سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(10) کلمہ طیبہ کا ثبوت

  • 20903
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1947

سوال

(10) کلمہ طیبہ کا ثبوت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کلمہ طیبہ"لاالٰه الا اللہ محمد رسول اللہ" کا ثبوت کسی صحیح حدیث میں ملتا ہے؟تحقیق سے جواب دیں۔جزاکم اللہ خیرا۔(حبیب محمد،بیاڑ۔دیر)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 458ھ) نے فرمایا:

"اخبرنا ابو عبدالله الحافظ:ثنا  ابو العباس محمد بن يعقوب:ثنا محمد بن اسحاق:حدثني  سعيد بن المسيب ان أبو هريرة رضي  الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : (أنزل الله تعالى في كتابه فذكر قوما استكبروا فقال: { إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ( وقال تعالى) إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا { الفتح : 26] وهي (لا إله إلا الله محمد رسول الله) استكبر عنها المشركون يوم الحديبية يوم كاتبهم رسول الله صلى الله عليه وسلم على قضية المدة؛

"ہمیں ابو عبداللہ الحافظ(امام حاکم،صاحب المستدرک)نے خبر دی(کہا):ہمیں ابو العباس محمد بن یعقوب(الاصم) نے حدیث بیان کی(کہا):ہمیں محمد بن اسحاق(بن جعفر،ابوبکر الصغانی)نے حدیث بیان کی(کہا):ہمیں یحییٰ بن صالح الوحاظی نے حدیث بیان کی (کہا):ہمیں اسحاق بن یحیٰ الکلبی نے حدیث بیان کی(کہا):ہمیں(ابن شہاب) الزہری نے حدیث بیان کی(کہا)؛مجھے سعید بن المسیب نے حدیث بیان کی،بے شک انھیں(سیدنا) ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے حدیث بیان کی(آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے)فرمایا:اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمایا تو تکبر کرنے والی ایک قوم کا ذکر کرکے فرمایا:یقیناً جب انھیں لاالٰہ الا اللہ کہا جاتاہے تو تکبر کرتے ہیں۔(الصفت:35)

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:جب کفر کرنے والوں نے اپنے دلوں میں جاہلیت والی ضد رکھی تو اللہ نے اپنا سکون واطمینان اپنے رسول اور مومنوں پر اتارا اور ان کے لیے کلمۃ التقویٰ کو لازم قرار دیا اور وہ اس کے زیادہ مستحق اوراہل تھے۔(الفتح:26)

اور وہ(کلمۃ التقویٰ) لاالٰہ الااللہ محمد رسول اللہ ہے۔

(صلح) حدیبیہ والے دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مدت(مقرر کرنے) والے فیصلے میں مشرکین سے معاہدہ کیا تو مشرکوں نے اس کلمے سے تکبر کیا تھا۔

(کتاب الاسماء والصفات ص 105،106 دوسرا نسخہ ص 131،تیسرا نسخہ مطبوعہ انوارمحمدی الٰہ آباد 1313ھ ص81 باب ماجاء فی فضل الکلمۃ الباقیۃ فی عقب ابراہیم  علیہ السلام  )

اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے۔

حاکم،اصم،محمد بن اسحاق الصغانی ،زہری اور سعید بن المسیب سب اعلیٰ درجے کے ثقہ ہیں۔

1۔یحییٰ بن صالح الوحاظی صحیح بخاری وصحیح مسلم کے راوی اور جمہور محدثین کےنزدیک ثقہ تھے۔امام ابوحاتم الرازی نے کہا:صدوق ،امام یحییٰ بن معین نے کہا:"ثقۃ"

(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم 9/158وسندہ صحیح)

امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:ویحیٰ ثقۃ(کتاب الضعفاء الصغیر:145 ،طبع ہندیہ)

یحییٰ بن صالح پر درج ذیل علماء کی جرح ملتی ہے:

1۔احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ ۔2۔اسحاق بن منصور۔3۔عقیلی۔4۔ابو احمد الحاکم

امام احمد کی جرح کی بنیاد ایک مجہول انسان ہے۔دیکھئے الضعفاء للعقیلی (4/408)یہ جرح امام احمد کی توثیق سے معارض ہے۔

ابوزرعہ الدمشقی نے کہا:

"لم يقل يعني أحمد بن حنبل في يحيى بن صالح إلا خيرا"

احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  نے یحییٰ بن صالح کے بارے میں صرف خیر ہی کہا ہے۔(تاریخ دمشق لابن عساکر 68/78 وسندہ صحیح)

اسحاق بن منصور کی جرح کاراوی عبداللہ بن علی ہے۔(الضعفاء للعقیلی 4/409)

عبداللہ بن علی کا ثقہ وصدوق ہونا ثابت نہیں ہے لہذا یہ جرح ثابت ہی نہیں ہے۔عقیلی کی جرح الضعفاء الکبیر میں نہیں ملی البتہ تاریخ دمشق(68/79) میں یہ جرح ضرورموجود ہےلیکن اس جرح کا راوی یوسف بن احمد غیر موثق(مجہول الحال) ہے لہذا یہ جرح بھی ثابت نہیں ہے۔

ابو احمد الحاکم(اور بشرط صحت احمد،اسحاق بن منصور اور عقیلی) کی جرح  جمہور محدثین کی توثیق کے مقابلے میں مردود ہے۔حافظ ذہبی نے کہا:

"ثقة في نفسه تكلم فيه لرايه"

وہ بذات خود ثقہ تھے،ان کی  رائے کی وجہ سے(ابواحمد الحاکم وغیرہ کی طرف سے) ان میں کلام کیاگیا ہے۔(معرفۃ الرواۃ المتکلم فیھم بمالایوجب الرد:367)

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:خالد(بن مخلد) اوریحییٰ بن صالح دونوں ثقہ ہیں۔(فتح الباری ج9 ص 24تحت ح 5378 کتاب الاطمعۃ باب الاکل ممایلیہ)

اور کہا: "صدوق من اهل الراي"(تقریب التہذیب:7568)

تقریب التہذیب کے محققین نے لکھا ہے:"بل ثقۃ" بلکہ وہ ثقہ تھے۔(التحریر ج4 ص88)

خلاصۃ التحقیق:۔یحییٰ بن صالح ثقہ وصحیح  الحدیث ہیں۔

2۔اسحاق بن یحییٰ بن علقمہ الکلبی المصحصی العوصی صحیح بخاری کے (شواہدکے) راوی ہیں۔دیکھئے صحیح البخاری:(628،1355،3299،3443،3927،6647،7000،7171،7382)

حافظ ابن حبان نے انھیں کتاب الثقات(ج6 ص49) میں ذکر کیا اورصحیح ابن حبان (الاحسان:6074) میں ان سے روایت لی ہے۔

دارقطنی  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:

"أَحَادِيثه صَالِحَة وَالْبُخَارِيّ يستشهده وَلَا يعتمده فِي الْأُصُول"

ان کی حدیثیں صالح(اچھی) ہیں،بخاری شواہد میں ان سے روایت لیتے ہیں اور اصول میں ان پر اعتماد نہیں کرتے۔(سوالات الحاکم للدارقطنی :280)

تنبیہ:۔

امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  شواہد میں جس راوی سے روایت لیتے ہیں وہ ان کے نزدیک ثقہ ہوتا ہے۔(الا یہ کہ کسی خاص راوی کی تخصیص ثابت ہوجائے)

دیکھئے شروط الائمۃ السنہ لمحمد بن طاہر المقدسی(ص18 دوسرا نسخہ ص14)

ابو عوانہ نے صحیح ابی عوانہ(المستخرج علی صحیح مسلم) میں ان سے روایت لی ہے۔(ج2 ص 293)حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نےکہا:

"صدوق قيل انه قتل اباه"

سچا ہے،کہاگیاہے کہ اس نے ا پنے باپ کو قتل کیاتھا۔(تقریب التہذیب :391)

باب کو قتل کرنے والا قصہ تہذیب الکمال(طبع مؤسسۃ الرسالہ ج1 ص 202) میں ادھوری (غیر مکمل) سند:

"ابو عوانة الاسفرائني عن ابي بكر الجذامي عن ابن عوف قال يقال" سے مروی ہے۔یہ قصہ کئی لحاظ سے مردود ہے:

1۔ابوعوانہ تک سند غائب ہے۔

2۔ابوبکر  الجذامی نامعلوم ہے۔

3۔یقال(کہا جاتا ہے)  کا قائل نامعلوم ہے۔

صاحب تہذیب الکمال نے بغیر کسی سند کے محمد بن یحییٰ الذہلی  رحمۃ اللہ علیہ  سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے اسحاق بن یحییٰ کو طبقہ ثانیہ میں ذکر کیا اور کہا:

"مجهول، لم أعلم له رواية غير يحيى بْن صالح الوحاظي، فإنه أخرج إلي له أجزاء من حديث الزُّهْرِيّ، فوجدتها مقاربة، فلم أكتب منها إلا شيئا يسيرا"

مجہول ہے ،میرے علم میں یحییٰ بن صالح الوحاظی کے سوا کسی نے اس سے روایت بیان نہیں کی۔انھوں نے میرے سامنے اس کی زہری سے حدیثوں کے اجزاء پیش کیے تو میں نے دیکھا کہ یہ روایات مقارب(صحیح ومقبول اور ثقہ راویوں کے قریب قریب)  ہیں۔میں نے ان  میں سے تھوڑی روایتیں ہی لکھی ہیں۔(ج1ص202)

حافظ ابوبکر محمد بن موسیٰ  الحازمی(متوفی 591ھ) نے امام زہری  رحمۃ اللہ علیہ  کے شاگردوں کے طبقہ ثانیہ کے بارے میں کہا کہ وہ مسلم کی شرط پر ہیں۔(شروط الائمۃ الخمسہ ص57)

معلوم ہواکہ یہ راوی امام محمد بن یحییٰ الذہلی کے نزدیک مجہول ہونے کے ساتھ ثقہ و صدوق اور مقارب الحدیث ہے(!) بصورت دیگر یہ جرح جمہور محدثین کے مقابلے میں خلاصۃ التحقیق:اسحاق بن یحییٰ الکلبی حسن الحدیث ہیں۔

فائدہ:۔

لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ والی یہی روایت شعیب بن ابی حمزہ  نے:

"عن الزهري عن سعيد بن المسيب عن ابي هريرة رضي الله عنه"

 کی سند سے بیان کررکھی ہے۔(کتاب الایمان لابن مندہ ج1ص359 ح99 وسندہ صحیح الی شعیب بن ابی حمزہ)

اس شاہد کے ساتھ اسحاق بن یحییٰ کی  روایت مزید قوی ہوجاتی ہے۔والحمدللہ

دوسری دلیل: لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ پرمسلمانوں کااجماع ہے۔

حافظ ابن حزم  رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں:

"فَهَذَا إجْمَاعٌ صَحِيحٌ، كَالْإِجْمَاعِ عَلَى قَوْلِ: لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ"

"پس یہ اجماع صحیح ہے جیسا کہ "لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ" کے کلمے پر اجماع ہے۔(المحلی ج10 ص423،العین ،مسئلہ:3025)

حافظ ابن حزم  رحمۃ اللہ علیہ  مزید لکھتے ہیں:

"وَكَذَلِكَ مَا اتّفق عَلَيْهِ جَمِيع أهل الْإِسْلَام بِلَا خلاف من أحد مِنْهُم من تلقين موتاهم لَا إِلَه إِلَّا الله مُحَمَّد رَسُول الله"

اور اسی طرح تمام اہل اسلام بغیر کسی اختلاف کےاس پر متفق ہیں کہ مرنے والوں کو(موت کے وقت) لَا إِلَه إِلَّا الله مُحَمَّد رَسُول الله (پڑھنے) کی تلقین کرنی چاہیے۔(الفصل فی الملل والاھواءوالنحل ج1ص 162 ،الردعلی من زعم ان الانبیاء علیہم السلام لیسوا انبیاء الیوم)

معلوم ہوا کہ کلمہ اخلاص:کلمہ طیبہ لَا إِلَه إِلَّا الله مُحَمَّد رَسُول الله کا صحیح حدیث اور اجماع سے ثبوت موجود ہے۔والحمدللہ وصلی اللہ علی نبیہ وسلم۔

تنبیہ:۔

"مفتی"محمد اسماعیل طورودیوبندی نے"شش کلمے"کے تحت لکھا ہے:

"کلمہ طیبہ۔ "لَا إِلَه إِلَّا الله مُحَمَّد رَسُول الله"

(ترجمہ) نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے اور  حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کے  رسول ہیں۔(البخاری ،مسلم ج1ص73)"

(مختصر نصاب میں 24 طبع 2005 ء دارالافتاء جامعہ اسلامیہ،صدر کامران مارکیٹ راولپنڈی)

یہ مکمل کلمہ نہ تو صحیح بخاری کی کسی حدیث میں لکھا ہواہے اور نہ صحیح مسلم کی کسی حدیث میں اس طرح موجود ہے۔مفتی بنے ہوئے علماء کو ا پنی تحریروں میں احتیاط کرنی چاہیے اور غلط حوالوں سےکلی اجتناب کرناچاہیے۔وماعلینا الاالبلاغ(16/فروری 2007ء)(الحدیث:35)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب العقائد۔صفحہ75

محدث فتویٰ

تبصرے