلہ کی حدیث جس کی سند متکلم فیہ ہے قال نھانا ان نصلی علی القبور او نجلس علیھا سے قبروں پر مکان بنانا، بیٹھنا، نماز پڑھنا وغیرہ ممنوع ثابت ہوتا ہے، اسی طرح عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے آثار سے بھی قبروں پر اٹھنا، بیٹھنا، چلنا پھرنا، گھر بنانا ناجائز پڑھنا ناجائز اور منہی عنہ ثابت ہے۔
قال النووی فی ھذا الحدیث تحریم القعود والمراد بالقعود الجلوس علیه ھذا مذھب الشافعی رحمة اللّٰہ علیه و جمھور العلماء وقال مالك فی المؤطا والمراد بالقعود الحدث وھذا تاویل ضعیف او بالطل والصواب أن المراد بالقعود والجلوس کما فی الروایة الأخری (مسلم ص ۳۱۲، جلد ۱)
’’امام نووی فرماتے ہیں کہ اس جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں قبروں پر بیٹھنے کی حرمت موجود ہے۔ یہی مذہب امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور تقریباً سارے علماء کا ہے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا موطا میں قعود سے حدث (پائخانہ پیشاب کرنا) مراد لینا ایک باطل اور لغو تاویل ہے، صحیح وہی ہے جو بیٹھنے سے عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ جیسا کہ دوسری حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے۔‘‘
ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
لفظ الخبر مانع من ذلك قطعاً لقوله علیہ السلام لأن یجلس أحدکم علی جمرة فتحرق ثیابه فتخلص إلی جلده خیر له من اأن یجلس علی قبر وابالضرورة یدري کل ذی حس سلیم أن القعود للغائط لا یکون ھکذا البتة وما مھدنا ناقط أحداً یقعد علی ثیابه للغائط إلا من صحة لا ماغه
’’یعنی یہ بالکل واضح ہے جسے ہر سمجھ دار جانتا ہے کہ احادیث عامہ میں جس ممنوع جلوس (بیٹھنا) کا ذکر ہے وہ جلوس متعارف ہے ، جس پر فتحرق ثیابہ فختلص الی جلد شاہد عدل ہے، بخلاف اس جلوس کے کو بوقت قضاء حاجت ہوتا ہے کیوں کہ اس وقت کپڑا مقعد سے ہٹایا اور ہٹا لیا جاتا ہے۔‘‘
اور لکھتے ہیں:
ان الروایة ھذا الخبر لم یتعدوا به وجھه من الجلوس المعھود وما علمنا فی اللغة جلس فلان بمعنی تغوط انتھیٰ (محلی ص ۱۳۶، جلد ۵)
’’رواۃ حدیث میں سے کسی نے بھی جلوس مذکور فی الحدیث سے جلوس متعارف کے علاوہ کوئی دوسرا معنی نہیں بتایا ہے اور نہ ہی کسی لغت میں ہے کہ جب کہا جائے کہ فلاں شخص بیٹھا تو سننے والا سمجھے کہ پائخانہ کیا۔‘‘
حنفیہ کے نزدیک قبر پر بیٹھنا وغیرہ مکروہ تنزیہی ہے، اور مالکیہ کے نزدیک اگر قبر مسلم ہو اور راستہ قبر سے الگ ہو اور یہ بھی گمان ہو کہ شاید میت کا کچھ حصہ قبر میں موجود ہو تو ایسی صورت میں قبر پر بیٹھنا مکروہ تنزیہی ہے اور اگر ان مین سے کوئی قید منتضی ہو جائے تو قبر پر بیٹھنا بلا کراہت جائز ہے، اور بعض مالکیہ قبر پر بیٹھنے کو بلا کراہت جائز کہتے ہیں بعض شافعہ بھی مکروہ تنزیہی کے قائل ہیں، لیکن اکثر شافعیہ، حنابلہ اور ظاہریہ کی طرح مکروہ تحریمی کی قائل ہیں۔
مکروہ تنزیہی کہنے والے اولا تو مذکورہ احادیث ہی کی تاویل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جلوس سے مراد صرف پائخانہ پیشاب کے لیے بیٹھنا مراد ہے وبس حالانکہ ان کی یہ تاویل قطعاً اور لغو اور بعید از عقل و عرف بھی ہے، جیسا کہ ابھی ابھی اوپر عرض کیا جا چکا ہے اور ثانیہ مندرجہ ذیل حدیث و آثار سے استدلال کرتے ہیں۔
(۱) عن زید بن ثابت أن النبی صلی اللہ علیه وسلم فھي عن الجلوس علی القبور لحدث غالط أو بول (رواہ الطحاوی برجال ثقات)
’’یعنی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قضائے حاجت کی غرض سے قبروں پر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘
(۲) اثر عبدا للہ بن عمر رضی اللہ عنہ (۳) اثر علی رضی اللہ عنہ (۴) اثر خارجہ بن زید تابعی رضی اللہ عنہ (۵) اثر یزید بن ثابت رضی اللہ عنہ جنہیں فاضل مجیب نے بخاری اور موطاء سے نقل کیا ہے۔
اس استدلال کا مختصر جواب یہ ہے کہ زیت بن ثابت کی حدیث ہمارے مدعا کے خلاف نہیں ہے، کیوں کہ مطلقاً جلوس علی القبر جبکہ ممنوع اور منہی عنہ ہے تو یہ صورت بدرجہا اولیٰ حرام اور ناجائز ہو گی، اس لیے کہ جلوس کے تمام اقسام سے یہ قسم قبیح ہے۔
رہے آثار جنہیں فاضل مجیب نے تحریر فرمایا ہے تو شاید اس وجہ سے ہیں کہ ان صحابہ رضی اللہ عنہ کو احادیث نہی مذکورہ نہیں پہنچی تھیں اور انہوں نے اپنے فہم سے کام لیا ہے، پس احادیث مرفوعہ صحیحہ کے ہوتے ہوئے ان آثار سے استدلال کرنا اصول حدیث کے قطعاً خلاف اور باطل ہے۔ علاوہ ازیں حضرت ابن عمر کا یہ اثر ان کے اس اثر کے خلاف ہے جو ابن شبیہ میں باسناد مروی ہے۔
قال ابن عمر لا اعلی ارضف أحب إلٰی مِن اَنْ اَطِأ علی قبر
اس پر تو سخت تعجب تھا ہی کہ فاضل مجیب اہل حدیث مولانا و بالفضل اولانا ہیں، اس کے باوجود احادیث صحیحہ مرفوعہ کے ہوتے ہوئے آثار صحابہ سے استدلال کرتے ہیں، جو محدثین یا اہل حدیثوں رحمہم اللہ کے نزدیک قطعاً جائز نہیں، لیکن ہمارے تعجب کی انتہا نہ رہی جب کہ ہماری نظر مجیب موصوف کی اس عبارت پر پڑی، آپ فرماتے ہیں کہ ترمذی کی شرع تحفۃ الاحوذی کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد حرام بیت اللہ کے ارد گر ستر یا پچاس انبیاء علیہم السلام کی قبور پائی جاتی ہیں، اور سیدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قبر مسجد حرام کے حطیم میں واقع ہے پھر بھی نماز پڑھی جاتی ہے، اور آپ نے اپنے اس دعویٰ کے ثبوت میں تحفہ سے وہ عبارت نقل کی ہے جو لمعات کی ہے جسے صاحب تحفہ بغرض تردید ان کتابوں سے نقل کیا ہے۔ اور زاں بعد شیخ مبارکپوری مرحوم نے الدین الخالص کی عبارت نقل فرما کر اس کی تردید کی ہے، چنانچہ فرماتے ہيں۔
قلت ذکر صاحب الدین الخالص عبارة اللمعات ھذہ کلھا ثم قال ردا علیھا ما لفظه ما ابرد ھذا التحریر ولاستدلال علیه بذلك التقریر لان کون قبر إسماعیل علیه السلام وغیرہ من الانبیاء سواء کانوا سبعین أو أقل أو أکثر من فعل ھذہ الأمة المحمدیة ولا ھود ھم دفنوا لھذا الغرض ھناك ولا نبه علی ذلك رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا علامات بقبور ھم منذ عھمد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ولا تحری نبینا علیہ الصلوٰة والسلام قبرا من تلك القبور علی قصد المجاورة بھذہ إلا رواح المبارکة ولا أمر به أحد أو لا تلبس بذلك أحد من ھذہ الا متوائمة بل الذی ارشدنا إلیه وحثنا علیہ أن لا نتخذ قبور الأنبیاء مساجد کما اتخذت الیھود والنصاریٰ وقد لعنھم علی ھذا لا تخاذ فالحدیث برھان قاطع لمواد النزاع وحجة نیرة علی کون ھذہ الأفعال حالبة اللحن واللعن امارة الکبیرة المحرمة اشد التحریر انتھیٰ (تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی ۲۶۶، ج۱ ومن ارادہ البسط التفصیل فعلیہ النظر فی الدین الخالص ص۳۰۹ جلد ۲)
ذرا نصاف کیجئے! صاحب تحفہ تو صاف طور پر لکھ رہے ہیں کہ یہ عبارت جس کو میں ذکر کر رہا ہوں ’’لمعات‘‘ کی ہے، ’’حسبی الدین الخالص‘‘ کے مصنف نے نقل فرما کر سخت تردید کی ہے۔
اسی طرح فاضل مجیب آگے چل کر تحریرفرماتے ہیں، کہ ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ کے ص۲۶۵ میں حسب ذیل عبارت ہے، وأما من اتخذ مسجداً فی جوار صالح أو صلی فی مقبرة (الی) عبارت مذکور سے صاف ظاہر ہے، کہ توجہ الی المیت اور تعظیم پیش نظر نہ ہو تو نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘
بے شک تحفۃ الاحوذی کے صفحہ مذکورہ میں یہ عبارت ہے۔ لیکن صاحب الاحوذی کی نہیں ہے، بلکہ مجمع البحار کی عبارت ہے جسے صاحب تحفۃ الاحوذی مجمع البحار سے نقل کر کے تردید کرنا چاہتے ہیں، صاحب تحفہ موٹے خط میں لفظ ’’تنبیہ‘‘ لکھ کر قال فی مجمع البحار لکھتے ہیں پھر عبارت مذکورہ نقل کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں مجمع البحار کی عبارت سے فاضل مجیب کا استدلال بھی لغو اور غیر صحیح ہے اس لیے کہ مجمع البحار کی عبارت کوئی دلیل شرعی نہیں ہے اور نہ کسی دلیل شرعی سے ماخوذ ہے کیوں کہ کسی صحیح حدیث سے حطیم میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قبر کا ہونا یا بیت اللہ شریف کے ارد گرد انبیاء علیہم السلام کی قبروں کا ہونا ہو گز ثابت نہیں ہوتا، البتہ مسند الفردوس دیلمی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جو سخت ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے، پس تاوقتیکہ کسی حدیث صحیح سے یہ ثابت نہ ہو جائے، اس سے استدلال کی بنیاد محض ہوا پر ہو گی۔
حقیقت یہ ہے کہ مجمع البحار کی اس عبارت سے شرک کی بور آ رہی ہے یہی وجہ ہے کہ صاحب تحفۃ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے نقل کر کے الدین الخالص کی عبارت کے ذریعے تردید کی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے۔
فمن اتخذ مسجدا فی جوار صالح رجاء برکته فی العبأرة مجارة و روح ذلك المیّت فقد شمله الحدیث شمولا واضحا کشمس النھار ومن توجہ إلیه واستمد منہ فلا شك اند أشرك بااللّٰہ وخالف امر رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم فی ھذا الحدیث وما ورد فی سفأہ ولم یشرع الزیادة فی ملة الإسلام الا للعبرة والزھد فی الدنیا والدعاء بالمغفرة الموتی وأما ھذہ الا غراض التی ذکرھا بعض من یغری إلی الفقه والرایٔ والقیاس فاھا لیست علیھا اثارة من علم ولم یقل بھا فیما علمت أحد من السلف بل السلف أکثر الناس انکاراً عن مثل ھذہ البدع الشرکیة۔ انتہیٰ
(تحفۃ الاحوذی صفحۃ ۲۶۶ جلد ۱)
ومن شاء البسم برا التفصیل فلیرجع إلی الدین الخالص من (ص۳۰۰ ج۱ الی ۳۱۰ ج۱)
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ محدث دہلوی حجۃ اللہ البالغہ ۱۹۲ ج۱ میں تحریر فرماتے ہیں:
والحق عندی أن القبر ومحل عبادة ولی من اولیاء اللہ والطور کل ذلك ساء فی النھی واللہ اعلم
صاحب سبل السلام ارقام فرماتے ہیں،
قال البیضاوی وأمّا من اتخذ مسجداً فی جوار صالح وقصد التبرك بالقرب منہ لی لتعظیم له ولا التوجه نحوہ فلا یدخل فی ذلك الوعید قلت لا لتعظیم له یقال اتخاذ المساجد بقریة وتصد التبرك به تعظیم له ثم أحادیث النھی مطلقتہ ولا دلیل علی التعلیل بما ذکر والظاہر ان العلة سسا لذدیعة والبعد عن التشبة بعبدة الاوثان الذین یعظمون الجسادات التی لا تسمع ولا تضرو لھا فی انفاق المال فی ذلك من الحدیث التبذیر الخالی عن النفع بالکلیة (انتھیٰ سبل السلام ص۲۳۵ ج۱)
شیخ الاسلام علامہ عبد الرحمن بن حسن النجدی فتح المجید میں اس عقیدہ باطلہ کی تردید ان لفظوں میں کرتے ہیں،
أمّا إذا قصد الرجل وان الصلوة عند القبور متبرکا بالصلوٰة فی تلك البقعة فھذا عین المحادة للّٰہ ورسوله والمخالفته لدینه وابتداع دین لم یأذن بہ اللہ وان الصلٰوة عند القبور منھی عنہ وانه صلی اللہ علیہ وسلم لعن اتخاذھا مسجدا (انتھیٰ فتح المجید ص۱۸۷ ج۱)
ان عبارات کا ماحصل یہ کہ کسی صالح کی قبر کے پاس بقصد تبرک و استفاضہ مسجد بنانی اس صالح کی تعظیم و تکریم کو مستلزم ہے اور یہ بت پرستی سے بالکل مشابہ ہے، اس لیے کہ مذکورہ بالا احادیث نہی کے عموم میں داخل ہے لہٰذا یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائی لینی ہے، جو ہر شخص کے لیے قطعاً حرام ہے۔ أعاذنا اللّٰہ منه
پس معلوم ہوا کہ فاضل مجیب نے قبر سے متعلق جن خیالات واہبہ کا اظہار فرمایا ہے وہ احادیث مرفوعہ صحیحہ کے سراسرا خلاف ہے، نیز اہل حدیث اوراہل الرائے کے عقائد میں فرق ہے۔ اہل حدیث کے نزدیک قبر سے استفاضہ یا حصول برکت و مدد کا خیال اور قبر کے پاس مراقبہ قطعاً درست نہیں ہے، اور اہل الرائے کے یہاں یہ سب کچھ درست ہے۔ ملاحظہ ہو حجۃ البالغہ صفحہ ۱۴۷ تا ۱۴۸ جلد ۱ اور فتح المجید صفحہ ۱۸۸ جلد۱، ھذا ما عندی والله أعلم بالصواب
(از احقر محمد مسلم غفرلہ رحمانی ایف، ایم اخبار دہلی) (مدرس مدرسہ انجمن اصلاح المسلمین سمیل تلا ڈاکخانہ بھاؤ مالدہ، جلد ۴ نمبر ۲۳)
مسئلہ:… ایک مسجد کی چیز جب کہ اس مسجد میں ضرورت نہ ہو تو دوسری مسجد میں استعمال کر سکتے ہیں، اس کو حافظ ابن تیمیہ نے اپنے فتاویٰ میں ثابت کیا ہے، دوسرے جب اس فالتو چیز کا کام میں نہیں لایا جائے گا تو وہ چیز ضائع ہو جائے گی اور حدیث شریف بخاری میں آیا ہے ۔
نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن إضاعة المال الحدیث
’’یعنی منع فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کے ضائع کرنے سے ۔‘‘
جہاں تک ہو سکے اپنی ضروریات میں نہ لے، کسی دوسری مسجد میں دے دی جائے، یا اس کا معاوضہ واجبی دے کر کام میں لے لے، اور اس کی قیمت اس مسجد میں اور کسی ضروریات تعمیر وغیرہ میں صرف کر دے، وقف مال کو بلاوجہ اپنے استعمال میں لینا درست نہیں، اس میں بہت سے لوگ بے احتیاطی کرتے ہیں، اور مسجد کی وقف شدہ چیز کو اپنے استعمال میں لاتے ہیں وہ ظالم ہیں، هذا ما عندی من الجواب واللّٰہ أعلم بالصواب۔ (الاعتصام جلد نمبر۲، ش نمبر۸)