سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(266) ولایت نکاح کا حق دار اور ولی کے بغیر نکاح کا حکم

  • 23031
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 910

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ زید کی بیٹی ہندہ عرصہ نو برس سے عدم بلوغیت کے زمانے میں بیوہ ہوئی اس درمیان میں چند جگہ سے پیغام نکاح بھی ہندہ کے آئے مگر زید نے بوجہ پابندی رسم وعیب و براسمجھنے کے نامنظور کیا آخر ہندہ زید کے مکان سے باہر آئی اور جماعت مسلمین کے سردار کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ میرا نکاح فلاں شخص سے جلد پڑھا دیجیے ورنہ حرام کاری کی مرتکب ہو جاؤں گی اور میرے والد کو مت خبر دیجیے ورنہ وہ نکاح نہ ہونے دیں گے سردار صاحب کو بہت خیال ہوا اور دریافت کر کے ایک جماعت مسلمین کے روبرو خود قاضی و وکیل و ولی بن کر ہندہ کا نکاح پڑھوادیا جب اس کے والد وغیرہ کو خبر ہوئی تو اس کو زدو کوب کر کے پکڑ کر مکان میں لے گئے اور یہ مشہور کیا کہ ہندہ کہتی ہے کہ وہ نکاح میری منظوری سے نہیں ہوا اور ہم کو منظور نہ تھا یہ کہنا زید کا یا ہندہ کا معتبر ہے یا نہیں اور یہ نکاح بیوہ کا جوولی اقرب کے ہوتے ہوئے ابعد سردار مسلمین نے پڑھوایا صحیح ہے یا نہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورت کے نکاح میں عورت کا اذن بھی ضروری ہے اور اس کے ولی کا اذن بھی۔ اگر عورت ثیبہ ہے تو اس کا صریح اذن ضروری ہے اور باکرہ ہے تو صریح اذن ضرورنہیں اس کا سکوت بھی کافی ہے تو اگر عورت کا نکاح بلا اذن اس کے کر دیا جائے تو صحیح نہیں جب تک کہ وہ منظور نہ کرے ہاں جس عورت کا کوئی ولی نہ ہو یا ہو۔ لیکن عورت کو نکاح کرنے سے روکتا ہو جیسا کہ سوال میں مذکورہے تو ان دونوں صورتوں میں سلطان یعنی سردار جماعت مسلمین ہی اس عورت کا ولی ہے اس کے اذن سے اس عورت کا نکاح صحیح ہےفی المشکاۃ (ص362)

1۔ عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال "لا تنكح الأيم حتى تستأمر ولا تنكح البكر حتى تستأذن" قالوا يا رسول الله وكيف إذنها قال "أن تسكت". (متفق علیه)[1]

(رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :"بیوہ یا مطلقہ کا نکاح اس کے حکم کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری سے بھی اجازت لی جائے ۔"لوگوں نے پوچھا اس کی اجازت کس طرح ہے؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :"یہ کہ خاموش ہو جائے")

2۔ وعن عائشة قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم امرأة نكحت بغير إذن وليها فنكاحها باطل باطل باطل فإن لم يكن لها ولي فالسلطان ولي من لا ولي له "[2]

(آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : جو عورت بغیر ولی اجازت کے نکاح کرے۔ اس کا نکاح باطل ہے اگر جھگڑا ہو جائے تو بادشاہ ولی ہے جس کا کوئی ولی نہ ہو)

وفی نیل الاوطار(ص226)

"فاذا لم يكن ثمه ولي او كان موجودا وعضل  انتقل الامر الي السلطان لانه ولي من لا ولي له كما اخرجه الطبراني من حديث ابن عباس وفي اسناده الحجاج بن ارطاة"

اگر نکاح میں ولی موجود نہ ہویا ہو اور وہ ولایت کے قابل نہ ہو تو بادشاہ ولی ہو گا ۔

وفی فتح الباری (ص72/5)

"وفي اسناده الحجاج بن ارطاة وفيه مقال واخرجه سفيان في جامعه ومن طريقه الطبراني في الاوسط باسناد آخر حسن علي ابن عباس رضي الله عنه بلفظ:لا نكاح الا بولي مرشد او سلطان"

(اس کی سند میں حجاج بن ارطاۃ راوی متکلم فیہ ہے سفیان نے اسے اپنی جامع میں بیان کیا ہے اس کے طریق سے ایک دوسری حسن سند سے امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ  نے المعجم الاوسط " میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے درج ذیل الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے صحیح ولی یا بادشاہ کے بغیر نکاح نہیں ہے)

باقی رہا یہ امر کہ ہندہ کا یہ نکاح اس کی منظوری سے ہوا یا نہیں اس کا جواب یہ ہے کہ اگر شہادت معتبرہ سے سے ثابت ہو کہ ہندہ کی منظوری سے نکاح مذکور ہوا تھا اور اب بخوف زدو کوب منظوری سے انکار کرتی ہے تو نکاح مذکور صحیح ہو گیا اور اب زید ہندہ کا کہنا کہ یہ نکاح بمنظوری ہندہ نہیں ہوا ہے نامعتبر ہے ورنہ معتبر ہے واللہ اعلم بالصواب۔

کتبہ محمد عبد اللہ (مدرسہ احمد یہ (1298ھ)  سید محمد نذیر حسین۔


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (4843)صحیح مسلم رقم الحدیث (1419)

[2] ۔مسند احمد سنن الدارمی (2/185) سنن ابی داؤد رقم الحدیث (2083)سنن الترمذی رقم الحدیث (1102)سنن ابن ماجہ رقم الحدیث (1879)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب النکاح ،صفحہ:468

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ