السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک مرد نے اپنی عورت کو چار برسوں کے قریب سے چھوڑ دیا ہے اور اس کو ماں کہا ہے۔اس کے پاس آتا ہے نہ اس کو کچھ خرچ بھیجتا ہے۔ اور نہ اس کی خبر لیتا ہے۔تین برسوں سے زیادہ عرصہ ہوتا ہے کہ سفر میں وہ بہت دور جا بیٹھا ہے اور اس کو خط بھی بھیجا گیا عورت کی طرف والوں کا کہ تم طلاق دے دو یا اس سے میل کرو اور زمانے کے موافق اس کی خبر لو،مگر اس نے اس کا کچھ جواب نہیں بھیجا،اس نے پھر ایک خط رجسٹری کرکے اس کے پاس بھیجا،اس کی رسید سرکاری ضابطہ سے ملی،مگر اس نے کچھ جواب اپنے گھر نہیں بھیجا،پھر اس صورت میں اس عورت کے واسطے اس مرد کے پنچے سے رہائی اور کسی دوسرے سے نکاح کرلینے کی کوئی صورت شرع میں ہے یانہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس صورت میں اس عورت کے واسطے اس مرد کے پنجے سے رہائی اور کسی مرد سے نکاح کرلینے کی صورت یہ ہے کہ عورت حاکم شرع کے رو برو اس بات کی درخواست کرے کہ میرا شوہر اس مدت سے مجھے اپنی ماں کہہ کر غائب ہے۔میرے لیے کچھ خرچ چھوڑ گیا ہے،نہ خرچ بھیجتا ہے نہ میرے کسی خط کا جواب دیتاہے۔اب میرے گزران کی کوئی صورت اس مرد کے نکاح میں رہ کر نہیں ہے،لہذا درخواست کرتی ہوں کہ میرا نکاح اس مرد سے فسخ کردیاجائے کہ عدت کازمانہ کاٹ کر کسی دوسرے سے اپنا نکاح کرلوں۔
حاکم مذکور اس عورت سے اس بات کے گواہان لے کر کہ اس کا شوہر فی الواقع اتنی مدت سے غائب ہے نہ خرچ چھوڑ گیاہے اور نہ خرچ بھیجتا ہے ،نکاح مذکور کو فسخ کرکے حکم دے کہ بعد انقضائے عدت کے دوسرے سے اپنا نکاح کرلے۔شامی(2/712 چھاپہ مصر) میں فتاویٰ"قاری الھدایة" سے منقول ہے:
"حيث سأل عمن غاب زوجها ولم يترك لها نفقة . فأجاب : إذا أقامت بينة على ذلك وطلبت فسخ النكاح من قاض يراه ففسخ نفذ وهو قضاء على الغائب ، وفي نفاذ القضا ء علي الغائب ر وايتان عندنا‘فعلي القول بنفاذه يسوغ للحنفي ان يزوجها من الغير بعد العدة واذا حضر الزوج الاول وبرهن علي خلاف ما ادعت من تركها بلا نفقة لا تقبل بينته لان البينة الاوليٰ ترجحت بالقضاء فلا تبطل بالثانية"
(جب ان سے عورت کے بارے میں سوال کیا گیا جس کا شوہر غائب ہو جائے اور عورت کے لیے خرچ نہ چھوڑجائے تو انھوں نے جواب دیا جب عورت اس پر دلائل پیش کر کے ثابت کردے اور فسخ نکاح کا مطالبہ کرے تو میرے خیال میں قاضی اگر فسخ کردے تو یہ فیصلہ نافذ ہو گا یہ قضا علی الغائب کی قبیل سے ہے اور قضا علی الغیب کے نفاذ میں ہمارے نزدیک دو روایتیں ہیں اس کے نفاذ کی روایت کے مطابق حنفی کو جائز ہے کہ عدت کے بعد اس عورت کا نکاح کسی اور سے کردے ۔ اگر اس کے بعد اس کا خاوند آجائے اور کہے کہ اس کے پاس خرچ موجودتھا اور دلائل سے ثابت بھی کردے تو بھی اس کی دلیل قبول نہ کی جائے گی کیوں کہ پہلی دلیل فیصلہ کی وجہ سے راجح ہو چکی ہے وہ دوسری سے باطل نہ ہو گی)
ہدایہ(585/2 چھاپہ مصطفائی ) میں ہے:
"قال عليه السلام : { لا ضرر ولا ضرار في الإسلام } "
(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (پہلے پہل ) کسی کو نقصان پہنچا نا اور تکلیف دینا جائز ہے اور نہ بدلے کے طور پر نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا)
"نصب الرایۃ لا حدیث الھدایہ (383/2)میں ہے۔
"روى من حديث عبادة بن الصامت وابن عباس وأبي سعيد الخدري وأبي هريرة وأبي لبابة وثعلبة بن مالك وجابر بن عبد الله وعائشة "
میں کہتا ہوں کہ اسے عبادہ بن صامت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابو لبابہ ثعلبہ بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کیا گیا ہے )اور کتاب "ظفر اللاضی بما یجب فی القضاء علی القاضی (ص127) میں ہے۔
"قد أمر الله سبحانه بإحسان عشرة الزوجات، فقال: وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ [النساء 19] ونهى عن إمساكهن ضرارًا، فقال: وَلاَ تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا [البقرة 231]، وأمر بالإمساك بالمعروف والتسريح بإحسان فقال: فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَـانٍ [البقرة 229]، ونهى عن مضارتهن، فقال: وَلاَ تُضَارُّوهُنَّ [الطلاق 6]. فالغائب إن حصل مع زوجته التضرر بغيبته جاز لها أن ترفع أمرها إلى حكام الشريعة، وعليهم أن يخلصوها من هذا الضرار القالع، هذا على تقدير أن الغائب ترك لها ما يقوم بنفقتها وإنها لم تتضرر من هذه الحيثية بل من حيثية كونها لا مزدوجة ولا أيمة، أما إذا كانت متضررة بعدم وجود ما تستنفقه مما تركه الغائب، فالفسخ لذلك على انفراده جائز ولو كان حاضرًا، فضلاً عن أن يكون غائبًا، وهذه الآيات التي ذكرناها وغيرها تدل على ذلك "
(اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بیویوں کے ساتھ احسان سے رہنے کا حکم دیا ہے چنانچہ اس کا فرمان ہے ’’ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہو‘‘ اور انھیں تکلیف دینے کے لیے روکنے سے منع کیا ان کو اچھے طریقے سے رکھ لینے اور نیکی کے ساتھ چھوڑ دینے کا حکم دیا چنانچہ اس نے فرمایا :’’اچھے طریقے سے رکھ لینا ہے یا نیکی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔‘‘ نیز ان کو تکلیف دینے سے منع کرتے ہوئے فرمایا :’’اور انھیں تکلیف نہ دو۔‘‘ اب جو شخص غائب ہے اور اس کے غیب رہنے کی وجہ سے اس کی بیوی کو تکلیف پہنچتی ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ حکام شریعت کے سامنے اپنا معاملہ پیش کرے اور ان حکام کے لیے جائز ہے کہ وہ اس مسلسل ضرر سے اس کو گلو خلاصی کرائیں۔
یہ اس صورت میں ہے جب غائب خاوند نے بیوی کے لیے وہ کچھ چھوڑا ہو جو اس کے نقطے کے قائم مقام بن سکے اب اس کو اس اعتبار سے تو تکلیف نہیں ہے بلکہ اس حیثیت سے ہے کہ وہ شادی شدہ تصور ہوتی ہے نہ بے نکاحی لیکن جب عورت کو اس اعتبار سے ضرر پہنچے کہ غائب خاوند نے کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑی جسے وہ بطور نفقہ استعمال کر سکے تو خالی اس وجہ سے عورت کے لیے نکاح فسخ کروانا جائز ہے درآنحالیکہ اس کا خاوند حاضر ہو تو اس کے غائب ہونے کی صورت میں کیوں جائز نہیں ہو گا؟ مذکورہ بالا آیات اس پر دلالت کرتی ہیں ) نیز اسی صفحہ میں ہے۔
"إذا لم يترك لها ما يحتاج إليه فالمسارعة إلى تخليصها وفك أسرها ورفع الضرار عنها واجبة"
(جب شوہر نے اپنی بیوی کے لیے کچھ نہ چھوڑا ہو جس کی وہ محتاج ہے تو اس کی بیوی کی گلو خلاصی کرانے کے لیے جلدی کرنا اور اس کو آزاد کرا کر اس کی تکلیف کو دور کرنا واجب ہے)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب