السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیافرماتے ہیں علماء دین ازروئے شرع شریف کہ زید صحیح الاعتقاد اہل حدیث متبع سنت ہے۔زید کی لڑکی عمر11سالہ نابالغہ صوم وصلوۃ کی پابند مذھبا اہل متبع سنت ہے۔زید کی لڑکی عمر11سالہ نابالغہ صوم وصلوۃ کی مذہبا اہل حدیث نماز سنت کےمطابق ادا کرتی ہے۔قرآن شریف وچند اردو کی اسلامی کتابیں پڑھ چکی ہے ان شاء اللہ قریب بلوغ تک حاصل کر لےگی۔مذکورلڑکی کےلئے زید کاحقیقی چچا اپنے لڑکے کے لئے خطبہ کرتا ہے۔
اب عرض یہ ہے کہ زید کاچاچا کہلانے کو تو اہل حدیث ہےلیکن نماز میں آمین رفع الیدین کرنے کاعادی نہیں۔اپنی دونوں بیٹیوں کی شادی حنفی مذہب کے اشخاص سےکردی ہے زوررنج وفحش گوہے لڑکا جس کے لئے خطبہ کرتاہے۔10/8سال سےبالغ ہےصلوۃ کاپابند نہیں اور نہ ہی جماعت اہل حدیث سےموانست رکھتا ہے جب کبھی نماز پڑھتا ہےتو آمین رفع الیدین وغیرہ سنت کےمطابق پوری نہیں کرتا سادہ قرآن شریف بھی نہیں پڑھا ہوا ہے۔داڑھی بالکل خشخاص قینچی سےکتراکررکھتا ہے۔بال بچوں والی ہمشیرگان پر غصہ کےوقت جوتااتارلیتا ہے اورمارپیٹ بھی کرلیتا ہےممنوعہ مجالس عرس میلہ میں بھی شرکت کرلیتا ہے۔
کیا زید ایسے شخص سے جوکہ قریبی رشتہ دار ہے اس کے سوا اور کوئی رشتہ دار نہیں اپنی لڑکی مذکورہ بالا کارشتہ کردے یاغیر رشتہ میں اہل حدیث متبع سنت کردے اگر رشتہ میں فتوی کاہے تو اس آیا ت قرآن کاکیامفہوم ہے؟ جس میں صلہ رحمی کرنے کاحکم اورقطع رحمی کی ممانعت ہے؟ مفصل بیان قرآن شریف وحدیث سےفرمایا جائے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت مسئولہ میں زید اپنی لڑکی کانکاح اپنےچچا کے لڑکے کےبجائے کسی پابند شریعت متدین متبع سنت شخص سےکرے اگرچہ وہ زید کارشتہ دار نہ ہو۔باپ بلکہ ہرولی پر فرض ہےکہ اپنی لڑکی اورموالیہ کےنکاح کےوقت اس کےفائدہ اورنفع کاخیال رکھنے کےساتھ ہونے والے شوہر کےاخلاق وعادات اورتدین وتقوی کاپورا لحاظ رکھے یعنی:اپنی مولیہ کےلئے ایسا شوہر تلاش کرے جو پابند شریعت ہو اورجس کےساتھ لڑکی کی زندگی اچھی طرح بسر ہوسکے ۔
زید کا اپنے چچا کےبیٹے کی بجائے غیر رشتہ دار میں کسی متبع سنت متدین شخص سے نکاح کرناصلہ رحمی والی آیات واحادیث کے خلاف نہیں ہوگاصلہ رحمی کےحکم اور قطع رحم کی ممانعت کایہ مطلب نہیں ہے کہ اپنے نفع اورنقصان سےآنکھیں بند کرلی جائیں اوراپنی یااپنے بچوں کی زندگی کوخطرہ میں ڈالے اورتباہ کرنےکی صورت اختیار کی جائے۔مکتوب
٭اسباب (جواز نکاح صغائر) میں امام بخاری کامابہ الاستدلال وہ چیزیں ہیں:
(1)آیہ کریمہ:﴿ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ﴾(الطلاق:4)
(2)حدیث حضرت صدیقہ:أن النبى صلى الله عليه وسلم تزجها وهى بنت ست سنين ان دونوں چیزوں سے استدلال اس باب میں صحیح نہیں ہے۔اول :یعنی استدلال بایۃ کریمہ اس لئے صحیح نہیں ہے کہ یہ استدلال بوجوہ مخدوش ہے:
وجہ اول: اس آیت سےاستدلال اس باب پر موقوف ہےکہ﴿ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ﴾(الطلاق:4)میں صغائر ہی داخل ہیں اوریہ بات چیز منع نہیں ہے کیوں نہیں جائز ہےکہ اس میں صرف وہی عورتیں داخل ہو جوحیض کاسن رکھتی ہوں اورکسی بیماری کی وجہ سے حیض ان کو نہ آتا ہو۔اس اجمال کی تفصیل یہ ہےکہ عورتوں کی دوقسمیں ہیں:
(1)حائض۔(2)غیر حائض۔
پھر غیر حائض کی بھی دوقسمیں ہیں:
(1)آئسہ (2)غیر آئسہ۔
پھر غیر آئسہ کی بھی دوقسمیں ہیں
(1)کبیرہ مریضہ بمرض مذکور۔(2)صغیرہ۔
الحاصل عورتون کی پانچ قسمیں ہیں:
(1)حائض(2)حامل(3)آئسہ(4)کبیرہ مریضہ بمرض مذکور(5)صغیرہ۔
اللہ تعالی ٰ نے ان پانچوں میں تین کی عدت آیتوں میں بیان فرمادیں:
چنانچہ نمبر(1)کی عدت آیۃ کریمہ: ﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ﴾(البقرہ:228) میں بیان فرمادیں
(2)عدیت کی آیت کریمہ:﴿ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ﴾(الطلاق:4)
(3)نمبر تین کی عدت: ﴿وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ﴾ (الطلاق:4) میں بیان فرمادی۔ رہ گئی نمبر(4)ونمبر(5) اور رہ گئی ایک آیۃ ﴿وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ﴾(الطلاق:4)
اب یہاں غور طلب صرف یہ امر ہےکہ آیۃ میں ان دونوں کی عدت کا بیان ہےیاصرف نمبر(4) کی عدت کابیان ہےیاصرف نمبر(5) کی عدت کابیان ۔اگر یہ دو امر ثابت ہوجائیں:
(1)یہ کہ طلاق کی عدت اسی عورت پر واجب ہےجونکاح کےبعد مدخولہ بھی ہوچکی ہو اورجو نکاح کے بعد مدخولہ نہ ہوچکی ہو اس پر طلاق کی عدت واجب نہیں ۔
(2)یہ کہ صغیرہ شرعا مدخولہ نہیں تو یہ امر بخوبی ثابت ہوجائے گا کہ آیۃ کریمہ﴿ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ﴾(الطلاق:4)میں نہ ان دونوں نمبروں (4/5)کی عدت بیان ہے ورنہ صرف نمبر(5) کی عدت کابیان بلکہ اس میں صرف نمبر(4) کی عدت کابیان ہے۔
واضح ہوکہ یہ دونوں امرثابت ہیں۔ان کاثبوت آیہ کریمہ ہے﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا﴾سورة الاحزاب:49)اس آیۃ سےثابت ہےکہ طلاق کی عدت اس عورت پر واجب ہےجونکاح کےبعدمدخولہ ہوچکی ہو اور جونکاح کےبعد مدخولہ نہ ہوچکی ہو اس پر طلاق کی عدت واجب نہیں۔اور دوم ثبوت یہ آیۃ کریمہ ہے﴿نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ﴾(سورة البقرہ:223)أى فأتوهن من حيث انهن حرثكم اور يہ ظاہر ہے کہ صغیرہ من حیث أنها صغيرة حرث ہونے کی صالح نہیں ہے پس اس کاشرعا مدخلوہ ہونا بھی مثقیٰ ہے یعنی :وہ شرعا مدخولہ نہیں ہے۔واضح ہوکہ یہ فعل (مجامعت)درحقیقت بقا ونسل کےلئے ہے اور اس خاص فعل کےلئے حکمت بالغہ سےکام لیاگیا ہے کہ انسان کیا حیوانات بھی اس جوش اورمیلان طبعی کےساتھ اس کام میں مصروف ہوتے ہیں جس کامشاہدہ شاہدعدل ہے۔اورصغیرہ ان دونوں باتوں سےمحروم ہےے اوریہ یک مسئلہ ہے جس میں اطباءیونائی وغیرہ یونانی سب ہم زبان ہیں کسی کوبھی اس میں اختلاف نہیں ہے یہاں تک کہ قانون شاہی جورائج الوقت ہے اس میں صغیرہ کےساتھ ہم بستر ہونا بنظر اوس کےمضار کےقطعا ممنوع کردیا گیاہے۔
یہاں سے بخوبی واضح ہوگیا کہ آیۃ کریمہ واللائی لم یحضن میں نمبر(5) یعنی :صغیرہ داخل نہیں ہے۔ یعنی :اس آیت میں صغیرہ کی عدت کابیان نہیں ہے نہ انفراد اونہ اشترکا۔ بلکہ اس آیت میں صرف نمبر(4) کی عدت کابیانن ہےے یعنی:اس آیت میں وہی عورتیں مراد ہیں جوبانجھ اور سن ایاس کوجس میں حیض سےناامیدی ہوجاتی ہے نہیں پہنچی ہےبلکہ ابھی ایسا سن رکھتی ہیں جس میں حیض کےآنے کی امید ہے لیکن جو اسباب کہ حیض کےبند ہوجانے کی ہیں جن کی تفصیل کتب طبیہ میں مذکور ہے۔(جیسے قلت خون یا انسداد افواہ عروق رحم بسبب حرارت باترودت یایبوست یابسب فربھی یابہ سبب انحراف رحم یاغیر ذلک) انہیں اسباب میں سےکسی سبب سےاون کاحیض بند ہوگیا ہے پس اس قسم کی عورتیں آیۃ کریمہ مذکرہ کےتحت میں داخل ہیں نہ صغیرہ ۔اورجب صغیرہ آیۃ کریمہ مذکورہ کےتحت میں داخل ہی نہیں تو اس آیۃ سےاستنباط جواز نکاح صغائر کیوں کرصحیح ہوسکتا ہے؟فضلا عن أن يكون الاستنباط حسنا
وجہ دوم: آیۃ کریمہ ﴿وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ﴾(الطلاق:4)کی تقدیر عبارت بنظر اس کےسیاق(واللائی یئس من المحیض من نسائکم )کے یہ ہے: وَاللَّائِي لَمْ من نسائکم
پس استدلال اس آیت سے اس بات پر موقوف ہے کہ صغائر بھی لسان عرب میں نساء ہوں لیکن صغائر لسان عرب میں نساء نہیں ہیں
وجہ سوم:﴿ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ﴾(الطلاق:4)صفت ہے اس کے لئے کوئی موصوف چاہئے اورموصوف بجز لفظ المنکوحات المطلقات کے اور کیا ہوسکتا ہے تو تقدیر عبارت یہ ہوئی:المنكوحات المطلقات اللائى لم يحضن پس استدلال اس آیت سے اس بات پر موقوف ہےکہ اولا صحت نکاح صغائر اسی آیت سےثابت کیاجائے تویہ دور صریح ہوگی وہو کماتری
ثانی:یعنی استدلال بحدیث صدیقہ صدیقہ اس لئے صحیح نہیں ہے کہ یہ استدلال بھی بوجوہ مخدوش ہے:
وجہ اول:حافظ ابن حجر نےفتح الباری27/9میں ا ابن بطال کایہ قول نقل کرکے اس کے دوجواب دیتے ہیں :پہلاجواب یہ دیا ہے: كَأَنَّهُ أَخَذَ ذَلِكَ مِنْ عَدَمِ ذِكْرِهِ وَلَيْسَ بِوَاضِحِ الدَّلَالَةِ بَلْ يَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ ذَلِكَ قَبْلَ وُرُودِ الْأَمْرِ بِاسْتِئْذَانِ الْبِكْرِ وَهُوَ الظَّاهِرُ فَإِنَّ الْقِصَّةَ وَقَعَتْ بِمَكَّةَ قَبْلَ الْهِجْرَةِ
وجہ دوم:حافظ ابن حجر نےفتح الباری97/9میں ابن بطال کےقول مذکور کادوسرا جواب یہ دیا ہے:حكى عن ابن حزم عن ابن شبرمة أنه زعم أن تزوج النبى صلى الله عليه وسلم عائشة وهى بنت ست سنين كام من خصائصه
وجه سوم:حكى العلامة الزيلعى فى نصب الراية فى تخريج أحاديث الهداية عن النووى:أن االصحيح عند الأصولين تقديم القول إذا عارضة الفعل لأن القول يتعدى الى الغير والفعل قديقتصر عليه
اب رہا مہلب کاقول:اجمعو أنه يجوز للأب تزويج ابنته الصغيره ولوكانت لايوطا مثلها الخ اس کاجواب یہ ہے کہ یہ مسئلہ اجماعی نہیں ہے بلکہ اختلافی ہے۔ چنانچہ حافظ نے فتح الباری میں مہلب کےاس قول کونقل فرما کر اس مسئلہ میں اختلاف ثابت کرکے اس اجماعی ہوناباطل کردیا ہےچنانچہ فرماتےہیں: إِلَّا أَنَّ الطَّحَاوِيّ حكى عَن بن شبْرمَة مَنعه فِيمَن لَا تُوطأ وَحكى بن حزم عَن بن شُبْرُمَةَ مُطْلَقًا أَنَّ الْأَبَ لَا يُزَوِّجُ بِنْتَهُ الْبِكْرَ الصَّغِيرَةَ حَتَّى تَبْلُغَ وَتَأْذَنَ(فتح الباری97/9)اور یہ کفایہ باب الاولیاء والاکفاء میں ہے:قال ابن شبرمه وابوبكر : أنه لايزوج الصغير والصغيرة أحد حتى يبلغا الخ اور یہی فتح الباری میں ہے: وَقَدِ احْتَجَّ بَعْضُ الشَّافِعِيَّةِ بِحَدِيثِ لَا تُنْكَحُ الْيَتِيمَةُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ قَالَ فَإِنْ قِيلَ الصَّغِيرَةُ لَا تُسْتَأْمَرُ قُلْنَا فِيهِ إِشَارَةٌ إِلَى تَأْخِيرِ تَزْوِيجِهَا حَتَّى تبلغ فَتَصِير أَهلا للاستثمار فَإِنْ قِيلَ لَا تَكُونُ بَعْدَ الْبُلُوغِ يَتِيمَةً قُلْنَا التَّقْدِيرُ لَا تُنْكَحُ الْيَتِيمَةُ حَتَّى تَبْلُغَ فَتُسْتَأْمَرَ جَمْعًا بَيْنَ الْأَدِلَّةِ الخ اور ملاعلی قاری مرقاۃ شرح مشکوۃ میں فرماتےہیں:ثم هل قبل البلوغ لامعنى لاذنها ولا لابائها فكأنه صلى الله عليه وسلم شرط بلوغها فمعناه لاتنكح حتى تبلغ فتستامر الخ
الحاصل یہ مسئلہ اختلافی ہے نہ اجماعی۔اس لئے کہ اجماع میں کل کا اتفاق شرط ہے کہ اگر ایک بھی مخالف ہوگا اجماع منعقد نہ ہوگا اور وہ مسئلہ اختلافی ہی رہے گا منار میں ہے:والشرط اجتماع الكل وخلاف الواحد مانع كخلاف الاكثر الخ اور تنقیح میں ہےوعند االبعض لايسترط اتفاق الكل بل الأكثر كاف وعند نا يشترط لأن الحجة اجماع الامة فمابقى أحد من الامة لايكون اجماعا وربما كان اختلف الصحابة والمخالف واحد بمقابلة الجمع الكثير الخ اورحدیث مسلم :يارسول الله انت أبر الناس وأوصل الناس وقدبلغن النكاح الحديث اورحدیث صحیحین لاتنکح الأيم حتى تستامر ولاتنكح البكر حتى تستاذن سے حکم عام لیا گیا ہے اور اس عام حکم کے لینے میں قیاس کوکوئی دخل نہیں دیا گیا۔واللہ اعلم
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب