سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(08) لڑکے اور نابینا کے پیچھے نماز پڑھنا

  • 23975
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1541

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

علماء دین و مفتیان شرعِ متین فرمائیں کہ نابینا اور لڑکے کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نابینا کی امامت شرعا درست ہے:

(ماہرین) فہم و ذکا پر مخفی نہیں کہ اندھا ہونا قدرتی عیب ہے نہ کہ کوئی ایسا شرعی عیب، جس سے اندھا قابل ملامت ہو کیونکہ شرع میں اس عیب پر ملامت ہوتی ہے جو کسب سے ہو اور یہ عیب کسبی نہیں ہے۔ کما لا یخفی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ لَها ما كَسَبَت وَعَلَيها مَا اكتَسَبَت...﴿٢٨٦﴾... سورة البقرة

"اس کے لئے ہے جو وہ نیکی کرے اور اس پر ہے جو وہ برائی کرے۔"

پس اندھا ہونا کوئی ایسا عیب نہیں ہے جس سے نماز میں کسی قسم کا نقصان ہو کہ اندھا قابل امامت نہ ہو اور نہ فسق ہے کہ اس کے پیچھے نماز ذاتا یا وصفا ناقص ہو۔ تو جب تک کوئی دلیل شرعی اس پر قائم نہ ہو کہ اندھے کے پیچھے نماز مکروہ ہے اس کی امامت کی کراہت کا حکم لگانا صحیح نہیں ہو سکتا۔ جو لوگ اس کی امامت کو مکروہ کہیں ان کو شرعی دلیل لانی چاہیے، ورنہ وہ دوسرے مسلمانوں کی مثل ہو گا اور جیسے بصیر مسلمان کے پیچھے نماز درست ہے اس کے پیچھے بھی درست ہے، مکروہ کہنے والوں کی دلیل، اس کا مذہب اور اس کی کیفیت بھی حسنا و قبحا ان شاءاللہ آئندہ ذکر کروں گا۔ اور اگر ان باتوں سے قطع نظر بھی کریں تو اندھے کی امامت احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور محققین کے اقوال بھی اسی کے موافق ہیں۔ احادیث مندرجہ ذیل ہیں:

1) عن انس رضى الله عنه قال استخلف رسول الله صلى الله عليه وسلم ابن ام مكتوم يؤم الناس وهو اعمى. ۔رواہ ابوداود و کذا فی المشکاة۔([1])

"حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا خلیفہ بنا کر گئے تھے جو کہ لوگوں کی امامت کرواتے تھے اور وہ نابینا تھے۔ (ابوداؤد، مشکاۃ)

2) شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ترجمہ مشکاۃ میں فرماتے ہیں کہ ایسا اتفاق تیرہ 13 مرتبہ ہوا حالانکہ اور جلیل القدر صحابہ بھی موجود ہوا کرتے تھے جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

حضرت علی گفتہ اندکہ: آن سیزدہ بار بودیک باز ازاں وقتیکہ بغزوہ تبوک رفت باآنکہ امیر المومنین علی در مدینہ بود و خلیفہ بود بر اہل و عیال و باعث پر استخلاف ابن ام مکتوم برائے امامت ہمیں بود تا علی اشتغال بامر امامت مانع از قیام بحفظ اہل و عیال نیابد۔ ([2])

"کہ یہ واقعہ تیرہ دفعہ پیش آیا ایک مرتبہ جب وہ غزوہ تبوک پر گئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ مدینہ میں موجود تھے اور خلیفہ بھی تھے اور ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی جانشینی کا یہی سبب تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اہل و عیال کی نگہداشت سے یہ امر مانع نہ ہو (الشعۃ اللمعات)

اور جیسا کہ منتقی الاخبار 1/626 میں ہے:

3) وعن محمود بن الربيع عن عتبان بن مالك رضى الله عنه كان يؤم قومه وهو اعمى ... الحديث (رواہ البخاری والنسائی، نیل الاوطار 4/171)

"محمود بن الربیع سے مروی ہے کہ حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ اپنی قوم کی امامت کرواتے تھے اور وہ نابینا تھے۔"

4) ابو اسحاق مروزی اور امام غزالی نے تو کہا ہے کہ نابینا کے پیچھے نماز پڑھنا افضل ہے کیونکہ کچھ نظر نہ آنے کے باعث اس کا خیال منتشر نہیں ہوتا اور نماز میں خوب دل لگتا ہے، جیسا کہ نیل الاوطار میں مذکور ہے:

(وقد صرح ابو اسحاق المروزى والغزالى بان امامة الأعمى افضل من امامة البصير لانه اكثر خشوعا عن البصير لما فى البصير من شغل القلب بالمبصرات) (نیل 4/171، النہایہ 2/394)

"ابو اسحاق مروزی اور امام غزالی نے وضاحت کی ہے کہ نابینا شخص کی امامت بینا سے افضل ہے کیونکہ وہ بصیر سے زیادہ خشوع والا ہوتا ہے بسبب اس کے کہ بینا کا دل چیزوں کے دیکھنے میں مشغول نہیں ہوتا۔"

فقہ حنفی سے دلیل:

اور فقہ حنفی میں بھی حدیث کے موافق روایات منقول ہیں جیسا کہ اشعۃ اللمعات میں ہے:

و در روایات فقہیہ در مذہب مانیز آمدہ است کہ اگر اعمی مقتدا قومی باشد جائز است امامت وے و بعض گفتہ اندکہ اعلم باشد پس وے اولی است۔ کذا فی شرح الکنز نقلا عن المبسوط، وھم جنیں ست در کتاب اشباہ و نظایر: 2/156، انتھی۔

"ہمارے مذہب کی فقہی روایات سے منقول ہے کہ اگر نابینا امام ہو تو جائز ہے۔ اور بعض کہتے ہیں اگر وہ زیادہ صاحب علم ہو تو امامت میں اولی و مقدم ہے۔ شرح الکنز (حاشیہ 32) بحوالہ المبسوط۔ اس طرح اور کتابوں میں بھی اس کے اشباہ و نظائر پائے جاتے ہیں۔"

البتہ یہ حنفی مذہب میں مکروہ ہے۔ جیسا کہ ہدایہ میں ہے: (1/124)

والأعمى لأنه لا يتوقى النجاسة

"(اس لئے کہ) اندھا نجاست سے نہیں بچتا۔"

اصحابِ بصیرت ذرا غور کریں کہ کیسی دلیل ہے۔ اول تو یہ قاعدہ کلیہ کہ "نجاست سے نہیں بچتا' مشاہدہ سے غلط ثابت ہوتا ہے کوئی شخص اسے ثابت نہیں کر سکتا۔ اگر مان بھی لیا جائے تو علت، نجاست سے بچنا ہے۔ اندھا بذاتہ علت نہیں۔ سو مطلقا یہ حکم لگانا کہ اندھے کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔ کیونکر صحیح ہو گا۔ جس سے یہ عقیدہ فاسد عوام میں راسخ ہو گیا کہ اندھا ہونا خود ایسا عیب ہے جس سے نماز مکروہ ہوتی ہے بلکہ یہ حکم لگانا چاہیے کہ: جو نجاست سے نہ بچے خواہ اندھا ہو خواہ نابینا ہو اس کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے۔ ([3])

بھلا اے مسلمانو! آپ کا ایمان چاہتا ہے کہ جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام بنایا ہو اس کی امامت کو ایسے ویسے خیالات موہومہ سے مکروہ جان لو اور حدیث کا مقابلہ خیالات وہمیہ سے کرو؟

لڑکے کی امامت:

لڑکا جب ہوشیار قرآن پڑھا ہوا ہو تو اس کی امامت صحیح حدیث سے ثابت ہے:

(عن عمرو بن سلمة عن ابيه فى الحديث الطويل: فقدمونى وأنا غلام فكنت أؤمهم وعلى شملة لى - قال - فما شهدت مجمعا من جرم إلا كنت إمامهم ... الحديث) (رواہ ابوداؤد 1/395)

"ایک طویل حدیث میں حضرت عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ لوگوں نے مجھے امامت کے لئے آگے بڑھا دیا جبکہ میں ایک لڑکا تھا اور میں تہہ بند پہنے ہوئے تھا پھر میں جب کبھی جرم قبیلہ کے مجمع میں ہوتا تو میں ہی ان کا امام ہوتا۔ (ابوداؤد)

اور (لڑکے کی امامت کی) مخالفت میں کوئی شرعی دلیل موجود نہیں، من ادعى فعليه البيان / وقد نمقہ المھین محمد یٰسین الرحیم آبادی نم العظیم آبادی عفی عنہ

اسمائے گرامی مؤیدین علماء کرام:

٭ جواب ھذا صحیح ہے، قدرتی نابینا ہونے کو عیب جاننا، خود علم سے نابینا ہونا ہے۔ حسبنا اللہ بس حفیظ۔

٭ محمد یوسف 1303ھ فیروز پوری

٭ محمد طاہر 1304ھ سلہٹی

٭ سید محمد عبدالسلام غفرلہ 1299ھ

٭ محمد عبدالحمید 1292ھ

٭ ابو محمد عبدالحق لودیانوی 1305ھ

٭ دونوں سوالوں کا جواب نہایت درست ہے اور اس کی مخالفت معیوب اور ناقابل اعتبار ہے۔ خصوصا نابالغ لڑکے کو فرض، نفل، جیسے تراویح، میں امام بنانا صحیح و درست ہے، کیونکہ احادیث صحیحہ میں وارد ہے کہ حضرت عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ صحابی صغیر السن چھ، سات برس کے تھے، قرآن کریم خوب جانتے تھے اور امامت کرواتے تھے۔ كذا في البخاري وغيره من كتب الحديث، فقط والله اعلم

٭ حرره العاجز ابو محمد عبدالوهاب الفنجابي الجهنكوي ثم الملتاني نزيل الدهلي۔ خادم شریعت رسول الاداب ابو عبدالوھاب 1300

٭ اصاب من اجاب۔ محمد حسن خانصاب خورجوی


[1] نیل الاوطار 4/171، معجم کبیر طبرانی 11/183، مسند احمد 1/192، ابوداؤد 595 حدیث، ابن حبان 3/441، تلخیص الحبیر 2-34، مشکوٰۃ البانی 1/350)

[2] اشعۃ اللمعات للشیخ عبدالحق دہلوی 2/426

[3] نابینا کی امامت کے متعلق علماء دیوبند کا موقف، کراہت و عدم کراہت دونوں طرح سے "فتاویٰ دارالعلوم" میں منقول ہے۔ ذیل میں ملاحظہ ہو:

سوال: نابینا کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں؟

جواب: اگر نجاست سے محفوظ رہتا ہے اور مسائل نماز سے واقف ہے تو اس کی امامت درست ہے۔ (فتاویٰ دارالعلوم 3/101)

مزید۔ اندھے وغیرہ کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے یعنی خلاف اولیٰ ہے اور بہتر نہیں ہے، لیکن اگر اندھا مسائل نماز سے واقف اور محتاط ہے تو پھر کچھ کراہت نہیں ہے، چنانچہ ایک صحابی ام مکتوم رضی اللہ عنہ جو نابینا تھے ان کو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امام مقرر فرمایا تھا۔ فقط (فتاویٰ دارالعلوم 3/169)

اور تحریر کیا ہے کہ:

امامت کے لئے افضل وہ شخص ہے جو مسائل نماز جانتا ہو اور صالح و متقی ہو اندھا ہونے سے کچھ حرج نہیں جب کہ وہ نیک اور محتاط ہو اور مسائل سے واقف ہو پس اگر وہ امام اندھا مسائل دان ہے اور نیک ہے تو جمعہ کی امامت کے لئے بھی وہی افضل ہے۔ (فتاویٰ دارالعلوم 3/97) (جاوید)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نواب محمد صدیق حسن

صفحہ:153

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ