السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ابو الولید باجی مکی نے کہا، اولا جس نے اس دواء اعظم (یعنی دین اسلام) کو بگاڑا وہ خوارج ہیں، آخر میں کہا: پھر ابو حامد آیا تو پانی بستیوں پر چڑھ آیا، تو یہ ابو حامد کی مذمت ہے۔ چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بعض جگہ اس کا ذکر بطور طعن کے کیا ہے یا عدم مذمت ہے؟ اور ابو حامد کی تصانیف میں کس طرح کی غلطیاں دیکھ کر اس طرح کہا، واضح فرما دیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امام غزالی کے متعلق ابن تیمیہ اور ابن عربی کی آراء:
ابو حامد، امام حجۃ الاسلام محمد بن محمد بن غزالی طوسی کی کنیت ہے جن کی وفات 505 ہجری میں ہوئی ہے، یہ اپنے زمانہ کے فلاسفہ اور متکلمین کے سردار اور رئیس ہوئے ہیں، ان کی تصنیفات خصوصا جو پہلے پہل لکھی ہوئی ہیں فلاسفہ اور اہل کلام کے دلائل سے بھرپور ہیں، اور ان میں انہیں کی راہ پر چلے ہیں۔ اسی سبب سے علمائے سنت اور اہل حدیث عقل کو نقل پر مقدم کرنے والوں اور ان کے ایسے کلام پر جو ظاہری سمعی دلائل اور شرعی حجتوؐ کے مخالف واقع ہو، طعن اور قدح کرتے تھے جیسا کہ خفاجی نے نسیم الریاض شرح شفائے قاضی عیاض غزالی کے ترجمہ میں نقل کیا کہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ: غزالی کا حدیث میں سرمایہ ناقص ہے اس لئے وہ اپنی کتابوں میں اکثر موضوعات لے آئے اور اس قسم کی باتیں اپنی تصانیف میں بہت کیں حتیٰ کہ ان کے شاگرد ابوبکر بن عربی نے ان کی کمال تعظیم کے باوجود کہا کہ: ہمارے استاد ابو حامد رحمہ اللہ فلاسفہ کے اندر داخل ہوئے پھر نکلنا چاہا لیکن نکل نہ سکے۔
میں کہتا ہوں:
ان کی کتاب تہافت الفلاسفہ اور احیاء علوم الدین اس کے برخلاف پکارتی ہیں، انتہیٰ۔ لیکن ابو الفرج ابن الجوزی نے خفاجی کا تعاقب کیا اور کہا میں نے ان کی کتاب کی اغلاط جمع کیں اور اس کا نام "اعلام الاحیاء باغلاط الاحیاء" رکھا اور ان کی بعض اغلاط کی جانب کتاب "تلبیس ابلیس" میں اشارہ کیا، انتہیٰ۔ اور ابو المظفر سبط ابن جوزی نے کہا: احیاء کی بنا صوفیاء کے مذہب پر رکھی اور فقہ کا قانون ترک کیا، تو علماء نے اس کی ان احادیث پر جو صحیح نہیں انکار کیا، لیکن بعض متاخرین نے بحکم " خذ ما صفا ودع ما كدر ([1])" ان کی تصانیف، خصوصا احیاء کی تنقیح کی ہے اور اس کے موضوع کو صحیح، حسن اور ضعیف سے علیحدہ کیا اعرابی نے احیاء کی دو طرح کی تخریج کی ایک کبیر اور دوسری صغیر لکھی ہیں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے عراقی کی تخریج سے جو چھوٹ گیا اس کا تدارک کیا اور اس پر ایک تخریج مسمی " تحفة الاحياء " تصنیف شیخ زید الدین قاسم بن قطلوبغا حنفی مصری کی ہے جن کی وفات 879ھ میں ہوئیں۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ جو فرمایا کہ غزالی کی کلام میں، ابن سینا کے شفا وغیرہ میں رسائل اخوان الصفا اور ابو حیان توحیدی کے کلام کے سبب مادہ فلسفیہ ہے لیکن مادہ معتزلیہ اس کے کلام میں قلیل ہے یا معدوم ہے اور احیاء میں اس کی کلام اکثر درست ہے، لیکن اس میں چار مادے فاسد ہیں۔ ایک: مادہ فلسفی۔ دوسرا: مادہ کلامی۔ تیسرا: مادہ صوفیاء کا ترھات (و شطحیات) چوتھا مادہ: احادیث موضوعہ ([2]) انتہیٰ۔ سو شک نہیں کہ یہ مادے اس میں موجود ہیں لیکن جس طرح علماء نے تخاریج لکھ کر اس کی احادیث کی اصلاح کی ہے اس طرح ایک جماعت نے اختصار احیاء کی طرف توجہ کر کے اس سے فاسد مادے نکال دئیے ہیں۔
اور بعض لوگوں نے ان کے حق میں عمدہ خوابیں دیکھی ہیں اور اھل طبقات جو لوگوں کے احوال ضبط کرتے ہیں انہوں نے غزالی رحمہ اللہ کی رفعت میں بڑی طویل کلام کی ہے۔ اسنوی نے مہمات میں کہا: وہ وجود کا قطب ہے اور ایسی برکت ہے جو ہر موجود کو شامل ہے اور خلاصہ اہل ایمان کی روح ہے اور اللہ مہربان کی خوشنودی کی طرف پہنچنے کا راستہ ہے، اس زمانہ میں علماء زمان سے یکتا تھے اس لئے ان کے ساتھ کسی دوسرے انسان کا ترجمہ ذکر نہیں کیا جاتا، انتہی۔ ان کا لقب حجۃ الاسلام ہے اور کتاب "اتحاف السعادۃ المتقین بشرح اسرار احیاء علوم الدین" میں تاریخ سمعانی سے نقل کر کے کہا کہ: انجام کار طلب حدیث مجالست اہل حدیث اور حدیث کے پڑھنے و لکھنے کی جانب ان کی بہت توجہ تھی۔ اور ابو الفتیان عمرو بن ابی الحسن روایہ کو طوس میں بلایا اور ان دنوں کو غنیمت سمجھ کر ان سے صحیحین کا سماع کیا، انتہی۔
اور علی قاری نے شرح فقہ اکبر میں کہا: مات والبخاري علي صدره ([3]) یعنی امام غزالی کی وفات کے وقت بخاری ان کے سینے پر تھی، انتہی۔
یہ سب احوال بآواز بلند ان کے حسن خاتمہ کی منادی کر رہے ہیں وانما العبرة بالخواتيم یعنی اعتبار خاتمہ کا ہے۔ اور ان کے بارے میں طعن کرنے والے جن کا منصب خالص شریعت اور سنت مطہرہ کی حفاظت اور اصلین (کتاب و سنت) کی ہر مخالف تاویل وہ جہاں ہو جیسے ہو، کو باطل کرنا ہے اس طعن میں معذور ہیں، کما قیل۔
مذہب عشق ازمہ ملت جداست
عاشقان را مذہب و ملت خداست ([4])
ولكل وجهة هو موليها. والله اعلم
[1] یعنی اچھا اچھا لے لو، برا چھوڑ دو۔ (خلیق)
[2] علامہ عبدالحئی لکھنوی کہتے ہیں کہ
الا ترى الى نقل صاحب احياء علوم الدين مع جلاله قدرة او رد فى كتابه احاديث لا اصل لها فلم يعتبر بها كما يظهر من مطالعة تخريج احاديث للحافظ عراقى وهذا صاحب الهدايه مع كونه من اجلة الحنيفة اود فيها اخياء غير به و ضعيفة فلم يعتمد عليها كما يظهر من مطالعة تسخير احاديثها للزعلهى و ابن حجر ور الاخوار 58 فى مجموعة ارسائل الحسن
کیا تم احیاء العلوم الدین کے مصنف (امام غزالی) کو نہیں دیکھئے یہ جلیل القدر ہونے کے باوجود اپنی کتاب میں ایسی روایات لانے میں جن کی کوئی اصل نہیں پس ان پر اعتماد نہیں کیا جائے گا جیسے کہ حافظ عراقی کی تخریج احادیث کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے۔
علامہ تاج الدین سبکی نے احیاء العلوم کی ان احادیث کو ایک جگہ جمع کر دیا ہے جو بے اصل ہیں اور ان کی تعداد تقریبا 943 طبقات الشافیہ 145-181 ج 4، علامہ طرطوشی فرماتے ہیں کہ سطح زمین پر جس قدر کتب ہیں ان میں سب سے زیادہ موضوع روایات احیاء العلوم میں پائی جاتی ہیں۔ سیر اعلام البنلاء د امام ذہبی 19/334،339،342،495۔
1۔ امام ابن جوزی احیاء العلوم پر کچھ یوں تبصرہ فرماتے ہیں کہ بعض صوفی بوجہ کم علمی کے جو موضوع احادیث ان کو ملتی ہیں انہیں پر عمل کرتے ہیں اور کچھ خیال نہیں رکھتے۔
2۔ حدود تصوف میں اشیاء قبیح کا ذکر کیا اور اس بات سے ذرا شرم نہ آئی۔ 229-228
3۔ محمد بن طاہر مقدسی نے صفوۃ التصوف لکھی اس میں ایسی چیزیں بیان کی جن کے ذکر کرنے سے اہل عقل کو حیاء آتی ہے۔ 230
ابو حامد غزالی نے اگر قوم صوفیہ کے طریقہ پر کتاب احیاء العلوم تصنیف کی اور اس کو باطل احادیث سے بھر دیا جن کا بطلان وہ خود نہیں جانتے اور علم مکاشفہ میں گفتگو کی اور قانون فقہ سے باہر ہو گئے اس میں لکھا ہے کہ وہ ستارہ، سورج اور چاند جن کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا ان سے مواد انوار ہیں۔
جو اللہ تعالیٰ عزوجل کے حجاب میں یہ مشہور چاند، سورج، ستارے مراد نہیں، غزالی کا یہ کلام باطنیہ کے کلام کی قسم سے ہے۔ اور اپنی کتاب المسح بالاحوال میں لکھتے ہیں صوفیہ حالت بیداری میں ملائکہ اور ارواح انبیاء کا مشاہدہ کرنے میں اور ان کی آوازیں سنتے ہیں اور فوائد اخذ کرتے ہیں۔ (تلبیس ابلیس 230 نور محمد کراچی)
(جاوید)
[3] تاج المکلل ص 395، اخری ایام میں علوم فلسفہ و کلام سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی اور علم حدیث کے ہو کر رہ گئے تھے چنانچہ جب فوت ہوئے تو صحیح بخاری ان کے زیر مطالعہ تھی۔ ابن شمیہ بطل الاصلاح الدینی ص 252 محمود مھدی الاستنبولی۔
[4] ترجمہ عشق کا مذہب ہر قوم کے لئے جدا ہے عاشقوں کا مذہب اور قوم خدا ہے۔ (خلیق)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب