موسیقی کی شرعی حیثیت کیا ہے نیز آلات موسیقی وغیرہ کی خریدو فروخت شراعاً جائز ہے؟ کتاب وسنت کی روسے وضاحت فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا (عبداللہ ،رحیم یا رخان )
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورۃ لقمان کے اندر اہل سعادت جو اللہ کے کلام کے سماع سے فیض یاب ہوتے ہیں ان کا ذکر کر کے پھر ان اہل شقاوت کا ذکر کیا ہے۔ جو کلام الٰہی سننے سے اعراض کرتے ہیں لیکن نغمہ و سرود ، سازو موسیقی اور گانے وغیرہ خوب ذوق شوق سے سنتے ہیں بلکہ ایسے افراد بھی ہیں جو اسے عبادت سمجھتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بےعلمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راه سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں، یہی وه لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے (6) جب اس کے سامنے ہماری آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو تکبر کرتا ہوا اس طرح منھ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں گویا کہ اس کے دونوں کانوں میں ڈاٹ لگے ہوئے ہیں، آپ اسے درد ناک عذاب کی خبر سنا دیجئے"
اس آیت کریمہ میں لفظ لَهْوَ الْحَدِيثِ کا مطلب گانا بجانا اور آلات طرب وغیرہ ہیں جیسا کہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:
"الغناء والله الذي لا إله إلا هو ; يرددها ثلاث مرات "
(ابن ابی شیبہ 6/309،تفسیر ابن کثیر3/486،ابن جریر طبری 21/62،بیہقی 10/223،مستدرک حاکم 2/411)
"اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اس آیت میں لہو الحدیث سے مراد گانا بجانا ہے۔ یہ بات آپ نے تین مرتبہ دہرائی ۔"
امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ "یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اور شیخین نے اسے تخریج نہیں کیا۔"
امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی امام حاکم کی تصحیح کی موافقت کی ہے۔
مفسر قرآن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔:
"هو الغناء وأشباهه "کہ لہو الحدیث سے مراد گانے بجانے اور اس کی مثل اشیاء ہیں۔اس کی سند حسن ہے۔
(تفسیر ابن جریر طبری21/61۔62،کشف الاستار (2264)ابن ابی شیبہ6/3
10،تفسیر عبد الرزاق ،الادب الفرد (786)
علاوہ ازیں جابر رحمۃ اللہ علیہ ،عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ ،سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ ، قتادہ رحمۃ اللہ علیہ ، ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ ، مجاہد رحمۃ اللہ علیہ ،مکحول رحمۃ اللہ علیہ ، عمرو بن شعیب رحمۃ اللہ علیہ ، علی بن بذیمہ رحمۃ اللہ علیہ ،سے بھی یہی تفسیر مروی ہے)
(تفسیر ابن کثیر 3/486المنتقیٰ النفیس من تلبیس ابلیس ص:303)
آئمہ سلف رحمۃ اللہ علیہ کی اس تفسیر سے معلوم ہوا کہ لہو الحدیث کا مفہوم آلات طرب و گانا بجانا ہے۔ لہٰذا ایسے آلات خریدنا جو گانے بجانے ،ضلالت و گمراہی کا سر چشمہ ہوں، حرام ہیں مزید یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسے آلات سننے والے افراد کی یہ خصلت بھی ہوتی ہے کہ وہ آیت قرآنیہ کے سماع سے بھاگتے ہیں اور یہ بات عملاً دیکھی گئی ہے کہ جب کسی ڈرائیور کو جب وہ گانا بجانا لگاتا ہے۔ تلاوت وغیرہ کی کیسٹ لگانے کو کہا جائے تو وہ اس پر غصے ہوتا ہے بلکہ بسااوقات لڑ پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے افراد کو دردناک عذاب کی بشارت دی ہے اور جس کام پر عذاب الیم کی وعید ہو وہ کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتا ہے۔جیسا کہ علا مہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "الزواجر عن اقتراف الکبا ئر"اور ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "الکبائر " میں تصریح ہے بلکہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے کہ:
"ہر وہ گناہ جس کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اختتام آگ ،غضب، لعنت یا عذاب کے الفاظ کے ساتھ کیا ہو وہ کبیر ہ گناہ ہے۔"
تفسیر ابن جریر طبری نیز کبیرہ گناہوں کا تذکرہ سورہ نساء31اور سورہ نجم32 میں موجود ہے۔ ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"کیا تم اس بات(قرآن)سے تعجب کرتے ہو،اور ہنستے ہو، روتے نہیں بلکہ تم کھیل رہے ہو۔"
اس آیت کریمہ میں قرآن مجید کے سماع پر ہنسنے اور کھیلنے والوں کا ذکرکیا گیا ہے ۔ یہاں پر"سامدون" یعنی کھیلنے والے کی تفسیر صحابی رسول عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ یوں بیان کرتے ہیں۔
(بیہقی 10/223ابن جریرطبری 27/82)
"حمیری قبیلے کی لغت میں"سمد"سے مراد گانا ہے جب کوئی شخص گانا گائے تو کہتے ہیں۔اسمدلنا"
امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"هو الغناء يقول اهل اليمن سمد فلان اذا غنى "(المنتقیٰ النفیس ص:304)"اس سے مراد گانا ہے جب کوئی شخص گانا گائے تو اہل یمن کہتے ہیں"سمدفلان"
تیسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"ان میں سے تو جسے بھی اپنی آواز سے بہکا سکے بہکا لے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھالا اور ان کے مال اور اولاد میں سے اپنا بھی ساجھا لگا اور انہیں (جھوٹے) وعدے دے لے۔ ان سے جتنے بھی وعدے شیطان کے ہوتے ہیں سب کے سب سراسر فریب ہیں "
اس آیت کریمہ میں شیطانی آواز سے مراد موسیقی آلات طرب ،گانے بجانے اور رقص و سرود کی محافل میں فحش گوئی اور ہر وہ آواز ہے جو اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی کی دعوت دیتی ہے۔ امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
"هو الغناء والمَزامير "(المنتقیٰ النفیس /304)تفسیر ابن کثیر 3/56)
"اس سے مراد گانا اور مزا میر ہے۔"
قرآن مجید کی ان آیات ثلاثہ سے معلوم ہوتا ہے کہ گانا بجانا اور آلات طرب
حرام و شیطانی آوازیں ہیں۔ ان سے اجتناب لازم ہے۔ اس کے بارے میں چند ایک احادیث مرفوعہ اور آثار صحابہ ملاحظہ ہوں۔
1۔ابو عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا ابو مالک الاشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(بخاری کتاب الاشربۃ (5590)مع فتح الباری10/51تغلیق التعلیق5/17۔مسند الشامین 1/334(588)المعجم الکبیر(3417)بیہقی 10/221ابو داؤد،
(4039)تہذیب السنن 5/271،تاریخ کبیر 10304،305)
"میری اُمت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا، ریشم ،شراب اور باجے حلال ٹھہرائیں گے اور چند لوگ ایک پہاڑ کے پہلو میں اتریں گے شام کو ان کا چرواہاان کے جانور لے کر ان کے پاس آئے گا۔تو ان کے پاس فقیر آدمی حاجت و ضرورت کے لیے آئے گا۔اسے کہیں گے ہمارے پاس کل آنا۔ رات کو اللہ تعالیٰ ان پر پہاڑ گرا کر انہیں تباہ کر دے گا۔اور ان میں سے کچھ لوگوں کو بندر اور سور بنا دے گا۔ وہ قیامت تک اسی طرح رہیں گے۔"
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ باجے گاجے حلال سمجھنے والے لوگ عذاب الٰہی میں گرفتارہوں گے۔یہاں پر بندر اور سور کا بالخصوص ذکر کیا گیا ہے اور بندر حرص میں اور سور بے حیائی میں ضرب المثل ہے یعنی حدیث میں مذکورہ صٖفات کے حاملین دنیا دار ،شہوت پرست اور حریص و لالچی ہوں گے اور بے حیائی و بے غیرتی میں سور کی مثل ہوں گے۔
2۔یہ حدیث دوسری سند سے ان الفاظ کے ساتھ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ابن ابی شیبہ 8/107،ابن ماجہ (4020)تاریخ کبیر1/305،مواد الظمان،(1384)بیہقی 8/295،10/221،طبرانی کبیر (3419)تاریخ جرجان للسہمی
ص:511،116،تغلیق التعلیق 5/20،21،شعب الایمان و کتاب الاداب للبیہقی مسند احمد 5/342،ابو داود مختصراً(3688)
"البتہ ضرور میر ی اُمت کے لوگ شراب پیئں گے اس کا نام بدل دیں گے۔(جیسے وہسکی وغیرہ)ان کے سروں پر گلو کارائیں اور آلات طرب بجائے جائیں گے۔اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے بعض افراد کو بندر اور سور بنادے گا۔"
3۔سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(مسند احمد 2/165،167،171،172،ابوداود(3685)بیہقی 10/221،222
،کتاب المعرفۃ والتاریخ2/519)
"یقیناً اللہ تعالیٰ نے میری اُمت پر شراب ،جوا ،گیہوں کی نبیذ ،طبلہ اور سارنگی حرام کر دئیے ہیں۔ اور نماز و تر مجھے زائد عطا کی ہے۔"
4۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ:
(مسند احمد 1/289،274،350،کتاب الاشرابہ لا حمد (193،194)ابو داود(3696)بیہقی 10/221،تحفۃ الاشراف 5/197،طبرانی کبیر 12/101،102،دارقطنیٰ 3/7)
"یقیناً اللہ تعالیٰ نےتم پر شراب اورجوا،اورطبلہ حرام کیا ہے اور فرمایا ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔"
(ابوداؤد(4925)بیہقی10/22،المنتقیٰ النفیس ص 304، موارد الظمان 2013مسند احمد 2/8،38،تحریم النردللا جری (64)حلیلۃ الاولیاء6/129،السماع لابن طاہر /59طبرانی صغیر 1/13)
"نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بانسری کی آواز سنی تو انھوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں رکھ دیں اور راستے سے ہٹ گئے اور مجھے کہا اے نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیا تو کوئی آواز سن رہا ہے۔ میں نے کہا نہیں تو انھوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں سے اٹھالیں اور فرمایا ۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کی آواز سنی اور ایسا ہی کیا۔"
(ترمذی (2212) ابن ابی الدنیا فی دم الملاھی صحیح بشواہدہ)
"عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس امت میں زمین کے اندر دھنسنا ،صورتیں بدلنا اور بہتان بازی پیدا ہو گی۔مسلمانوں سے ایک آدمی نے کہا :اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کب؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب گلو کارائیں اور طبلے سارنگیاں عام ہوں گے اور شرابیں پی جائیں گی۔"
اس کی مزید تائید عبد الرحمٰن بن سابط تابعی کی مرسل روایت سے بھی ہوتی ہے جو ابن ابی شیبہ 15/164اور ابن ابی الدنیا میں موجود ہے اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے جو المحلیٰ لا بن حزم 9/58وغیرہ میں بھی اسی طرح مروی ہے۔
عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
(طبقات ابن سعد 1/138،ترمذی(1005)مسند طیالسی (1683)حاکم4/40،
الاربعین للا جزی /117، مسند ابی یعلیٰ المنتقیٰ والنفیس،305،شرح السنۃ 5/431،امام بغوی فرماتے ہیں۔"ھذا حدیث حسن"یہ حدیث حسن ہے)
"مجھے دو بری ترین آوازوں سے روکا گیا ہے۔
1۔خوشی کے وقت بانسری کی آواز ،۔
2۔مصیبت کے وقت رونے کی آواز (یعنی نوحہ گری وغیرہ)
یہی حدیث انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مسند بزار(795)میں موجود ہے۔ امام منذری رحمۃ اللہ علیہ نے الترغیب والترہیب 4/350 میں امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد 3/13
میں مسند بزار سے نقل کر کے اس کے ردات کی تو ثیق کی ہے اسی طرح عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے المنتقیٰ النفیس ۔305وغیرہ میں بھی موجود ہے۔
8۔ "عن ابي هريره ان النبي صلى الله عليه وسلم " نهى عن ثمن الكلب وكسب الزماره "(شرح السنۃ 8/23(2038)بیہقی 6/126،تفسیر بغوی علی ھامشیں الخازن
5/214،غریب الحدیث لا بی عبید 1/341)
"ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت اور گلو کارہ کی کمائی سے منع کیا ہے۔"
سیدناعبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اثر اوپر قرآنی آیات کی تفسیر میں گزر چکا ہے اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل احادیث مرفوعہ کے ضمن میں بیان ہوا ہے ان کا ایک اور اثر ملاحظہ ہو۔
(الادب المفرد (784)ابن ابی الدنیا 156/1قلمی ،بیہقی 10/323،شعب الایمان)
"عبد اللہ بن دینار فرماتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بازار کی طرف نکلا۔ آپ ایک چھوٹی سی بچی کے پاس سے گزرے ۔وہ گانا گا رہی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :یقیناً شیطان اگر کسی کو چھوڑتا تو وہ اس بچی کو چھوڑدیتا۔"
اُم علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں:
(الادب المفرد(1247) بیہقی 10/223،224،تزھۃ الاسماع ص: 61سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ2/358)
"عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بھائی کی بیٹیوں کا ختنہ کیا گیا تو عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا گیا کیا ہم ان بچیوں کے لیے کسی ایسے فرد کو دعوت دیں جو انہیں کھیل میں مشغول کردے۔انھوں نے کہا کیوں نہیں۔ عدی نامی آدمی کو پیغام دیا گیا وہ آیا عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (اس کے پاس سے) گھر میں سے گزریں۔ اسے دیکھا تو وہ گا رہا تھا اور جھوم جھوم کر سرہلا رہا تھا اور وہ گھنے بالوں والا تھا۔عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا افسوس یہ تو شیطان ہے اس کو نکال دو۔ اس کو نکال دو اور ایک روایت میں ہے۔ انھوں نے اس کو نکال دیا۔"
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
"اے ایمان والو! شراب ،جوا،آستانے اور فالنامے کے تیرپلید ہیں۔شیطانی کام سے ہیں ان سے اجتناب کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔"
اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
"هِيَ فِي التَّوْرَاةِ : إِنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ الْحَقَّ لِيُذْهِبَ بِهِ الْبَاطِلَ , وَيُبْطِلَ بِهِ اللَّعِبَ وَالزَّفْنَ وَالْمِزْمَارَاتِ وَالْمَزَاهِرَ وَالْكِنَّارَاتِ . زَادَ ابْنُ رَجَاءٍ فِي رِوَايَتِهِ : وَالتَّصَاوِيرَ وَالشِّعْرَ وَالْخَمْرَ , فَمَنْ طَعِمَهَا أَقْسَمَ بِيَمِينِهِ وَعِزَّتِهِ : لَمَنْ شَرِبَهَا بَعْدَمَا حَرَّمْتُهَا لَأُعَطِّشَنَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ , وَمَنْ تَرَكَهَا بَعْدَمَا حَرَّمْتُهَا سَقَيْتُهُ إِيَّاهَا مِنْ حَظِيرَةِ الْقُدُسِ ""یہ بات تورات میں ہے یقیناً اللہ تعالیٰ نے حق اتارا تاکہ اس کے ذریعے باطل ختم کردے اور اس کے ذریعے کھیل و تماشے ناچ، بانسریاں، سارنگیاں، ڈھولکیں، تصویریں، برے شعر اور شراب کو باطل قرار دے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت و عزت کی قسم کھائی ہے کہ جس نے اس کو میرے حرام کرنے کے بعد پیا ۔میں اسے قیامت کے روز ضرور پیاسا رکھوں گا اور جس نے اسے میرے حرام کرنے کے بعد ترک کر دیا میں اس کو جنت سے یہ پلاؤں گا۔"
امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"وقال الإمـام ابن الجوزي في كتاب تلبيس إبليس: (اعلم أن سماع الغناء يجمع شيئين: أحدهما أنه يلهي القلب عن التفكير في عظمة الله - سبحانه -، والقيام بخدمته. والثاني: أنه يميله إلى اللذات العاجلة التي تدعو إلى استيفائها من جميع الشهوات الحسية، ومعظمها النكاح، وليس تمام لذته إلاّ في المتجدّدات، ولا سبيل إلى كثرة المتجددات من الحـلّ، فلذلك يحـث على الزنا" (المنتقیٰ النفیس۔289)"گانا سننا دو چیزوں کو جمع کرتا ہے۔ ایک تو دل کو اللہ تعالیٰ کی عظمت میں غور کرنے اور اس کی خدمت میں قائم رہنے سے غافل کر دیتا ہے اور دوسرے دل کو جلد حاصل ہونے والی لذتوں کی طرف رغبت دلاتا ہے۔اور ان کے پورا کرنے کی ترغیب دیتاہے ہر قسم کی حسی شہوتیں پیدا کرتا ہے جن میں بہت بڑی شہوت نکاح ہے اور نکاح کی پوری لذت نئی عورتوں میں ہے اور نئی عورتوں کی کثرت حلال ذریعے سے حاصل ہونا دشوار ہے۔ لہٰذا انسان کو زنا پر برانگیختہ کرتا ہے۔"
مندرجہ بالا آیات ،احادیث صحیحہ و آثار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے یہ بات عیاں ہو گئی کہ گانے بجانے کے آلات یعنی طبلے، سارنگیاں ،بانسریاں، ڈھولکیں،باجے گاجے طنبورے،ڈفلیاں، تونبے، ڈگڈگیاں اور سائرن شرعاً حرام و ناجائز ہیں۔ پھر ان پر رقص و سرود کی محافل قائم کر کے گانے گانا جو کہ انسانی شہوت کو بھڑکانے اور انہیں لذات کی طرف مائل کرنے کا بھر پور سامان ہے۔ ان کی خریدو فروخت قطعاً درست نہیں۔(مجلۃ الدعوۃ فروری 1998ء)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب