سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(94) زوجہ کی موجودگی میں زوجہ کی علاقی بہن کی نواسی سے نکاح کرنا

  • 17420
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 951

سوال

(94) زوجہ کی موجودگی میں زوجہ کی علاقی بہن کی نواسی سے نکاح کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زوجہ کی موجودگی میں زوجہ کی علاتی بہن کی نواسی (بنت البنت) کونکاح کرنا اورایسی دوعورت کاایک مرد کے نکاح میں جمع ہوناشرعا صحیح ودرست ہے یانہیں؟

بعض لوگ کہتے ہیں کہ:قرآن شریف کےاندر جن چودہ عورتوں کونکاح کرنےکی حرمت مذکور ہےچونکہ یہ عورت زوجہ کی علاتی بہن  کی نواسی ان میں سے نہیں ہےاس لئے زوجہ کےموجود ہونےکے باوجود اس کی علاتی بہن کی نواسی کونکاح کرنا حرام نہیں ہے بلکہ صحیح وجائز ہے۔آیا ان کایہ قول صحیح ہےیا نہیں؟ اگر صحیح نہ ہو تو وہ لوگ من اعتقد الحرام الحلال لايكفر کے تحت میں داخل ہوں گے یا نہیں اس صورت موقومہ بالا میں قول فیصل اورتحقیقی مسئلہ کیا ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسی دوعورتوں کونکاح میں جمع کرنا حرام اورممنوع ہے ۔آں حضرت ﷺفرماتے ہیں:لايجمع بين المرأة وعمتها وبين المرأة وخالتها متفق عليه وفى رواية لابى داود: لاتنكح المراة الى عمتها ولاالعمة على بنت اخيها والاالمرأة على خالتها والا الخالة على بنت  أختها لاتنكح الكبرى على الصغرى والاالصغرى على الكبرى-

قال النووى فى شرح مسلم: هَذَا دَلِيلٌ لِمَذَاهِبِ الْعُلَمَاءِ كَافَّةً أَنَّهُ يَحْرُمُ الْجَمْعُ بَيْنَ الْمَرْأَةِ وَعَمَّتِهَا وَبَيْنَهَا وَبَيْنَ خَالَتِهَا سَوَاءٌ كَانَتْ عَمَّةً وَخَالَةً حَقِيقَةً وَهِيَ أُخْتُ الْأَبِ وَأُخْتُ الْأُمِّ أَوْ مَجَازِيَّةً وَهِيَ أُخْتُ أَبِي الْأَبِ وَأَبِي الْجَدِّ وَإِنْ عَلَا أَوْ أُخْتُ أُمِّ الْأُمِّ وَأُمُّ الْجَدَّةِ مِنْ جِهَتَيِ الْأُمِّ وَالْأَبِ وَإِنْ عَلَتْ فَكُلُّهُنَّ بِإِجْمَاعِ الْعُلَمَاءِ يَحْرُمُ الْجَمْعُ بَيْنَهُمَا وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنَ الْخَوَارِجِ وَالشِّيعَةِ يَجُوزُ وَاحْتَجُّوا.قَالَ ابْنُ الْمُنْذِرِ: أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَى الْقَوْلِ بِهِ وَلَيْسَ فِيهِ - بِحَمْدِ اللَّهِ - اخْتِلَافٌ، إلَّا أَنَّ بَعْضَ أَهْلِ الْبِدَعِ مِمَّنْ لَا تُعَدُّ مُخَالَفَتُهُ خِلَافًا، وَهُمْ الرَّافِضَةُ وَالْخَوَارِجُ، لَمْ يُحَرِّمُوا ذَلِكَ، وَلَمْ يَقُولُوا بِالسُّنَّةِ الثَّابِتَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ(المغنى لابن قدامة 522/9)

 وكذا نقل الاجماع  ابن عبدالبر وابن حزم والقرطبى  والترمذى لكن استثنى  ابن حزم عثمان  البستى وهوأحدالفقهاء القدماء من أهل البصرة وقال  الاستاذ ابو منصور:ثُمَّ لَا فَرْقَ بَيْنَ الْخَالَةِ وَالْعَمَّةِ، حَقِيقَةً أَوْ مَجَازًا، كَعَمَّاتِ آبَائِهَا وَخَالَاتِهِمْ، وَعَمَّاتِ أُمَّهَاتِهَا وَخَالَاتِهِنَّ، وَإِنْ عَلَتْ دَرَجَتُهُنَّ، مِنْ نَسَبٍ كَانَ ذَلِكَ أَوْ مِنْ رَضَاعٍ(المغنى:523/9)

لَا يُعْتَبَرُ فِي الْإِجْمَاعِ وِفَاقُ الْقَدَرِيَّةِ1، وَالْخَوَارِجِ2، والرافضة وَهَكَذَا رَوَاهُ أَشْهَبُ1 عَنْ مَالِكٍ، وَرَوَاهُ الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ2 عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، وَرَوَاهُ أَبُو سُلَيْمَانَ الْجَوْزَجَانِيُّ3 عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ4.وَحَكَاهُ أَبُو ثَوْرٍ5 عَنْ أَئِمَّةِ الْحَدِيثِ(ارشاد الفحول:ص80)

جس طرح قرآن كے حلال کوحلال جاننا اوراس کےحرام کوحرام یقین کرناضروری ہے اسی طرح حدیث صحیح کےحلال کوحلال  اور اس کےحرام کوحرام یقین کرناضروری ہےکیوں کہ قرآن وحدیث صحیح اور اجماع کامخالف ہے اورخوارج کی طرح اہل زیغ وہو اوبدع سےہے اورجوحکم خوارج وروافض کاہے وہی اس شخص کابھی ہے۔ومن المعلوم أن الأئمة قداختلفو فى تكفير الخوارج والروافض واتفقوا على تفسقهم وتضليلهم وتبديعهم وذهب الاكثرون الى عدم تكفير الخوارج واختاروا التفصيل فى الروافض

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب النکاح

صفحہ نمبر 213

محدث فتویٰ

تبصرے