سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(89) مسجد میں ستونوں کے درمیان صف بنانا

  • 21854
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2623

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اکثر مساجد میں ستون ہوتے ہیں ۔تو کیا ستونوں کے درمیان صف بنائی جا سکتی ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرہ بن ایاس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں۔

"كُنَّا نُنْهَى أَنْ نَصُفَّ بَيْنَ السَّوَارِي عَلَى عَهْدِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .... بَيْنَ السَّوَارِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنُطْرَدُ عَنْهَا طَرْدًا"

’’ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دور مبارک میں ستونوں کے درمیان صف بنانے سے منع کیا جاتا اور ہمیں پیچھے ہٹا دیا جاتا ۔‘‘(الصحیحہ:335)

یہ حدیث ستونوں کے درمیان صف نہ بنانے کی صریح دلیل ہے۔ لہٰذا آگے یا پیچھے لازمی ہے سوائے کسی مجبوری کے۔

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ارشاد فرمایا:

"لا تصفُّوابَيْنَ السَّوَارِي"

’’تم ستونوں کے درمیان صف نہ بناؤ۔‘‘(المدونہ1/106۔بیہقی 3/104)

امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔

’’یہ ممانعت اس لیے کہ ستون صف کے ملانے جوڑنے میں رکاوٹ بنتا ہے۔‘‘

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔

’’امام کے لیے دو ستونوں کے درمیان کھڑا ہونا مکروہ نہیں۔ مقتدیوں کے لیے مکروہ ہے۔ اس لیے کہ ستون کی صفوں کو منقطع کر دیتا ہے۔

ابن مسعود ابراہیم نخعی  رحمۃ اللہ علیہ نے اسے مکروہ قرار دیا ہے۔خذیفہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بھی یہ مروی ہے۔

ابن سیرین  رحمۃ اللہ علیہ  مالک رحمۃ اللہ علیہ  اہل الرائے  رحمۃ اللہ علیہ اور ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہ  نے اس لیے اس کی رخصت دی ہے کہ اس کے منع کی کوئی دلیل نہیں۔

(امام ابن مکرامہ فرماتے ہیں)ہماری دلیل قرہ بن ایاس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث ہے۔اور اس کے منع کی وجہ ہے کہ اس سے صف منقطع ہو جاتی ہے۔(ہاں) اگر صف ہی دو ستونوں کے درمیان چھوٹی سی ہو تو کوئی مسئلہ نہیں اس لیے کہ اس سے صف نہیں ٹوٹتی ۔"فتح الباری 1/477"میں لکھا ہے:

’’امام الطبری رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں ۔ایک جماعت نے ستون کے درمیان صف بنانے کی ممانعت کی۔ حدیث کی وجہ سے۔ ناپسند کیا ہے اور اس کی وجہ تنگی نہ ہونا ہے(یعنی اور جگہ موجود ہے)اور اس کی حکمت یا توصف کے انقطاع ہے یا جوتے رکھنے کی جگہ ہے۔

امام قرطبی  رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:اس کی کراہت کا ایک سبب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ مومن جنوں کے نماز ادا کرنے کی جگہ ہے۔‘‘

قلت:ایسا بڑا منبر جس کے بہت سے درجے ہوتے ہیں کہ وہ پہلی صف کو بسااوقات دوسری صف کو بھی منقطع کر دیتا ہے کا بھی یہ حکم ہے ۔امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ  نے ارشاد فرمایا:

"منبر صف کے کچھ حصے کو منقطع کردیتا ہے۔ خصوصاً منبر کے سامنے پہلی صف دونوں اطراف سے منقطع ہوتی ہے (یعنی درمیان میں منبر آنے سے صف ٹوٹ جاتی ہے)

امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔

پہلی صف وہ ہوتی ہے اور اس پر بیٹھ کر کوئی بھی خطیب کے سامنے آکر اس کا خطبہ سنتا ہے۔" (الاحیاء2/139) یعنی امام ثوری رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک مقطوع صف صفوں میں شمار ہی نہیں ہوتی)

قلت:منبر صف اس وقت  بھی کاٹنا ہے جب وہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے منبر کے مخالف ہو۔ اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے منبر کے تین درجے تھے۔ ایسا منبر صف کو منقطع نہیں کرتا۔ اس لیے کہ امام سب سے نچلے درجہ کے برابر کھڑا ہو جاتا ہے۔

منبر کے معاملے میں سنت کی مخالف کی نحوست سے حدیث میں وارد نہیں کا ارتکاب ہوتا ہے۔

اسی طرح بعض مساجد میں (قالین یا چٹائی کی)صفیں اس انداز سے بچھا ئی جاتی ہیں کہ صف منقطع ہو جاتی ہے اور اس ممنوع کام پر امام مسجد یا کوئی نماز توجہ نہیں دیتا اس کی پہلی وجہ تو لوگوں کا دین سے دوری اور دوسری وجہ شارع کے منع کردہ اور ناپسندیدہ کاموں سے بچنے میں لا پرواہی ہے۔

ہر وہ شخص جو مسجد میں صف منقطع کرنے والے منبر یا(قالین چٹائی کی) صفیں لگانے کی تگ دور کرتے ہیں۔ اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ یہ بات جان لے کہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بددعا :

"وَمَنْ قَطَعَ صَفًّا قَطَعَهُ اللَّهُ "

’’اور جس نے صف کو توڑا اللہ اسے توڑے گا۔‘‘(صحیح ابو داؤد:672)(نظم الفرائد :1/361۔360)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

نماز کا بیان صفحہ:188

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ