سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(73) حالت حیض میں طلاق

  • 21413
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2268

سوال

(73) حالت حیض میں طلاق
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان دین متین حفظہم اللہ تعالیٰ اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ایک ماہ کے وقفے سے تین طلاقیں دیں بعد میں اسے پتہ چلا کہ طلاق اول چونکہ ایام حیض میں دی گئی تھی واقع نہیں ہوئی اور وہ رجوع کا حق مع طلاق ثالث بجا طور پر رکھتا ہے اور اس رجوع میں نکاح جدید کی ضرورت ہے یا نہیں تیسری طلاق 5-1-2002 کو دی تھی مستفتی کو یہ سارا مسئلہ عدم علم شرعی کی وجہ سے پیش آیا تھا۔ بینوا توجروا۔ (محمد رفیق مغل ڈھوک الٰہی بخش عمر روڈ دکان آر ایم ٹیلر نزد پیراڈائز جنرل سٹور راولپنڈی


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کتاب و سنت کی نصوص صحیحہ صریحہ کی رو سے حالت حیض میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے اور جمہور ائمہ محدثین رحمھم اللہ اجمعین کا یہی قول ہے اس کے دلائل درج ذیل ہیں: (1) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ کو طلاق دی اور وہ حالت حیض میں تھی عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا " مُرْه فليراجعها " اسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کرے پھر اسے اس حالت میں رکھے یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائے پھر حائضہ ہو پھر پاک ہو جائے پھر اگر چاہے تو اس کے بعد روک لے اور اگر چاہے تو طلاق دے دے چھونے سے پہلے یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔

(صحیح البخاری (5251) صحیح مسلم، مؤطا، مسند شافعی (1630) ابوداؤد (2179،218) ابن ماجہ (2019) نسائی، دارمی، ابن الجارود (734) دارقطنی، بیہقی 7/323،324) مسند طیالسی (1853) مسند احمد 2/6،54،64،102، 124، مسند عمر لابن النجاد قلمی 118/1، 120/2)

جمہور محدثین فقہاء کے ہاں محل استدلال اس حدیث میں " فليراجعها " کے الفاظ ہیں کہ آپ نے رجوع کا حکم دیا اگر طلاق واقع نہ ہوتی تو رجوع نہ ہوتا بعض لوگوں نے یہاں رجوع کا لغوی معنی مراد لیا ہے کہ اسے پہلی حالت میں لوٹائے نہ کہ اس کی طلاق شمار کی جائے یہ بات دو لحاظ سے غلط ہے۔

1۔ لفظ کو شرعی حقیقت پر محمول کرنا اسے لغوی حقیقت پر محمول کرنے پر مقدم ہے جیسا کہ اصول فقہ کی کتب میں مرقوم ہے۔

2۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جنہوں نے طلاق دی تھی انہوں نے خود اس کی تصریح کی ہے کہ یہ طلاق شمار کی گئی ہے لہذا اسے لغوی معنیٰ پر محمول کرنا بلادلیل درست نہیں ہے۔

(2)۔ امام ابوداؤد اور الطیالسی رحمۃ اللہ علیہ نے ابن ابی الذئب از نافع از ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ:

" انه طلق امرأته وهى حائض فاتى عمر النبى صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له فجعلها واحدة "

"ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ کو طلاق دی اور وہ حائضہ تھی تو عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے یہ سارا معاملہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک طلاق قرار دیا۔

(مسند طیالسی (68) دارقطنی (3867) بیہقی 7/326، مسند ابن وھب بحوالہ فتح الباری 9/353)

حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:

" هذا نص فى موضع الخلاف فيجب المصير اليه "

"یہ حدیث حائضہ عورت کی طلاق کے وقوع میں جو اختلاف ہے اس پر نص ہے اس کی طرف لوٹنا واجب ہے۔"

اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ جب عورت کو حالت حیض میں طلاق دی جائے تو وہ ایک طلاق شمار ہوتی ہے اور یہ صحیح حدیث اس طلاق کے وقوع پر نص کی حیثیت رکھتی ہے۔

(3) امام نسائی نے کثیر بن عبید از محمد بن حرب از زبیدی روایت کیا ہے کہ امام زھری رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ عورت کو طلاق کس طرح دی جاتی ہے؟ تو انہوں نے کہا مجھے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے خبر دی ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

"طَلَّقْتُ امْرَأَتِي فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهِيَ حَائِضٌ ‏.‏ فَذَكَرَ ذَلِكَ عُمَرُ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَتَغَيَّظَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي ذَلِكَ فَقَالَ ‏ "‏ لِيُرَاجِعْهَا ثُمَّ يُمْسِكْهَا حَتَّى تَحِيضَ حَيْضَةً وَتَطْهُرَ فَإِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يُطَلِّقَهَا طَاهِرًا قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا فَذَاكَ الطَّلاَقُ لِلْعِدَّةِ كَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ‏"‏ ‏.‏ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ فَرَاجَعْتُهَا وَحَسِبْتُ لَهَا التَّطْلِيقَةَ الَّتِي طَلَّقْتُهَا"

"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اپنی اہلیہ کو طلاق دے دی اور وہ حالت حیض میں تھی تو عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں آ گئے آپ نے فرمایا وہ اس سے رجوع کرے پھر اس کو روکے رکھے یہاں تک کہ اسے ایک ماھواری آ جائے اور وہ پاک صاف ہو جائے پھر اگر اس کے لیے ظاہر ہو کہ وہ اسے طلاق دینا چاہتا ہے تو طہارت کی حالت میں جماع سے پہلے طلاق دے یہ وہ طلاق ہے جو عدت کے لیے ہے جیسے اللہ عزوجل نے وحی نازل کی ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے اس سے رجوع کر لیا۔ اور جو طلاق میں نے اسے دی تھی وہ شمار کی۔"

(سنن النسائی، کتاب الطلاق، باب وقت الطلاق للعدۃ التی امر اللہ عزوجل ان یطلق لھا النساء (3391)

اور اس حدیث کے دیگر طرق میں یہ الفاظ بھی ہیں:

" وكان عبدالله طلقها تطليقة فحسبت من طلاقها وراجعها عبدالله كما أمره "

"عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ کو ایک طلاق دی وہ اس کی طلاق شمار کی گئی اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے رجوع کر لیا جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا۔"

(مسند احمد 10/289 (6141) بیہقی 7/324 دارقطنی (3851) مسلم (4/1471) المسند المستخرج لابی نعیم 4/149) یہ صحیح حدیث واضح کرتی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی طلاق شمار کی گئی تھی۔

(4) یونس بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:

" قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ رَجُلٌ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ فَقَالَ تَعْرِفُ ابْنَ عُمَرَ إِنَّ ابْنَ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ فَأَتَى عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ فَأَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا فَإِذَا طَهُرَتْ فَأَرَادَ أَنْ يُطَلِّقَهَا فَلْيُطَلِّقْهَا قُلْتُ فَهَلْ عَدَّ ذَلِكَ طَلاَقًا قَالَ أَرَأَيْتَ إِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ"

"میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا ایک آدمی نے اپنی بیوی کو اس وقت طلاق دی جب وہ حائضہ تھی (اس کا کیا حکم ہے) اس پر انہوں نے کہا تم ابن عمر رضی اللہ عنہ کو پہچانتے ہو؟ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو اس وقت طلاق دی جب وہ حالت حیض میں تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے یہ بات ذکر کی آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ اس سے رجوع کرے پھر جب وہ حیض سے پاک ہو جائے اس وقت اگر ابن عمر طلاق دینا چاہے تو اسے طلاق دے دے۔ میں نے کہا کیا اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق شمار کیا؟ تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ مجھے بتائیں اگر کوئی عاجز ہو اور حماقت کا ثبوت دے تو اس کی عاجزی اور حماقت کی وجہ سے وہ فرض ساقط ہو گا؟ ہرگز نہیں مطلب یہ کہ اس کا طلاق کا شمار ہو گا۔

(صحیح البخاری (5257، 5333) صحیح مسلم 10-6/1471، مسند احمد 9/67 (5025) سنن سعید بن منصور (1549) ابوداؤد (2184) ترمذی (1175) نسائی (3399،3400) ابن ماجہ (2022) المسند المستخرج لابی نعیم 4/150-151 طحاوی 3/52 دارقطنی (3861) بیہقی 7/325)

یونس بن جبیر کہتے ہیں: میں نے ابن عمر سے کہا:

" افتحتسب بها؟ فقال ما يمنعه "

"کیا تم نے اسے طلاق شمار کیا تو انہوں نے کہا اس سے کون سی چیز مانع ہے؟"(مسلم 10/1471، بیہقی 7/326)

(5) انس بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:

" سمعت ابن عمر رضى الله عنه قال : طلق ابن عمر امرأته وهي حائض ، فذكر ذلك عمر للنبي صلى الله عليه وسلم فقال : ليراجعها . قلت : تحتسب ؟ قال : فمه "

"میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے کہا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو طلاق دی وہ حالت حیض میں تھی عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اس سے رجوع کرے۔ میں نے کہا کیا یہ طلاق سمجھی جائے گی؟ تو انہوں نے کہا کہ چپ رہ پھر کیا سمجھی جائے گی۔

(صحیح البخاری، کتاب الطلاق، باب اذا طلقت الحائض تعتد بذلک الطلاق (5252) صحیح مسلم 12-11/1471) ابن الجارود (735) طحاوی 3/52 دارقطنی (3848) بیہقی 7/326، مسند احمد 9/317 (5434) (5489)

صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں:

" قُلْتُ : فَاعْتَدَّتْ بِتِلْكَ التَّطْلِيقَةِ الَّتِي طُلِّقَتْ وَهِيَ حَائِضٌ , قَالَ : مَالِي لا أَعْتَدُّ بِهَا وَإِنْ كُنْتَ عَجَزْتَ وَاسْتَحْمَقْتَ " فقال عمر يا رسول الله افتحتسب تلك التطليقة؟ قال نعم "

انس بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں میں نے کہا کیا تم اسے جو حالت حیض میں طلاق دی تھی شمار کی تھی۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا مجھے کیا ہو گیا ہے کہ میں اسے شمار نہ کروں؟ اگر میں عاجز آ جاؤں اور حماقت کا ثبوت دوں تو کیا یہ فریضہ لاگو نہ ہو گا۔

سنن دارقطنی اور بیہقی کی روایت میں کہ:

" فقال عمر يا رسول الله افتحتسب تلك التطليقة؟ قال نعم "

عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول کیا آپ یہ طلاق شمار کریں گے آپ نے فرمایا: ہاں۔

(6) سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: " حسبت على بتطليقة " مجھ پر وہ طلاق شمار کی گئی۔

(صحیح البخاری (5253) تغلیق التعلیق 4/434، المسند المستخرج لابی نعیم 9/352، ارواء الغلیل للشیخ الالبانی رحمۃ اللہ علیہ 7/128)

(7) امام عامر شعبی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:

" طلق ابن عمر امرأته وهى حائض واحدة فانطلق عمر الى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبره اذا طهرت ان يراجعها ثم يستقبل الطلاق فى عدتها ثم تحتسب بالتطليقة التى طلق اول مرة "

ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ کو دوران حیض ایک طلاق دی عمر رضی اللہ عنہ نے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کر دی آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ رجوع کرلے جب وہ حیض سے پاک ہو جائے تو اس کی عدت کی ابتداء میں اسے طلاق دے دے پھر جو پہلی طلاق دی تھی اسے شمار کر لے۔ (بیہقی 7/326 واللفظ لہ دارقطنی (3873)

علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ:

" هذا اسناد صحيح رجاله ثقات على شرط الشيخين "

یہ سند صحیح ہے اس کے رجال بخاری و مسلم کی شرط پر ثقہ و قابل اعتماد ہیں۔(ارواء الغلیل 7/131)

(8) امام دارقطنی نے ابوبکر از عیاش بن محمد از ابو عاصم از ابن جریج از نافع از ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کی ہے:

" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال "هى واحدة""

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ایک طلاق ہے۔ (دارقطنی: 3870)

اس کے تمام راوی ثقہ ہیں صرف ابن جریج کی تدلیس کا خدشہ ہے کیونکہ انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔

(9) اسی طرح امام دارقطنی نے ابوبکر از محمد بن علی السرخسی از علی بن عاصم از خالد و ھشام از محمد از جابر الحذاء روایت کی ہے کہ:

" قلت لابن عمر رجل طلق حائضا؟ أتعرف ابن عمر؟ فإنه طلق حائضا فسأل عمر النبى صلى الله عليه وسلم فقال "قل له ليراجعها فاذا حاضت ثم طهرت فان شاء طلق وإن شاء امسك قلت: اعتددت بتلك التطليقة , قال: نعم""

"میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا ایک آدمی نے دوران حیض عورت کو طلاق دے دی اس کا کیا حکم ہے؟ تو انہوں نے کہا کیا تم ابن عمر رضی اللہ عنہ کو پہچانتے ہو اس نے بھی اپنی اہلیہ کو دوران حیض طلاق دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا آپ نے فرمایا: اسے کہو کہ وہ اس سے رجوع کرے پھر جب وہ حیض سے پاک صاف ہو جائے تو چاہے تو طلاق دے ڈالے چاہے تو رکھ لے میں نے کیا کہا تم نے یہ طلاق شمار کی تھی تو انہوں نے کہا ہاں۔"(دارقطنی: 3871)

تنبیہ

(1) اصل دارقطنی میں خالد الحذاء راوی ہے جب کہ شیخ البانی فرماتے ہیں یہ جابر الحذاء ہے اور یہ تصحیح ثقات لابن حسان اور الانساب للسمعانی سے کی گئی ہے اور یہ اس سند کے علاوہ معروف نہیں۔

(2) اس کی سند میں علی بن عاصم الواسطی ہے جسے کئی ایک ائمہ محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔

(الکاشف للذھبی وغیرہ)

مذکورہ بالا احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ان کے غلام نافع بیٹے سالم، یونس بن جبیر، انس بن سیرین، سعید بن جبیر، عامر شعبی اور بروایت ضعیفہ جابر الحذاء رحمھم اللہ اجمعین نے دوران حیض دی گئی طلاق کو شمار کرنا بیان کیا ہے بلکہ بطریق نافع اور عامر شعبی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات مرفوعا پہنچتی ہے کہ آپ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی اس طلاق کو شمار کیا اور ایک طلاق قرار دیا اس صحیح و صریح نص کے مقابلے میں کوئی بھی ایسی صحیح حدیث نہیں جو اس کا معارضہ کر سکے لہذا یہی مؤقف قوی اور دلائل صحیحہ صریحہ کے اعتبار سے درست ہے اب ذیل میں حیض کی طلاق کو شمار نہ کرنے والوں کے دلائل کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔

دلیل نمبر 1

ابوداؤد نے احمد بن صالح از عبدالرزاق از ابن جریج از ابو الزبیر روایت بیان کی ہے کہ عبدالرحمٰن بن ایمن مولیٰ عروہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کر رہے تھے اور ابو الزبیر سن رہے تھے انہوں نے کہا "جو آدمی حالت حیض میں عورت کو طلاق دے دیتا ہے اس کے متعلق آپ کیا سمجھتے ہیں؟ کہنے لگے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اپنی اہلیہ کو دوران حیض طلاق دے دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا اور کہا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے دوران حیض اہلیہ کو طلاق دے دی ہے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:

" فردها على ولم يرها شيئا "

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی عورت کو مجھ پر لوٹا دیا اور اس طلاق کو درست نہ سمجھا۔

اور فرمایا: جب عورت حیض سے پاک ہو جائے پھر طلاق دے یا روک رکھے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءت کی "اے نبی جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کی ابتداء میں طلاق دو۔"

(ابوداؤد (2185) المسند المستخرج (3471) 4/152 بیہقی 7/327 مسند الشافعی 2/33'34، مسند احمد 9/370 (5524) عبدالرزاق (11003) 6/309) علاوہ ازیں یہی حدیث صحیح مسلم 14/1471، سنن النسائی (3392) تفسیر النسائی (621) 2/441، مختصر المنتقی لابن الجارود (733) شرح السنہ 9/203 (2352) طحاوی 3/51 میں بھی موجود ہے لیکن ان کتب میں " ولم يرها شيئا " کے الفاظ نہیں ہیں۔

وضاحت

(1) یہ روایت اس بات میں صریح نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طلاق کو شمار کیا جب کہ اوپر ذکر کردہ احادیث میں اس بات کی تصریح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک طلاق شمار کیا۔

(2) خود عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جنہوں نے ایام حیض میں طلاق دی تھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ طلاق شمار کی گئی اور ثقات ائمہ محدثین نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بات نقل کی ہے۔

(3) امام ابوداؤد اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث یونس بن جبیر، انس بن سیرین، سعید بن جبیر، زید بن اسلم، ابو الزبیر اور منصور عن ابی وائل نے روایت کی ہے۔

سب کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو رجوع کا حکم دیا یہاں تک کہ وہ حالت طہر میں آ جائے۔ پھر اگر چاہے تو طلاق دے دے اور اگر چاہے تو روک لے۔

" والاحاديث كلها على خلاف ما قال ابو الزبير "

یہ تمام احادیث ابو الزبیر کے قول کے خلاف ہیں۔

(4) امام ابن عبدالبر، امام خطابی اور امام شافعی رحمھم اللہ نے " لم يرها شيئا " کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اسے کوئی مستقیم چیز نہیں سمجھا اس لیے کہ یہ سنت کے مطابق واقع نہیں ہوئی۔ اسے درست کام نہیں سمجھا بلکہ ایسے آدمی کو حکم دیا جائے گا کہ وہ اس پر قائم نہ رہے بلکہ اپنی اہلیہ سے رجوع کر لے بلکہ یہ اسی طرح ہے کہ جب کوئی آدمی کسی کام میں غلطی اور خطا کا مرتکب ہو تو اسے کہا جائے: " لم يصنع شيئا " اس نے کچھ نہیں کیا یعنی اس نے درست کام نہیں کیا۔

(فتح الباری 9/354 تعلیق علی مسند احمد 9/371،372)

لہذا یہ حائضہ کی طلاق کے وقوع میں صریح نص نہیں ہے۔

(5) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری 9/354 میں لکھا ہے کہ "عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا جو یہ فرمان ہے کہ " انها حسبت على بتطليقة " کہ طلاق مجھ پر شمار کی گئی اگرچہ اس میں یہ تصریح نہیں ہے کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح مرفوع کی گئی ہے لیکن یہ بات مسلم ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ طلاق شمار کی گئی ہے۔

تو ان کا یہ قول " لم يرها شيئا " کے ساتھ اس معنی میں کیسے جمع ہو سکتا ہے جو فریق مخالف نے لیا ہے کہ طلاق شمار نہیں ہوتی اس لیے کہ " لم يرها شيئا " میں ضمیر اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹائی جائے (کہ آپ نے اس طلاق کو شمار نہیں کیا) تو یہ بات لازم آئے گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کو بالخصوص اس قصہ میں جو حکم دیا تھا انہوں نے آپ کی مخالفت کی اس لیے کہ انہوں نے کہا ہے کہ یہ طلاق شمار کی گئی اور اس طلاق کا شمار کیا جانا " لم يرها شيئا " کے خلاف ہے اور یہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے کیسے گمان کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی جبکہ انہوں نے اور ان کے باپ عمر رضی اللہ عنہ نے اہتمام کے ساتھ اس مسئلہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تاکہ وہ آپ کے حکم کے مطابق عمل کر گزریں اور اگر " لم يرها شيئا " میں ضمیر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی طرف لوٹائی جائے (یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس طلاق کو کچھ نہ سمجھا) تو اس ایک ہی قصہ میں تناقض لازم آئے گا لہذا ترجیح کی حاجت پڑے گی اور بلاشک و شبہ وہ بات جسے اکثر اور احفظ راویوں نے بیان کیا ہے جمع کے متعذر ہونے کی صورت میں لینا جمہور کے ہاں زیادہ اولی و بہتر ہے انتہی۔

بعض لوگوں نے یہاں قیاس سے کام لیا ہے جیسا کہ ابن قیم وغیرہ ہیں لیکن نص کے مقابلے میں قیاس فاسد الاعتبار ہے ملاحظہ ہو (فتح الباری 9/355)

(6) اصول ترجیح میں جس طرح اوثق و احفظ راویوں کی روایت کو ترجیح دی جاتی ہے اسی طرح مثبت کو نافی پر بھی ترجیح ہوتی ہے ابو الزبیر کی روایت میں بقول فریق مخالف نفی ہے جبکہ نافع، سالم، یونس بن جبیر، انس بن سیرین اور شعبی کی روایات میں اثبات ہے لہذا ان ثقات رواۃ کی روایت راجح ہو گی۔

(7) اسی طرح ابو الزبیر کی روایت میں احتمال ہے اور ثقات کی روایت میں تصریح ہے۔ تصریح والی روایت راجح ہو گی۔

اعتراض:

ابو الزبیر اس روایت میں منفرد نہیں بلکہ ابو الزبیر کی متابعات موجود ہیں۔

پہلی متابعت:

جیسا کہ سنن سعید بن منصور (1552) بطریق عبداللہ بن مالک عن ابن عمر مروی ہے کہ:

" أنه طلق امرأته وهى حائض فانطلق عمر الى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إن عبدالله طلق امرأته وهى حائض فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليس ذلك بشىء "

انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دی تو عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور کہا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ کو طلاق دے دی ہے اور وہ حالت حیض میں ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کوئی چیز نہیں۔

جواب:

(1) اس کی سند میں حدیج بن معاویہ ہیں جس کے بارے یحییٰ بن معین فرماتے ہیں: " ليس بشىء " یہ محض ہیچ ہے امام بخاری فرماتے ہیں: " يتكلمون فى بعض حديثه " محدثین اس کی بعض روایات میں کلام کرتے ہیں۔ امام نسائی نے کہا: ضعیف ہے ابن سعد کہتے ہیں " كان ضعيفا فى الحديث " یہ حدیث میں ضعیف ہے۔ امام ابوداؤد نے کہا زھیر رحمۃ اللہ علیہ حدیج کو پسند نہیں کرتے تھے۔ امام دارقطنی فرماتے ہیں: " غلب عليه الوهم " اس پر وھم غالب ہے۔ امام بزار نے کہا " سىء الحفظ " یعنی اس کا حافظہ بگڑ گیا تھا۔ (تھذیب 1/453'454)

اسی طرح ابو زرعہ رازی، اور ابن ماکولا نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔

(تحریر تقریب التھذیب 1/256)

اس کے برعکس اسے امام احمد اور ابو حاتم نے خیر و بھلائی پر قرار دیا ہے ابو حاتم کا کہنا ہے کہ:

" محله الصدق فى بعض حديثه وهم يكتب حديثه "

اس کا مقام صدوق ہے اس کی بعض روایتوں میں وھم ہے اور اس کی حدیث لکھی جائے گی یعنی متابعت میں اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حدیج بن معاویہ جمہور محدثین کے ہاں ضعیف ہے اور سوء حفظ کا مریض تھا اور کم روایات بیان کرنے کے باوجود کثیر الوھم بھی تھا اور کثیر الوھم جرح مفسر ہے۔

اس روایت میں حدیج بن معاویہ کے استاد ابو اسحاق السبیعی ہیں اور یہ مدلس راوی ہیں اور روایت عن عن کے ساتھ بیان کرتے ہیں انہوں نے اپنے استاد سے یہ روایت سننے کی صراحت نہیں کی اور مدلس کے بارے محدثین کا قاعدہ یہ کہ:

" من ثبت عند التدليس اذا كان عدلا ان لا يقبل منه إلا ما صرح فيه بالتحديث " (شرح نحبۃ الفکر ص 72 ط، بیروت)

جب عادل راوی سے تدلیس ثابت ہو جائے تو اس کی صرف وہی روایت قبول کی جائے گی جس میں اس نے تصریح بالسماع کی ہو گی۔ لہذا ان کی روایت معنعن ہونے کی وجہ سے مردود ہو گی۔

(3) ابو اسحاق السبیعی عمرو بن عبداللہ آخر عمر میں مختلط ہو گئے تھے۔

(نھایۃ الاغتباط ص 273 تا 279)

اور یہ بات ثابت نہیں کہ حدیج بن معاویہ نے ان سے اختلاط سے پہلا سنا ہو اختلاط والے راوی کے بارے میں اصول حدیث کا یہ قاعدہ ہے کہ جو اس نے اختلاط سے قبل روایت بیان کی ہو وہ قبول کی جائے گی اور جو حالت اختلاط میں بیان کی ہو یا جس کے بارے معلوم نہ ہو کہ اس نے اختلاط سے پہلے بیان کی ہے یا بعد میں وہ قبول نہیں ہو گی۔

(نھایۃ الاغتباط بمن روی من الرواۃ بالاختلاط ص 34)

(4) اسی طرح ابو اسحاق کے استاذ عبداللہ بن مالک الھمدانی کے حالات نامعلوم ہیں لہذا یہ روایت ان علل اربعہ کی وجہ سے ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔

نوٹ:

مکتبہ قدوسیہ کی مطبوعہ شرح صحیح بخاری 7/30 میں ابن مالک کی جگہ ابن مبارک غلطی سے چھپ گیا ہے۔

(5) یہ روایت دوران حیض دی گئی طلاق کے عدم وقوع کے بارے میں صریح نہیں بلکہ اس روایت کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے " ليس ذلك بشىء صواب " یعنی یہ طلاق کوئی درست چیز نہیں خلاف سنت ہے اس سے رجوع کر لینا چاہیے اور عورت جب حیض سے پاک ہو جائے تو اس طہر میں طلاق دے جس میں مجامعت نہ کی ہو۔ (دیکھیں بیہقی 7/327)

دوسری دلیل:

شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

" وأما دعوى أبى داود أن الأحاديث كلها على خلاف ما قال أبو الزبير فيرده طريق سعيد بن جبير التي قبله فإنه موافق لرواية أبي الزبير هذه فإنه قال : فرد النبي صلى الله عليه وسلم ذلك علي حتى طلقتها وهي طاهر " (ارواء الغلیل 7/129'130)

امام ابوداؤد کا جو دعویٰ ہے کہ تمام احادیث ابو الزبیر کے قول کے خلاف ہیں: ابوداؤد کے اس دعویٰ کو سعید بن جبیر کے طریق سے مروی روایت رد کرتی ہے وہ ابو الزبیر کی روایت کے موافق ہے اس میں ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اوپر اسے لوٹا دیا یہاں تک کہ میں نے اسے طلاق دی وہ حالت طہر میں تھی۔

ج: شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کی جس روایت کو ابو الزبیر کی روایت کا قوی شاھد ذکر کیا ہے وہ ابو الزبیر کی روایت کی موافقت نہیں کرتی اور نہ ہی اس سے یہ بات مفہوم ہوتی ہے کہ حالت حیض میں دی گئی طلاق کا وقوع نہیں ہوتا بلکہ دوران حیض دی گئی طلاق کے وقوع اور عدم وقوع کے بارے میں یہ روایت خاموش ہے جب کہ صحیح البخاری میں سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کے طریق سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں تصریح ہے کہ " حسبت على بتطليقة " یہ طلاق مجھ پر شمار کی گئی۔ یہ روایت نص صریح ہے اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کی جانب سے قطعی فیصلہ ہے کہ حالت حیض میں دی گئی طلاق شمار ہوتی ہے لہذا شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کا سعید بن جبیر کی مجمل روایت کو ابی الزبیر کی روایت کا قوی شاھد قرار دینا درست نہیں اور ان کا یہ وہم ہے کہ وہ اکیلے اس مسئلہ میں مصیب ہیں۔ بات وہی درست ہے جو امام ابوداؤد نے کہی ہے اور امام ابن عبدالبر، امام خطابی، امام شافعی وغیرھم نے جو مفہوم بیان کیا ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی حائضہ کی طلاق کے وقوع میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے ہم نوا ہیں انہوں نے اپنی صحیح میں یوں باب باندھا ہے:

" باب اذا طلقت الحائض تعتد بذلك الطلاق "

جب حائضہ کو طلاق دے دی جائے تو وہ طلاق شمار کی جائے گی۔

تیسری دلیل:

امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے یونس بن عبیداللہ از احمد بن عبداللہ بن عبدالرحیم از احمد بن خالد از محمد بن عبدالسلام الخشنی از محمد بن بشار از عبدالوھاب بن عبد المجید الثقفی از عبیداللہ بن عمر از نافع مولی ابن عمر از ابن عمر روایت کی ہے۔

" أنه قال فى الرجل يطلق امرأته وهى حائض قال ابن عمر لا يعتد لذلك " (المحلیٰ لابن حزم 10/163)

ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس آدمی کے متعلق کہا جو اپنی عورت کو دوران حیض طلاق دے دے: وہ اس کے لیے شمار نہ کرے۔

ج: یہ روایت فریق مخالف کے لیے دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول " لا يعتد لذلك " کا یہ مطلب نہیں کہ وہ دوران حیض دی گئی طلاق کو شمار نہ کرے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جس حیض میں طلاق دے چکا ہے اس حیض کو عدت میں شمار نہ کرے اور قاعدہ ہے کہ " ان الحديث يفسر بعضه بعضا " ایک حدیث دوسری کی تفسیر کرتی ہے امام ابن ابی شیبہ نے یہی روایت عبدالوھاب الثقفی از عبیداللہ بن عمر از نافع از ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کی ہے کہ "جو آدمی اپنی اہلیہ کو دوران حیض طلاق دے دے" " لا تعتد بتلك الحيضة " کہ اس حیض کو عدت میں شمار نہ کیا جائے۔

(المصنف لابن ابی شیبہ، کتاب الطلاق، باب 4 ما قالوا فی الرجل یطلق امراتہ وھی حائض 4/6 بتحقیق الاستاذ سعید اللحام)

اسی طرح امام ابو سعید ابن الاعرابی نے کتاب المعجم (1751) میں عباس الدوری از یحییٰ بن معین از عبدالوھاب الثقفی از عبیداللہ از نافع از ابن عمر روایت کی ہے کہ " إذا طلقها وهى حائض لم تعتد بتلك الحيضة " جب آدمی عورت کو دوران حیض طلاق دے تو اس حیض کو عدت میں شمار نہ کرے۔ عبدالوھاب الثقفی کے طریق سے مروی یہ روایات اس بات کی توضیح کر دیتی ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے قول کا مطلب یہی ہے کہ اس حیض کو عدت میں شمار نہ کرے یہ مطلب نہیں کہ وہ طلاق ہی شمار نہ کرے نیز اسی حدیث کے راوی عبیداللہ کا قول ہے:

" وكان تطليقه إياها فى الحيض واحدة غير أنه خالف السنة "

ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حالت حیض میں دی ہوئی ایک طلاق تھی مگر انہوں نے سنت کے خلاف دی تھی۔

چوتھی دلیل:

امام ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو لوگ دوران حیض طلاق کے عدم وقوع کے قائل ہیں وہ امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول سے دلیل لیتے ہیں کہ:

" اذا طلق الرجل امرأته وهى حائض لم يعتد بها فى قول ابن عمر "

جب آدمی اپنی اہلیہ کو طلاق دے اور وہ حالت حیض میں ہو تو ابن عمر کے قول کے مطابق اسے شمار نہ کیا جائے۔

ج: امام ابن عبد البر کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب وہ نہیں ہے جس کی طرف فریق مخالف گیا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عدت میں عورت اس حیض کو شمار نہ کرے اور یہ بات امام شعبی سے منصوص ہے کہ طلاق واقع ہو جائے گی اور اس حیض کو عدت میں شمار نہیں کیا جائے گا۔ (ملاحظہ ہو التمھید لابن عبد البر 5/66 فتح الباری 9/354)

دوران حیض طلاق کے عدم وقوع کے قائلین کے دلائل کا تجزیہ آپ نے دیکھ لیا ہے ان حضرات کے پاس کوئی صحیح صریح حدیث موجود نہیں ہے جس سے پتہ چلے کہ دوران حیض طلاق واقع نہیں ہوتی جب کہ جمہور ائمہ محدثین رحمھم اللہ کے ہاں دلائل کثیرہ موجود ہیں جو اس باب میں صریح نص کی حیثیت رکھتے ہیں لہذا دوران حیض دی گئی طلاق کا وقوع ہوتا ہے اور یہی مذھب صحیح اور قوی ہے۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الطلاق-صفحہ365

محدث فتویٰ

تبصرے