سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(103) تشہد میں انگلی کو حرکت کس وقت دیں؟

  • 22536
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 1074

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تشہد میں انگلی کو حرکت دینے کے بارے میں دو طرح کی احادیث آتی ہیں ایک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انگلی کو حرکت دیتے تھے۔ دوسری میں نہیں دیتے تھے۔ ان احادیث کی وضاحت کریں اور یہ بھی بتلائیں کہ تشہد میں انگلی کو حرکت کس وقت دینی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تشہد میں سبابہ انگلی کو حرکت دینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ثابتہ ہے جیسا کہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ لفظ ہیں۔

" ثم رفع إصبعه فرأيته يحركها يدعو بها "

کہ میں نے دیکھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کو اٹھایا پھر اس کو حرکت دیتے رہے اور دعا کرتے رہے۔

مولوی سلام اللہ حنفی شرح موطا میں لکھتے ہیں:

" وفيه تحريكها دائما إذ الدعاء بعد التشهد "

کہ اس حدیث میں ہے کہ انگلی کو تشہد میں ہمیشہ حرکت دیتے رہنا ہے کیونکہ دعا تشہد کے بعد ہوتی ہے۔ علامہ ناصر الدین البانی فرماتے ہیں:

" ففيه دليل على أن السنة أن يستمر في الإشارة وفي تحريكها إلى السلام ؛ لأن الدعاء قبله "

اس حدیث میں دلیل ہے کہ سنت طریقہ یہ ہے کہ انگلی کا اشارہ اور حرکت سلام تک جاری رہے کیونکہ دعا سلام سے متصل ہے۔

اس کے علاوہ صرف ایک مرتبہ انگلی اٹھا کر رکھ دینا اشھد ان لا الہ الا اللہ پر اٹھانا، اس کے بارے میں صحیح احادیث سے کوئی دلیل نہیں ملتی جبکہ یہ عمل مذکورہ صحیح حدیث کے منافی ہے۔

جس روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں انگلی کو حرکت نہیں دیتے تھے وہ حدیث بھی ضعیف ہے۔

کیونکہ اس میں محمد بن عجلان عامر بن عبداللہ بن الزبیر سے بیان کرتا ہے اور محمد بن عجلان متکلم فیہ راوی ہے اس کے علاوہ چار ثقہ راویوں نے عامر بن عبداللہ سے اسی روایت کو بیان کیا ہے کہ لیکن اس میں لا يحركها کا لفظ نہیں ہے۔ معلوم ہوا یہ لفظ شاذ ہے امام مسلم نے بھی محمد بن عجلان کے طریق سے اسی روایت کو ذکر کیا ہے اس میں بھی لا يحركها کا لفظ نہیں ہے۔

جبکہ اس کے مقابلہ میں وائل بن حجر والی روایت کو ابن الملقن، ابن القیم، امام نووی کے علاوہ ناصر الدین البانی نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔

صرف الہدایہ فی تخریج احادیث البدایہ کے مولف نے اس حدیث کو شاذ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ " يحركها " والے لفظ صرف زائدہ بن قدامہ ابو عاصم سے بیان کرتا ہے۔ زائدہ کے علاوہ عاصم کے دوسرے شاگرد یشیر یبدہ کا لفظ ذکر کرتے ہیں۔

لیکن یہ بات تحقیق اور انصاف سے عاری ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ سب محدثین نے اس حدیث کی صحت کو تسلیم کیا ہے جیسا کہ معلوم ہو چکا ہے دوسری بات یہ ہے کہ اشارہ والی احادیث کے ثبوت سے حرکت دینے کی نفی نہیں ہوتی۔

مثال کے طور پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے اور صحابہ پیچھے کھڑے تھے۔ فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ أَنْ اجْلِسُوا ان کی طرف اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ۔ (متفق علیہ)

اس حدیث سے عقل مند آدمی یہ سمجھے گا کہ آپ کا یہ اشارہ صرف ہاتھ کو اٹھا دینا نہیں تھا جیسا کہ سلام کے جواب میں کرتے تھے۔

بلکہ یہ اشارہ ایسا تھا جس سے سمجھ آتی تھی کہ آپ بیٹھنے کا حکم دے رہے ہیں۔ یہ اشارہ حرکت کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔

اس مثال سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اشارہ والی احادیث کو تحریک والی احادیث کے مخالف قرار دینا درست نہیں ہے۔

اسی طرح عبداللہ بن عمر والی روایت کہ یہ انگلی شیطان کے لئے لوہے سے بھی زیادہ سخت ہے۔

اس حدیث کو حرکت نہ دینے کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ اس میں حرکت نہ دینے کی صراحت موجود ہی نہیں ہے جبکہ حرکت دینا وائل بن حجر کی حدیث سے ثابت ہو چکا ہے۔

اگر اس کو تسلیم کر لیں کہ اس میں حرکت نہ دینے کی صراحت ہے تو پھر صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ دونوں امر جائز ہیں جیسا کہ علامہ صنعانی نے سبل السلام میں اسے ترجیح دی ہے۔

لیکن پہلی بات زیادہ پختہ ہے کیونکہ وائل بن حجر ایک خاص اہتمام کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ بیان کر رہے ہیں اور خاص کو تشہد کی حالت کا اور تشہد میں ایسی چیزیں انہوں نے بیان کی ہیں جو کسی نے بھی بیان نہیں کیں اس لئے ان کی روایت کو ترجیح ہو گی۔ واللہ اعلم

زیادہ تفصیل کے لئے علامہ ناصر الدین البانی کی کتاب "تمام المنۃ" کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب الصلوٰۃ،صفحہ:147

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ