عصر حاضر میں بہت سی مساجد میں دیکھا گیا ہے کہ انہیں بیل بوٹوں اور شیشے وغیرہ سے سجایا گیا ہے۔ بالخصوص مساجد کے محراب میں شیشے کے ساتھ نقش و نگاری کی جاتی ہے اور نماز ادا کرتے وقت توجہ ان کی طرف مبذول ہو جاتی ہے اسی طرح نقش و نگاراور کڑھائی سے مزین جائے نماز بنائے جاتے ہیں ۔ ان کی شرعی حیثیت واضح کریں۔ (ابو عبد اللہ قصور)
مساجد کا اصل مقصود یہ ہے کہ ان میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر تلاوت قرآن اور نماز جیسی عبادات سر انجام دی جائیں اور انہی امور سے مساجد آباد ہوتی ہیں ۔ لیکن آج کل مساجد کی تعمیر میں بناؤ سنگھار، نقش و نگار اور بیل بوٹوں پر زرکثیر صرف کیا جا رہا ہے لیکن عبادات کی طرف توجہ کم ہو گئی ہے۔ نمازی حضرات کی تعداد میں کمی اور مساجدوعبادات کی گلکاری اور کشیدہ کاری میں وافر مقدار میں حصہ لیا جا رہا ہے۔اور یہ علامات قیامت سے ہے۔ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نقل کرتے ہیں:
(ابو داؤد ابواب المساجد باب فی بناء المسجد (449)نسائی کتاب المساجد باب المباھاۃ فی المساجد (688)ابن ماجہ کتاب المساجد باب تشید المساجد (739)شرح السنہ2/350(464)ابن حبان (308)دارمی باب فی تزویق المساجد 1/268(1415)مسند ابی یعلیٰ 5/185(2799۔2798)مسند احمد
3/134،153۔1430۔طبرانی کبیر (752)طبرانی صغیر 2/114ابن خزیمہ
(1322)1323)
"قیامت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ لوگ مسجدوں کے بارے میں فخر کریں گے۔"
ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابی یعلیٰ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ میں انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ روایت بھی مروی ہے کہ:
(نیز دیکھیں شرح السنہ 2/351)
"میری امت پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ وہ مسجدوں پر فخر کریں گے انہیں بہت تھوڑا ہی آباد کریں گے۔"
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔
(ابو داود،448۔شرح السنہ 2/348۔نیز بخاری میں تعلیقاً مروی ہے)
"تم مساجد کو ضرور یہود و نصاریٰ کی طرح نقش و نگار کرو گے۔"
اور آج بالکل یہی کیفیت ہے کہ مساجد کو اس قدر منقش کر دیا گیا ہے کہ نمازی کا خشوع وخضوع متاثر ہوتا ہے اور توجہ الی اللہ میں خلل اندازی ہوتی ہے۔ مناسب یہ ہے کہ مساجد کی دیواریں اور محراب سادہ ہوں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیوار پر لٹکے ہوئے پردے کوصرف اس لیے اتروادیا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے توجہ ہٹاتا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں۔
"وعن أنس رضي الله عنه قال كان قرام لعائشة سترت به جانب بيتها فقال لها النبي - صلى الله عليه وسلم - أميطي عنا قرامك هذا فإنه لا يزال تصاويره تعرض في صلاتي "(بخاری کتاب الصلوۃ باب ان صلیٰ فی ثوب مصلب اور تصاویر ھل تفسدصلاتہ (374) مسند احمد 3/151۔283)
"سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ایک پردہ تھا جو انھوں نے اپنے گھر کی دیوار پر لٹکایا ہوا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے(وہ پردہ دیکھ کر)فرمایا:یہ پردہ ہم سے دور کر دو یعنی دیوار سے اتار دو اس کی تصوریں نماز میں میرے سامنے پھرتی رہتی ہیں۔"
علامہ محمد بن اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ ، امیر یمنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
"في الحديث دلالة : على إزالة ما يشوش على المصلي صلاته : مما في منزله أو في محل صلاته"(سبل السلام 1/347فتح العلام 1/214)
نواب صدیق حسن خان قنوجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
دریں جا دلیل است برازالہ چیزی کہ مصلیٰ رامشوش کنددر نماز ازانچہ در خانہ یا در محل نماز اوست (مسک الختام 1/339)
دونوں عبارتوں کا مطلب یہ ہے کہ:
"اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ جو چیز نمازی کی نماز میں تشویش کا باعث ہو۔ اسے زائل کر دینا چاہیے ۔ وہ چیز اس کے گھر میں ہو یا نماز پڑھنے والی جگہ میں۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ:
(بخاری کتاب الصلاۃ باب اذا صلی فی ثوب لہ اعلام و نظر الی علمھا (373)و کتاب الاذان باب الالتفات فی الصلاۃ (752)و کتاب اللباس باب الاکسیاۃ والخمائص (5817)مسلم کتاب المساجد باب کراھۃ الصلاۃ فی ثوب لہ اعلام (556)
"نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونی چادر میں نماز پڑھی جس میں دھاریاں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نظر ان دھاریوں کی طرف دیکھا ۔ جب نماز سے سلام پھیرا تو فرمایا:میری یہ اونی چادر ابی جہم کو واپس کردو اور کڑھائی کے بغیر لے کر آؤ ۔ اس کڑھائی والی چادر نے ابھی مجھے میری نماز سے غافل کر دیا۔ دوسری روایت میں ہے میں نمازمیں اس کی طرف دیکھنے لگا تو مجھے ڈر لاحق ہوا کہ یہ مجھے فتنے میں ڈال دے گی۔"
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں ۔
"فَفِيهِ الْحَثّ عَلَى حُضُور الْقَلْب فِي الصَّلَاة, وَتَدَبُّر مَا ذَكَرْنَاهُ, وَمَنْع النَّظَر مِنْ الِامْتِدَاد إِلَى مَا يَشْغَل, وَإِزَالَة مَا يَخَاف اِشْتِغَال الْقَلْب بِهِ، وَكَرَاهِيَة تَزْوِيق مِحْرَاب الْمَسْجِد, وَحَائِطه, وَنَقْشه, وَغَيْر ذَلِكَ مِنْ الشَّاغِلَات؛ لِأَنَّ النَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ الْعِلَّة فِي إِزَالَة الْخَمِيصَة هَذَا الْمَعْنَى" (شرح مسلم للنووی:5/38)"اس حدیث میں نماز کے اندر حضور قلب اور ذکر و تلاوت اور مقاصد نماز پر تدبر کرنے میں رغبت دلائی گئی ہے اور جو چیز نماز سے بے خبر کرتی ہے۔ اس کی طرف نظر پھیلانے کی ممانعت اور جو چیز نماز سے بے خبر کرتی ہے اس کا ازالہ کرنا اور مسجد کے محراب اور اس کی دیواروں کو بناؤ سنگھار اور نقش و نگار کرنا اور اس جیسی دیگر بے خبر کرنے والی اشیاء کی کراہت ہے، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دھاری دار چادر کو زائل کرنے کی یہی علت ذکر کی ہے۔"
ان احادیث صحیحہ اور شارحین حدیث کی تشریحات سے معلوم ہوا کہ مساجد کے درودیواراور محراب کو منقش کرنا، شیشے وغیرہ سے مزین کرنا اور ان جیسی دیگر اشیاء مکروہ ہیں جو نماز سے نمازی کی توجہ ہٹاتی ہیں اور خشوع و خضوع اور تذلل و عاجزی میں کمی کرتی ہیں تاہم نماز فاسد نہیں ہو گی کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز کا اعادہ نہیں فرمایا تھا اور نہ ہی نماز کو توڑا تھا جس سے ثابت ہوا کہ نماز تو ہو گئی مگر توجہ بٹ گئی اس لیے بہتر واولیٰ یہی ہے کہ شیشے اور بیل بوٹے وغیرہ والی جائے نماز یا محراب نہ بنایا جائے۔کیونکہ یہ اشیاء نماز سے توجہ ہٹاتی ہیں۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب