السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے اطراف ودیار میں یہ رواج ہے کہ قبل ازعقد نکاح مخطوبہ ومنکوحہ کوشوہر یا ان کےاولیاء زیورات بطریق تملیک ہبہ عورت کودئےگئے یاجب تک شوہر راضی رہے اور اس وقت تک بطریق اباحت منافع استعمال بغیرتملیک عین دیئے گئے بلکہ تعامل قومی اورتعارف فیمابین الناس کے موافق دیتے رہتے ہیں۔اورتعامل یہ ہےکہ شوہر اوراس کےاولیاء برابر اپنے کو ان زیورات کادائمی مالک سمجھتے ہیں حتی کہ عورت اوراس کےاولیاء کوقطعایہ اختیار نہیں کہ زیورات مذکورہ میں ازقسم رہن وہبہ وبیع وغیرہ تصرف فی العین کریں اگر کسی عورت نے اس نوع کاکوی تصرف کیا توتعامل یہ ہے کہ عورت مجرمہ گردانی جاتی ہےاور پنچایت کابھی ہی فیصلہ ہوتا ہے۔اور اگر عورت مردائے بلاشرکت غیر ے شوہر اپنے دئیے ہوئے ان زیورات کامستحق سمجھاجاتا ہےیہی تعامل ہےاورقومی پنچایت کافیصلہ ہوتا ہے۔
اسی طرح اگر شوہر انتقال کرجائےاورعورت دوسرا شوہر کرناچاہےتومتوفی کے ورثاء اوراولیا شوہر کےدئیے ہوئےکل زیورات کامستحق اپنےکو سمجھتے ہیں اورجہاں پنچایت میں یہ معاملہ پیش ہو فورا یہ فیصلہ صادر کیاجاتا ہےکہ جب شوہر مرگیا اورعورت دوسری جگہ نکاح کرناچاہتی ہےتوشوہر کےزیورات وابس کرو۔یہ طرز عمل اثبات استحقاق وبقاء ملک زوج کی انتہا ہےکہ عورت کاشوہر کےدئیے ہوئے زیورات پرکوئی حق ہی نہیں سمجھاجاتا(سہام شرعیہ کےموافق حصہ کے متعلق بھی بحث تک نہیں آئی)گویاکہ یہ قومی مسلمات میں سے ہے کہ زیورات شہورہ کی ہوتے ہیں(اگرچہ توریت شرع کےخلاف اس صورت میں عورت کومحروم کرنا بالکلیہ درست نہیں ہے۔
مگر قومی تصور اورتعامل وکھلاناہے کہ زیورات کےمتعلق ان کاکیانظریہ اورعمل ہے؟گاہے طرفین میں قبل ازعقدنکاح کچھ رنجش ہوجاتی ہے توشوہر زیورات عورت کو قبل ازعقد نکاح اس خوف سےنہیں دیتا کہ ایسا نہہو عقدنکاح سےانکار کردیا جائے اورمیرے زیورات ڈوب جائیں کیوں کہ زیورات کی واپسی کےمیرے پاس کوہتکڑے نہیں البتہ بعدااز عقد نکاح بلاخوف ضیاع زیورات عورت کوزیورات دے دیتا ہے کیوں کہ جانتا ہے کہ طلاق میرے ہاتھ میں ہے درصورت نزاع اگر زیورات کی واپس میں کچھ بھی کاٹ کپٹ کریں گے توطلاق نہیں دوگا اس لئے زیورات واپس ہی کرنے پڑے گے یہ طریقہ اختیار کیاجاتا ہےزیورات پر بقاء استحقاق عود کےلئے (یہ قومی تصور تعامل خلع نہیں ہےکویں کہ ضلع زیورات ہی کی واپسی کےساتھ متعلق نہیں ہےبلکہ یہ توزیورات کے ضیاع وہلاک سےاطمینان خاطر کے لئے کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ زوجہ وزوج ہر ایک انتقال پر ہر صورت زیورات کی واپسی کاحق سمجھتے ہیں) نیز کچھ ایسی بھی چیزیں ہیں جوزیورات کےعلاوہ بھی قبل ازعقد عورت کودی جاتی ہےمثلا شرینی کپڑے چوڑیاں سربند جوتیاں عطر مہندی مگر ان اشیاء کےمتعلق تعامل یہ ہے کہ اتلاف تصرف فے العین کےلئے دی جاتی ہیں شوہر ان کےعاعدہ کااستحقاق نہیں سمجھتا اورکوئی سوال نہیں کیاجاتا ہےکہ یہ اشیاء کیا ہوئیں؟ کسی دےدی گئی یاخود استعمال کی گئیں؟ اگرباہم کوئی نزاع ہوجائے توشوہر ان کامطالبہ کرتا ہے اورنہ قومی پنچایت(بخلاف الحلی کمامر)بلکہ اگر اولیاء مراۃ تملیک زیورات کی شرک کرنے لگیں توشاید ہی کوئی خوش حال صاحب استطاعت غیر مضطر آدمی بدیں شرط زیورات دینے پر راضی ہو۔
پس سوال یہ کہ کیامذکورہ بالاتعامل کے موافق جوزیورات عورت کودئے گئے وہ عورت کی ملکیت ہوجائیں گے؟ کیا شرعا تسلم للبقا اور تسلیم للاتلاف میں کوئی فرق نہیں؟اورقومی تعامل وتعارف کیا احد الامرین(تسلیم للبقا وتسلیم للاتلاف) کامرجع نہیں؟کیا بموافق عموم مجمل حدیث عمروبن شعیب عن ابیہ عن جد الخ سل السلام مطبع فاروقی83/20مسک الختام نظامی189/6عورت ان زیورات کی مالکہ ہوجائے گی اگرچہ حسب تعامل تملیکا نہیں دئے گئے؟
نوٹ: یہ زیورات شوہر اپنی مرضی سےحسب استطاعت عورت کودیتا ہے نہ شرائط مہر میں سےہوتے ہیں نہ شرائط نکاح میں سے۔
س:(2)مرد اگربلاوجہ اپنی مرضی سےمخطوبہ سےنکاح کرنا چاہے توجوزیورات مذکورہ بالاتعامل کےموافق مخطوبہ کودے رکھا تھا۔کیا شرعا ان کو واپس لے سکتا ہے؟یا شورہ قبل عقد فوت ہوجائے تو اس کےورثاء واپس لے سکتے ہیں؟حالاں کہ حدیث عمروبن شعیب مذکورہ بعمومہ فیصلہ کرتی ہےکہ قبل عصمت النکاح جوچیز بھی عورت کودی جائے وہ اس کی ہوتی ہے۔فقک۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جواب:(1) مرد اگڑ بلاوجہ اپنی مرضی سےمخطوبہ سےنہ نکاح کرناچاہےتوجوزیورات مذکورہ بالاتعامل کےمافق مخطوبہ کودے رکھا تھا۔کیا شرعا ان کو واپس لے سکتا ہے؟یاشوہر قبل عقد فوت ہوجائے تواس کےورثاواپس لے سکتے ہیں ؟ حالاں کہ حدیث شعیب مذکور بعمومہ فیصلہ کرتی ہے کہ قبل عصمت النکاح جوچیز بھی عورت دی جائے وہ اس ی کی ہوتی ہے۔فقط۔سائل
ج:(1) جو زیوریا پارچات عورت کوقبل عقد نکاح پہنائے جاتے ہیں اگروہ بعوض مہر دئے جائیں تووہ بعدعقد نکاح عورت کاملک ہوجاتے ہیں واپس نہ ہوں گے اس لئے کہ وہ مستعاد نہیں ہوتے گوتصریح کسی امر کہ نہ ہو۔مگر حقیقت میں وہ بحکم حدیث نبوی ہبہ ہوتے ہیں عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ نُكِحَتْ عَلَى صَدَاقٍ أَوْ حِبَاءٍ أَوْ عِدَةٍ، قَبْلَ عِصْمَةِ النِّكَاحِ، فَهُوَ لَهَا وَمَا كَانَ بَعْدَ عِصْمَةِ النِّكَاحِ، فَهُوَ لِمَنْ أُعْطِيَهُ، وَأَحَقُّ مَا أُكْرِمَ عَلَيْهِ الرَّجُلُ ابْنَتُهُ أَوْ أُخْتُهُ»(روااحمد والنسائی وابن ماجه بسند جيد متصل)
لہذا وہ اس کاملک ہیں اوراشیاء خوردنی ونوشید نی وغیرہ عرفا للاتلاف وعدم الردہی ہوتی ہیں۔بحکم حدیث نبوی المسلمون على شروطهم اخرجه احمد ابو داود والحاكم وصححه والترمذي وقال :حسن صحيح بے شک عروف وتعامل پنچایت کااعتبار ہے مگر کتاب وسنت کے خلاف ہےلہذا پنچایت کامذکورہ بالا فیصلہ باطل ہے۔
ج:(2)اگر کسی وجہ سے عقد نکاح نہ ہویا عورت مرد دونوں میں کوئی مرگیا تو وہ صورت مذکورہ بالا سےخارج ہے سائل کومغالطہ ہوا ہے حدیث کامفاد یہ ہے کہ گو قبل عقد نکاح عورت کوکچھ دیاگیا ہےمگر بعدازاں عقد نکاح ہوگیا ۔ایما امراۃ نکحت میں غور کیاجائے کہ یہ حکم منکوحہ کاہے خواہ نکاح قبل اعطاء ہویابعد اعطاء ہو لہذا اس میں تفصیل ہوگ کہ اگربعوض مہر کچھ دیا تووہ واپس ہو سکتا ہےاس لئے وہ جس کاعوض تھا وہ نہیں ہوا اور اگر وہ عطیہ یا ہبہ تھاتو وہ بھی بحکم حدیث نبوی در نہ ہوگا۔ہاں حضرت عمر کااثر موطامیں ہے کہ ہبہ بشرط واپس عوض واپس ہوسکتا ہے۔ضعیف مرفوع روایۃ بھی ہے تو اس صورت میں اس کاثبوت ہوناچاہئے بہرحال یہ رد مختلف فیہ اورمشکل ہے۔مکتوب
٭ضلع بستی اورگونڈہ کےعلاوہ بعض دوسرے اضلاع کے قصبوں اوردیہاتوں میں بھی بہارو نیپال کےپسماندہ مسلم علاقوں سے کچھ پیشہ وردلال عورتیں اورلڑکیوں کولاکر خواہش مندوں سےپیسے لےکر ان سےان عورتوں اورلڑکیوں کوبییاہ دیتے ہیں ان میں سے جولوگ محتاط ہوتےہیں اور حلال وحرام کاخیال رکھتے ہیں ان لڑکیوں اورعورتوں کےوطن کاتہ پتہ پوچھ کر وہاں جاتے ہیں اورپوری تحقیق واطمینان کےبعد وہیں پریا ان کےاولیا باپ بھائی وغیرہ کواپنے ساتھ لاکر اپنے یہاں ان لڑکیوں سےباقاعدہ نکاح کرتے ہیں اورجن کوحلال وحرام کی پراواہ نہیں ہوتی وہ ان دلالوں پر اعتماد کرکے ان کی لائی ہوئی لڑکیوں سےنکاح کرلیتے ہیں۔پہلی صورت کے جواز میں کوئی شبہ نہیں اوردوسری صورت شرعا ہرگز جائز نہیں ہے۔
اولا:اس وجہ سےکہ ان لائی ہوئی لڑکیوں اورعورتوں میں سے بعض ایسی بھی ہوتی ہیں جوشادی شدہ غیر مطلقہ ہوتی ہیں اور انہیں اغوا کرکے لایا جاسکتا ہے جبکہ اس قسم کےواقعات سننے میں آتے رہتے ہیں۔
ثانیا:اس وجہ سے کہ کسی بالغہ یانابالغہ لڑکی کانکابغیر اس کےشرعی ولی کےدرست نہیں ہے اور ان لڑکیوں کے ولی کاکچھ اتہ پتہ نہیں ہوتا اورن اس کاکوئی ثبوت ہوتا ہےکہ ان کے ولی نے کسی دوسرےشخص کواپنا اورقائم مقام بنایا ہےکہ وہ ان کی مولیہ کافلاں شخص سےنکاح کردے۔غرض یہ کہ ایسی لائی ہوئی لڑکیوں اورعورتوں سےنکاح کرنااس وقت جائز اوردرست ہوگا جبکہ نکاح کےخواہش مند اس لڑکی کےاصل وطن گاؤں یاقصبہ میں جاکر پوری تحقیق وتفتیش کرے اوراطمینان کےبعد اس گاؤں ہی میں اس کےولی کی ولایت میں نکاح کرکے لڑکی کواپنے ساتھ لے آئے اوراس کےولی اورگواہوں کواپنے ساتھ اپنےیہاں لواکر آئے اوربقاعد شرعیہ اس سے نکاح کرے۔واضح رہےکہ جب تحقیق کرنےکے لئے لڑکی وطن جائےتواپنے گاؤں کےدوتین معتبر گواہوں کو بھی لواجائے تاکہ ان کی موجودگی میں معاملہ کی تحقیق ہو اوروہ سارے معاملہ کے گواہ بنیں ۔بغیر اس کےایسی لڑکیوں سےنکاح کرنا بری خطرناک بات ہے اورشرعا درست نہیں ہے۔
گاؤں میں جن لوگوں نے اس پہلے اس طرح کاکام کیا ہے وہ غلط ہے اورآئندہ کے لئے حجت نہیں بن سکتا۔جولوگ روپیہ لے کریابغیر کچھ لئے ہوئے اسا قسم کانکاح پڑھادیتے ہیں وہ عنداللہ ماخوذ ہوں گے۔مکتوب
٭صورت مسؤلہ میں لڑکی مذکورہ کےباپ کی عدم موجودگی میں لڑکی کےچچا اورگاؤں کےدوسرے لوگوں نے لڑکی کااس کی اجازت سےعقد نکاح کیا ہے وہ شرعا صحیح ودرست ہےباپ ولی اقرب ہےاورچچا ولی ابعد ہے۔لڑکی کانکاح کرنے کاحق اس کےولی اقرب باپ کو ہے مگر جب وہ ناراض ہوکر گھر سےچلاگیا ہے اور لڑکی کےفتنہ میں مبتلا ہونے کااندیشہ تھا تو ایسی حالت میں حق ولایت چچاکی طرف منتقل ہوگیا لہذا چچااورگاؤں کےلوگوں کاباہمی مشورہ کرکے لڑکی کی اجازت سےمناسب شخص سےاس کانکاح کردیناجائز اوردست ہوا۔مکتوب
٭بکر کے لڑکےکازید کی دوسری لڑکی سےجس نےبکری کی بیوی کادودھ نہیں پیا ہے نکاح شرعا درست اورجائز ہے۔زید کی یہ دوسری لڑکی بکر کے لڑکے کی رضاعی بہن کی نسبی(حقیقی) بہن اوربکر کے لڑکے اوراس دوسری لڑکی کےدرمیان وجہ حرمت نہیں پائی جاتی تحل أخت أخيه رضاعا كماتحمل نسبا كأخ من الأب له أخت من أمه تحل لاخيه من ابيه(شرح وقايه68/2)اس مسئلہ میں کسی کااختلاف نہیں ہے۔مکتوب
﴿فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ﴾
تعددازواج اس زمانہ میں قبیح ترین فعل خیال کیاجاتا ہے اور اس کانہایت مکروہ نام شرعی آوارگی رکھا گیا ہے۔جس کےمعنی یہ ہیں کہ:طلاق کی طرح اس کی بھی اسلام نےباکراہ اجازت دی ہے یامولویوں کی جماعت نےاپنی خوشی طبعی کے لئے ایک صورت بنالی ہے ۔مگر سچ پوچھئے توسخت نافہمی اوردیدہ دانستہ انکار ہےملامفت کے بدنام ہیں۔
تعددکی اجازت ہنود کےیہاں بھی ہے مگر ستی کےرو اج اور عقد بیوگان کی رسمی حرمت اورپھر ان کی کفایت شعاری بھی البتہ انہیں اس سےروکتی ہے پھر دنیاجانتی ہےکہ شریعت موسوی میں اس کی اجازت ہے۔عیسائیت کوئی نئی اورعلاحدہ شریعت نہیں ہے۔کیوں کہ انجیل میں ان ملکی آئیں میں سےکوئی بھی منسوخ نہیں کیاگیاہے جوانجیل سےپیشتر جاری تھے اورسچی بات یہ ہے کہ انجیل میں کہیں امتناع مرقوم نہیں ہے بلکہ بائبل کی متعدد آیتوں سےپایاجاتا ہے کہ تعدد ازواج م صرف نہیں بلکہ خاص خدا نے اس میں برکت دی ہے۔صرف ان کی رہبانیت اوریورپ کےقدیم رواج توحدازدواج نےمذہبی جماعت سے بھی اس پر صادر کرادیا ہےاور اس ملکی قانون میں داخل کرادیاہے۔
ہندوستان جہاں ہندو بھائیوں کےاوررسوم وخیال میں متحد ہم زباں ہوئےاس مسئلہ میں بھی رسم باری کی پاس رکھ لی اورجب یورپ کےظل عاطف میں پرورش پانےلگے تو ایک فطری بات تھی کہ کچھ اس ملک کی رسوم وآداب کی چاشنی سےبے بہرہ رہتے اور پھر جو ان کےاعتراضات کےتیر برسنےلگے تو ان کےخیال اوراعتقادبھی تتر بتر ہونے لگے اور ایسے حواس باختہ ہوئے کہ جواب دیتے نہ اوربلاداسلامی بھائیوں کاپاس رہا نہ صحابہ کرام کےعمل کاخیال آیا نہ ہی خدا کی اجازت کابحران میں جومنہ میں آیامعترض ہی کےموافقت میں بولتے چلے گئے۔نہ اس کی حکمت پر خیال دوڑایا نہ اس کی مصلحت پر حالاں کہ سچی بات یہ ہے کہ اس میں مردوں کےلئے سیاسی قوت عیاشی کاعمدہ علاج ہے۔اوربشرط قدرت عدل ومصارف بہت بڑی فیاضی ..... کی نفس کشی اوراعلی درجہ مواسات ہے اورہند کی بیواؤں اور یورپ کی عورتوں کےلئے بے انتہا رحمت کیوں کہ زمانہ حال کی مردم شماریوں نے بتلادیا ہے کہ چند مقامات کےساکل ممالک میں عورتوں کی تعدادزیادہ ہے یہاں تک کہ انگلینڈ اور ویلز میں کنواری اورانڈ عورتوں کی تعداد ایسے مردوں سےدولاکھ زیادہ ہے۔پھر اپنی ذاتی راحت وعیش اورخیالی تسکین وشادمانی کوترجیح دینا اورلاکھوں عورتوں کو بدکاری وبداخلاقی کی بازاروں کی رونق بنتی اورمصیبت اورافلاس وکس مپرسی کےتہ خانوں میں مدفون رہنے دینا اورخداکی دی ہوئی نعمتوں میں سے کچھ حصہ ان کونہ دینا کس درجہ کاظلم اورکیسی بے رحمی وسفاکی ہے!!!؟
عقلاء کےنزدیک درحقیقت وہ مذہب معاشرت وتمدن کےلئے مضر اورعورتوں کےحقوق کو تلف کرنے والا ہے جوایک سے زیادہ عورتوں کوکسی حالت اورکسی صورت میں مردوں کوجائز وقانون شریک ہونے کی اجازت نہ دے نہ کہ وہ حس نےایسی صورتوں کونظر انداز نہ کیاہو۔
امید:بڑی عجیب بات ہے کہ جہاں کثرت ازواج کےلفظ سےعیسائی مصنفوں کےدل میں ایسے مکروہ خیالات گذرتے ہیں کہ وہ اس امر میں ہر ایک بات کی نسبت پہلے ہی مصم ارادہ کرلیتے ہیں کہ اس میں عیب نکالیں اورنہایت بے باکی سےاعتراض کریں وہاں چند ایسے نفوس زکیہ پائے جاتے ہیں جواس مسئلہ کی خوبی ومصلحت کی نہایت خوشی دلی سےاعتراف کرتےنظر آتے ہیں۔
چنانچہ جان ملٹن نےاس کااقرار کیاہے کہ یہ مسئلہ کی خوبی ومصلحت کانہایت خوش دلی سے اعتراف کرتے نظر آتے ہیں۔
چنانچہ جان ملٹن نےاس کااقرار کیا ہے کہ یہ مسئلہ فی نفسہاکسی طرح قبیح نہیں ہے۔مانٹگیون نےملک کی آب وہوا اورطبعی وجوہات کےلحاظ سے مشاہدات کی بنا ءپر ایشائی ممالک میں امر کےرواج کی موضوعیت بتایا ہے(گو سچی بات یہ ہے کہ خود یورپ وامریکہ میں اس کی اشد ضرورت ہے جیساکہ معزز مسٹر الگز نڈڑرسل دب صاحب امریکن نے اپن تقریر میں اس کی تمنا اور حسرت ظاہر کی تھی ) اور مسٹر جان ڈون پورٹ صاحب نےدونوں مذکور الصدر رایوں سےپورا اتفاق فرمایا ہے۔
علم قوائے انسانی اورعلم طبعیات کےمسلسل تحقیقات اورایسے منصف مزاج افراد کی اشاعت رائے کی بناء پر اورنیز ملکی معاشرت سیاست کی پکار مجبوری کی امید مجھے کامل یقین ہےکہ یہ مسئلہ بھی جلد وہاں کی ملکی قانون میں جاتااوراس غرض کی تکمیل کےلئے اس سے سہل ترین صورت جوصرف تناسل وازدواج کےتوسط سےحاصل ہوتی ہے دوسری نہیں ہوسکتی۔
اگر یہ رواج پا جائےتومسلمانوں سے بڑھ کر یہاں کسی کازورباقی نہ رہے اور ان کےہزاروں مسئلے سہل ہوجائیں۔ تمام دفاتر اور محکمے ان سے پر ہوجائیں فوجیں ان سےبھر جائیں ان کی ایک سیلاب کی کیفیت ہوجائے اورپہاڑ کی طرح اٹل ہوجائیں ۔پھر کونسل میں کسی قوم کو ان کے مقابل میں اپنی کثرت مجارٹی پیش کرنےکی ہمت بھی نہ ہوہرجگہ ان کاووٹ ہو اور ان ہی کی بات رہ جائے۔انہیں نہ دوسری قوم سےمرعوب ہوکر انتخاب علاحدہ کی تجویز پیش کرنےکی ضرورت باقی رہے کیوں یہ دن ہمارے قلت افراد کے باعث ہیں غیر اقوام سےکچھ نہیں بن پڑتی توہماری قلت افراد سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔
یہ کیسی سہل ترکیب ہماری مذہبی روایت نے بتائی تھی۔لیکن افسوس کہ ہم اسلامک پالیکس کو ایک دم فراموش کرگئےہیں۔اوردیدہ ودانستہ اس سے اعراض کرتے ہیں۔آج تک ہمارے کسی لیڈ ہند نے اس کی طرف توجہ نہیں کی ۔حالاں کہ اس میں یہ راز بھی مضمر تھا کہ اس طریقہ ہر شخص متعدد قبائل کواپناہمزبان اورہمدرر اور ان سےمواخات پیدا کرسکتا اوراس کے ذریعہ کم ازکم چار قبیلوں کےاختلاف ونزاع مٹاسکتاہے۔یہکوذہنی بات نہیں ہے اورملکوں میں اس لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جسے یقین نہ ہو تزک امیری مطالعہ کرے اوردیکھے کہ امیر عبدالرحمن خان مرحوم اس سے مستفیض ہوتے تھے یانہیں!!۔
میرے خیال میں اس صورت سےعمدہ وفادار اورجانباز باجماعت قائم کرنےکاکوئی عنوان نہیں ہوسکتا۔دنیا میں اقبال قوم کی ایک خصوصیت یہ بھی دیکھی جاتی ہےکہ وہ کثیر الاولاد ہوتی ہے۔اقوام جاپان جرمین چین اس وقت کثرت اولاد میں مشہور ہیں۔کثیر الاولاد شخص گارڈفادر کہلاتا ہے اوب بھی نظر سے دیکھاجاتا ہےاس کومدنظر رکھ افراد ملت کےبڑھانے کی صورت رسول ﷺبتاتے ہیں کہ ایسی عورت سےشادی کرو جس سےزیادہ اولاد کی توقع ہو(تزوجوالودود الولود) ليكن لیکن ہماری حالت اس کےخلاف ہے اورہم اس کوباعث مضرت خیال کرتے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھتے کہحاجت میں جگہ پائے گا۔اورعجب نہیں کہ مسئلہ طلاق کی طرح اس میں بھی پبلک حداعتدال سےتجاوز کرجائے۔
اسلامی آبادی:اسلامی آبادی بڑھانے کی تدبیر کی طرف مذہبی روایات میں اشارات اس کثرت سےہیں ہکہ اس موضوع پر مستقل رسالہ مرتب ہوسکتا ہے۔بہرکیف !قوم عرب اپنے کل ایشائی اقوام میں کثرت اولاد وقبائل پر فخر کرنے اوراسے محبوب رکھنے میں ممتاز ہیں۔اورہمیشہ اپنی عصبی قوت کےبھروسے پردوسری سرکش اقوام کوزیر کیاتو ان کی فطری یاملکی خصوصیت تھی مگر شریعت اسلام نے بھی ان کےاس خیال کااحترام کیاہے۔اس کےدیگر ذرائع ووسائل کےعلاوہ طبعی وسائل یعنی :تزود وتناسل میں وسعت وکثرت کو محبوب رکھا ہےجہاں ارشاد ہے:﴿ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا﴾رسول اللہﷺاس امر ملحوظ رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:تزوجوالولودفانى مكاثربكم الامم اوررسولﷺ کےعم زادبھائی ابن عباس فرماتے ہیں:خیر هذه الامة اكثرها نساء
غوركرنا چاہیے کہ ایسی پاک نفوس نے اس قسم کی ترغیب وتحریک کیوں کی ؟ اس میں راز مضمر ہے کہ اس اصولی طبعی پر مسلمان عامل ہوتے ہوئے کسی غیر مسلم آبادی میں تھوڑے بھی جابسں گےتوقلیل ہی عرصہ میں ان کی قلت دور ہوجائے گی ۔اور اس جگہ صاحب قوت ہوجائیں گے اورپھر وہاں کی قدیم آبادی انہیں مغلوب نہ کرسکے گی ۔اور اس غرض کےلئے تاکہ مسلمان اغیار بھی اپنی قوت قائم کرسکیں اور ان کےسچے قوت بازو ہوجائیں گے۔
اسلام نےکتابیہ عورت سےبھی نکاح کرنےکی اجازت دیدی ۔اس جگہ اس بات کو فراموش نہ کرنا چاہیے کہ بیوی اورشوہر کےرشتہ داروں میں ایسی شادیوں سے کسی قسم کےدوستانہ تعلقات قائم ہوجائیں گے۔دونوں فریقوں میں باہمی الفت اوراعانت کےروابط مستحکم ہوں گے جو انسانی فطرت کا تقاضہ ہے جس طرہ یہ ہوگا کہ بیوی سے جواولاد ہوگی وہ ہر طرح اپنے نہال والوں کی نگاہوں میں عزیز اور ان سے قریبانہ تعلقات قائم کرنےوالی ہوگی اوریہ صاف اظہر من الشمس ہے کہ دنیا افراد ملی سےبڑھ کردوسری قوت ارفع نہیں سمجھی۔
نکاح بیوگان: قاسم امین بیگ لکھتے ہیں جب میں فرانس گیاتو جس امر نےمجھ پر سب سےزیادہ اثر کیا اورجس سےمجھے سخت نفرت وحسرت ہوئی وہ یہ تھاکہ پجاس برس کی عمر کی عورتیں اب تک بےشادی ہیں۔پھر دوسری جگہ لکھتے ہیں:یورپ میں ہرجگہ غیر شادی شدہ عورتیں پائی جاتی ہیں۔اگر قاسم امین ہندوستان کا سفر کئےہوتے توقریبل قریب یہی خیال یہاں سے بھی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں کیوں کہ قریب قریب ہمار کوئی کھڑ کوئی خاندان معصوم بسواؤں سےخالی نہیں ہے۔ ان میں اکثر ایسی بھی ہیں جواتزوج سےمنقطع بھی نہیں ہونے پائی ہیں بے اولاد ہیں اورسخت بے بس ہیں ۔کیاایسی عورت کی زندگ سخت افسوس ناک نہیں ہے؟ ذراخیال توکرے کہ ان کےدل کی کیاحالت ہوگی؟اور ان کی کتنی حسرتوں کاخون آنسو بن کربہا ہوگا؟اورباوجود ہندستانی عورتوں کی اعلی جبلت اورفدائیت کے کتنی عورتوں کی زندگی سخت مبغوض اورباعث تنگ ہوجانی ہے؟۔مگر اس کاعلاج جواس نقص کوبالکل مٹادے کسی نےسونچا ہے؟زمانہ حال کی مردم شماریوں نےبتلایا ہےکہ چںد مقامات کےسوا کل ممالک میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے۔پھر ایک اخبار کا بیان ہے کہ انگلینڈ اینڈویلز میں کنواری اورابنڈ عورتوں کی تعدا کنوارے اورانڈوے مردوں سے دولاکھ زیادہ ہے۔
بعض اخبار کیابیان ہےکہ عورتوں کی تعدادبعض ملکوں میں یہ چند ہے۔بھلا ایسی حالت میں غور فرمائیں کوئی شخص تزوج کےلئے سیکنڈ ہینڈ(بیوا عورتوں) کی طرف رخ کیوں کرلے گا۔جہاں اسے آسانی سےایک نہیں دودوکنواری مل سکیں اوراس کےعلاوہ جہاں یہ پیدائش میں زیادہ ہیں وہاں اموات میں مردوں سے کچھ زیادہ نمبر نہیں بڑھاتیں۔
اور ھر میں پوچھتا ہوں کے بے بیاہا جوان اپنے نفس کےلئے ایک بیوہ کی طرف رغبت طبعی کیوں کرسکتا ہے؟ اگر جواب نفی میں ملتا ہے تو انکحو الایامی منکم(النور) کی تعمیل کیوں کر ممکن ہے؟ ظاہر ان کےافسوسناک اورمعیوب زندگی کاعلاج معلوم نہیں ہوتا کیاوجہ ہےکہ باوجود مذہبی اجازت نکاح بیوگان کےمصلحان قوم کو اس امر کےرواج دینے میں تقریبا بالکل ناکامیابی ہے!! اوریہ اپنی کوشش وسعی کاصرف انتا ثمرہ کیوں پاسکے کہ اب اکثر مسلمانان ہند اسے معیوب نہیں سمجھتے بلکہ مفید بات خیال کرنے لگے اوراس کےخلاف دوسرے بلاد اسلامی میں مصلحان قوم کواس کی طرف توجہ کی مطلق نہیں پڑتی ۔اس کی وجہ یہ ہےکہ ان بڑوں (خاوندوں) کے لئے انہوں نےکبھی فکر نہیں کہ اس کےلئے کوئی گنجائش نہیں نکالی اگر اس کےساتھ ساتھ تعداد ازواج کی بھی تبلیغ کرتے توآج ساری بیوائیں سہاگنیں ہوتیں اور ان کی زندگی بھی پاک اورعافیت دہ ہوتی اور سچی بات یہ ہے کہ ان کےبھاک کھل جاتے اور ان کےذریعہ ہمار افراد کی بھی گئی گنازیادتی ہوجاتی ۔ یہ بات صاف ہے کہ ایک مدر کنواری عورت سے شادی کے بعد دوسری تیسری جوتھی زوجہ کےلئے بیوہ عورت کی رغبت اورفیاضی بہ آسانی کرسکتاہے اورہرگز اسک اس سےدریغ کاموقع نہیں دیتا۔٭
یورپ میں اس گنجائش کے نہ ہونے سے سخت دقتیں ہیں شادی بیوگان کی رواج ارملیک یقانون نےاجازت دی ہے مگر سوائے دولت مند بیوا عورتوں کےدوسری کی نباشاذونادر ہوتی ہےیاوہ نادارشخص دولت کے طمع میں مجبوران کی طرف راغب ہوئےاوراس عورت کےلئے رحنت بنے۔خلاصہ یہ ہے کہ اس گنجائش کےنہ ہونے سےوہاں کاروواج بھی ان کےحق میں چنداں مفید نہیں ثابت ہوسکا ۔ان کی بھی کی مٹی بھی وہاں ایسی پلید ہے حالاں کہ تعداازواج ان یہاں بھی ممتنع نہ تھا۔
میں نہیں سمجھ سکتا کہ مسلمانوں کی غیرت ایسی مفید بات کی تردید کے لئے انہیں کیوں کرہمت دلاتی ہے۔ان کی برائی ٹھیک اسی بناء پر ہے جس بناء پر آج یاکل تک نکاح بیوگان کی تھی بھائیو!غیر اقوام کےبے جااعتراض سےبدکنے نہ لگو راسخ الاعتقاد ہونےکےساتھ اپنے اسلامی اجازت اورتعلیم کی حکمت ومصحلت پر غور کرو قرآن تمہارے لئے رحمت ہے۔تم اپنی عقل کواس کےمطابق بنانے کی کوشش کرو۔
مرد کی کمی:آج کل ہندوستان میں ایسی بری ہوا پھیل رہی ہے اورمتعدی ہوجاتی ہے کہ الامان والحذر !کچھ زمانہ قبل لوگوں میں دستور تھا کہ لڑکی والے شادی کرتے وقت ان کےمنسوب شوہروں کی خوشخالی یابدحالی کالحاظ کرلیتے تھے مگر لڑکے والے لڑکی کےکنبہ کی غربت کاچنداں خیال نہیں کرتے تھے۔اورفوالاواقع مسلمانوں میں کبھی تلک کارواج نہ آیاتھادیگر رسوم ورواج تک ہی قانع معلوم ہوتے تھے لیکن اب بے محنت دولت حاصل کرنے کےپیچھے پڑے ہیں کہ ثروت کاذریعہ امراء کےیہاں تعلق ازودواج پیدا کرنا ہی سمجھ لیا ہے۔مگر مسلمانوں کےدن جب تک اچھے تھےزوجہ کی دولت کی پرواہ نہیں کرتے تھے ۔اس کےروئپے سےمتمتع ہونے کی نظر حقارت سےدیکھتے اورکبھی بھی اس کے مال کےباعث اپنے کو اس کےنان ونفقہ سے مستغنی نہیں خیال کرتے تھے۔مگر افسوس جس طرح اورہزارمرض ہم میں آگئے عروم من الفروج کامرض بھی جاگزیں ہوگیا مردم شماری ہمیں بتاچکی ہے کہ عورتوں کی تعدا دمردوں سےخلقتا سہ چند ہے۔
بعض رسوم ملکی اورعام طبع دولت کی وجہ سے ہر موقع کے ملنے نہیں ہے ۔دولت مند اپنی دولت وعزت کیوجہ سےچنداں پریشان میں نہیں پڑتے لیکن پھر بھی اکثر اوقات اپنےنسبا ودولتادب کرلڑکے لاتے ہیں اور ان کی فرمائشات اورتمناؤں کوپورا کرنے میں اعتدال سےتجاوز کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں لیکن ایسی حالت میں بیچارے غرباء کیاکرسکتے ہیں!؟ نہ ان کےپاس موٹر کار کےروپئے! نہ انگلستان کےسفر کے پیسے ! دوسری طرف لڑکیوں کی پیدائش پر نظر کیجئے تو ایک ایک گھر چار چار جھ چھ ہیں ۔کنیا دان کرتے کرتے خود باپ کابھی دان ہوجائے ۔
اخبار اوروایات متواتر سے پتہ چلتا ہےکہ ہندوستان لڑکیاں عام اس سے بنگالی ہوں یا بہاری اس کےباعث اپنی عصمت برباد کرتی ہیں اورجانیں تلف کرتی ہیں ۔تعلیم یافتہ اورغیرت مند لڑکیاں انتظاری کےبعداپنا قصہ آپ ختم کرلیتی ہیں یورپ میں بھی غریب لڑکیوں کا ہی حشر ہے اوراس وجہ سےہر گھر میں بے بیاہی لڑکیاں پائی جاتی ہیں اورحسرتناک وشرمناک زندگی پر ان کاخاتمہ ہواکرتاہے۔
نہایت اقسوس کامقام ہےکہ اب تک اس مرض کےدفع کے لئے مصلحان ملت وقوم کی توجہ نہیں ہوئی ہے یورپ میں ہوں یا ہندوستان میں بنگالی ومرہٹہ سب خواب خرگوش میں ہیں ۔کسی کواس اخلاقی کمزوری کی فکر نہیں ہے۔لیکن میرے خیال میں اگر اس وبا کی روک ہماری قوت سےباہر ہےتو ان کےلئے تعدار ازواج کی اشاعت کےسوا کوئی علاج کارگر نہیں اورواقع روپئے کی طمع سےروکنا اورقوم کےدلوں میں اس کی جانب نفوز پیدا کرنا مصلح قوم کی قوت زبان وقلم سےبہت بالا ہے۔مگر اتنا ضرور ہے کہ اگر تعداد ازواج رواج پائےجائے توغرباء کےلئے بڑی رحمت ہےکیوں کہ تعداد ازواج بے معنی نہیں ہوگاکبھی خوش سلیقہ ہون سمجھ وذی علم ہونا بھی اس کاباعث ہوگا اور ایسی حالت میں رمد ہر باردولت ہی کوہوس نہیں کرے گا۔
زن پرستی:زن پرستی توآج کی پری محبوب بات ہے کیوں کہ سویلریشن کی اعلی ترین علامت ہے۔گومحض تصنع ہی سہی۔ اورگواس پردور کاڈھول سہاون کی مثل صادق کیوں نہ آتی ہو۔آخر متمدن ممالک میں اس کےباعث لوگ خانگی دقتوں میں ایسے پھنستے ہیں کہ ناداری اور قرض کی نوبت پہنچتی ہےاورپھر کیف جوپلٹا کھاتی ہے توگھر جنگ ونزاع کامرکز بن جاتا ہے اورجیتے جی دوزخ کا نمونہ پیش کرتا ہے یہی کیفیت ہمارے غیر مہذب ملک کی بھی ہے امور خانہ داری میںدودقتیں پیش آتی ہیں اورجنس لطیف کی طلاقت لسانی اوراصرار مردوں کی دم گھونٹ ڈالتی ہے اس سے برھ کر بعض اورقات اس کاجمع اعتقاد واعمال پر ہوتا ہے اور مسلمان کی فطرت کوبالکل برباد کردیتی ہےیعنی: مسلمانوں کی عورتیں رسومات شرکیہ کی اداکاری کےلئے اپنے سمجھ دار شوہروں سےاجازت تک لے لیتی ہیں اوربعض موقعوں میں انہیں شریک تک کلیتی ہیں ایسےمردوں کےمتعلق مجھے نفخۃ الیمین کی ایک حکایت یاد آگئی ہےتفریح طبع کے لئے ہدیہ ناظرین کرتا ہوں۔
حکایت :ایک شخص نےسلیمان سے باصرار منطق الطیر کےسمجھے کی تعلیم پائی تھی مگر اس میں شرط یہ تھی کہ اگر اپنی اس صلاحیت کی اطلاع کسی کوبھی دے گا توملک الموت اس کی روح قبض کرلیں گے وہ اکثر حیوانات کی گفتگو پر ہنستا کبھی سبحان کہتا کبھی روتا کبھی مغموم ہو اس کےباوجود وجود کوروکو اس کی وجہ سے کچھ بدظنی پیدا ہوتی اوروہ تھی زبردست اورمیاں تھے مرغ خصال اس نے جوانہیں دھردیا یاتو میاں بتانے پر مجبو ہوئے اورموت کی تیاری کرنے لگآ۔اس گھر کےبیل گدھے گھوڑے سب اپنے مالک کےغم میں پڑگئے چارہ پانی چھوڑ دیا۔مگر مرغ ویسے ہی سابق دستور کھاتاپیتا بانگ دیا کرتا۔سبھوں نےمرغ کو لعنت ملامت کرنی شروع کی۔دوتوبیل اورگدھے تھے ہی اس نے گھوڑے سےکہا:یہاں تم دیوانے ہوگئے ایسے مالک غم کیا ۔دیکھومیرے تحت میں اس وقت بیس مرغیاں ہیں لیکن کسی کامجھ پرزور غلبہ نہیں۔اوریہ میاں ایسے ہیں کہہ ایک جورو سے دب کی اپنی جان دے رہے ہیں۔
واقعی یہ بات ہےکہ یہ مرض توحدازواج کی بدولت دامن گیر ہوتا ہےشوہر متعدد ازواج کبھی دیو نہیں پایا جاسکتا اورکبھی اس قسم کی مشکلات اسے پیش نہیں آسکتیں۔
عیاشی:
﴿وَلا تَقرَبُوا الزِّنىٰ إِنَّهُ كانَ فـٰحِشَةً وَساءَ سَبيلًا ﴿٣٢﴾.... سورة الإسراء
مطلق زنا کوسخت جرم قرار دیا دنیا میں اس کی کی سزا سنگسار کرنا کوڑے لگانا مقرر کی گئی ہے اورخدا کا گناہ گارا الگ ٹھہرایا گیا ہے اور اس کےسارے رخ چھوٹی بڑی آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں۔وامثال ذلک کہہ بندکرےدئیے گئے۔عزل واستمنا کوجانوں کوضائع کرناکہ دیاگیا ۔ترک لزوج لارہبانیۃ فی الاسلام فرماکر روک دیا گیا۔توپھر جس کسی کوغیر اخلاقی وشرعی عصیان میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ ہوتو اس کے لئے کیاصورت قائم کی جاتی ۔کیاوہ مذہب سچا اورفطرت کےمطابق ہوسکتا ہےجوباوجود اس دعوی کے کہ کافہ انام کےلئےہے ایسی صورتوں کے لئے جوساری دنیا اورتمام اقوام عالم کےاعتبار سےہرگز درالوقوع نہیں کہی جاسکتی ہیں کوئی ایسا چارہ کار نہ بتائے جواصول اخلاق وہمدر انسان اورسچی عفت وپارسائی کےموافق ہو۔
تعجب تویہ ہےکہ آزاد غیر محتاط طبیعتیں بھی تعدار ازواج پر بیہودہ جرات کرتی ہیں اور اس کوشرعی آوارگی سےنامز کرتی ہیں۔جس طریقہ کوخدانےساسبیلا(الاسراء:32) سے تعبیر کیا اس کے لئے سخت سےسخت سزائیں مقرر کیں اسے تواپنےحلال کررہا ہے۔جس کی خدا اجازت میں اس نفرت ظاہر کتی ہیں۔حالاں کیہ عملا محدور عورتوں کےوقتی شوہر بنتے ہیں اور اس کے پیچھے گھر بار عزت وآبرو جان سب برباد کردیتے ہیں۔اورزودہ کےحقوق تلف کرکے حق العباد کے الگ مجرم بنتے ہیں سچی بات یہ ہے کہ ایسے حضرات صرف زبانی صفائی دیکھاتے ہیں درحقیقت ملکی رسم وعادات اورزمانہ کی ہواکےتھپیڑے سے خوف کھاتے ہیں اورلرزہ کھا کر ایسی خندقوں بن گرتے ہیں جہاں کسی کی دستگیری مشکل ہے۔
اب میں پوچھتاہوں دنیامیں ایسے لوگے کتنے ہیں جو فی الواقع اپنےبےاعتدالیوں سے عمر بھر بچاسکے ہوں ایک ہی بار جائز بی بی بر قانع رہےہوں وہ ممتمدن ممالک جسے توحدازواج پر فخر ہےاوردوسروں دید ہ وہین کرتے ہیں اگر ان کی معاشرت اوراخلاق کامطالع کرو تو اہاں ایسے ایسے فواحش تجارت کےطور پر اصول وقاعدہ کےساتھ علانیہ ہوتے ہیں کہ شیطان بھی الامان والحذر پکارتاہے اگڑ وہاں اس وجہ سے بے پردگی اورذکورواناث کایسا بے روک ٹوک ملانا نہ ہوتا ہے اور نہ صرف دوستوں اور احباب ہی بلکہ اعزہ واقارب کے گھر ان کر حرم سرائیں نہ ہوتیں۔تو ایک دن بھی یہ بسر نہ کرسکتے ۔
قاسم امین بیگ لکھتے ہیں:ملک فرانس میں جتنےبچے پیدا ہوتے ہیں ان میں چوٹھائی سےزیادہ اولاد حرام ہوتی ہے اور ایک لاکھ پچاس ہزار اولاد حرام ہر سال بحالت حمل یابعد ازوضع حمل ضائع کردی جاتی ہےیہ اعداد وہ ہیں جن کاعلم گورنمنٹ کوہتا ہےاور سرکاری کاغذات میں آجاتے ہیں ورنہ یہ تعداد پانچ لاکھ سے کسی طرح کم نہ ہوگی۔چول سیمیول نامی نےلکھا ہےکہ اگر کوئی والد الزنا قتل سےبچ جائے تواس کومعجزہ سمجھنا چاہیے۔ناجائز عشق کےباعث جنتے خون صرف اس ملک ہند میں ہوتے ہیں اورجن کی رپورٹیں شائع ہوتی وہ کیاکم ہیں!!!۔
ناظرین خود فیصلہ کرلیں کہ متمدن مالک اورنیز آزاد طبیعتوں کافخر کرناکہاں زیبا ہے! اوریہ کس قدر تفرقہ پیدا کرنےوالے اورخلقت عالم کوبرباد ونیست کرنے والےہے۔
خدان نے ان امراض سےبچنے کلئے بھی ہی دواشارۃ بتادی ہےایک امریکن پروفیسر الگزنڈرسل دب نے ممبئی میں اپنے ایک لیکچر میں کہاتھاکہ :یورپ وامریکہ میں اسلام طر ح سےپردہ اورتعداد ازواج کارواج ہوتاتوآج وہاں اس قدر فواحش ہرگز نہی ہوت ان شاء اللہ زیادہ قریب ہے کہ تمام یورپ اس اجازت کاقائل ہوجائےگا۔
ذات:ذات کاقصہ اوراس کی نگہداشت ایشائی خلقت کاخاصہ ہےاوراہل ہند اپنے خصوصیت میں سب سےممتاز ہیں ۔اکثرریفارمر نے قومی وملکی ترقی کےلئے ارتفاع ذات کو نہایت ضروری خیال کیا ہے اوراس کی قید وبند کوموجب نکبت۔اور وہ اپنی زبان وقلم سےاس کےمٹانے کی کوشش سےباز نہیں آئے ہیں۔مگر جب یورپ باوجود اپنی اتنی ترقی کے قدامت پرستی اورملیک رسوم کے سخت پابندی سےنہ بچ سکا حالاں کہ اس کی یہی پابندی وہاں فواحش ومنکرات کی اشاعت کی باعث ہےتوپھر ہندوستان ایسے قدیم رسم ورواج سےوابستہ ہےکیوں بغیر کسی گنجائش وراستہ کے کسی کی سن لیتا(کہ میرے خیال میں کسی قوم کے راہ میں ترقی میں پابندی مانع نہیں ہے)اگر وہ اسلام کےاس زریں اصول واجازت (تعداازواج)پر کاربند ہوتے ہوئے اس کی ترغیب دیتے توآج سا کوبندش شے آزاز پاتے ۔لیکن اب بھی وقت باقی ہے اورہمیشہ باقی رہےگا۔اس سےسہل طریقہ ذات کے قیود کےمٹانے کانہیں دوسرا نہی مل سکتا۔دیکھئے اور پھرغور کیجئے!!۔ ہر شخص چار عورتیں ایک منصب ایک ذات کی اپنی زوجیت میں نہیں لاسکتا لامحالہ ایک سیدانی ہوگی دوسری جاٹ تیسری مغل خاندان کی ہوگی تو چوٹی سنٹھال یاکھونڈ اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ ایک باپ چار بچے چار مرتبے چار حسب ہوں ہوں گے۔
تقاضائے فطرت باپ کواس امر مجبور کےکرےگی کہ اپنی ساری اولاد ایسے گھروں میں بیاہےکہ نظروں میں اونچے دیکھائیں دیں جودنیا میں ہزاروں مثالیں شہر وقصبہ میں ایسی ملتی رہتی ہے پس اس طرح نصف صدی ہی کے اندر کسی تفاخر بالنسب کاخیال بھی نہ رہے گاسب کےسب مساوی اور ایک پلیٹ فارم پر آجائیں گے پھر نہ سید کاجھگڑا رہے گنہ پٹھان کا۔
ریفارمر سوچیں کہ وہ قوم کو ہانکنا چاہتے ہیں مگر اس کے لئے قیل قوم کےلئے راستہ ہموار نہیں کرتے اورجب وہ راستہ کی پڑتا کرتے ہیں تو ہمیشہ کے یورپ کی دوربین اورفیتہ سےکام لیتے ہیں کبھی ملکی دوربین استعمال نہیں کرتے حالاں کہ ان کی زبانیں سودیشی اشیاء کےلئے چیختے سنائے دیتےہیں!!۔
نوٹ مسلمانوں کواپنے سیاسی مسئلہ کی تحقیق کےوقت چند امور کالحاظ رکھتا ضروری ہے:
(1)پہلے قرآن کی صاف اوراضح عبارت پر غور کرنا چاہیے کہ وہ اس مسئلہ کےمتعلق کیافیصلہ ناطق کرتا ہے۔
(2)پھر جناب سرور کائنات نےاس کوعالم کےلئے کس طرح برت کردکھایا اورپھر صحابہ کرام جو جناب کے تلمیذ اورفدائی تھے۔
اس کےمتعلق کیاعمل رہ کیوں کہ قرآن ہم کوصرف مادی اورسوشل ہی تعلیم نہیں دیتا ہے بلکہ ہر جگہ ساتھ ساتھ پالیٹکس کی تعلیم بھی دیتا جاتا ہے(آج یورپ ان تعلیم کی قدر کررہا اورپھل رہا) کیوں کہ حامل وحی سےبڑھ کرقرآن کےمطلب کاعالم اورعارف دوسرا کون ہوسکتاہے؟اورنیز صحابہ کرام سےزیادہ مستند اورزیادہ خائف اورزیادہ تعلیم یافتہ عربی زبان کاسمجھنےوالا دوسرا کون ہوسکتا ہے؟ جنہوں نےمجرد خبر پر ہاتھ کےجام پھینک دیئے اور خم کےخم لڑھکادئیے اوردسرے وقت اپنے گھر کودولت سےخالی کردیا اللہ اوراس کےرسول کے پیارے نام کےعوض اسے چھوڑدیا غرض اسلام کےلئے عزت جان مال اولاد کسی کوفدا کرنے میں کبھی دریغ نہیں کیا۔
ہمارے علمائ کافرض ہےکہ لوگوں کےسامنے اسلام کی تعلیم کی خوبیاں اوراس کسی سیاست کے اوراق پیش کریں جس سے لوگوں کے کان اورآنکھیں آشناہوں ہماری غلط تاویل کی اصل وجہ یہی ہےکہ سچے علماء جن میں خشیۃ اللہ کامضمون ہےاس طرف سے بے پرواہ ہیں ہم اپنی قومی ومذہبی روایات سےبالکل ناواقف ہیں نہ ایسی تفسیر سےجومادی سوشل اورسیاسی امور کی تعلیم کوواضح کرے بخلاف اس کےیورپ میں ادنی سےادنی شخص کی اس تفصیل سےحالات لکھی گئی ہے جس سے وہ ہرطرح کے سبق پاتے رہتے ہیں قومیت زندہ رہتی ہے اور ان کی ہمت بڑھتی رہتی ہے ہمارے تنزل کاایک سبب یہ ہے کہ ہمارے قومی کارناموں کاکوئ عمدہ انتظام سلسلہ نہیں رہا ہے۔مکتوب
ج:یہ خیال کہ جب تک بیوی کانصف مہر ادانہ کرلیا جائےاوس سےصحبت کرنا شرعا ناجائز ہے اوربغیر نصف مہر اداکیے صحبت کرنے والاگنہگار ہے بالکل غلط اورباطل ہے۔شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔
ہاں اگربوقت نکاع عورت نےیہ شرط کر لی ہوکہ آدھا مہر فورادینا ہوگا اور شوہر نےاس شرط کومنظور کرلیا ہوتو وہ آدھا مہر ادا کرنے سے اوراوس کےوصول ہونے سےپہلے شوہر صحبت کرنے کاموقع اپنے سےانکار کرسکتی ہے۔لیکن اگر شوہر ادا کیے بغیر وطی کرلے تو یہ وطی کرنا ناجائز نہیں ہوگا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب