السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید نے اپنی ایک جائداد مصرف خیر میں وقف کی اور اس کے انتظام صرف کی بابت واجب العرض مصدقہ بندوبست میں اور وصیت نامہ میں حسب ذیل شرائط کیں اور واجب العرض و ثیقہ موخر ہے جو حیات واقف میں تحریر ہوا۔
بالفعل میں زید اس موضع کا مہتمم ہوں میرے اختیار سے آمدنی مصرف خیر میں صرف ہوتی رہے گی اور بعد فوت مہتمم کے مہتمم کی اولاد سے جو شخص از قسم ذکورلائق ہو وہ مہتمم مقرر ہو کر کرنسلاًبعد نسل و بطناً بعد بطن آمدنی صرف کرتا رہے گا مگر کسی مہتمم کو اختیار انتقال جائداد کا نہ ہوگا اگر کوئی مہتمم براہ بددیانتی یا بے ایمانی آمدنی اس کی مصرف خیر میں صرف نہ کرے تو وہ بثبوت امور مذکورہ لائق موقوفی متصور ہو کر سرکار کو اختیار ہے کہ جس شخص کو لائق اور مناسب خاندان سے سمجھے مہتمم مقرر کرے۔
اقرار یہ ہے کہ میں تاحیات اپنی آمدنی و پیداوار مواضعات مذکورہ کو اپنے ہاتھ اور اختیار سے حسبتاً اللہ صرف کرتا رہوں گا اور بعد میرے میری اولاد سے ایک از قسم ذکورجو لائق ہو نسلاً و بطناً بعد بطن حسب دستور طریقہ مستعملہ مجھ گنہگار کے صرف کرتا رہے مگر اختیار انتقال جائیداد کا نہ ہو گا اور نہ حقیت لائق توریث ہوگی۔
چنانچہ بعد وفات زید ،زیدکا ایک بڑا بیٹا خالد جو لائق سمجھا گیا مہتمم مقرر ہو کر بائیس برس تک منتظم رہا۔ اب سوال یہ ہے کہ بعد وفات خالد ،خالد کا بڑا بیٹا جو لائق ہے اور جنٹ صاحب بہادر اور صاحب کلکٹر بہادر اور صاحب کمشز بہادر نے بموجب واجب العرض وثیقہ ثانی واقف مہتمم بنایا اور دیگر اولاد واقف پر ترجیح دی اور پانچ سال سے وقف کا کام دیانت سے انجام دے رہا ہے۔وہ یا خالد کا حقیقی یا سوتیلا بھائی حسب مضمون واجب العرض و وصیت نامہ بالا و نیز شرعاً ان میں سے کون متولی ہونا اہیے اور مخفی نہ رہے کہ خالد کے سوتیلےبھائی نے خالد کے مہتمم ہونے کے وقف بھی مقدمات اپنی تولیت کی بابت دائرکیے تھے اور اب پانچ سال سے اپنی تولیت کے واسطے استقرار حق کے دعوے کر رکھے ہیں کیا جو شخص مستحق کے مقابلے میں متمنی تولیت ہو وہ متولی ہو سکتا ہے یا نہیں اور خالد کا بیٹا جس کو حکام نے متولی بنایا ہے اس کی معزولی بلا خیانت کے ہو سکتی ہےیا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
خالد کا بھائی خواہ حقیقی ہو یا سوتیلا زید کی اولاد بلاوسطہ ہے اور خالد کا بیٹا بھی گوزید کی اولاد ہے مگر وہ زید کی اولاد بواسطہ ہے کیونکہ زید کے بیٹے کا بیٹا ہے یعنی زید کا پوتا ہے اوراولاد بلا واسطہ کو اولاد بواسطہ پر ترجیح ہے پس خالد کے بھائی کو خالد کے بیٹے پر ترجیح ہے لیکن چونکہ تولیت وقف میں یہ شرط ہے کہ متولی وقف وہ شخص انتخاب کیا جائے جو تولیت کی لیاقت رکھتا ہو۔ یعنی وہ شخص امانت دار ہو۔ امانت داری کے ساتھ امور وقف کی انجام دہی پر خود یا بذریعہ اپنے نائب کے پورے طور سے قادر ہو لہٰذا صورت سوال میں اگر خالد کا بھائی تولیت وقف کی لیاقت رکھتا ہے تو اس کو خالد کے بیٹے پر ترجیح ہے اگر خالد کا بھائی تولیت وقف کی لیاقت نہیں رکھتا خواہ اس وجہ سے کہ امانت دار نہیں یا اس وجہ سے کہ امور وقف کی انجام دہی پر پورے طور سے قادر نہیں ہے تو اس صورت میں اگر خالد کا بیٹا تولیت لیاقت رکھتا ہے تو وہی متولی منتخب ہو سکتا ہے پس اس صورت میں حکام نے خالد کے بیٹے کو بوجہ اس کی لیاقت کے متولی منتخب کیا ہے تو اب اس کی معزولی بلا سبب موجب نہیں ہو سکتی اور جو شخص متمنی یعنی طالب تولیت ہو وہ متولی نہیں ہو سکتا۔ رد المختار حاشیہ درمختار(437/3چھاپہ مصری) میں ہے۔
"في الاخيتار شرح المختار :لو قال:علي اولادي يدخل البطون كلها لعموم اسم الاولاد لكن يقدم البطن الاول فاذا انقرض فالثاني"
(الاختیار شرح المختار میں ہے اگر وہ (وقف کرنے والا) کہے کہ میری اولاد پر(یہ مال وقف ہے) تو اس میں تمام بطون اور قبائل داخل ہوں گے کیونکہ اسم اولاد عام ہے لیکن پہلا بطن مقدم ہو گا اور پہلے بچن کے ختم ہونے کی صورت میں دوسرے بطن کی باری آئے گی)ایضاً (385/3)میں ہے۔
"في الاسعاف:ولا يوليٰ الا امين قادر بنفسه او بنائبه لان الولاية مقيدة بشرط النظر وليس من النظر تولية الخائن لانه يخل بالمقصود وكذا تولية العاجز لان المقصود لا يحصل به"
(الاسعاف میں ہے کہ (وقف کی) ولایت اسی کو سونپی جائے جو امانت دار ہو اور از خود یا کسی نائب کے ساتھ اس پر قادر ہو کیوں کہ ولایت نظرو فکر کی شرط کے ساتھ مقید ہے جب کہ خائن کی تولیت میں نظرو فکر کی صلاحیت نہیں ہوتی کیوں کہ یہ (خیانت ) مقصود کو پورا کرنے میں خلل انداز ہوتی ہے ایسے ہی عاجز آدمی کی تولیت ہے کیونکہ اس سے بھی مقصود حاصل نہیں ہو تا ہے) ایضاً(386/3)میں ہے۔
"من جامع الفصولين:اذا كان للوقف متول من جهة الواقف اومن جهة غيره من القضاة لا يملك القاضي نصب متول آخر بلا سبب موجب لذلك وهو ظهور الخيانة او شئي آخر"
(جامع الفصولین سے (نقل کیا گیا ) ہے کہ جب وقف کرنے والے کی طرف سے یا اس کے علاوہ قضاۃ میں سے کسی کی طرف سے وقف پر کوئی نگران و سر پرست مقرر ہوتو قاضی کو اس بات کا حق نہیں کہ وہ کسی ایسے سبب کے بغیر کوئی اور نگران متعین کرے جو سبب اس تبدیلی کا موجب ہو جیسے خیانت کا ظاہر ہونا یا اس طرح کی کوئی اور چیز )
فتاوی عالمگیری (219/3چھاپہ مصطفائی ) میں ہے"الصالح اللنظر من لم يسآل الولاية للوقف" (ولایت کے لیے پسندیدہ شخص وہ ہے جس نے وقف کی ولایت ونگرانی کا نہ مطالبہ کیا)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب