سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(26) نماز باجماعت کے لیے کس وقت کھڑے ہونا چاہیے؟

  • 21279
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1721

سوال

(26) نماز باجماعت کے لیے کس وقت کھڑے ہونا چاہیے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مولانا محمد منیر سیالکوٹی صاحب حفظہ اللہ نے فرمایا ہے کہ"اور اقامت کے وقت مقتدیوں کے کھڑے ہونے کے بارے میں کوئی وقت مقرر نہیں۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے قدقامت الصلوٰۃ کے وقت کھڑے ہونے کی روایت ہے۔حضرت سعید بن مسیب  رحمۃ اللہ علیہ  موذن کے اللہ اکبر کہتے ہی کھڑے ہونے کے قائل تھے۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ   رحمۃ اللہ علیہ  حی علی الفلاح کے الفاظ پر،اور امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ  لوگوں کی طاقت پر چھوڑتے ہیں کہ جو جب اُٹھ سکے ۔اُٹھ جائے۔کیونکہ ان میں کوئی ضعیف ہوگا۔اور کوئی ثقیل۔اور کھڑے ہونے کا وقت بھی مقرر نہیں ہے۔حنابلہ قدقامت الصلوٰۃ کے وقت اور شافعیہ ختم ہونے پر کھڑے ہونے کے قائل ہیں۔

(فتح الباری 2/120 الفقہ علی المذاہب الاربعۃ 1/325)

اور بظاہر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  کا قول ہی اقرب الی السنۃ ہے۔"(فقہ الصلوٰۃ ج2ص 179)

آپ براہ کرم راجح بات واضح فرمائیں کہ نمازی(مقتدی) اقامت سے قبل کھڑے ہوں(صف بندی کے لیے) یا اقامت کے بعد؟ (محمدصدیق تلیاں،سمندر کٹھہ ایبٹ آباد)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال میں مذکورہ روایات کی تحقیق علی الترتیب درج ذیل ہے:

1۔حافظ ابن حجر العسقلانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی طرف منسوب اثرامام ابن المنذر وغیرہ سے نقل کیا ہے۔(فتح الباری 2/120 تحت ح637) امام ابن المنذر کی کتاب:الاوسط میں یہ اثر درج ذیل سند ومتن کے ساتھ موجود ہے:

"وَحَدَّثُونَا عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عِيسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو يَعْلَى، قَالَ: رَأَيْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ إِذَا قِيلَ: قِدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ وَثَبَ فَقَامَ " (4/166 ث 1958 دوسرا نسخہ 4/187 ح1947)

اس روایت میں" وَحَدَّثُونَا " کے قائلین نا معلوم ہیں ،لہذا یہ سند ضعیف ہے۔

اور "وغیرہ" کا قائل معلوم نہیں،السنن الکبریٰ(2/21) میں یہ اثر بے سند ہے،لیکن حافظ ابن عبدالبر نے اسے اپنی سند کے ساتھ ابوبکر الاثرم کی کتاب سے:

"قَالَ وَحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ أَبِي يَعْلَى، قَالَ: رَأَيْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ إِذَا قِيلَ قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ قَامَ فَوَثَبَ" کی سند ومتن سے  روایت کیا ہے۔

(التہمید ج9 ص193 دوسرا نسخہ ج3 ص 102)

اثرم تک ابن عبدالبر کی سند میں نظر ہے اور اگر یہ امام ابن المبارک سے ثابت ہو جائےتو عرض ہے کہ اس کا راوی ابویعلیٰ سلمہ بن وردان اللیثی المدنی ضعیف ہے۔(دیکھئے  تقریب التہذیب :2514)

مختصراً یہ کہ سیدنا انس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی طرف منسوب یہ روایت ضعیف ہے۔

2۔امام سعید بن المسیب بن حزن  رحمۃ اللہ علیہ  والی روایت تمہید(لابن عبدالبر) میں ہے۔(ج 9 ص 193 ،دوسرا نسخہ 3/102)

اس کی سند کئی وجہ سے ضعیف ہے،مثلاً کلثوم بن زیاد المحاربی قاضی دمشق جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔(دیکھئے لسان المیزان ان بحاشیتی4/489 دوسرا نسخہ 5/557)

3۔امام ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  کی طرف منسوب قول اُن سے ثابت نہیں ہے اور غیرثابت ہونے کی وجہ سےکہ اس کا  راوی ابن فرقد(صاحب کتاب الاصل 1/18۔19) بذاتِ خودجمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ومجروح ہے۔

4۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  کا قول ان کی مشہور کتاب موطا امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ ( روایۃ یحییٰ 1/71 ،روایہ ابی مصعب زہری:186) میں موجود ہے۔

حافظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ  نے لکھا ہے:

"وَذَهَبَ الأَكْثَرُونَ إِلَى أَنَّهُمْ إِذَا كَانَ الإِمَام مَعَهُمْ فِي الْمَسْجِد لَمْ يَقُومُوا حَتَّى تَفْرُغَ الإِقَامَةُ"

"اکثر کا یہ مذہب ہے کہ اگر امام مسجد میں موجود ہوتو لوگ اقامت ختم ہونے سے پہلے کھڑے نہ ہوں۔(فتح الباری 2/120)

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"وقال بعضهم : إذا كان الإمام في المسجد فأقيمت الصلاة فإنما يقومون إذا قال المؤذن : قد قامت الصلاة قد قامت الصلاة ، وهو قول ابن المبارك"

"اور بعض نے کہا:جب امام مسجد میں ہواور نماز کی اقامت ہوجائے تو لوگ اس وقت کھڑے ہوں گے جب اقامت کہنے والا قد قامت الصلوٰۃ کہے اور یہی قول عبداللہ بن المبارک کاہے۔(سنن الترمذی:592)

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے عبداللہ بن المبارک  رحمۃ اللہ علیہ  کے جو اقوال سنن ترمذی میں نقل کئے ہیں،ان کی صحیح سندیں اپنی کتاب العلل(الصغیر) میں ذکر کردی ہیں۔

(دیکھئے ص1 ،دوسرا نسخہ ص 889 مطبوعہ دارالسلام مع سنن الترمذی)

امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:اگر امام مسجد میں ہوتو لوگ اس وقت کھڑے ہوں جب وہ (اقامت کہنے والا) قد قامت الصلوٰۃ کہے۔امام اسحاق بن راہویہ نے اس کی مکمل تائید فرمائی ہے۔(مسائل احمد واسحاق روایۃ اسحاق بن منصور الکوسج 1/127۔128 فقرہ رحمۃ اللہ علیہ :179)

امام ابوبکر محمد بن ابراہیم بن المنذر النیسابوری  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:اگرامام مسجد میں ان کے ساتھ ہوتوجب وہ کھڑا ہولوگ کھڑے ہوجائیں اور اگر وہ امام کے باہر آنے کا انتظار کررہے ہیں تو جب اسے دیکھیں کھڑے ہوجائیں اور اگر اسے نہ دیکھیں تو کھڑے نہ ہوں،اس کی دلیل(سیدنا) ابوقتادہ  رحمۃ اللہ علیہ ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کی حدیث سے ہے۔۔۔(الاوسط نسخہ جدیدہ ج4 ص 188)

ان آثار کو مدنظر رکھتے ہوئے عرض ہے کہ جب اقامت کہی جائے یعنی قدقامت الصلوٰۃ کے الفاظ پڑھے جائیں تو لوگ نماز پر پڑھنے کے لیے کھڑی ہوجائیں ،اور اگر امام یا اقامت کہنے والے کے ساتھ ہی کھڑے ہوجائیں(بشرط یہ کہ امام مسجد میں موجود ہو) تو یہ بھی جائز ہے۔واللہ اعلم۔(15/نومبر 2010ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔نماز سے متعلق مسائل-صفحہ97

محدث فتویٰ

تبصرے