السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
انشورنس کی جوحقیقت اوپرعرض کی گئی ہےاس میں کمپنی جوبطور سود دیتی ہے جس کانام وہ اپنی اصطلاح میں منافع رکھتی ہےشریعت کااصطلاحی نام ربو ہےیانہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوالنامے میں انشورنس کی جوحقیقت بیان کی گئی ہےاس میں بیمہ کمبنی بطور سود دیتی ہےجس کانام وہ اپنی اصطلاح میں منافع رکھتی ہےوہ بلاشبہ شریعت اسلامی کااصطلاحی ربو ہے۔کتب فقہ میں ربو کی یہ تعریف کی گئی ہے:
(1)الربو:هو الفضل المستحق لاحد المتعاقدين فى المعاوضة الخالى عن عوض شرط فيه(هداية612/3)
(2)الربوفى الشرع:عبارة عن فضل مال لايقابله عوض فى معاوضة مال بمال(حاشيه هداية61/3)
(3)وفى الشريعة الربو:هو الفضل الخالى عن العوض المشروط فى البيع (مبسوط للسرخسى109/12)
تعریف میں بیع کی قید احترازی نہیں ہےمقصود صرف معاوضۃ المال بالمال ہے اوربیمہ میں ذمہ دار بیمہ کمپنی کوایک مقررہ رقم قسط واربطور قرض دیتا ہے اوراس کےعوض میں کمپنی سےاسی قدریااس سےزیادہ رقم وصول کرتا ہے اس لئے یہاں معاوضہ مال بمال بلاشبہ موجود ہے اوربالفضل کےساتھ بو النسئہ بھی متحقق ہے۔اورشرعا ربوا کی یہ دونوں ہی قسمیں حرام وممنوع ہیں واضح رہےکہ نام بدل دینے سےحقیقت نہیں بدلتی پس کمپنی والے یاکوئی دوسرا اس زائد رقم کاجسے کمپنی والے یاکوئی دوسرا اس زائد رقم کاجسے کمپنی بیمہ دار کودیتی ہے منافع سےبھی زیادہ پرکشش اورحسین بظاہر بے ضرر نام رکھ دے تب بھی وہ شریعت کااصطلاحی ربوا اوربا شرعی ہونے کی وجہ سےحرام ہوگا معاملہ میں بینکوں کاربوا اوربیمہ کمپنی کاہر رہےگادونوں یکساں ہیں دونوں کےحکم میں شرعا کوئی فرق نہیں ہے۔
(تفصیل کے لیے کتاب کا مطالعہ کریں)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب