1۔کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس میں کہ یہ جو کتب عقائد مثل عقیدہ صابونیہ وعقیدہ واسطیہ وانتقاد رجیح وغیرہا میں مندرج ہے کہ افضل اس اُمت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں،پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ امر شرعی ہے یا غیر شرعی ہے؟برتقدیر ثانی یہ کہنا جائز ہے یا نہیں کہ حضرت علی افضل ہیں حضرت ابوبکر وعمررضوان اللہ عنھم اجمعین سے اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے؟
سوال۔2۔جس شخص کا اگر یہ مقولہ ہو کہ اگر کوئی علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل کہے تو اس کوبھی سچا دین دار جانتا ہوں اور اس ترتیب کو کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ افضل ہیں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے غیرشرعی جانتا ہوں،ایساشخص کیساہے؟مخالف عقیدہ سلف کے ہے یا موافق اور سلف اہل سنت وعلمائے محدثین کا اس میں کیا عقیدہ تھا؟
سوال۔3۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کیوں لڑیں:آیا بوجہ خلافت کے یا بجہت طلب قاتلان عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے؟برتقدیر ثانی،اہل جمل کاقتال حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بحکم یا رضا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے تھا یادرمیان میں مفسدوں نے فسادڈال دیا تھا؟برتقدیر ثانی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر اطلاق باغیہ کا کرنا اس وقت میں صحیح تھا یا صحیح نہیں تھا اور سلف کااس میں کیا عقیدہ ہے؟
1۔یہ جو کتب عقائد میں مندرج ہے کہ افضل اس امت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں،پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ امر شرعی ہے اور دلیل اس پر حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے:
"ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں بعض کو بعض پر فضیلت دیتے تھے،ہم کہتے تھے ابو بکر سب سے افضل ہیں،ان کے بعد عمر،پھر عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔
اور حدیث حکماً مرفوع ہے،جیساکہ علم اصول سے معمولی تعلق رکھنے والے پر بھی مخفی نہیں ہے۔طبرانی[2] کی روایت میں ہے:
یہاں سے صراحتاً تقریر نبوی سمجھی جاتی ہے۔
جواب۔2۔قائل مقولہ مذکورہ کا عقیدہ جمہور سلف وعلمائے محدثین کے مخالف ہے۔
جواب۔3۔جنگ حضر ت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بجہت طلب قصاص عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تھی،مفسدوں نے درمیان میں فساد ڈال دیا تھا،اس لیے باغیہ کا اطلاق حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر صحیح نہیں ہے،سلف کا اس بارے میں یہی عقیدہ ہے۔والتفصیل الی کتب العقائد۔واللہ اعلم۔
کتبہ:محمد بشیر 1294عفی عنہ۔الجواب صحیح:کتبہ محمد بن عبدالعزیز القاضی فی بھوپال ۔شیخ محمد عفی عنہ۔
جواب۔1۔فی الواقع افضل اس امت کے بعد حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں،پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر حضر ت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور یہ امر شرعی ہے اوراس پر ایک دلیل حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث ہے:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر وعمر وعثمان رضوان اللہ عنھم اجمعین اُحد پہاڑ پر چڑھے ہوئے تھے تو پہاڑ کانپنے لگا تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے اُحد ! ٹھہر جا،تیرے اوپر نبی اور صدیق اور دوشہید ہیں۔"
وجہ دلالت اس حدیث کی اس امر پر یہ ہے کہ افضل ناس مطلقاً نبی ہوتے ہیں،پھر صدیق ،پھر شہید ،جیسا کہ آیت کریمہ:
"یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا نبیوں،صدیقوں ،شہیدوں اور صالحین میں سے۔"
اس پر دال ہے اور ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور عمر اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید۔
جواب۔2۔ایسا شخص مخالف ہے عقیدہ سلف صالحین وائمہ محدثین ومجتہدین کے۔
جواب۔3۔جنگ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بوجہ طلب قصاص قاتلان حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تھی،مفسدوں نے بیچ میں فساد ڈال دیا تھا۔اس لیے اطلاق باغیہ کا ان پر صحیح نہیں ہے،سلف صالحین کا اس میں یہی عقیدہ ہے۔
نمقه محمد عبدالله غازی پوری(مدرس چشمہ رحمت) الجواب صحیح وخلافہ قبیح العاجز سید محمد نزیر حسین عفی عنہ بقلم خود۔
یہ جواب صحیح ہے ۔شریف حسین ۔یہ جواب صحیح ہے ۔غلام اکبر خاں
المجیب مصیب۔تلطف حسین عفی عنہ۔اصاب من اجاب۔محمد عبدالرحمان۔
الجواب صحیح۔ابو نصر عبداللہ فضل حسین مظفر پوری۔عبدالرحیم۔
للہ در المجیب فانہ فیما قال مصیب۔ابو محمد ابراہیم
نعم الجواب وھو الصواب۔محمد ادریس۔الجواب صحیح۔محمد اسماعیل۔
اچھا جواب لکھا ہے عبدالعزیز مظفر پوری۔اصاب من اجاب واللہ اعلم بالصواب۔نظیر حسین آروی۔
[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(3455)
[2] ۔:مجمع الزوائد"(٩/٤٩) میں لکھا ہے:رواه الطبراني في الكبير والاوسط بنحوه باختصار الا انه قال:ابو بكر وعمر وعثمان رضي الله عنه ثم استقر الناس فبلغ رسول الله صلي الله عليه وسلم فلا ينكره علينا وابو يعلي بنحوه الطبراني في الكبير ورجاله وثقوا وفيهم خلاف"انتهي
"طبرانی نے اوسط اور کبیر میں اس حدیث کو بیان کیا ہے کہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنھم اجمعین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں افضلیت میں حضر ت ابو بکر اور عمر اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کانام لیا کرتے تھے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس بات کا علم تھا،لیکن آپ نے منع نہیں کیا۔ابو یعلیٰ نے بھی اسے بیان کیا ہے اور اس کے رجال کی توثیق کی گئی ہے اور ان میں اختلاف بھی ہے۔:"(ابو سعید محمد شرف الدین عفی عنہ)
[3] ۔المعجم الکبیر(12/285)
[4] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(3472)