السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حالت سجدہ میں ہاتھوں کی انگلیوں کو ملا کر رکھنا چاہیے یا نارمل ہی رہنے دیا جائے؟ (ایک سائل)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایک حدیث میں آیا ہے کہ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
"أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ إِذَا سَجَدَ ضَمَّ أَصَابِعَهُ"
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اپنی انگلیاں ملا لیتے تھے"
(صحیح ابن خذیمہ:642 صحیح ابن حبان الاحسان :1917 دوسرا نسخہ 1020 المستدرک للحاکم 1/227 ح 826 وقال:"صحیح علی شرط مسلم"ووافقہ الذہبی فی تلخیصہ السنن الکبریٰ للبیہقی 2/112 المعجم الکبیر للطبرانی 22/19 ح26 وقال الہشیمی فی مجمع الزوائد 2/135 "اسنادہ حسن" سنن الدارقطنی 1/339 ح 1268 البدر المنیر لابن الملقن 3/668 وقال؛"ھذا الحدیث صحیح"الاوسط لابن المنذر 3/169 اصل صفۃ الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم للبانی 2/726۔722 وقال :"ھو اسناد حسن:)
اگرچہ بہت سے علماء نے اسے صحیح یا حسن کہاہے لیکن ہشیم بن بشیر الواسطی مدلس تھے اور یہ روایت عن سے ہے ،ہمارے علم کے مطابق اس روایت کی کسی سند میں سماع کی تصریح نہیں،لہذا یہ روایت ضعیف ہے۔دیکھئے بلوغ المرام(237 بتحقیقی)
اگر کوئی(مثلاً شیخ عبدالرحمان عزیز یامحمد اشتیاق اصغر) کہے کہ آپ نے تسہیل الوصول الیٰ تخریج صلوٰۃ الرسول(طبع اول ص 267 طبع 2005 ءص 214) میں اس روایت کو صحیح لکھا ہے اور نماز نبوی (ص180) میں اس سے استدلال کیا ہے۔
(دیکھئے عبدالرحمان عزیز کی کتاب صحیح نماز نبوی ص181)
تو عرض ہے کہ راقم الحروف نے بار بار اعلان کیا ہے کہ میری صرف وہی کتاب معتبر ہے ،جسے مکتبۃ الحدیث حضرو یا مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد/ لاہور سے شائع کیا گیا ہے یا اُس کتاب کے آخر میں میرے دستخط ہیں۔مثلاً دیکھئے مقدمۃ القول المتین فی الجہر بالتامین (ص12،دوسرانسخہ ص 19،نوشتہ 22/دسمبر 2003ء) اور ماہنامہ الحدیث حضرو:27 ص60(نوشتہ 15/جون 2006ء)
اس واضح اعلان کے بعدبعض الناس کا راقم الحروف کے خلاف نماز نبوی نامی کتاب یا صلوٰۃ الرسول کی تخریج کے حوالے پیش کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟
ہرصاحب انصاف کےنزدیک معقول عذر مقبول ہوتا ہے۔
بعض لوگوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میرے دستخطوں کے بغیر بھی"نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں۔تصیح وتخریج سے مزین جدید ایڈیشن"مطبوعہ دارالسلام میں یہ روایت موجود نہیں ہے۔(دیکھئےص224تا226)
امام ہشیم رحمۃ اللہ علیہ کی روایت مذکورہ کی تحقیق کے بعد عرض ہے کہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک روایت میں آیاہے:
"وَإِذَا سَجَدَ وَجَّهَ أَصَابِعَهُ قِبَلَ القِبْلَةِ"
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اپنی انگلیوں کا رخ قبلے کی طرف کرتے۔(نصب الرایہ 1/374 السنن الکبریٰ للبیہقی 2/113 اصل صفۃ الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم للالبانی 2/639 وقال :وسندہ صحیح کمافی الدرایہ 79)
اس روایت کی سند صحیح نہیں بلکہ دو وجہ سے ضعیف ہے:
اول: ابو اسحاق السبیعی مدلس تھے اور روایت عن سےہے۔(دیکھئے طبقات المدلسین :91/3)
دوم:زکریا بن ابی زائدہ مدلس تھے اور روایت عن سے ہے۔(دیکھئے الفتح المبین ص38)
اس کا ایک ضعیف شاہد کتاب الاوسط لابن المنذر(3/169) فیہ حارثہ بن محمد وھو ضعیف) اور مصنف ابن ابی شیبہ(1/264ح2712) وغیرہما میں بھی مووجود ہے۔
جو لوگ حسن لغیرہ کو حجت بنائے بیٹھے ہیں،اُن کی شرط پر یہ تین ضعیف روایتیں ایک دوسرے سے مل کر حسن لغیرہ بن جاتی ہیں۔!
اسی ضعیف روایت پر اگر عمل کیا جائے،ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کو اگرقبلہ رُخ کیا جائے تو تقریباً ایک دو سرے سے مل جاتی ہیں اور علیحدہ کرنے کی صورت میں اُن کا رخ قبلے سے پھر سکتا ہے۔
امام محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ ( ثقہ تابعی) نے فرمایا:لوگ یہ پسند کرتے تھے کہ سجدے میں ہاتھوں کی انگلیاں ملائی جائیں۔(مصنف ابن ابی شیبہ 1/260ح2671وسندہ صحیح)
امام حفص بن عاصم(ثقہ تابعی) نے عبدالرحمان بن القاسم(ثقہ تبع تابعی) سے فرمایا:اے بھتیجے!سجدے میں ہاتھوں کی انگلیاں ملاکر انھیں قبلہ رُخ کردے کیونکہ چہرے کے ساتھ ہاتھ(بھی) سجدہ کرتے ہیں۔(مصنف ابن ابی شیبہ1/260ح2673وسندہ صحیح)
امام سفیان ثوری سجدے میں انگلیاں ملاتے تھے۔(ابن ابی شیبہ 1/260 ح2674وسندہ صحیح)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی ہتھیلیوں کو سجدے میں قبلہ رُخ کرنے کے قائل تھے۔
(دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ 1/264 ح2713 وسندہ صحیح،2718 ،2719 وسندہ صحیح)
اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ سجدے میں دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ملاکر قبلہ رخ رکھنا صحیح وراجح ہے۔واللہ اعلم (8/نومبر 2009ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب