پڑوس اور راستوں کے احکام
فقہائے کرام نے کتب فقہ میں پڑوسیوں اور راستوں کے احکام تفصیل سے بیان کیے ہیں کیونکہ اس موضوع کی بہت اہمیت اور ضرورت ہے۔
عام طور پر پڑوسیوں کے درمیان مسائل اور الجھنیں پیدا ہوجاتی ہیں جن کا حل اور علاج نہایت ضروری ہے تاکہ اختلافات کے نتیجے میں عداوت ونزاع تک نوبت نہ پہنچنے پائے۔اس کے حل کے لیے جو متعدد اصول وضوابط ہیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
1۔عدل و انصاف کو پیش نظر رکھ کر ان میں صلح کرادی جائے۔
2۔اگر کسی کو اپنے پڑوسی کی زمین کے ساتھ ساتھ یا اس کی سطح پر پانی چلانے اور جاری کرنے کی ضرورت ہوتو اس بارے میں کسی معاوضے پر دونوں صلح کرلیں توجائز ہے کیونکہ ضرورت اس کی متقاضی ہے۔اگر یہ معاوضہ کسی فائدے کے مقابلے میں ہے جبکہ صاحب زمین کی ملکیت برقرار رہے تو یہ عقد"اجارہ" کے حکم میں ہے اور اگر صاحب زمین کی ملکیت ختم ہوگئی تو یہ بیع کی صورت ہوگی۔
3۔اگر کسی کو اپنے پڑوسی کی زمین میں سے گزرگاہ کی ضرورت ہوتو وہ پڑوسی سے صلح کرلے یا راستے کی ضرورت کے مطابق جگہ خرید لے ،دونوں طرح جائز ہے کیونکہ ضرورت وحاجت اسی کی متقاضی ہے۔مالک زمین کے لیے لائق نہیں کہ وہ اپنے پڑوسی کو گزرگاہ کے استعمال سے منع کرے یا اس کی مجبوری سےناجائز فائدہ اٹھائے یا اسے اس کے فائدے سے محروم کردے۔
4۔اگردرخت کی کوئی شاخ بڑھ کر پڑوسی کی زمین پر اس کی فضا میں چلی گئی تو درخت کے مالک کو چاہیے کہ اسے کاٹ دے یا اپنی زمین کی طرف موڑ لے تاکہ پڑوسی کی زمین کی جگہ یا فضا خالی اور صاف رہے۔اگر شاخ کا مالک ایسا کرنے سے انکار کردے تو مالک زمین خود ہی اسے ختم کرسکتا ہے کیونکہ وہ حملہ آور سے مشابہ ہے جسے کم سےکم نقصان پہنچانے والے طریقے سے ہٹانا اس کا حق ہے،البتہ اگر دونوں ہی شاخ کو اسی حالت میں قائم رکھنے پر صلح کرلیں تو جائز ہے ،خواہ یہ صلح صحیح قول کے مطابق بامعاوضہ ہو یا شاخ کاپھل باہم تقسیم کرنے پر ہو،دونوں طرح درست ہے۔
5۔اگر پڑوسی کی زمین میں درخت کی جڑ چلی گئی تو اس کا حکم بھی وہی ہے جو شاخ والا تھا جس کا بیان اوپرگزرچکا ہے۔
6۔کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی ملکیت کی زمین یا مکان وغیرہ میں ایسی تبدیلی کرے جو اس کے پڑوسی کے لیے تکلیف یا نقصان کا باعث ہو،مثلاً:حمام بنانا یا تنور لگانا یاقہوہ خانہ بنانا یاکارخانہ وفیکٹری لگانا،جس کی حرکت یا آواز باعث تکلیف ہو،یاروشن دان یا کھڑکی کھولنا جس کے ذریعے سے پڑوسی کے گھر نظر پڑسکتی ہو وغیرہ۔
7۔کسی کے گھر کی وہ دیوار جو اس کے اور اس کے پڑوسی کے درمیان مشترک ہے ،اس میں پڑوسی کی اجازت کے بغیر کھڑکی کھولنا یا بڑی میخ ٹھونکنا ناجائز ہے۔اسی طرح مشترک دیوار پر یا پڑوسی کی ملکیتی دیوار پر بلاضرورت لکڑی رکھنا یاکوئی اور بھاری بھرکم شےرکھنا جائز نہیں۔البتہ اگر چھت ڈالنے کی خاطر شہتیر وغیرہ رکھنا ہو جس کا وزن دیوار اٹھاسکے تو اس میں پڑوسی کو رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کوئی پڑوسی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوارلکڑی رکھنے سے نہ روکے۔"[1]
اس حدیث کو بیان کرکے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہا کرتے تھے:"تعجب ہے کہ میں تمھیں دیکھ رہا ہوں کہ تم(اس حکم کو ماننے سے) گریز کررہے ہو،اللہ کی قسم! میں ضرور اس کو تمہارے کندھوں کے درمیان ماروں گا۔"[2]
اس روایت سے ثابت ہوا کہ کسی کے لائق نہیں کہ وہ ا پنے پڑوسی کو اپنی دیوار پر لکڑی رکھنے سے منع کرے۔اگر کوئی رکاوٹ بنے تو حاکم اس پر زبردستی بھی کرسکتا ہے کیونکہ پڑوسی کو یہ حق شرعاً حاصل ہے۔
راستوں سے متعلق اہم شرعی احکام یہ ہیں:
1۔راستوں کے سلسلے میں مسلمانوں کو تنگ کرناجائز نہیں بلکہ ضروری ہے کہ راستوں کو کھلارکھا جائے اور تکلیف دہ چیز کو دور کیا جائے کیونکہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق یہ عمل ایمان کاحصہ ہے۔
2۔کسی کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ اپنی ملکیت کی جگہ میں ردوبدل کرکے راستے کو تنگ کرے،مثلاً:راستے کے اوپر چھت ڈال دے تاکہ سواریا بوجھ اٹھانے والے وہاں سے گزر نہ سکیں یاراستے میں بیٹھنے کے لیے کوئی چبوترہ بنالے۔
3۔اسی طرح راستے میں جانور باندھنا یاگزرگاہ میں گاڑی گاڑی کھڑی کرنا جائز نہیں کیونکہ اس سے راستہ تنگ ہوتاہے،نیزیہ چیز حادثات کا سبب بنتی ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ ا پنی عمارت کا کوئی حصہ مسلمانوں کی گزرگاہوں کی طرف باہرنکالے حتیٰ کہ دیوار کو سیمنٹ کرنا بھی جائز نہیں مگر اس صورت میں جائز ہے کہ دیوار کو ا پنی حدود میں اتنا اندر کی طرف بنایا جائے جتنی سیمنٹ کی تہہ کی موٹائی ہے۔"[3]
4۔راستے میں کوئی پودا لگانا یا عمارت کھڑی کرنا،گڑھا کھودنا،ایندھن کا ڈھیر لگانا،جانور ذبح کرنا،کوڑا کرکٹ یا راکھ وغیرہ پھینکنا جو گزرنے والوں کے لیے پریشانی اور تکلیف کاباعث ہو،ممنوع ہے۔
شہر کی بلدیہ کے ذمے داروں پرلازم ہے کہ لوگوں کو مذکورہ اشیاء راستوں میں پھینکے سے روکیں جو باز نہ آئے اسے سخت سزادیں کیونکہ اس کے بارے میں لوگ نہایت سستی اور کوتاہی کرجاتے ہیں۔اپنے فوائد کے حصول کی خاطر راستے تنگ کرتے ہیں،گاڑیاں کھڑی کرتے ہیں،عمارت کے لیے اینٹیں ،لوہا،سیمنٹ وغیرہ راستوں میں ڈال دیتے ہیں۔گڑھے کھودتے ہیں بلکہ بعض لوگ سڑکوں،بازاروں اور گلیوں میں تکلیف دہ اور بے کار اشیاء نجاستیں اور کوڑا کرکٹ وغیرہ پھینک دیتے ہیں اور اس بات کو قطعاً پروانہیں کرتے کہ اس سے مسلمانوں کو تکلیف ہوگی،حالانکہ یہ سراسر حرام اور ناجائز ہے۔
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"جولوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایذادیں بغیر کسی جرم کے جوان سے سرزد ہوا،وہ(بڑے ہی) بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔"[4]
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔"[5]
نیز فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
"ایمان کے ستر سے کچھ زیادہ شعبے ہیں جن میں سب سے افضل واعلیٰ"لاالٰہ الا اللہ" کہنا ہے اور سب سے ادنیٰ درجہ،راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹادیتا ہے۔اور حیا بھی ایمان کا ایک حصہ(شعبہ) ہے۔"[6]
علاوہ ازیں اور بھی بہت سی روایات ہیں جو مسلمانوں کے حقوق کا احترام کرنے کی رغبت دلاتی ہیں اور انھیں تکلیف دینے سے روکتی ہیں۔مسلمانوں کے لیے سب سے بڑھ کرتکلیف دہ صورت یہ ہے کہ ان کے عام راستے بند یا تنگ کیے جائیں اور ان میں رکاوٹیں کھڑی کردی جائیں کہ لوگوں کاگزرنا مشکل ہوجائے۔
شفعة شفع سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی"جفت" کے ہیں۔چونکہ شفعہ کرنے والا مبیعہ کوجو کہ منفردتھا،شفعہ کے ذریعے سے اپنی ملکیت میں ملاتا ہے،چنانچہ اسے شفعہ کہا جاتا ہے۔
شفعہ سنت صحیحہ سے ثابت ہے اللہ تعالیٰ نے شفعے کے ذریعے سے فساد ونقصان کاوہ دروازہ بند کیا ہے جو شراکت سے تعلق رکھتا ہے۔
علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"بندوں کی مصلحتوں کے بارے میں اسلامی شریعت کی خوبیوں اور اس کے عدل وانصاف پر مبنی قوانین میں سے ایک چیز شفعہ بھی ہے۔شارع علیہ السلام کے احکامات کی حکمت کاتقاضا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو مکلفین شرع کا نقصان نہ ہوجبکہ شراکت عموماً نقصان ہی کاباعث بنتی ہے۔شریعت نے اس نقصان کو کبھی تقسیم سے اور کبھی شفعے سے ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔اور واضح کیا ہے کہ اگر کوئی شخص مشترک چیز میں سے اپنا حصہ فروخت کرکے قیمت لینا چاہتا ہے تو اجنبی شخص کی نسبت اس کا شریک(وہ حصہ خریدنے کا) زیادہ حقدار ہے۔
اس طرح وہ اپنے شریک کو ضرر سے بچاسکتاہے اس میں بائع کا کوئی نقصان نہیں کیونکہ وہ اپنا حق قیمت کی صورت میں وصول کررہاہے۔شفعہ عدل وانصاف کی عظیم اور بہترین شکل ہے۔انسانی عقل وفطرت کے عین مطابق ہے اور بندوں کی مصلحتوں کے موافق ہے۔"[7]
شیخ موصوف کی عبارت سے واضح ہو اکہ حیلہ جوئی کرکے کسی کوحق شفعہ سے محروم کرناشارع علیہ السلام کی مطلوب حکمتوں کی مخالفت ہے بلکہ ان کے اعلیٰ مقاصد کو نقصان پہنچانا ہے۔
(1)۔عربوں کے ہاں عہد جاہلیت میں شفعہ معروف ومشہور امر تھا۔اگر کوئی شخص اپنا گھر یا باغ فروخت کرنا چاہتا تو اس کے پاس اس کا پڑوسی یا شریک آتا اور فروخت ہونے والے حصے کواپنے حصے میں شامل کرنے کے لیے خریدار بنتا اور اس کی خریداری میں خود کو دوسروں سے زیادہ حقدار قراردیتا۔اس کانام شفعہ تھا۔شفعے کا مطالبہ کرنے والے کو (شفع یا) شافع کہا جاتا ہے۔
(2)۔فقہائے اسلام کی اصطلاح میں شفعے کامفہوم یہ ہے کہ"ایک شخص نے مشترکہ چیز میں سے اپنا حصہ فروخت کردیا تو دوسرے شریک کا یہ حق ہے کہ وہ چیز جس کے قبضے میں چلی گئی ہے اسے اتنی ہی قیمت ادا کرکے اس سے وہ چیز حاصل کرلے۔"
(3)۔اگر مشترک چیز کا ایک حصہ شریک کے علاوہ کسی اجنبی شخص نے خریدلیا تو اس پر لازم ہے کہ وہ حصہ شافع (شفعے کا مطالبہ کرنے والے) کوقیمت خرید وفروخت کردے کیونکہ سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ یہ ہے کہ ہر اس چیز میں شفعے کا حق ہے جو تقسیم نہ ہوئی ہو۔اگرحدود متعین ہوجائیں اور راستے الگ الگ ہوجائیں توشفعے کا حق باقی نہیں رہتا۔"[8]
حدیث مذکورہ شریک کے حق میں شفعے کو ثابت کرتی ہے۔شفعہ ان چیزوں میں ثابت ہوتا ہے جو تقسیم ہوسکیں،مثلاً:زمین ،پلاٹ،باغ وغیرہ۔اگرچیز تقسیم کے قابل نہیں جیسا کہ گھر کا سامان،حیوان وغیرہ تو ان میں شفعہ نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے شریک کو اطلاع دیے بغیر(مشترک شے) فروخت کرے۔"[9]
ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"کسی بھی شخص کے لیے حرام ہے کہ وہ مشترک شے اپنے شریک کو اطلاع دیے بغیر فروخت کرے۔اگر اس نے ایسا کیا تو شفیع خریدنے کا زیادہ حقدار ہے۔اگر شفیع کو بوقت بیع اطلاع کردی گئی لیکن اس نے کہا کہ مجھے اس چیز کو ضرورت نہیں تو بعد از بیع وہ حق شفعہ کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔یہی حکمت شرعیہ کا تقاضا ہے جس کا کوئی معارض نہیں اور یہی بات درست ہے۔"[10]
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے جو کچھ کہا ہے بعض علماء کی یہی رائے ہے ،البتہ جمہور علماء کے نزدیک شفیع کا حق شفعہ بیع کی اجازت دینے سے ساقط نہیں ہوتا۔واللہ اعلم۔
4۔شفعہ شرعی حق ہے جس کا احترام واجب ہے اور اسے حیلہ سازی سے ساقط کرانا حرام ہے کیونکہ اس کا مقصد شریک کو ضرور نقصان سے بچانا ہے جبکہ شفعے کو ساقط کرنے کے لیے حیلہ سازی اس کے جائز حق پر تعدی اور ظلم ہے۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"کسی مسلمان کا حق شفعہ وغیرہ ساقط کرنے کے لیے حیلہ سازی کرنا حرام ہے۔"[11]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"ان اعمال کا ارتکاب نہ کرو جن کا ارتکاب یہودیوں نے کہا،کہ تم مختلف حیلوں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کا حلال قراردینے لگو۔"[12]
5۔حق شفعہ کو ساقط کرنے کا ایک حیلہ یہ ہے کہ کوئی یہ ظاہر کرے کہ اس نے فلاں کو اپنا حصہ ہبہ کردیا ہے جبکہ حقیقت میں اسے فروخت کیا ہو۔اسی طرح اسقاط شفعہ کی ایک اور صورت یہ ہے کہ چیز کی قیمت بظاہر اس قدر بڑھا دی جائے کہ شریک کی قوت خرید سے باہر ہو۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"حق شفعہ کو ختم کرنے کے لیے حیلہ کرنا ناجائز ہے۔الفاظ کی تبدیلی سے معاملے کی حقیقت تبدیل نہیں ہوجاتی۔"[13]
6۔شفعہ غیر منقسم زمین میں ہوتا ہے۔اس زمین کے پودے،گھاس اور وہاں موجود عمارت وغیرہ اشیاء بھی شفعے میں شامل ہوں گی۔اگر زمین کی تقسیم ہوگئی لیکن پڑوسیوں کے درمیان مرافق مشترک رہیں،مثلاً :راستہ،پانی وغیرہ تو صحیح قول کے مطابق حق شفعہ موجود رہے گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل حدیث کا یہی مفہوم ہے۔ارشاد نبوی ہے:
"جب حدود متعین ہوجائیں اور راستے الگ الگ ہوجائیں توشفعے کا حق باقی نہیں رہتا۔"[14]
اس حديث سے واضح ہوتاہے کہ جب حدود واقع ہوجائیں لیکن راستے مختلف نہ ہوں توشفعہ کا حق باقی ہے۔امام احمد،ابن قیم اور تقی الدین رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے یہی رائے درست قراردی ہے۔[15]
شیخ تقی الدین فرماتے ہیں:پڑوس کا شفعہ حقوق میں شراکت کی بنا پر ثابت ہوجاتا ہے،جیسے پانی یا راستہ وغیرہ ایک ہو۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بیان کیا ہے اور ابن عقیل اور ابومحمد نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔امام حارثی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مختلف احادیث جمع کرنے سے یہی خلاصہ نکلتا ہے،نیز صرف پڑوس کی وجہ سے شفعہ نہیں کیا جاسکتا الا یہ کہ جب راستہ وغیرہ مشترک ہو کیونکہ شفعہ تو ضرر رفع کرنے کے لیے ہوتا ہے اور ضرر اکثر کسی ملکیتی چیز میں اشتراک کی بنا پر یا راستے وغیرہ کی وجہ سے ہوتا ہے۔
7۔اگر شفیع کو بیع کا علم ہوتو فوراً شفعے کا مطالبہ کرنے سے اس کا حق ثابت اور قائم رہے گا،اور اگر وہ شفعے کا مطالبہ نہیں کرتا تو اس کا حق شفعہ ساقط ہوجائے گا۔اگر اسے بیع کا علم نہ ہوتو اس کا حق شفعہ قائم رہے گا اگرچہ کئی برس گزر جائیں۔
ابن ہبیرہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ "علماء کا اتفاق ہے کہ صاحب حق اگر غائب ہے تو وہ جب بھی آئے گا اسے شفعے کے مطالبے کا حق حاصل ہوگا۔"
شریکوں کے شفعے کا حق ان کے حصوں کے مطابق ہوگا۔اگر ایک شریک شفعے کے مطالبے سے دست بردار ہو جائے تو دوسرا شریک وہ پوری جائیداد خریدے یا پوری چھوڑ دے کیونکہ کچھ حصہ لینے میں مشتری کا نقصان ہے ۔اور ایک شخص کے نقصان کےازالے کے لیے دوسرے کو نقصان پہنچانا درست نہیں۔
[1]۔صحیح البخاری المظالم باب لا یمنع جارجارہ ان یغرز خشبۃ فی جدارہ حدیث 2463 وصحیح مسلم المساقاۃ باب غرز الخشبہ فی جدار الحار حدیث 1609۔
[2]۔صحیح البخاری المظالم باب لایمنع جار جارہ ان یغرز خشبۃ فی جدارہ حدیث 2463۔وصحیح مسلم المساقاۃ باب غرز الخشبۃ فی جدار الجار حدیث 1609۔
[3]۔مجموع الفتاویٰ 30/10۔
[4]۔الاحزاب 33/58۔
[5]۔صحیح البخاری الایمان باب المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ حدیث 10۔
[6]۔صحیح مسلم الایمان باب بیان عدد شعب الایمان۔۔۔حدیث 35۔
[7]۔اعلام الموقعین 2/123۔
[8]۔صحیح البخاری الشفعۃ باب الشفعۃ فیمالم یقسم۔۔۔حدیث 2257 ومسند احمد 3/296،399۔
[9]۔صحیح مسلم المساقاۃ باب الشفعۃ حدیث 1608۔
[10]۔اعلام الموقعین 2/123۔
[11]۔اعلام الموقعین 3/260۔
[12]۔ تفسیر ابن کثیر الاعراف 7/163۔
[13]۔مجموع الفتاویٰ لشیخ الاسلام ابن تیمیہ :30/386۔
[14]۔صحیح البخاری الشفعۃ باب الشفعۃ فیمالم یقسم۔۔۔حدیث 2257
[15]۔اعلام الموقعین:2/132۔