سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(426) صحت ہبہ کے لیے تملیک کا لفظ ضروری نہیں ہے

  • 23191
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1602

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مورث اعلیٰ کے چند بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ایک بیٹے نے مورث اعلیٰ کے سامنے انتقال کیا اور چھوڑا اپنے وارثوں کو۔تب مورث اعلیٰ نے ساڑھے آٹھ مہینے پہلے بحالت صحت ذات ودرستگی ہوش وحواس خوشی سے اپنے بڑے بیٹے منتظم سے روبروئے سب وارثان اپنے کے  یہ کہا کہ ہماری حیات میں سب وارثان کو ہمارے اور سب وارثان پسر متوفی کو ہماری کل جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کو  تقسیم کرکے مالک وقابض کردو ،تاکہ بعد ممات میرے باخود ہا میں تم لوگوں کے اور وارثان پسر متوفی مذکور کے نزاع نہ رہے،چنانچہ بڑے بیٹے منتظم نے بحکم مورث اعلیٰ بمشورہ جملہ برادران اپنے ایک  تحریر کہ جس کی عبارت ذیل میں نقل ہے،تحریر کرکے ازروئے قرعہ وثبت مہر مورث اعلیٰ کےتقسیم کیا اور سب موہوب لہم کو اپنے اپنے حصہ پر مالک کرکے قبضہ دے دیا اور ہر ایک موہوب لہم نے اس تقسیم کو بخوشی ورضا اپنی قبول کرکے العبد ودستخط اپنا اپنا اس تحریر پر کردیا اور اس تاریخ سے اپنی اپنی جائیداد موسومہ پر قابض ہوکر متصرف جائیداد ہوئے اور اس وقت تک ہیں اور ہر موہوب لہم سے واسطے مورث اعلیٰ کے بقدر خرچ ذاتی مورث اعلیٰ موافق آیت:﴿وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾ کے مقرر کرالیا۔

چونکہ مورث اعلیٰ ایک عورت بے پڑھی ہوئی تھی اور منتظم بھی عالم وقانون دان نہ تھا،تحریر میں لفظ قابض ودخیل کا لکھا گیا،مالک کردینے کا لفظ نہیں لکھا،لیکن مقصود اور بیان اور حکم مورث اعلیٰ اور مقصود منتظم اور موہوب لہم یہی تھا کہ سب کو مالک بنادیا،چنانچہ اسی تاریخ سے سب موہوب لہم اپنے اپنے حصے پر مالک وقابض بطور ملکیت ہوئے اور کسی نے تاحیات مورث اعلیٰ کچھ چوں وچرا نہیں کیا اور ہر ہر شخص اپنے اپنے حصے پر بطور ملکیت قابض ہوکر متصرف جائیداد کا اپنی  رہا،چنانچہ اس بات کے شاہد سب موہوب لہم اور جمیع اقران وبرادران نسبتی وجوار واطراف کے ہیں کہ مقصود اور بیان اور حکم مورث اعلیٰ  اور مقصود اور بیان موہوب لہم یہی تھا کہ سب موہوب لہم مالک ہوں گے۔لیکن بعد ممات مورث اعلیٰ کے منجملہ موہوب لہم کے ایک موہوب لہ  کہتا ہے کہ یہ تحریر وتقسیم صحیح نہیں ہے،کیونکہ اس  تحریر میں لفظ مالک کردینے کا نہیں لکھا ہے۔پس موافق مقصود مورث اعلیٰ اور موہوب لہم کے عنداللہ یہ ہبہ وتقسیم صحیح ہوا یا نہیں؟اگر صحیح نہیں ہواتو یہ بیان مقصود مورث اعلیٰ اور تحریر ہبہ نامہ وقرعہ کیاتصور کیا جائے گا بیٹوں کے حق میں اور وارثان بیٹے متوفی کے حق میں ؟فقط۔

نقل عبارت تحریری مورث اعلیٰ :۔

چونکہ تقسیم کرنا جملہ جائیداد کا جملہ ورثائے شرعی پر مقصود ہے لیکن حافظ محمد حسن مرحوم یکے از پسران و رارثان نے من مسماۃ بی بی شرفن مالک و قابضہ جملہ جائیداد کے بگذاشت محمد موسیٰ و محمد عیسیٰ وغیرہ وارثان اپنے بقضائے الٰہی فوت کیا چونکہ وارثان پسر مرحوم مذکور کے قانوناً ترکہ سے محجوب ہوئے من مسماۃ بی بی شرفن مذکورہ حاجب کرنا ان لوگوں کا ضرور وبدل منظور ہے مگر حال یہ ہے کہ کل دیہات کا کاغذ نا تیار ہے اس واسطے بالفعل جائیداد مفصلہ ذیل کو جس کا کا غذ درست و مرتب حسب سہام شرعی بنام مسماۃ طوفن دختر و مولوی محمد احسن پسرو محمد موسیٰ و محمد عیسیٰ و محمد یحییٰ و محمد اسحاق و محمد زکریا پسران و مسماۃ امین و مسماۃ اانیسہ دختر ان وارثان حافظ محمد حسن مرحوم مذکورو مولوی محمد وحید ومولوی نور احمدو حافظ علی اکبر و حافظ علی اصغر و مولوی علی احمد پسران 1297)فصلی سے تقسیم کر کے قبضہ میں ان لوگوں کے دیا وہ قابض و دخیل کر دیا اب جملہ ورثائے مذکورین اپنے اپنے مواضعات پر حسب تقسیم نامہ ہذا قابض و دخیل ہو کر بعد اداے مالگزاری کلکڑی و پبلک وغیرہ متعلقہ اخراجات و یہی و تعمیل احکام حاکم وقت کے کل محاصل پر متصرف ہوکر زر معینہ سالانہ ہمارا ارسال کیا کریں اور جملہ مواضعات مفصلہ ذیل ساڑھے سات سہم پر تقسیم کیا کہ جوازروے نشست کے فی سہم 7/4ہوا ہے اور نصف اس کا 3/2ہوتا ہے فقط۔

مطابق اس قرعہ کے ہر یک یکم اس 1297فصلی سے قبضہ و دخل کریں  اور اللہ ان لوگوں کو مبارک کرے۔ فقط (مہر مورث اعلیٰ ) العبد فلاں منظور ہے العبدفلاں قبول ومنظور ہے۔ العبدفلاں بسروچشم منظور ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ ہبہ وتقسیم صحیح ہے صحت ہبہ کے لیے لفظ تملیک لکھنا شرط نہیں ہے نفس تملیک کا پایا جا نا کافی و بس ہے اور جب مسماۃ شرفن واہبہ اپنے بیٹے منتظم کو واسطے تکمیلہ کرادینے ہبہ کے وکیل کردیا یعنی ان سے کہہ دیا کہ ہماری حیات میں سب وارثان پسر متوفی کو ہماری کل جائیداد منقولہ کو تقسیم کر کے مالک و قابض کردو تاکہ بعد ممات ہماری باخود ہاتم لوگوں کے اور وارثان پسرمتوفی مذکور کے نزاع نہ رہے اور اس بڑے بیٹے منتظم یعنی وکیل مذکور نے بحیثیت وکالت اپنی حکم مذکور کی تعمیل کردی یعنی جائیداد مذکورہ کو تقسیم کر کے ہر ایک موہوب لہ کو اس کے حصہ کا مالک و قابض کردیا اور ہر ایک موہوب لہ نے اس کی کاروائی کو بخوشی ورضا اپنی قبول ومنظور کر لیا اور اس تاریخ سے ہر ایک موہوب لہ اپنی اپنی جائیداد موسومہ پر مالکانہ قابض ہوکر اس میں تصرف ہوگیا اور اب تک ہے تو اب تملیک کے پائے جانے میں کیا شک باقی رہا؟پس یہ ہبہ و تقسیم صحیح ہے اور ایک موہوب لہ کا یہ عذر کہ اس تحریر میں لفظ مالک کر دینے کا نہیں لکھا ہے صحیح نہیں ہے۔

عَنْ أنَسٍ رَضيَ اللهُ عَنهُ قالَ: أتَانَا رَسُولُ فِي دَارِنَا هَذِهِ، فَاسْتَسْقَى، فَحَلَبْنَا لَهُ شَاةً لَنَا، ثُمَّ شُبْتُهُ مِنْ مَاءِ بِئْرِنَا هَذِهِ، فَأعْطَيْتُهُ، وَأبُو بَكْرٍ عَنْ يَسَارِهِ، وَعُمَرُ تُجَاهَهُ، وَأعْرَابِيٌّ عَنْ يَمِينِهِ، فَلَمَّا فَرَغَ قال عُمَرُ: هَذَا أبُو بَكْرٍ، فَأعْطَى الأَعْرَابِيَّ فَضْلَهُ، ثُمَّ قال: «الأَيْمَنُونَ الأَيْمَنُونَ، ألا فَيَمِّنُوا». قال أنَسٌ: فَهِيَ سُنَّةٌ، فَهِيَ سُنَّةٌ، ثَلاثَ مَرَّاتٍ. متفق عليه.[1]

(انس رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   ہمارے اس گھر میں تشریف لائے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے پانی طلب کیا۔ ہم نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے لیے اپنی ایک بکری کا دودھ دھویا پھر میں نے اس میں اپنے اس کنویں کا پانی ملایا ۔ پھر میں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی خدمت میں وہ پیش کر دیا ۔(اس وقت ) ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی بائیں جانب تھے عمر رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے سامنے اور دائیں جانب ایک اعرابی تھا پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   (پی کر )فارغ ہوئے تو عمر رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  نے کہا یہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  ہیں (گویا وہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کو انھیں دودھ دینے کا کہہ رہ تھے )آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے اپنا بچا ہوا اس اعرابی کو دیا (جو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی دائیں طرف تھا) پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فر مایا : دائیں طرف والے (زیادہ حق دار ہیں۔)پھر ان کے بعد کے دائیں طرف والے آگاہ رہو! پہلے دائیں طرف والوں کو دو۔"انس رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  نے کہا یہ سنت ہے یہ سنت ہے)

جواب دیگر۔صورت مسئولہ میں ہبہ و تقسیم بلاشبہ صحیح ہے اس میں شک سراسر بے وجہ ہے کسی خیال صحیح پر مبنی نہیں ہے شک کی بنا صرف اس خیال پر ہے کہ جب تک لفظ مالک کر دینے کا نہ لکھا جائے ہبہ صحیح نہیں ہوتا اور اس تحریر میں لفظ مالک کر دینے کا نہیں لکھا ہے حالانکہ یہ خیال بالکل غلط ہے ہبہ کی صحت کسی لفظ کے لکھنے پر موقوف نہیں ہے اور کسی لفظ کا لکھنا صحت ہبہ کی شرط نہیں ہے صرف زبان سے لفظ ہبہ یا لفظ تملیک یا ایسا لفظ جو اس معنی کو مفید ہو کہہ دینا کافی ہے خواہ واہب اس کو لکھ بھی دے یا نہ لکھے ہدایہ میں ہے۔

"وينعقد الهبة بقوله وهبت ونحلت واعطيت.....الخ[2]

(ہبہ اس کے یہ کہنے سے واقع ہو جا تا ہے"وھبت"(میں نے ہبہ کردیا)"تحلت"(میں نے دے دیا)اور"اعطیت"(میں نے عطا کردیا)

درمختار و کنز الدقائق میں ہے:

وتصح بايجاب كوهبت ونحلت.....الخ[3]

(ہبہ ایجاب کے ساتھ صحیح ہے جیسے کہنا "وھبت"میں نے ہبہ کردیا اور تحلت"میں نے عطا کردیا) شرح وقایہ میں ہے ۔

"وتصح بوهبته ونحلته واعطيته...الخ[4]

(ہبہ "وھبتہ "تحلتہ "اور "اعطیتہ"کے الفاظ کے ساتھ واقع ہو جا تا ہے ) در مختار میں ہے۔

"وشرائط صحتها في الواهب العقل والبلوغ   والملك(الي قوله) وشرائط صحتها في الموهوب بان يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول كما سيتضح وركنها هو الا يجاب والقبول"[5]

(ہبہ کے صحیح ہونے کے لیے ہبہ کرنے والے میں ان شرائط کا پا یا جا نا ضروری ہے کہ عاقل ہو بالغ ہو اور (موہوبہ چیز کا) مالک ہو۔موہوب کے لیے ہبہ صحیح ہونے کی شرائط یہ ہیں کہ وہ (موہوبہ چیز) مقبوض ہو غیر مشترک ہو ممیز ہو غیر مشغول ہو جیسے کہ عنقریب اس کی وضاحت ہوگی اور اس (ہبہ ) کے رکن ایجاب و قبول ہیں)

عبارات منقولہ بالااعلیٰ صوت منادی ہیں کہ صحت ہبہ کے لیے صرف زبان سے لفظ ہبہ کا یا ایسے لفظ کا کہہ دینا کافی ہے جو مفید تملیک ہو لکھنا کچھ شرط نہیں ہے لکھے خواہ نہ لکھے دونوں صورتوں میں ہبہ صحیح ہو جا تا ہے   اب فرض کر لو کہ صورت مسئولہ میں مسماۃ بی بی شرفن واہبہ نے نہ اصالتاً نہ نیابتاً کچھ نہیں لکھا لیکن جب مسماۃ موصوفہ نے اپنے بڑے بیٹے کو اپنا نائب بنا کر ان سے کہہ دیا کہ ہماری حیات میں سب وارثان کو ہمارے اور سب وارثان پسر متوفی کو ہماری کل جائیداد منقولہ وغیرہ کو تقسیم کر کے مالک و قابض کردو اور اس بڑے بیٹے یعنی نائب مذکورنے نیا بتاً حکم مذکور کی تعمیل کردی یعنی جائیداد مذکورہ بالا کو تقسیم کر کے ہر ایک موہوب لہ کو اس کے حصے کا مالک و قابض کردیا اور ہر ایک موہوب لہ نے اس کی اس کاروائی کو بخوشی و رضا اپنی قبول و منظور کر لیا اور اس تاریخ سے ہر ایک موہوب لہ اپنی اپنی جائیداد موہوبہ پر مالکانہ قابض ہو کر اس میں متصرف ہو گیا اور اب تک ہے تو اب تملیک کے پائے جانے میں کیا شک باقی رہا اور مسماۃ موصوفہ کا بڑے بیٹے سے یہ کہنا کہ کل جائیداد کو ہماری تقسیم کر کے سب کو مالک و قابض کردو تاکہ بعد ممات ہماری تم لوگوں میں نزاع نہ رہے اور بڑے بیٹے کا حسب الحکم اپنی مادر موصوفہ کے بمشورہا جملہ برادران اپنے تحریر مذکور لکھنا پھر ازروئے قرعہ کے باخود ہا میں تقسیم کرنا اور اس تقسیم کو ہر ایک کا بخوشی و رضا اپنی قبول کر کے العبد ودستخط اپنا اپنا اس تحریر پر کردینا اور اسی تاریخ سے اپنی اپنی جائیداد موہوبہ پر قابض و متصرف ہو جانا اور تاحیات مسماۃ موصوفہ کسی کا اس میں کچھ چوں  و چرانہ کرنا صاف طور سے بتا رہا ہے کہ مقصود مسماۃ موصوفہ اور مقصود منتظم اور اس کے سائر برادران کاان جملہ کاروائیوں سے تملیک و تملک تھا نہ اور کچھ پس موافق مقصود جملہ کسان مذکورہ بالا کے یہ ہبہ و تقسیم بالیقین صحیح ہے گنجائش شک و شبہ کی اس میں کچھ بھی نہیں ہے واللہ اعلم بالصواب۔


[1] ۔صحیح البخاري رقم الحدیث (2432)صحیح مسلم رقم الحدیث (2029)

[2] ۔الھدایه224/3)

[3] ۔شراح کنز الدقائن (92/5)

[4] ۔شرح الوقایة (264/2)

[5]۔الدرالمختار مع ردالمختار (188/5)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب البیوع،صفحہ:647

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ