السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نجاست خوار مرغیاں جلالہ میں داخل ہیں یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلہ میں کہ ’’مرغیاں بھی جلالہ ہوتی ہیں یا نہیں؟‘‘ دوباتیں تنقیح طلب ہیں۔
1۔جلالہ کے کیا معنی ہیں؟
2مرغیوں میں بھی جلالہ کے وہ معنی پائے جاتے ہیں یا نہیں؟
لفظ جلالہ یا تو صیغہ اسم فاعل برائے مبالغہ ہے اور حرف "ۃ"اس میں زیادت مبالغہ کے لیے ہے جیسے "علامة فھامة" یا لفظ جلالہ صیغہ نسبت ہے جیسے بزاز صراف غنام ۔
اول شق پر اس کے معنی ہیں بہت بہت جلہ خوار یعنی بہت بڑا نجاست خوار اور دوسری شق پر اس کے معنی ہیں جلہ خواری پیشہ یعنی پیشہ نجاست خواری ہوا ور یہ بہت صاف بات ہے کہ جس کا پیشہ نجاست خواری ہوگا ضروراس میں نجاست خواری بکثرت تمام پائی جاتی ہوگی اور جس میں نجاست خواری بکثرت تمام پائی جاتی ہوگی ضروروہ بہت بڑا نجاست خوار ہوگا اسی طرح جو بہت بڑا نجاست خوار ہو گا ضروراس میں نجاست خواری بکثرت تمام پائی جاتی ہوگی۔اور جس میں نجاست خواری بکثرت تمام پائی جاتی ہوگی۔ ضرور وہ نجاست خواری پیشہ ہوگا۔
اس بیان سے ظاہر ہوگیا کہ مال دونوں شقوں کا واحد ہے کہ جلالہ وہ ہے جو بہت بڑا نجاست خوار ہو اور بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ جلالہ ہونے کے لیے اسی قدر کہ بہت بڑا نجاست خوار ہو کافی نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے گوشت یا دودھ یا پسینے میں بھی اس نجاست کا اثر (رنگ یا بو یا مزہ ) ظاہر ہوجائے ورنہ جلالہ نہیں ہے۔تعمق نظر کے بعد یہی قول صحیح معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ گوشت یا دودھ یا پسینے میں نجاست کے اثر کا ظاہر ہونا اس بات کی بین دلیل ہے کہ وہ نجاست ہنوز پورے طور سے مستحیل نہیں ہوئی ہے ورنہ اگر نجاست پورے طور سے مستحیل ہوگئی ہوتی تو اس کا اثر گوشت وغیرہ میں ظاہر نہ ہوتا اور شریعت غرا میں اس کے گوشت اور دودھ کھانے اور اس پر سواری کرنے سے ممانعت ہوجاتی کیونکہ شے کے مستحیل ہوجانے کے بعد اس کا سابق حکم حرمت باقی نہیں رہتا دیکھو گدھا جب نمکسار میں پڑکر نمک بن جاتا ہے تو اس کا سابق حکم حرمت باقی نہیں رہتا بلکہ حلال ہوجاتا ہے اسی طرح منی نطفہ بن جاتی ہے یا نطفہ جب علقہ ہو جا تا ہے یا علقہ جب مضفہ بن جاتا ہے یا مضفہ جب عظام کی شکل میں آجاتا ہے یا عظام کےبعد جب گوشت چڑھ کر اور جان پڑکر آدمی بن جاتا ہے تو ہر ایک حالت لاحقہ پر حالت سابقہ کا حکم باقی نہیں رہتا ۔
اسی طرح جب میلا (فضلہ) کھیتوں میں پڑکر مٹی ہو جاتا ہے یا مٹی ہو کر بناتی شکل اختیار کرتا ہے تو اس کا سابق حکم نجاست اور حرمت باقی نہیں رہتا بلکہ پاک اور حلال ہوجاتا ہے اسی طرح آدمی کی غذا جب براز بن جاتی ہے تو اس کا سابق حکم پاکی اور حلت باقی نہیں رہتا بلکہ براز بن جانے کے بعد ناپاک اور حرام ہوجاتی ہے اسی طرح پاک پانی میں جب نجاست پڑجاتی ہے جس سے اس کا رنگ یا بو یا مزہ بدل جاتا ہے تو ناپاک ہو جا تا ہے اور دریا یا آب کثیر کہ ان میں کس قدر نجاست پڑتی ہے لیکن چونکہ وہ نجاست مستحیل ہو جاتی ہے اس لیے دریا یا آب کثیر ناپاک نہیں ہوتے علی ہذا القیاس لاکھوں کیا کروڑوں بلکہ بے حد اس کی مثالیں پیش ہو سکتی ہیں۔
الحاصل شریعت بیضانے استحالہ کا وجوداً اور عدماً دونوں طرح سے اعتبار کیا ہے کہ اگر استحالہ پایا گیا تو حکم سابق جاتا رہا اور استحالہ نہیں پایا گیا تو حکم سابق باقی رہا)
اس تقریر سے ثابت ہو گیا کہ جو بعض علما نے جلالہ ہونے کے لیے گوشت وغیرہ میں نجاست کا اثر ظاہر ہونا بھی شرط فرمایا ہے یہی قول صحیح اور اصول شریعت کے موافق ہے پس اس صحیح قول کے موافق ہے پس اس صحیح قول کے موافق جلالہ وہ نجاست خوار جانور ہے جس کے گوشت یا دودھ یا پسینے میں اس نجاست کا اثررنگ یابو یا مزہ ظاہر ہو جو اس بات کی بین دلیل ہے کہ وہ نجاست ہنوز پورے طور سے مستحیل نہیں ہوئی ہے اورجو حدیث شریف میں اس کے گوشت اور دودھ کھانے اور اس پر سواری کرنے سے ممانعت فرمائی گئی ہے اس کی یہی وجہ ہے کہ اس کا گوشت اور دودھ اور پسینہ ہنوز بوجہ نجاست کے مستحیل نہ ہوجانے کے نجس اور ناپاک ہے پس اس کا گوشت اور دودھ کھانا درحقیقت نجاست کھانا ہے اور اس پر سواری کرنا اپنے بدن اور کپڑے کو اس کے نجس پسینے سے آلودہ کرنا ہے۔
میں اس دوسری تنقیح کے متعلق کوئی قطعی بات اثباتاً نفیا تحریر نہیں کر سکتا کیونکہ میں خود نہیں جانتا کہ آیا مرغیاں ایسی بھی ہوتی ہیں،جن کے گوشت یا پسینےمیں بوجہ بکثرت نجاست خواری کے نجاست کا اثر رنگ یا بو یا مزہ ظاہر ہوجاتا ہے یا ایسی ہیں ہوتی ہیں؟ہاں بطور تعلیق اس قدر کہہ سکتا ہوں کہ اگر مرغیاں ایسی بھی ہوتی ہیں،جن کا ابھی مذکور ہوا ہے تو جو ایسی ہوں،ان کے جلالہ ہونے میں کوئی شک نہیں وگرنہ نہیں،کیونکہ مناط نہی حدیث شریف میں صرف جلالہ ہونے کا وصف ہے تو جس جانور میں یہ وصف پایا جائے،وہ جلالہ ہے،جس کا گوشت کھانا اور دودھ والا ہوتو اس کا دودھ پینا اور سواری کے قابل ہوتو اس پر سواری کرنا ،یہ سب داخل نہی ہے ۔اور جس جانور میں یہ وصف نہ پایا جائے ،نہ وہ جلالہ ہے اور نہ اس پر احکام مذکورہ جاری ہوں گے اور جوروایت کے بزازیہ سے بحوالہ غایۃ الکلام بدیں عبارت نقل کی گئی ہے:
"روي عن النبي صلي الله عليه وسلم انه يحبس الدجاج ثلاثة ايام"[1]
’’نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ مرغی کو تین دن تک بند کردیا جائے‘‘
اگر یہ روایت پایہ ثبوت کو پہنچ جائے تو یہ بلاشبہ قاطع نزاع ہے،لیکن اس کا ثبوت معلوم نہیں۔مرغیوں کے قطعاً جلالہ نہ ہونے کی یہ دلیل کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرغی کاگوشت کھایا ہے،کافی دلیل نہیں ہے،ورنہ شتر اور گاؤ بھی قطعاً جلالہ نہ ٹھریں گے،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شتر اور گاؤ کا گوشت بھی کھایا کھلایا ہے۔ہاں اگر کسی کا ایجاب کلی کا دعویٰ ہوکہ کل مرغیاں جلالہ ہوتی ہیں تو اس دعوے کے ابطال کے لیے یہ دلیل البتہ کافی ہے،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس مرغی کاگوشت تناول فرمایا تھا،وہ قطعاً جلالہ نہ تھی۔
پس اس دلیل سے یہ سلب جزئی کہ بعض مرغیاں جلالہ نہیں ہیں،ثابت ہوگیا اور اس سلب جزئی کے ثبوت سےایجاب کلی کا دعوی جوسلب جزئی کا نقیض ہے،باطل ہوگیا ،کیونکہ احد النقیضین کے ثبوت سے دوسرے نقیض کا ثبوت ممتنع ہوجاتاہے،والالزم اجتماع النقيضين وهو كماتري لیکن کسی کا دعویٰ ایجاب کلی کانہیں۔
[1] ۔یہ روایت مرفوعاً نہیں ملی،البتہ اس سلسلے میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاایک موقوف اثر مصنف ابن ابی شیبہ(148/5) میں مروی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب