السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سنتِ فجر کے بعد کروٹ پر لیٹنے کے بارے میں علماء دین و مفتیان شرع متین کیا فرماتے ہیں کہ ایسا کرنا فرض ہے یا واجب یا سنت یا مستحب؟ بينوا بالدليل توجروا لكم الثواب
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سنتِ فجر کے بعد داہنی کروٹ پر لیٹنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور ترک بھی ثابت ہے، سو یہ فعل مستحب ہوا۔ کیونکہ مستحب اس فعل کو کہتے ہیں جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کیا ہوا اور کبھی چھوڑ دیا ہو۔
(عن عائشة رضى الله عنها قالت كان النبى صلى الله عليه وسلم اذا صلى ركعتى الفجر اضطجح على شقه الايمن.) (رواہ البخاری([1])
"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی دو رکعت (سنت) پڑھتے تو داہنی کروٹ پر لیٹ جاتے۔"
(وعن عائشة رضى الله عنها ان النبى صلى الله عليه وسلم كان اذا صلى فان كنت مستيقظة حدثنى والا اضطجح حتى يؤذن للصلاة) (رواہ البخاری([2]))
"حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے اور میں بیدار ہوتی تو مجھ سے گفتگو کرتے، وگرنہ لیٹ جاتے تا آنکہ نماز کے لئے اذان دی جاتی۔"
معلوم ہوا کہ اس فعل کو فرض یا واجب کہنا صحیح نہیں ہے اور بدعت کہنا بھی درست نہیں ہے، بلکہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ترک بھی ثابت ہے تو واجب یا فرض کیونکر ہو سکتا ہے واجب و فرض کا ترک تو ناجائز ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عدم وجوب پر ایک باب قائم کیا ہے کہ:
(باب "من تحدث بعد الركعتين فلم يضطجع" ... أشار بهذه الترجمة الى انه صلى الله عليه وسلم لم يكن يداوم عليها. وبذلك احتج الأئمة على عدم الوجوب، وحملوا الأمر الوارد بذلك في حديث أبي هريرة عند ابى داود وغيره على الاستحباب) (فتح الباری 3/43، ابوداود 1/179)
"جو کوئی فجر کی دو سنتوں کے بعد گفتگو کرے اور نہ لیٹے" اس ترجمہ الباب سے یہ ثابت کیا ہے کہ آپ اس فعل پر دوام اختیار نہیں کرتے تھے، اس سے ائمہ کرام نے عدم وجوب پر دلیل لی ہے اور اس ضمن میں ابوداؤد اور اس کے علاوہ سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے "امر" منقول ہے۔ جسے استحباب پر محمول کیا ہے۔ (فتح الباری)
سو ابوداؤد وغیرہ میں جو بصیغہ امر ارشاد فرمایا ہے اس امر سے استحباب مراد لینا ہی لازم آتا ہے، ورنہ حدیث ماقبل سے تطبیق ممکن نہ ہو گی۔
اور اسی طرح جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فعل ثابت ہے تو بدعت کیونکر ہو سکتا ہے اور جن بزرگانِ دین سے اس فعل کا انکار ورد ثابت ہے اس کی وجہ سے ہے کہ ان کو یہ حدیث نہیں ملی ورنہ کوئی مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کا کیونکر رد کر سکتا ہے چہ جائیکہ بندگانِ دین اس کا رد کریں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا اس فعل کے استحباب سے انکار کے متعلق حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری میں رقمطراز ہیں:
(واما انكار ابن مسعود الاضطباع وقول ابراهيم النخعى هى ضجعة الشيطان، كما أخرجهما ابن ابى شيبة فهو محمول على انه لم يبلغهما الأمر بفعله) (فتح الباری 3/43)
"سو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا لیٹنے سے انکار اور ابراہیم النخعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول کہ یہ شیطان کا لیٹنا ہے جیسا کہ یہ ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے یہ اس پر محمول کیا جائے گا کہ ان دونوں حضرات تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل نہ پہنچا ہو گا۔"
اور بعض کا یہ کہنا کہ یہ فعل تہجد گزار کے ساتھ خاص ہے، بلا دلیل ہے، کیونکہ تخصیص بلا دلیل نہیں ہو سکتی۔ كما لا يخفى. والله اعلم
قد نمقہ العاجز/محمد یٰسین الرحیم آبادی ثم العظیم آبادی و عفی عنہ سیآتہ۔
٭ المجیب مصیب۔ محمد حسین خان خورجوی۔
٭ جواب ھذا صحیح ہے۔ مستحب کو بدعت کہنا نہایت مذموم ہے۔ حسبنا اللہ بس حفیظ اللہ۔
٭ محمد عبدالسلام غفرلہ۔ 1399ھ
٭ عبدالرؤف 1303 بہاری
٭ ابو محمد عبدالحق 1205 لودیانوی
٭ خادم شریعت رسول الاداب ابو محمد عبدالوھاب 1300 الفنجابی الجھنکوی نزیل الدہلی۔
٭ محمد طاہر 1304ھ سلہٹی
[1] (فتح الباری 1/626، مسلم 1/508، مصابیح السنہ 1/422)
[2] فتح الباری کتاب الوتر حدیث 1160، مسلم 1/508، مصابیح السنہ 1/421، شرح السنہ بغوی 4/7
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب