سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(73) کیا کسی صحابی کے کتے کا نام راشد تھا؟

  • 21326
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-12
  • مشاہدات : 956

سوال

(73) کیا کسی صحابی کے کتے کا نام راشد تھا؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سرفراز صفدر دیوبندی نے کہا ہے کہ"اگر کسی صحابی کا نام غلط ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بدل دیتے تھے دیہات سے ایک موٹا تازہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آیا۔اور اس کے ساتھ ایک کتا بھی تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے فرمایا کہ بھائی تیرانام کیا ہے؟ کہنے لگا میرا نام ظالم ہے اور میرے کتے کا نام راشد ہے۔ اور راشد کا معنی ہے ہدایت یافتہ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ تو بندہ ہوکےبھی ظالم ہے اور وہ کتاہو کے بھی راشد ہے اپنے علاقے میں جاکر لوگوں کو بتا دینا۔ منیب الطبع اور سلیم الطبع شیخ تھا کوئی قیل وقال نہیں کی کہنے لگا ۔حضرت ٹھیک ہے اور اگر اڑنا چاہتا تو کہہ سکتا تھاکہ حضرت میرا کوئی اور نام رکھ دوکتے کا نام تو میرا نہ رکھواور بعضے اڑ بھی جاتے تھے جیسے۔"(ذخیرۃ الجنان فہم القرآن ج3ص162۔163)

کیا یہ صحیح ہے کہ صحابی کے کتے کا نام راشد تھا؟ تحقیق کر کے جواب دیں۔جزاکم اللہ خیراً(احمد بن فضل مالک حسن زئی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سرفراز خان صفدر صاحب نے مذکورہ کتاب میں اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔ لیکن یہ روایت امام ابو نعیم الاصبہانی کی کتاب دلائل النبوۃ (1/35ح68)اور معرفۃ الصحابۃ (لابی نعیم ج2ص1120ح2814)میں درج ذیل سند کے ساتھ مطولاًو مختصراً موجود ہے۔

"حدثناه عمر بن محمد بن جعفر، ثنا إبراهيم بن السندي، ثنا النضر بن سلمة، ثنا محمد بن الحسن المخزومي، حدثني يحيى بن سليمان، عن حكيم بن عطاء الظفري، من بني سليم من ولد راشد بن عبد ربه، .....الخ"

اسے ابو نعیم کے حوالے سے حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  :(البدایہ والنہایہ،نسخہ محققہ 3/177۔178)

اور حافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ 1/495ت2517دوسرا نسخہ 2/140ت2512)نے نقل کیا ہے۔

اس روایت کی تحقیق درج ذیل ہے:

1۔3:روایت مذکورہ کی سند میں حکیم بن عطاء الظفری اس کا باپ عطاء الظفری اور دادا تینوں مجہول ہیں۔

4۔یحییٰ بن سلیمان غیر متعین ہے۔

5۔محمد بن الحسن المخزومی کو دلائل النبوۃ اور البدایہ والنہایہ میں غلطی سے محمد بن سلمہ المخزومی لکھا گیا ہے جبکہ معرفۃ الصحابہ لا بی نعیم میں محمد بن الحسن المخزومی لکھا ہوا ہے اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:

"وروى أبو نعيم من طريق محمد بن الحسن بن زباله عن حكيم بن عطاء السلمي" (الاصابہ 1/495)

محمد بن الحسن زبالہ المخزومی المدنی پر محدثین کرام نے شدید جرحیں کی ہیں مثلاً امام یحییٰ بن معین نے فرمایا:

"وكان كذابا ولم يكن بشيء وهو مدني "

اور وہ کذاب(جھوٹا)تھا وہ کچھ چیز نہیں اور وہ مدنی ہے۔(تاریخ ابن معین روایۃ الدوری1060)

اور فرمایا: "ليس بثقة كان يسرق الحديث" "وہ ثقہ نہیں وہ حدیث چوری کرتا تھا۔(ایضا:799)

اور فرمایا: "والله ما هو بثقة حدث عدوالله عن مالك"

اللہ کی قسم! وہ ثقہ نہیں اللہ کے(اس)دشمن نے(امام )مالک سے حدیث بیان کی۔(کتاب الجرح التعدیل7/288وسندہ صحیح)

امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:"متروک"(سوالات البرقانی:427)

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:"کذبوہ " یعنی محدثین نے اسے کذاب قراردیا ۔

6۔نضر بن سلمہ غیر متعین ہے اور اس طبقے میں نضر بن سلمہ شاذان المروزی کذاب راوی بھی ہے۔

7۔عمر بن محمد بن جعفر کی توثیق مطلوب ہے۔

خلاصۃ التحقیق:

سرفراز خان صاحب کی بیان کردہ روایت موضوع ہے لہذا اسے بغیر ذکر جرح کے بیان کرنا حلال نہیں ہے۔تعجب ہے ان لوگوں پر جو عوام کے سامنے "شیخ الحدیث "بنے بیٹھے ہوتے ہیں اور ضعیف مردود اور موضوع بلکہ بے اصل و بے سند روایات بغیر کسی خوف کے دھڑلے سے بیان کرتے ہیں حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:جس نے مجھ سے ایسی حدیث بیان کی جس کا جھوٹ ہونا معلوم ہو تو وہ شخص جھوٹوں میں سے ایک(یعنی جھوٹا)ہے۔کیا ان لوگوں کو اللہ کی پکڑ کا کوئی ڈر نہیں ہے؟! (صحیح مسلم:1باب1)(5/دسمبر2010ء

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔اصول ،تخریج الروایات اور ان کا حکم-صفحہ266

محدث فتویٰ

تبصرے