السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
وکالت وبیرسٹری جو محکمہ جات عدالت وفوجداری میں مروج ہے،کیا گورنمنٹ انگریزی کیا ریاست حیدر آباد وغیرہ جائز ہے یانہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وکالت کی تین صورتیں ہیں:
1۔وکالت امور معلوم الجواز والحقیۃ میں،یعنی ایسے امور میں جن کووکیل جانتا ہو کہ یہ امورشرعاً جائز وحق ہیں۔
2۔ وکالت امور معلوم عدم الجواز والبطلان میں،یعنی ایسے امور میں جن کووکیل جانتا ہو کہ یہ امورشرعاً باطل وناجائز ہیں۔
3۔ وکالت امورغیر معلوم الجواز والبطلان میں،یعنی ایسے امور میں جن کووکیل نہیں جانتا ہو کہ یہ امورشرعاً جائز وحق ہیں۔یاناجائز و ناحق۔
اول صورت جائز ہے اور دوسری وتیسری صورت ناجائز۔پہلی صورت کے جواز کی دلیل ہے۔
﴿وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ وَالتَّقوىٰ...﴿٢﴾... سورة المائدة
’’اور نیکی اور تقویٰ پر ایک د وسرے کی مدد کرو‘‘
﴿مَن يَشفَع شَفـٰعَةً حَسَنَةً يَكُن لَهُ نَصيبٌ مِنها ... ﴿٨٥﴾... سورة النساء
’’جو كوئی سفارش کرے گا،اچھی سفارش ،اس کے لیے اس میں سے ایک حصہ ہوگا‘‘
"وما رواه احمد وابوداود عن عبدالله بن عمر مرفوعا من خاصم في باطل وهو يعلمه لم يزل في سخط الله تعاليٰ حتي ينزع"[1]
’’نیز جو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور ابو داود رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیاہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے:جس نے جانتے بوجھتے ہوئے باطل(کی حمایت) میں جھگڑا کیا تووہ اللہ کی ناراضی میں رہےگا،حتی کہ اس سے باز آجائے‘‘
وما رواه ابو داؤد عن واثلة بن الاسقع رضي الله عنه قال:قلت:يا رسول الله صلي الله عليه وسلم ماالعصبية؟قال:(( ان تعين قومك علي الظلم))[2]
نیز جو امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے ۔واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عصبیت کیا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ کہ تو ا پنی قوم کے لوگوں کی مدد کرے،حالانکہ وہ ظلم پر ہوں‘‘
"وعن سراقه بن مالك بن جعشم رضي الله عنه قال:خطبنا رسول الله صلي الله عليه وسلم فقال:(( خيركم المدافع عن عشيرته مالم ياثم))[3]
’’سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا:تم میں بہتر وہ شخص ہے جو اپنے قبیلے کادفاع کرے ،بشرط یہ کہ وہ گناہ نہ ہو‘‘
"وما رواه احمد وابن ماجه عن عبادة بن كثير الشامي عن اهل فلسطين عن امراة منهم يقال لها فسيلة انها قالت:سمعت ابي يقول :سآلت رسول الله صلي الله عليه وسلم فقلت:يا رسول الله صلي الله عليه وسلم! امن المعصبية ان يحب الرجل قومه؟ قال:(( لا ‘ولكن من المعصبية ان ينصر الرجل علي الظلم"[4](مشكوة شريف باب الشفاعة في الحدود فصل ثاني وباب المفاخرة والعصبية فصل ثاني وثالث)[5]
’’نیزجو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے ۔عبادہ بن کثیر الشامی اہل فلسطین سے روایت کرتے ہیں ،وہ فسیلہ نامی اپنی ایک عورت سے روایت کرتے ہیں،انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے باپ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا یہ بھی عصبیت ہے کہ آدمی اپنی قوم سے محبت رکھے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہیں،عصبیت تویہ ہے کہ آدمی ظلم میں(اپنی قوم کی) مدد کرے‘‘
تیسری صورت کی ناجوازی کی دلیل ہے:
﴿وَلا تَقفُ ما لَيسَ لَكَ بِهِ عِلمٌ ...﴿٣٦﴾... سورة الإسراء
’’اور اس چیز کا پیچھا نہ کر جس کاتجھے کوئی علم نہیں‘‘
"وما رواه ابو داؤد وابن ماجه عن بريده قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم:(( القضاة ثلاثة)) واحد في الجنبة واثنان في النار فاماالذي في الجنة فرجل عرف الحق فقضيٰ به ورجل عرف الحق فجار في الحكم فهو في النار ورجل قضي للناس علي جهل فهو في النار))[6](مشکوۃ شریف،باب العمل فی القضاء والخوف منه فصل ثانی)
’’نیز جو امام ابوداود اور ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے۔بریدۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہاکہ رسول اللہ نے فرمایا:حاکم تین طرح کے ہیں:دو دوزخی اور ایک جنتی،جس حاکم نے حق والے کا حق پہچان لیا اور اسی کے مطابق فیصلہ بھی کیا،وہ حاکم جنتی ہے اور جس حاکم نے حق والے کا حق تو پہچان لیا،لیکن فیصلہ اس کے مطابق نہیں کیا،بلکہ جان بوجھ کر حق کے خلاف فیصلہ کیا،وہ حاکم دوزخی ہے اور جس حاکم نے حق والے کاحق تک بھی دریافت نہیں کیا اور یوں ہی بے سمجھے بوجھے فیصلہ سنا دیا، وہ حاکم بھی دوزخی ہے‘‘
اس حدیث میں جو وعید ہے،اگرچہ قضا علی جہل میں وارد ہے،یعنی اس قاضی کے بارے میں جو حق وناحق کی تحقیق نہیں کرتا اور یوں ہی انڈ کاسنڈ فیصلہ کردیا کرتا ہے،لیکن اصل معصیت جو مناط وعید ہے،یعنی بلاتحقیق حق وناحق کے ایک جانب کاطرفدار ہوجانا،یہ امر اس قضا اور صورت ثالثہ وکالت دونوں میں مشترک ہے تو ناجوازی کا حکم بھی دونوں میں مشترک ہوگا اور روایت بیہقی:
"من اعان علي خصوصة لا يدري احق ام باطل فهو في سخط الله حتي ينزع"[7] (مشکوة شریف باب الحدود فصل ثانی)
(جس نے کسی جھگڑے پر اعانت کی جب کہ وہ نہیں جانتا کہ وہ حق ہے یا باطل تو وہ اللہ کی ناراضی میں رہتا ہے،حتیٰ کہ وہ اس سے دست کش ہوجائے) کی بالخصوص صحت یا عدم صحت معلوم نہیں،کیونکہ بیہقی یہاں موجود نہیں ہے کہ اس میں اس کی سند دیکھ کر کچھ حکم لگایا جائے،لیکن اس کےمضمون کی تائید دوسرے اور دلائل سے بخوبی ہوجاتی ہے اور جس صورت میں کہ وکیل نے اولاً حتی الوسع اس امر کی تحقیقات کرلی کہ مدعی ومدعا علیہ میں سے کون شرعاً برسرحق ہے،تب اس کی وکالت قبول کی تو یہ وکالت پہلی قسم میں داخل ہوگی،یعنی یہ صورت وکالت کی جائز ہے۔۔کتبہ:محمد عبداللہ۔الجواب صحیح ۔
[1] مسند أحمد (۲/ ۷۰) سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۳۵۹۷)
[2] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۵۱۱۹) اس کی سند میں ’’سلمة بن کثیر الدمشقي‘‘ راوی ضعیف ہے۔
[3]سنن أبي داود، رقم الحدیث (۵۱۲۰) یہ حدیث ذکر کرنے کے بعد امام ابو داود ر حمہ الله عليہ فرماتے ہیں: ’’أیوب بن سوید ضعیف‘‘
[4] ۔مسند أحمد (۴/ ۱۰۷) سنن ابن ماجه، رقم الحدیث (۳۹۴۹) اس کی سند میں ’’عباد بن کثیر‘‘ راوی متروک ہے۔ درحقیقت یہ وہی حدیث ہے، جو اوپر واثلہ بن ا سقع رضی اللہ عنہ کے حوالے سے گزری ہے۔
[5] المصابیح (۳/ ۶۴)
[6] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۵۷۳) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۳۲۲) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۲۳۱۵) سنن النسائي الکبریٰ (۳/ ۴۶۱) المستدرک (۴/ ۹۰) بلوغ المرام (۱۳۹۷)
[7] شعب الإیمان (۷/ ۵۱۰) یہ حدیث صحیح ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب