السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ماہنامہ شہادت میں ایک سوال کے جواب میں آپ نے لکھا کہ صف میں پیچھے رہ جانے والے اکیلے آدمی کی نماز نہیں ہوتی۔ لہٰذا اسے دوبارہ نماز پڑھ لینی چاہیے۔ جبکہ اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے مبشر احمد ربانی صاحب نے لکھا ہے کہ اضطراری کیفیت ہے اس صورت میں اکیلے آدمی کی نماز ہو جائے گی اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ اگلی صف سے آدمی کو بھی نہ کھینچا جائے کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"جو صف کو ملاتا ہے اللہ اسے ملاتا ہے اور جو صف کو توڑتا ہے اللہ اسے توڑتا ہے ۔"اس حدیث کی وجہ سے صف سے آدمی کو نہ کھینچا جائے اکیلے نماز پڑھ لی جائے تو نماز ہو جائے گی۔ کیونکہ یہ اضطراری کیفیت ہے۔ آپ آگا ہ فرمائیں کہ کیا کیا جائے؟علماء کی دو قسم کی آراء ہیں طلباءاور عوام کس رائے پر عمل کریں۔ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب ارشاد فرمائیں۔(خرم ارشاد محمدی دولت نگر)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
1۔سیدنا وابصہ بن معبد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ"
"أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى رجلاً يصلي خلف الصف وحده ، فأمره أن يعيد"
"بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیک آدمی کو دیکھا (جو)صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھ رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے(نماز) لوٹانے کا حکم دیا۔
(سنن ابی داود ،682،الترمذی،230وقال :"حسن"ابن ماجہ 1004)وصححہ ابن حبان الموارد:403وللحدیث طرق عندابن خزیمہ:1569وابن حبان:401)
اس روایت کی سند صحیح ہے۔(نیل المقصود قلمی ج1ص234شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا:" صحیح"(سنن ابی داؤدتحقیق الشیخ الالبانی ص110)
2۔علی بن شیبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بے شک صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز نہیں ہوتی ۔
(مسند احمد4/23ح1640، ابن ماجہ 1003)وصححہ ابن خزیمہ :1569وابن حبان :401)اس روایت کی سند صحیح ہے(تسہیل الحاجہ ص68)
بوصیری نے کہا:
"حديث صحيح وهذا إسناد رجاله ثقات"(زوائد ابن ماجہ ص159)
3۔حدیث وابصہ بن معبد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مطابق امام احمد اور امام اسحاق (بن راہویہ) فرماتے ہیں کہ صف کے پیچھے اکیلا آدمی (نماز پڑھنے والا )اپنی نماز دوبارہ پڑھے گا اور یہی قول حماد بن ابی سلیمان (محمد) بن ابی لیلیٰ (الفقیہ)اور وکیع کا ہے(سنن الترمذی:230)
4۔امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے حفص (بن غیاث )سے عن عمروبن مروان (ثقہ)عن ابراہیم (النخعی) کی سند سے نقل کیا ہے کہ"بعید" یعنی نما زدہرائے گا۔(مصنف ابن ابی شیبہ 2/193ح5888)
حفص بن غیاث مدلس ہیں لہٰذا یہ سند ضعیف ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ میں اس کے برعکس روایات بھی ہیں جو بلحاظ تدلیس وغیرہ ضعیف ہیں۔
5۔ابن حزم کے نزدیک صف کے پیچھے اکیلے مقتدی کی نماز باطل ہے۔(المحلیٰ 4/52مسئلہ 514)
6۔وابصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی حدیث کے بعد امام عبد اللہ بن احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔"
"وكان ابي يقول بهذا الحديث"
"اور میرے ابااس حدیث کے مطابق فتوی دیتے تھے۔(مسند احمد4/228ح18170)
7۔ابراہیم النخعی کا قول یہ ہے کہ صف کے پیچھے اکیلا آدمی رکوع نہ کرے۔(مصنف ابن ابی شیبہ 1/257،ح2635وسندہ صحیح)
یہی تحقیق ابن ابی شیبہ کی ہے۔(ایضاً :2636)
بلکہ امام ابو بکر بن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا رد لکھا ہے۔(دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ4/156ح 36069،36070)
ابو بکر محمد بن ابراہیم بن المنذرالنیسابوری(متوفی 318ھ)فرماتے ہیں۔
"صلاة الفرد خلف الصف باطل لثبوت خبر وابصة"
یعنی صف کے پیچھے اکیلے کی نماز وابصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کی روسے باطل ہے۔(الاوسط فی السنن والا جماع والا ختلاف 4/184ت1994)
8۔مولانا عبد الجبار کھنڈیلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔"اگر کوئی شخص مصلی بعد اتمام صف صلوٰۃ مسجد میں آیا اور صف میں اس نے کوئی جگہ نہیں پائی تو وہ اکیلا صف کے پیچھے نماز نہ پڑھے بلکہ کسی شخص کو اطراف صف سے کھینچ کر اپنے ساتھ ملالے۔"الخ۔(فتاوی علمائے حدیث ج3ص77)
اطراف صف کا مطلب یہ ہے کہ"صف کے کنارہ سے کسی کو کھینچ کر اپنے ساتھ شامل کرے۔"(فتاوی علمائے حدیث3/78)
9۔جمہور علماء کا خیال ہے کہ صف کے پیچھے اکیلے کی نماز ،عذر کی صورت میں ہو جاتی ہے۔(صلوٰۃ الجماعۃ تالیف : صالح بن غانم السد لان ص112)
امام عطا ء بن رباح رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ"بعید"وہ اعادہ نہیں کرے گا۔(مصنف عبدالرزاق 2/59ح2486)
تنبیہ:اس روایت کی سند عبد الرزاق (مدلس ) کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔
اسماء الرجال اور حدیث کی تصحیح و تضعیف میں ہمیشہ جمہور کا قول مرجوح ہوتا ہے۔
"الْحَقِّ أَحَقُّ أَنْ يُتَّبَعَ"
صف کے پیچھے اکیلے نمازی کی نماز نہ ہونے والا قول راجح ہے اگرچہ اس کے قائلین جمہور کے مقابلے میں کم ہیں۔
10۔صف سے پیچھے آدمی کھینچنے کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کھڑے ہو گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں پکڑ کر دائیں طرف کھڑا کردیا۔پھر جبار بن صخر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف کھڑے ہو گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر بن عبد اللہ اور جبار بن صخر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں کو دھکیل کر پیچھے کھڑا کردیا ۔
دیکھئے صحیح مسلم(3010،ترقیم دارالسلام :7516)باب حدیث جابر الطویل وقصۃ ابی الیسر) اب چند اہم تنبیہات پیش خدمت ہیں۔
1۔عورت اگر اکیلی بھی ہو تو اس کی نماز ہو جاتی ہے وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہے۔
2۔ایک حدیث میں آیا ہے کہ"وسطو الامام "امام کو درمیان رکھو۔"(سنن ابی داود:681)
یہ روایت بلحاظ سند ضعیف ہے اس میں امۃ الواحد:مجہولہ ہے(تقریب التہذیب:8534)نیز دیکھئے انوار الصحیفۃ فی الاحادیث الضعیفۃ ص20(ابو داود : 681)
3۔صف کے پیچھے اکیلے نمازی کے بارے میں علماء کے تین اقوال ہیں۔
1۔نماز نہیں ہوتی۔(2)نماز ہو جاتی ہے۔(3)عذر ہو مثلاً: (اگلی صف بھری ہوئی ہو)تو نماز ہو جاتی ہے۔ ان اقوال میں پہلا قول ہی راجح ہے جبکہ محترم مبشر احمد ربانی صاحب کی تحقیق واجتہاد میں ثالث الذکر قول راجح ہے۔
4۔علماء کے درمیان اگر اجتہادی امور میں اختلاف ہو تو راجح لے کر مرجوح چھوڑ دیں اور علماء کا مکمل احترام کریں۔(شہادت ،ستمبر2004ء)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب