سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(311) جمعہ کی دو اذانوں کا حکم

  • 1767
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1350

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جمعہ والے دن خطبہ جمعہ کے لیے یہ دو اذانیں ہم نے اب تک کی زندگی میں ہوتی دیکھی ہیں اور ہم خود بھی اس پر عمل پیرا ہیں کیا یہ صحیح ہے ؟ اور اگر سنت نبویﷺ سے یہ نہ ملے بلکہ کسی صحابی کے عمل سے ملے پھر اس پر عمل کرنا کیسا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہﷺ، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ادوار مبارکہ میں جمعہ کی اذان ایک ہی ہوا کرتی تھی جیسے بخاری وغیرہ کتب حدیث میں تصریح موجود ہے(بخاری۔ الجمعۃ۔باب الاذان یوم الجمعۃ) جمعہ کے لیے اذان واحد سنت نبوی ہے اور سنت خلفاء راشدین بھی نیز سنت صحابہ رضی اللہ عنہ بھی۔

’’مولانا عبیداللہ صاحب عفیف کے مضمون بعنوان جمعہ کی پہلی اذان کا شرعی حکم پر وضاحت‘‘

اما بعد خیریت موجود خیریت مطلوب ۔ جناب کا مضمون بعنوان ’’جمعہ کی پہلی اذان کا شرعی حکم ‘‘ جریدہ الاعتصام میں شائع شدہ نظر سے گذرا اس کی چاروں اقساط کو بغور پڑھا ماشاء اللہ مضمون ہر لحاظ سے بہترین ہے اللہ تعالیٰ اس پرآپ کو جزائے خیر عطا فرمائے اور ایسے تحقیقی مضامین رقم فرمانے کی توفیق دے نیز ہم سب کو سعادت دارین سے نوازے آمین یا رب العالمین ۔

اس ملاقات میں آپ کی توجہ ایک چیز کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ آپ  خدشہ نمبر ۲ فثبت الامر علی ذلک کے جواب میں لکھتے ہیں ’’ہمارے نزدیک اس عبارت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ امام بخاری ، امام ابوداود اور امام نسائی رحمہم اللہ تعالیٰ کے عہد میں اذان عثمانی کو قبول عام ہو گیا تھا چنانچہ صاحب المنہل العذب المورود‘‘ الخ(الاعتصام)

آپ کا بیان کردہ یہ مطلب تب صحیح ہو سکتا ہے جب لفظ ’’فثبت الامر علی ذلک‘‘  کے قائل امام بخاری ، امام ابوداود اور امام نسائی رحمہم اللہ تعالیٰ ہوں حالانکہ ان الفاظ کے قائل امام بخاری امام ابوداود اور امام نسائی رحمہم اللہ تعالیٰ میں سے کوئی بھی نہیں حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان الفاظ کے قائل حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ (راوی حدیث) خود ہیں ۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

نماز کا بیان ج1ص 238

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ